اسلام کا نظام سیاست ، اقبال کی نظر میں
علامہ اقبالؒ نے بہ حیثیت صدر آل انڈیا مسلم لیگ 1930ء میں ایک تاریخی خطبہ دیا جو '' خطبہ الٰہ آباد‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ۔علامہ صاحب نے خطبے میں آزاد مملکت خداد پاکستان کی اہمیت اجاگر کی تھی، خطبے کو آزادی وطن میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔آئیے اس کے مندرجات پڑھتے ہیں۔
حضرات!
میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے ایک ایسے وقت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کا اعزاز بخشا ہے جبکہ مسلمانان ہندکی سیاسی زندگی نے ایک نہایت ہی نازک صورت حال اختیارکر لی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس عظیم الشان اجتماع میں ان افراد کی کمی نہیں جن کا تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اور جن کی معاملہ فہمی کا میں دل سے قائل ہوں۔ لہٰذا یہ بڑی جسارت ہو گی اگر میں ان مسائل میں جن کے فیصلے کے لئے آج ہم یہاں جمع ہوئے ہیں ان کی رہنمائی کا دعویٰ کروں۔میں نے اپنی زندگی کا زائد حصہ اسلام اور اسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعے میں صرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسلسل اور متواتر تعلق کی بدولت جو مجھے اسلامی تعلیمات کی روح سے رہا ہے، جیسا کہ مختلف زبانوں میں اس کا اظہار ہوا ہے۔ میں نے اس امر کے متعلق ایک خاص بصیرت پیدا کر لی ہے، کہ ایک عالم گیر حقیقت کے اعتبار سے اسلام کی حیثیت کیا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بحیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظام سیاست کے، اسلام ہی وہ بڑا جزو ترکیبی ہے جس سے مسلمانان ہند کی تاریخ حیات متاثر ہوئی۔اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دار و مدار ہے۔اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدریج متحد ہو کر ایک ممیز و معین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعورپیدا ہو جاتا ہے ،حقیقت میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ دنیابھر میں شائد ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں انسان کی وحدت خیز قوت کا اظہار ہوا ہے۔
آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے لئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے ، جو ہر امر سے واقف ہے کہ اسلام بھی ایک زندہ قوت ہے۔ جوہم انسانوں کو نسل و وطن کی قید سے آزاد کر سکتی ہے، جس کا یہ عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور سیاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے اور اسے کسی دوسری تقدیر کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ (یعنی انسان کا نصیب اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے بھرپور ہے ،مسلمان اپنی تقدیر یا حال کسی دوسرے یعنی انگریزوں یا ہندوئو ں کے سپرد نہیں کر سکتا)۔
یہ ایک زندہ اور عملی سوال ہے، جس سے بطور ایک دستورحیات اور نظام عمل کے اسالام کی ساری کائنات متاثر ہو سکتی ہے۔ صرف یہ ہی ایک مسئلہ ہے جس کے صحیح حل کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ ہم لوگ آگے چل کر ہندوئوں سے ایک ممتاز و ممیز تہذیب کے حاکم بن سکیں۔ اسلام پر ابتلا و آزمائش کا ایسا سخت وقت کبھی نہیں آیا جیسا آج درپیش ہے۔
یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ اب تک باہمی تعاون و اشتراک کی جس قدر کوششیں کی گئی ہیں وہ سب کی سب ناکام ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ناکامی کا باعث کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شائد ہمیں ایک دوسرے کی نیتوں پر اعتماد نہیں ہے۔ اور باطناََ ہم غلبہ واقتدار کے متمنی ہیں۔ اگرچہ ظاہری طور پر ہمیں ایک نہایت ہی روادارانہ حب اولوطنی کا دعویٰ ہے، لیکن دلوں میں ذات پات کی تنگی، اور خود آرائی کی ہوس بدستور کام کررہی ہے، ہم لوگ اس اصول کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہر جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تہذیب وتمدن کی نشو و نما میں آزادی کے ساتھ قدم بڑھائے، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے،مجھ یہ اعلان کرنے میں مطلق تامل نہیں ہے کہ اگر فرقہ وارانہ امو رکے اس مستقل اور پائیدار تصفیے کے اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہند کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اس ملک میں نشو ونماکا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ہندوستان میں ایک متوازن اور ہم آہنگ قوم کے نشو و نما کی طرح مختلف ملتوں کاوجود ناگزیر ہے۔ مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں کہ اسمیں ایک قوم آباد ہو، اور ایک ہی نسل سے تعلق ہو، اس کی زبان بھی ایک ہو، ہندوستان مختلف اقوام کا ملک ہے، جن کی زبان ،مذہب ، نسل سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔غور سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں کوئی ایک واحد قوم آبا دنہیں ہے۔ پس یہ کسی طرح سے بھی نامناسب نہیں ہے کہ مختلف قوموں کے وجود کا اعتراف کئے بغیر ہندوستا ن کے اندر ایک اسلامی ملک قائم کریں۔
میری خواہش ہے کہ پنجاب، سندھ، سرحد(خیبر پختونخوا ) اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود مختاری حاصل کرے یا اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ اس تجویز کو نہرو کمیٹی میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ لیکن اراکین نے اس وقت اسے روک دیا تھا۔ کل اگر اس قسم کی کوئی ریاست قائم ہوئی تو اس کا رقبہ اس قدر وسیع ہو گا کہ اس کا انتظام کرنا دشوار ہو جائیگا۔ بے شک اگر رقبے کا لحاظ کیا جائے تو اراکین مجلس کا خیال صحیح ہے۔ لیکن اگر آبادی پراک نظر کی جائے تو اس نئی ریاست کی آبادی ہندوستان کے مجوزہ صوبوں سے کم ہو گی۔ غالباََ انبالہ ڈویژن یا اس قسم کے دوسرے اضلاع کو الگ کرنے سے جن میں ہندوآبادی کا غلبہ ہے، اس کی وسعت اور انتظامی مشکلات میں اور بھی کمی ہو جائے گی۔ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے طور پرزندہ رہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں مرکزیت قائم کر سکے ۔