یادرفتگان، شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد، اردو ادب کی کثیر الجہات شخصیت

یادرفتگان، شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد، اردو ادب کی کثیر الجہات شخصیت

اسپیشل فیچر

تحریر : ساجد ندیم انصاری


بہت سی صفات جو انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی عطا کر دی گئیں، ان میں ایک نمایاں صفت زبان ہے۔ ان گنت مخلوقات کو الگ الگ زبانیں عطا کرنے والے نے انسان سے خصوصی محبت فرمائی اور اسے ایک سے زیادہ زبانیں بولنے اور سمجھنے کی طاقت سے نوازا۔ زبانوں کو ارتقا کے مراحل سے انتہا تک پہنچانے کے لیے شاعر اور ادیب پیدا کئے جاتے رہے۔ یہی سلسلہ چلتے چلتے جب اردو زبان تک پہنچا تو اس کے لئے عظیم مرقع نگار، فلالوجی کے ماہر، معروف اخبار نویس، جدید فارسی کے استاد کامل، ماہر تعلیم، نامور انشاء پرداز، جدید نظم کے بانی و مجدد شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کا انتخاب کیا گیا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مولانا محمد حسین آزاد، اردو کے پہلے شہید صحافی محمد باقر کے گھر 10جون 1830ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ والد کی شہرت اور وقار ''دہلی اردو اخبار‘‘ تھا۔ جس کا سفر 1836ء سے شروع ہو کر 1857ء میں اختتام پذیر ہوا۔ مولانا آزاد کو بچپن سے ہی ادبی ماحول میسر رہا اور ابراہیم ذوق کی شاگردی نصیب ہوئی۔ اس لیے آپ لفظ کی طاقت اور خوبصورتی سے مکمل طور پر واقف تھے جبکہ طبیعت میں نازک مزاجی اور حساس پن زیادہ تھا۔ ان دونوں خوبیوں کی بدولت آپ کا تخیلی دنیا آباد کر لینا فطری عمل تھا۔ اس تخیل کو نثر کی صورت عطا کرتے ہوئے پورے کا پورا منظر ہی کاغذ پر اتار لیتے تھے کہ آج بھی پڑھنے والے کو اپنے سامنے، وہ سب کچھ حقیقت نظر آتا ہے۔
ان کی نثر میں روانی سلاست اور فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے۔ مرقع نگاری کرتے ہوئے وہ تصوراتی تصویروں میں رنگ بھرنے کیلئے موقع محل کی مناسبت سے الفاظ و تراکیب کا خوبصورت استعمال کرتے ہیں۔مولانا نے ایسا طرز ادا تخلیق کیا جس کی تقلید نہیں کی جا سکتی۔ آپ ''جدید شاعرانہ نثر‘‘ کی پہلی اور اہم مثال ہیں۔ آپ الفاظ کے صوتی اثرات کو کام میں لاکر عبارت میں موسیقی اور ترنم پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد کی'' نیرنگ خیال‘‘ ہو یا پھر ''آب حیات ‘‘کسی کو بھی، کہیں سے بھی کھول کر پڑھنا شروع کردیں۔ آپ لفظوں کے حسن سے محظوظ ہوں گے۔ آپ کی نظریں لفظوں کو چومتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جائیں گی۔ دل کی دھڑکنیں تک مولانا کے اسلوب میں ڈھل جائیں گی۔ لفظوں کا طلسم آپ پر ایسی کیفیت طاری کر دے گا کہ آپ کو ہر لفظ میں اس کا منظر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ الفاظ اجسام کی صورت آپ کے روبرو مسکرا رہے ہوں گے اور پھر ایسی حالت سے باہر نکلنا، کتاب کو بند کرنا، دل و دماغ کے لیے محشر برپا کر دینے کے مترادف بن جائے گا۔
مولانا آزاد کی جملہ بندی، الفاظ کی نشست و برخاست قاری کو اپنے سحر میں قید کر لیتی ہے اور پھر آزاد کا قیدی کبھی آزاد نہیں ہوتا۔ بطورنمونہ ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
''سودا کے منہ سے رنگ رنگ کے پھول جھڑتے تھے۔ میر بد دماغی اور بے پروائی سے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے تھے، شعر پڑھتے اور منہ پھیر لیتے۔ درد کی آواز درد ناک دنیا کی بے بقائی سے جی بیزار کیے دیتی تھی۔ میر حسن سحر بیانی سے پرستان کی تصویر کھینچتے تھے۔ انشاء اللہ خان انشاء قدم قدم پر نیا بہروپ دکھاتے تھے۔ ناسخ کی گلکاری چشم آشنا معلوم ہوتی اور اکثر جگہ گلکاری اس کی عینک کی محتاج تھی۔ مگر آتش کی زبان اسے جلائے بغیر نہ چھوڑتی۔ مومن کم سخن تھے مگر جب کچھ کہتے تھے تو جرات کی طرف دیکھتے تھے‘‘
