طفیل ہوشیارپوری کی شاعری غزلوں اور نظموں کے علاوہ ان کے فلمی گیت بھی بے مثال ہیں
برصغیر پاک و ہند میں ایسے شاعروں کی کمی نہیں جنہوں نے نہ صرف خوبصورت غزلیں اور نظمیں تخلیق کیں بلکہ فلموں کیلئے بھی بے مثل گیت لکھے۔ اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں سے اکثر شعرا ء کو ان کے فلمی نغمات کی وجہ سے زیادہ شہرت ملی۔ بھارت کا ذکر کیا جائے تو ہمیں ساحر لدھیانوی‘ مجروح سلطانپوری‘ جانثار اختر اور کیفی اعظمی کی مثالیں ملتی ہیں۔ ان شعرا ء نے عمدہ غزلوں اور نظموں کے علاوہ بڑے باکمال نغمات تخلیق کیے جنہیں آج بھی سنا جائے تو زبان سے بے اختیار واہ نکلتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں قتیل شفائی‘ سیف الدین سیف‘ کلیم عثمانی‘ حبیب جالب اور منیر نیازی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ منیر نیازی نے سب سے کم فلمی گیت لکھے لیکن کیا خوب لکھے۔ جوش ملیح آبادی نے پہلے بھارت میں کچھ فلموں کے نغمات تحریر کئے۔ ایک نام کا اور اضافہ کر لیجئے اور وہ ہے طفیل ہوشیارپوری۔ انہوں نے بہت معیاری غزلیں اور نظمیں لکھیں اور ان کے شعری مجموعے بھی منظرعام پر آئے۔ جن میں ''سوچ مالا‘ میرے محبوب وطن‘ شعلہ جاں اور جام مہتاب‘‘ شامل ہیں۔ وہ کئی برس تک ایک ادبی جریدے کی ادارت بھی کرتے رہے۔ طفیل ہوشیارپوری نے اردو اور پنجابی فلموں کیلئے جو گیت لکھے ان میں سے کئی ایسے گیت ہیں جنہوں نے لازوال شہرت حاصل کی۔
طفیل ہوشیار پوری کا اصل نام محمد طفیل تھا 14جولائی 1914ء کو ضلع ہوشیارپور (مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ ایک استاد کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ 1948 ء میں اردو اور پنجابی فلموں کے نغمات لکھنا شروع کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں شمی (1950ء)‘ ہرجائی (1952ء)‘ غلام (1953ء)‘ شہری بابو (1953ء)‘ قاتل (1955ء)‘ پتن (1955ء)‘ دلا بھٹی (1956ء)‘ لخت جگر (1956ء)‘ ماہی منڈا (1956)‘ قسمت (1956ء)‘ سرفروش(1956ء)‘ معصوم(1957ء)‘ انارکلی (1958ء)‘ مٹی دیاں مورتاں (1960ء)‘ شام ڈھلے (1960ء)‘ عجب خان (1961ء)‘ شہید (1962ء)‘ عذرا (1962ء) ‘ موسیقار (1962ء)‘ نائیلہ (1965ء) اور میری دھرتی میرا پیار (1970ء) شامل ہیں۔
فلمی گیت نگاری کے حوالے سے طفیل ہوشیارپوری کو سب سے پہلے پنجابی فلم ''شمی‘‘ سے شہرت ملی یہ فلم 1950 میں ریلیز ہوئی۔ یہ واحد فلم تھی جس کا نام فلم کی ہیروئن شمی کے نام پر رکھا گیا۔ اس فلم میں سنتوش کمار‘ ببو‘ ایم اسماعیل‘ اجمل اور غلام محمد نے اہم کردار ادا کیے ۔ شمی اداکارہ شمی کی پہلی فلم تھی فلم کی پروڈیوسر ملکہ پکھراج تھیں جبکہ ہدایتکار منشی دل تھے۔ موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی تھی۔ شمی کے گیت تنویر نقوی‘ بابا عالم سیاہ پوش‘ ساغر صدیقی اور اقبال سیف پوری نے لکھے۔ صرف ایک گیت طفیل ہوشیارپوری نے لکھا اور وہ سب پر بازی لے گئے۔ اس گیت نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔بھارت میں بھی اس گیت کی دھوم مچی اس کے بول تھے ''نی سوہے جوڑے والئے‘ ذرا اک واری آ جا‘ سانوں مکھڑا وکھا جا‘‘۔ عنایت حسین بھٹی نے اس گیت کو بڑی مہارت سے گایا۔1953میں ''شہری بابو‘‘ ریلیز ہوئی اس کے ہدایتکار نذیر،موسیقی رشید عطرے کی تھی۔ منور سلطانہ‘ زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی نے فلم کے نغمات گائے ۔ اس فلم میں سورن لتا (نذیر کی اہلیہ)‘ سنتوش کمار‘ نذر‘ ایم اسماعیل‘ علائو الدین اور عنایت حسین بھٹی نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ نغمہ نگاروں میں بابا عالم سیاہ پوش‘ طفیل ہوشیارپوری‘ حزیں قادری اور وارث لدھیانوی شامل تھے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ''شہری بابو‘‘ زبیدہ خانم کی بطور گلوکارہ پہلی فلم تھی۔ اس کے علاوہ وارث لدھیانوی نے بھی پہلی بار کسی فلم کے گیت لکھے۔ ویسے تو اس فلم کے سارے گیت ہی پسند کئے گئے لیکن طفیل ہوشیارپوری کا لکھا گیت بھی بہت مقبول ہوا۔ ''دل نئیں دنیا تیرے بنا‘‘ ۔اُس زمانے میں ایک فلم کے گیت کئی شعرا ء لکھتے تھے اور ہر ایک کے حصے میں ایک یا دو گیت ہی آتے تھے۔ طفیل صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں بہت اچھے موسیقار ملے۔
1953ء میں ان کی اردو فلم ''غلام‘‘ ہٹ ہوئی اس فلم کے ہدایتکار انور کمال پاشا تھے۔ صبیحہ خانم‘ سنتوش کمار‘ شمیم‘ شمی‘ آصف جاہ‘ ہمالیہ والا‘ راگنی‘ اجمل اور ایم اسماعیل نے خوبصورت اداکاری کی ۔ گلوکار فضل حسین کی یہ پہلی فلم تھی ،اس فلم کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتب کی تھی۔ ماسٹر غلام حیدر وہ نامور موسیقار تھے جنہوں نے بھارت میں اپنے نام کا ڈنکا بجایا تھا۔ یہ وہ موسیقار تھے جنہوں نے سب سے پہلے لتا منگیشکر کو پلے بیک گلوکارہ کے طور پر متعارف کرایا۔ ''غلام‘‘ میں ان کی موسیقی بہت پسند کی گئی۔ اس کے نغمات قتیل شفائی‘ سیف الدین سیف‘ ساغر صدیقی اورطفیل ہوشیارپوری نے لکھے۔ باقی گیتوں کی طرح طفیل صاحب کا گیت بھی بہت پسند کیا گیا جس کے بول تھے ''چھپ چھپ جوانی آئی اے‘‘ اسے پکھراج پپو نے گایا اوریہ صبیحہ خانم پر پکچرائز ہوا۔
