یوکرائن جنگ کے دہانے پر ،روس کے ساتھ گزشتہ لڑائی کے دوران 14 ہزار افراد مارے گئے تھے
روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ کا سا سماں ہے ۔
یوکرائن کے مشرقی علاقے ''ڈونباس‘‘ میں روسی حمایت یافتہ باغیوں اور یوکرینی فوج کے درمیان جھڑپیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ متنازعہ علاقے میں دو پڑوسیوں کے درمیان سالوں سے چلی آئی ہلکی پھلکی لڑائی ایک بار پھر شدت اختیار کر چکی ہے، برطانوی جریدے کا کہنا ہے کہ ''روسی افواج کی نقل و حمل جارحانہ ہونے کے باعث جنگ دنوں کی بات ہے، برطانوی فوج بھی ہائی الرٹ ہے‘‘۔گزشتہ کئی ماہ سے روس یوکرائن کے مشرقی علاقے کے ساتھ سرحد پر اپنی فوجی تعداد بڑھاتا جا رہا ہے۔ 2014 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس سرحد پر روس کے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب جا پہنچی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رس نے ''BUK‘‘ نامی میزائل بھی بھجوا دیئے ہیں یہ وہی میزائل ہیں جن کی مدد سے روس نے ملیشیاء کا بوئنگ طیاری مار گرایا تھا۔ امریکہ کئی ایسی ویڈیوز بھی دیکھنے کو ملیں جہاں ٹرینوں اور گاڑیوں میں بھاری اسلحہ بھر کر اس سرحد تک پہنچایا جا رہا ہے،بی ون لڑاکا طیاروں نے بھی روسی علاقے میں ،مگر یوکرائن کی سرحد کے قریب پروازیں شروع کر دی ہیں۔ اس کے بعد سے تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے ۔جلتی پر تیل کا کام یوکراینی صدر کے دونباس کے حالیہ دورے نے کیا۔ جہاں انھوں نے اعلان کیا کہ یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت جلد ہو جائے گی اور اس علاقے میں امن آجائے گا، کیونکہ اس جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ یہی کہ یوکرائن نیٹو کا حصہ بن جائے گا۔ جس پر روس کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا، روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ ذاخروف نے کہا کہ یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت علاقے میں امن نہیں بلکہ کشیدگی کو مزید ہوا دے گی۔ جو کہ ایک بڑی جنگ کی صورتحال اختیار کر سکتی ہے۔ اور ان حالات میں یوکرائن کی سالمیت کو شدید خطرہ ہوگا۔حالیہ ہفتوں میں اس متنازعہ علاقہ میں روس کے حمایت یافتہ باغیوں اور یوکرینی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں بھی تیز ہوئیں، گزشتہ چند دنوں میں 25 یوکرینی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جب اس فوجی نقل و حرکت پر جرمن چانسلر اینجلہ مرکل نے روسی صدر سے فون پر رابطہ کیا تو انہوںنے کہا کہ '' روس اپنے ملک میں اپنی فوج کو کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بھیجنے میں آزاد ہے ‘‘۔اینجلہ مرکل کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔
مغربی میڈیا نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ ''مغربی دنیا کی خالی خولی باتیں روس کو ڈرا نہیں سکتیں۔مغرب زیادہ سے زیادہ اقتصادی پابندیاں لگا سکتا ہے لیکن 2014ء میں لگنے والی پابندیوں کا تاحال روس پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا‘‘۔