جس طرح موبائل اور دیگر ڈیوائسز ہوا میں موجود سگنل اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مولانا آزاد کا قلم بھی جیسے ہی کاغذ کو چھوتا تو گویا سرکٹ مکمل ہوگیا ہے۔ اور آسمانِ تخیل میں معلق الفاظ کرنٹ فلو کی طرح کاغذ پر بہہ نکلتے۔ یہی وجہ تھی کہ آزاد کی آزادانہ طبیعت نے قلم کو پوری آزادی سے برتا۔ وہ صرف ایک صنف تک محدود نہیں رہے بلکہ انشائیہ، تاریخ، جدید نظم، شاعرانہ نثر ، تمثیل نگاری، مکالمہ نگاری اور تذکرہ نگاری بھی کرتے چلے گئے۔ اردو ادب کو گراں قدر تصانیف سے نوازا جن میں آب حیات، درباراکبری، سخندان فارس، ڈرامہ اکبر، سیر ایران، نگارستان فارس، نیرنگ خیال، دیوان ذوق، مکاتیب آزاد، مقالات آزاد، نظم آزاد اور حمکدہ آزاد شامل ہیں۔آپ کا شمار اردو کے عناصرخمسہ میں ہوتا ہے۔ سرسید، نذیر احمد، شبلی اور حالی جیسے ہم عصر ہونے کے باوجود، اپنا الگ اور نمایاں مقام بنانا، ایک ایسی کرامت ہے جو مولانا آزاد کے علاوہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی۔ادب کی انھی خدمات کے عوض حکومت ہند نے 1887ء میں آپ کو شمس العلماء کا خطاب دیا۔
مولانا آزاد پہلے شخص ہیں جنہوں نے لسانی موضوع کو اٹھایا۔ ماہر تعلیم ہونے کے حوالے سے کئی ایک درسی اور تعلیمی کتب لکھیں۔ جن میں اردو کی پہلی کتاب، اردو کی دوسری کتاب، فارسی کی پہلی کتاب، فارسی کی دوسری کتاب، جامع القواعد، قصص ہند، نصیحت کا کرن پھول۔ حکایاتِ آزاد، شہزادہ ابراہیم کی کتاب، جانورستان اور لغت آزاد شامل ہیں۔ علمی اور ادبی حوالے سے آپ نے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔
مولانا آزاد شاعر، ادیب اورعظیم مفکر تھے۔ آپ نے اردو ادب کو تکلف، تصنع اور پرشکوہ الفاظ کی بھیڑ سے آزاد کرانے کے لیے بڑا کام کیا۔ آپ نے موضوع کی اہمیت اور متن کی سادگی و مانوسیت پر زور دیا۔ آپ ادب میں حقیقت نگاری، بے تکلفی اور سادگی کے قائل تھے۔
مولانا آزاد کا تخیل اس قدرحسین اور بلند تھا کہ الفاظ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔آزاد کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے تو طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔ لیکن جب ان کی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو احساس غم سے گزرنا پڑتا ہے۔ والد گرامی کو پھانسی دیے جانے کے صدمے کے علاوہ بھی آپ کو کئی دکھ جھیلنے پڑے۔ 14 بچوں میں سے یکے بعد دیگرے 13 بچے فوت ہوگئے۔ بیٹی جس سے سب سے زیادہ پیار تھا اس کی وفات سے آپ کو ناقابل برداشت غم پہنچا اور ذہنی طور پر شدید جھٹکا لگا۔ سفر ایران سے واپس آتے ہوئے آپ اونٹ سے سر کے بل نیچے گرے تو ایک پسلی ٹوٹ گئی اور ساتھ ذہنی عارضے کا بھی شکار ہوگئے۔ 1890ء سے 1910ء تک 20 سال اسی حالت جنون میں رہ کر 22 جنوری بمطابق 9 محرم الحرام کو اردو ادب کا یہ بے مثال ستارہ غروب ہوگیا۔
آپ کی وفات پر حالی نے اپنے پرملال دل سے آپ کو یوں خراج پیش کیا:
آزاد وہ دریائے سخن کا دْر یکتا
جس کی سخن آرائی پر اجماع تھا سب کا
ہر لفظ کو مانیں گے فصاحت کا نمونہ
جو اس کے قلم سے دمِ تحریر ہے ٹپکا
ملکوں میں پھرا مدتوں تحقیق کی خاطر
چھوڑا نہ دقیقہ بھی کوئی رنج و تعب کا
دیکھا نہ سنا ایسا کہیں اہل قلم میں
تصنیف کا، تدوین کا، تحقیق کالپکا
صحت میں علالت میں اقامت میں سفر میں
ہمت تھی بلا کی تو ارادہ تھا غصب کا
قرض اپنا ادا کرکے کئی سال سے مشتاق
بیٹھا تھا کہ آئے کہیں پیغام طلب کا
آخر شب عاشورا کو تھی جس کی تمنا
آ پہنچا نصیبوں سے بلاوا اس رب کا
تاریخ وفات اس کی جو پوچھے کوئی حالی
کہہ دو کہ "ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا"
انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالنے کی غرض سے منعقدہ اجلاس 19 اپریل 1874 ء میں آپ نے لیکچر میں کہا:
ـ''فصاحت اسے نہیں کہتے کہ مبالغے اور بلند پردازیوں کے بازوں سے اڑے۔ قافیوں کے پروں سے فر فر کرتے گئے۔ لفاظی اور شوکتِ الفاظ کے زور سے آسمان پر چڑھ گئے اور استعاروں کی تہ میں ڈوب کر غائب ہو گئے۔ فصاحت کے معنی یہ ہیں کہ خوشی یا غم، کسی شے پر رغبت یا اس سے نفرت، کسی شے سے خوف یا خطر، کسی پر قہر یا غضب، غرض جو خیال ہمارے دل میں ہو اس کے بیان سے وہی اثر، وہی جذبہ، وہی جوش سننے والوں کے دل پر چھا جائے جو اصل کے مشاہدہ سے ہوتا ہے۔‘‘
آپ نے انجمن پنجاب کے پہلے موضوعاتی مشاعرے میں اپنی مثنوی ''شب قدر‘‘ پڑھی۔ جو رات کی حالت پر لکھی گئی تھی۔ آپ نے انجمن پنجاب کے حوالے سے 4 نظمیں لکھیں اور 15 لیکچر دیئے ۔ انجمن پنجاب کے لیے کی جانے والی محنت کے تحت آپ کو ''جدید نظم‘‘ کا بانی کہا جاتا ہے۔ جبکہ مہدی افادی کے نزدیک آپ '' آقائے اردو ‘‘ ہیں۔
ساجد ندیم انصاری شعبہ تدریس سے وابستہ
ہیں، مختلف موضوعات پر ان کے مضامین
مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
گیدڑ سنگھی

گیدڑ سنگھی

آخر وہ کون سی 'گیدڑ سنگھی‘ تھی جس کی بدولت کوئٹہ جیت گیا؟یہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کی سرخی ہے جومارچ 2021ء کے پاکستان سپر لیگ کے ایک میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے اپنا پہلا میچ جیت لیا، اور وہ بھی ہدف کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے۔ اس واقعے کی حیرت کو دو آتشہ کرنے کے لیے ویب سائٹ نے ''گیدڑ سنگھی‘‘ کی اصطلاح کا تڑکا لگایا۔مگر ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ یہ گیدڑ سنگھی کس بلا کا نام ہے اور اس کی طلسماتی خوبیوں کا کیا راز ہے؟ کچھ ہے بھی یا نہیں؟ لوک داستانوں کے مطابق گیدڑ سنگھی یا ''جیکال ہارن‘‘ ایک پراسرار شے ہے اور جنوبی ایشیا میں لوگ اس کے بارے بہت سے ا نوکھے تصورات رکھتے ہیںمثلاً یہ سمجھا جاتا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک طلسماتی قوت ہے اور خوش قسمت لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایک خیال جو سائنسی اعتبار سے بے بنیاد ہے، یہ ہے کہ گیدڑ جب سو سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے سر پر سامنے کی طرف بالوں میں ایک دائرہ سا نمودار ہو جاتا ہے جسے گیدڑ سنگھی کا نام دیا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد سندور میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔مگرگیدڑ کی سو سالہ زندگی کے اس تصور ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گیدڑ سنگھی کی حقیقت کیا ہو گی، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا واضح ہونے کے باوجود ہمارے جیسے معاشروں میں اس قسم کے تصورات موجود رہتے ہیں اور لوگوں کے ذہن سے ان کو دور کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ سوچنا چاہیے کہ گیدڑ سنگھی میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ یہ ہمارے ہاں کا عام محاورہ بن چکا ہے جو طلسماتی اور کرشماتی قوت کے ہم معنی ہے؟آپ جب کسی کی خلاف توقع کامیابی کو دیکھتے ہیں تو فوراً آپ کے ذہن میں بھی اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ''اس کے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے؟