1955 ء میں انور کمال پاشا کی مشہور زمانہ فلم'' قاتل‘‘ ریلیز ہوئی اس کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچادی۔ ماسٹر عنایت حسین نے کمال کی موسیقی ترتیب دی ''قاتل‘‘ مسرت نذیر‘ اسلم پرویز اور نیر سلطانہ اور دلجیت مرزاکی پہلی فلم تھی۔ کہانی انور کمال پاشا کے والد حکیم احمد شجاع نے لکھی ۔ نغمات قتیل شفائی‘ سیف الدین سیف اور طفیل ہوشیارپوری کے زورِ قلم کا نتیجہ تھے، سبھی گیتوں کو بے حد پذیرائی ملی۔ طفیل ہوشیارپوری نے ایک ہی گیت لکھا جس نے بہت دھوم مچائی، اس گیت کو کوثر پروین نے گایا اور یہ صبیحہ خانم پر عکس بند ہواگیت کے بول تھے ''اومینانجانے کیا ہو گیا‘ کہاں دل کھو گیا‘‘۔
1955 ء میں ہدایتکار لقمان کی سپرہٹ پنجابی فلم ''پتن‘‘ ریلیز ہوئی جس میں مسرت نذیر‘ سنتوش کمار‘ آشا پوسلے‘ نذر‘ شیخ اقبال‘ ایم اسماعیل اور علائوالدین نے کام کیا۔ یہ ایک رومانوی فلم تھی جس کی شاندار موسیقی بابا جی اے چشتی نے مرتب کی تھی۔ طفیل ہوشیارپوری‘ مشیر کاظمی‘ حزیں قادری‘ اسماعیل متوالا اور جی اے چشتی کے لکھے گیتوں کو زبیدہ خانم‘ کوثر پروین‘ زاہدہ پروین‘ عنایت حسین بھٹی اور علائوالدین نے گایا فلم کے 13میں سے 2 نغمات طفیل صاحب کے حصے میں آئے اور دونوں ہٹ ہو گئے۔ ایک گیت کے بول تھے ''میرے کنڈلاں والے وال وے‘ میری ہرنی ورگی چال وے‘‘ اور دوسرے گیت کے بول کچھ یوں تھے ''رنگ رنگیلی ڈولی میری‘ بابل اج نہ ٹور‘‘ دونوں گیتوں کو بالترتیب کوثر پروین اور زبیدہ خانم نے گایا۔
1956ء طفیل ہوشیارپوری کیلئے بڑا اہم سال ثابت ہوا۔اس سال ان کی کامیاب ترین فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ''دلابھٹی‘ ماہی منڈا‘ سرفروش اور چن ماہی‘‘ شامل ہیں۔ فلم ''دُلا بھٹی‘‘ کے ہدایتکار ایم ایس ڈار تھے اس فلم میں صبیحہ‘ سدھیر‘ علائوالدین‘ غلام محمد‘ ایم اسماعیل اور اجمل نے اہم کردار ادا کیے۔ فلمساز آغا جی اے گل نے اس فلم کی کمائی سے ایورنیو سٹوڈیو تعمیر کیا۔اس فلم کے 10گیت تھے جنہیں زبیدہ خانم‘ منورسلطانہ‘ عنایت حسین بھٹی اور اقبال بانو نے گایا۔ گیت نگاروں میں طفیل ہوشیارپوری‘ بابا عالم سیاہ پوش‘ جی اے چشتی اور ایف ڈی شرف شامل تھے۔ طفیل صاحب نے اس فلم کیلئے 6 گیت لکھے۔ سارے گیت ہی باکمال تھے لیکن منور سلطانہ کا گایایہ گیت پنجابی کے عظیم ترین گیتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس گیت کے بول تھے ''واسطہ ای رب دا تو جانویں وے کبوترا‘‘ اس گیت کی شہرت آج تک قائم ہے۔طفیل ہوشیارپوری نے 68فلموں کیلئے 224نغمات تخلیق کیے ان کے مقبول اردو اور پنجابی نغمات کی تعداد کافی زیادہ ہے انہوں نے ملی نغمات بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ انہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری 4جنوری 1993ء کو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ایک غزل گو‘ نظم گو اور نعت گو کے علاوہ طفیل ہوشیارپوری کو ایک شاندار نغمہ نگار کی حیثیت سے بھی یاد رکھا جائے گا۔