روسی پریس سیکرٹری دیمتری پیسکوف نے روسیوں کی نسل کشی کے حوالے سے کہا کہ '' یہاں بوسنیا (خاص طور پر گائوںسرے برینکا)جیسی نسل کشی کا خدشہ ہے، اس صورت میں روسی مداخلت ناگزیر ہو جائے گی ‘‘ ۔روسی صدر پیوٹن کے مشیر دیمتری کا کہنا ہے کہ روس ہر صورت اپنے شہریوں کے دفاع کیلئے مداخلت کرتا رہے گا۔ ساتھ ہی انھوں نے خبردار بھی کیا ہے کہ کشیدگی میں اضافہ 'یوکرائن کے خاتمے‘‘ کا آغاز ہوگا اور گولی ٹانگ پر نہیں بلکہ سیدھا چہرے پر ماری جائے گی۔ روس نے پہلی بار تسلیم کر لیا کہ اس چھوٹے سے ایک گائوں میں 1995ء میں آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمان ذبح کر دیئے گئے تھے۔
بلوم برگ نے بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں کہا کہ ''روس شائد نئے امریکی صدر کے اعصاب ٹسٹ کرنا چاہتا ہے،یا پھر وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مستقبل میں روس یوکرائن کے بارے میں مزید سخت موقف اختیار کرنے والاہے‘‘۔ ادھر سینئر یوکراینی فوجی افسر کا بھی کہنا ہے کہ '' روس فوج کی نقل و حمل توقع سے کہیں زیادہ ہے اور اس کا مقصد بظاہر جنگ کے سوا کچھ نہیں‘‘۔انہوںنے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر روسی صدر نے حملے کاحکم جاری کیا تو یہ مئی کے وسط میں ہو سکتا ہے۔فی الحال روسی صدر نے یوکرائن کے مشرقی ساحل پربحریہ کو تیار کو ریڈ الرٹ کر دیا ہے۔ فوجی نقل حرکت سے یوکرائن کا دارالحکومت کیف بھی ان کے نشانے پر آ گیا ہے۔یوکرائن اسلئے بھی خوفزدہ ہے کہ روس نے2008ء میں جارجیا پر بھی اسی انداز میں دھاوا بول دیا تھا۔جریدے ''فارن پالیسی‘‘ نے لکھا ہے کہ عالمی تنازعات پر نظر رکھنے والی ٹیم کے مطابق '' روس نے ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ یوکرائن کی سرحد سے 155 میل اپنی سرحد پر پہنچا دیا ہے، فوج کا ایک حصہ روسی شہر ''وورونخیف (Voronezh) میں مقیم ہے۔لہٰذا فوری حملے اور قبضے کا اندیشہ نہیں ہے۔مغربی ممالک کے پاس ابھی وقت ہے۔
اس تنازعے کی تاریخ کیا ہے؟
یوکرائن اور روس کے درمیان یہ تنازعہ مارچ 2014 میں شدت اختیار کر گیا جب یوکرائن کے خطے کریمیا میں روس نے اپنے حمایت یافتہ باغیوں کی مدد سے قبضہ کر لیا تھا ۔ اس سات سالہ کشیدگی کے دوران 13، 14 ہزار افراد مارے گئے تھے۔ یوکرائن کو تب ہی سے خوف لاحق ہے کہ کہیں کریمیا جیسا سانحہ پھر رونما نہ ہو جائے اور مشرقی علاقہ بھی ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے۔اس واقعے کے بعد یورپی یونین اور امریکہ نے روس پر پابندیاں بھی عائد کر دیں۔ بعدازاں یوکرائن میں صدر زیلینسکی نے اقتدار میں آتے ہی قیام امن کیلئے کوششیں تیز کیں، اور 2020 میں دونوں ممالک کے درمیان امن اور جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط بھی ہوئے ، لیکن تب ہی سے دونوں ممالک ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہیں ۔یوکرائن، مغربی ممالک اور نیٹو کا ماننا ہے کہ روس ان باغیوں کی فوجی مدد کر رہا ہے ، جبکہ روس کا کہنا ہے کہ ادھر اگر کوئی فوجی ہیں بھی تو وہ رضاکار ہیں۔
کشیدگی اچانک کیوں بڑھ گئی ؟
روس کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ یوکراینی صدر زیلنسکی نے سخت پالیسی اختیار کرتے ہوئے روسی کی حمایت سے چلنے والے تین ٹی وی سٹیشنوں کی بندش کا حکم دے دیا۔ انہوںنے روس نواز رہنماء میڈووچک (Medvedchuk) کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دے دیا ۔ روس میں زیلنسکی کو جارجیا کے سابق صدر میخائل ساکاشولی (Saakashvili) جیسا لیڈر سمجھا جا رہا ہے، جن کے دور میں روس نے جارجیا پر حملہ کر دیا تھا۔
2015ء میں ختم ہونے والی جنگ سات سال لڑی گئی تھی۔جس سے یوکرائن کی معیشت انتہائی خراب ہو گئی تھی۔
دنیا کیا کر رہی ہے؟
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین پساکی کا کہنا تھا 2014 میں اس تنازع کے آغاز کے بعد سے روسی سرحد پر فی الوقت فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے، اور امریکہ اس صورتحال کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے،انھوں نے یہ انتباہ بھی جاری کیا کہ یوکرائن میں روسی فوجیوں کی موجودگی کے پیش نظر امریکہ اپنے جنگی جہاز یوکرائن کی مدد کیلئے بھیج سکتا ہے۔ اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ترکی کے وزیر خارجہ نے بتایا ہے کہ ' ' امریکہ نے اپنے دو جہاز (تباہ کن آبدوزیں )ممکنہ میدان جنگ کی جانب روانہ کر دی ہیں۔ اس ضمن میں ترکی کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا ہے ۔ 1936میں ہونے والے ایک معاہدے کی رو سے امریکہ ترکی کی سمندری حدود سے گزرنے کے لئے اسے 15دن کا پیشگی نوٹس دینے کا پابند ہے، جو دے دیا گیا ہے۔اس نقل و حرکت کو دیکھتے ہوئے روس نے کہا ہے کہ '' اگر امریکی فوج نے کسی قسم کی غیر دوستانہ پیش قدمی کی تو روس ا س کاجواب دے گا‘‘۔امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ''وہ تمام روسی کارروائی پر جاسوسی نظام کی مدد سے نظر رکھے ہوئے ہے‘‘۔ امریکہ نے کہا ہے کہ ''وہ اس علاقے میں میزائل شکن نظام‘‘ پہنچا دے گا تاکہ یوکرائن پر حملے کو ناکام بنایا جا سکے‘‘۔جو بائیڈن انتظامیہ نے دنیا بھر کے رہنمائوں سے رابطہ بھی قائم کر لیا ہے، جلد ہی کسی مشترکہ حکمت عملی کا اعلان بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے روس سے بھی پیش قدمی پر ''وضاحت ‘‘ مانگ لی ہے جس کا روس نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ برطانیہ کے فوجی کمانڈروں نے بھی فوج کو ہائی الرٹ کردیا ہے کہ کسی بھی لمحے جنگ چھڑ سکتی ہے ، اور روس بڑا حملہ کر سکتا ہے۔جس کیلئے تیار رہنا ہوگا۔
روس اور یوکرائن کی دفاعی صلاحیتیں ؟
مغربی میڈیا کے مطابق یوکرائن اپنے موجودہ دفاعی آلات کیساتھ روس سے کسی صورت جنگ نہیں لڑ سکتا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 1991 کے بعد سے یوکرائن نے اپنی فضائیہ میں کسی نئے جنگی طیارے کا اضافہ نہیں کیا، جس میں سرد جنگ کے زمانے کے ہی کل 125 جہاز موجود ہیں، اور ملک کا فقط 30کروڑ ڈالر کا دفاعی بجٹ ہے ۔ اس کے برعکس روس کے جدید جنگی ہتھیار چند ہی منٹوں میں یوکرائن کے جہازوں کا صفایا کر سکتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یوکرائن 'ڈرونز'کے ذریعے وہ روس کے ٹینکوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرائن کے پاس متبادل اور کوئی دفاعی ٹیکنالوجی نظر نہیں آتی۔غیر ملکی جریدے فوربس نے لکھا ہے کہ ''روس ڈرونز کو ناکام بنانے کے لئے ریڈیو لنکس کو جام کر سکتا ہے‘‘۔