‘‘ہمارا ماننا ہے کہ حقیقت میں گیدڑ سنگھی کی ایسی طلسمی صلاحیت کا کوئی وجود نہیں ، مگر سماجی تصور اور محاورے نے اسے باقی رکھا ہے اور لوگ واقعی گیدڑ سنگھی کو کوئی حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں اور جب کوئی کسی شے کو حقیقت سمجھ بیٹھے تو پھر اس کی تلاش بھی شروع ہو جاتی ہے ، یہیں سے شعبدے بازوں کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔چونکہ گیدڑ سنگھی کے ساتھ ایسا طلسماتی تصور باندھ دیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ یہ آ جائے اسے پھر کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں،جو چاہے گا بیٹھے بٹھائے حاصل کر لے گا؛چنانچہ کام چوراور راتوں رات چھپڑ پھاڑ دولت کے خواہاں گیدڑ سنگھی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ بس ایک بار کہیں سے گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ اس لالچ میں اکثر لوگ ایسے شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر انہیں بھاری قیمت پر ''گیدڑ سنگھی ‘‘فروخت کر دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ان شاطروں نے گیدڑ سنگھیاں بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔ کہیں گیدڑ کا سر کاٹ کر اس کے سر کی کچھ کھال اتار کر اس کے ماتھے کی ہڈی میں نقلی چھوٹے سینگ جیسا ابھار بنا کر کھال کو دوبارہ سر کے ساتھ چپکا دیا جاتا ہے اور اب اس کھال سے ابھرا ہوا نقلی سینگ بالکل اصلی معلوم ہوتا ہے اور لالچی نظروں کو گیڈر سنگھی دکھائی دیتا ہے۔ کہیں بالوں کے گچھے کی گیند سی بنا کر گیدڑ سنگھی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے۔اگر کسی نے اصلی گیدڑ سنگھی دیکھی ہو تو چلو اس سے مقابلہ کر کے اصل نقل کی پہچان کر لے، جب ایک تصور ہے ہی بے بنیاد اور کوئی اس کے اصل سے واقف نہیں تو پہچان کیسے ہو؟ اس لئے لالچی لوگ با آسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کبھی کبھار جوگی اور سپیروں نے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اُن کے پاس'' گیدڑ سنگھی‘‘ ہوتی تو وہ خود ہی خوشحال نہ ہوجاتے؟اس طرح عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں، کچھ لوگ اسے سرکے بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں، کچھ جوگی اس کو گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے جس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے گھنے بال اُگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے۔ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں یہ جعل سازی ہے۔مگرگیدڑ سنگھی اور اس جیسی دیگر طلسمی چیزوں کو عقلِ سلیم نہیں مانتی اور اسلام میں بھی ایسی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذاعلما ء کرام کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اختراعی عقائد رکھنا یعنی رزق میں برکت اور اپنی خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف العقیدہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ 

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس مائیکروسافٹ کمپنی کے چیئر مین اور دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ان کا پورا نام ولیم ہنری گیٹس ہے۔ بل گیٹس 1955ء میں واشنگٹن،امریکہ کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔اس دور میں آج کی طرح کمپیوٹر نہ اتنے ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی کمپیوٹروں کی دنیا۔ محض 13برس کی عمر میں وہ پروگرامنگ کا ہنر سیکھ چکے تھے۔ آج بل گیٹس کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں سننا لوگ پسند کرتے ہیں اور جن کی کہی باتیں دنیا پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ اس وقت دنیا کے امیر ترین انسان ہونے کا اعزاز مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے پاس ہے۔ عام طور پر انہیں بہت ذہین، زیرک اور دانشمند سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اربوں ڈالرز بھی آپ کی بات کو غلط ثابت کرنے سے نہیں روک سکتے۔ آپ نے گیٹس کے اقوال زریں تو بہت پڑھے ہوں گے، آئیے آپ کو ان کی وہ باتیں بھی بتاتے ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں اور ظاہر کیا کہ دنیا کا امیر ترین شخص بھی غلط بات کر سکتا ہے۔بل گیٹس نے 1994ء میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طور پر ایک بات کہی تھی کہ ''مجھے اگلے 10 سالوں تک انٹرنیٹ میں کوئی کمرشل صلاحیت نظر نہیں آتی‘‘۔ اس کا ذکر 2005ء کی ایک کتاب میں کیا گیا ہے۔آج دیکھ لیں انٹرنیٹ کیا اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کوئی بھی شخص اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کمرشل کے ساتھ ساتھ گھریلو طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔''جدید سافٹ ویئر میکنٹوش پر آئیں گے، آئی بی ایم پی سی پر نہیں‘‘ بل گیٹس نے یہ بات 1984ء میں بزنس ویک کیلئے ایک مضمون میں لکھی تھی۔اس وقت بل گیٹس اور ایپل کے اسٹیو جابز کے درمیان بڑی یاری تھی، لیکن جیسے ہی مائیکروسافٹ نے آئی بی ایم پی سی کیلئے ونڈوز جاری کی، اس تعلق کا خاتمہ ہو گیا۔ونڈوز کے مشہور ہونے سے پہلے مائیکرو سافٹ نے آئی بی ایم کے ساتھ مل کر ایک آپریٹنگ سسٹم او ایس2 تخلیق کیا تھا۔ اس وقت، یعنی 1987ء میں، گیٹس نے کہا تھا کہ ‘‘میرے خیال میں او ایس2 سب سے اہم آپریٹنگ سسٹم ہوگا اور تاریخ کا سب سے شاندار پروگرام بھی‘‘۔لیکن یہ آپریٹنگ سسٹم نہ چلا۔ جب 1990ء میں ونڈوز 3.0 نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تو مائیکروسافٹ کو آئی بی ایم کی ضرورت بھی نہیں رہی اور وہ او ایس2 کو یتیم چھوڑ گیا۔ آئی بی ایم اس آپریٹنگ سسٹم کو استعمال کرتا رہا یہاں تک کہ 2006ء میں اس کی باضابطہ ''موت‘‘ کا اعلان کردیا گیا۔''ہمارے جاری کردہ سافٹ ویئر میں کوئی بگز نہیں، کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد کو انہیں فکس کرنے کی ضرورت پڑے‘‘۔ گیٹس نے یہ بات 1995ء میں فوکس میگزین میں کہی تھی۔اپنی 1995ء کی کتاب ''دی روڈ اہیڈ‘‘ میں بل گیٹس نے اپنی سب سے مشہور غلطیاں کیں: انہوں نے لکھا انٹرنیٹ ایک انوکھی چیز تھا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ بہتر سے بہترین کی جانب ہماری رہنمائی کرے گا ''آج کا انٹرنیٹ میرے تصور والی انفارمیشن ہائی وے نہیں ہے، البتہ آپ اسے کسی ہائی وے کا آغاز سمجھتے رہیں‘‘۔ کچھ ہی عرصے میں گیٹس کواندازہ ہوگیا کہ یہ بات غلط ثابت ہو رہی ہے، اس لیے انہوں نے مائیکرو سافٹ کی مشہور ''دی انٹرنیٹ ٹائیڈل ویو‘‘ یادداشت جاری کیے اور ادارے کو اس سمت میں چلایا۔ 1996ء میں انہوں نے اپنی کتاب کا نظرثانی شدہ ایڈیشن جاری کیا جس میں انٹرنیٹ کے بارے میں کافی باتیں شامل کی گئیں۔2004ء میں گیٹس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ''ای میل سپیم دو سالوں میں ماضی کی چیز بن جائے گی‘‘۔آج 20 سال بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ سکیورٹی کمپنی سیمنٹیک کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں بھیجی گئی تمام ای میلز کی نصف سپیم پر مشتمل تھی۔گیٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1981ء میں کہا تھاکہ ''640 کے کمپیوٹر میموری کسی بھی شخص کیلئے کافی ہوگی‘‘۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر یہ بات واقعی وہ چھپانا چاہتے ہوں گے کیونکہ اب عام صارف سینکڑوں گیگابائٹس تک پہنچ گیا ہے۔ 1996ء میں ایک انٹرویو میں گیٹس نے کہا تھا کہ میں نے بہت ساری بے وقوفانہ اور غلط باتیں کی ہوں گی لیکن یہ بات مکمل طور پر غلط منسوب کی گئی ہے، کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ کبھی کوئی شخص یہ بات نہیں کہے گا کہ ایک مخصوص میموری مقدار ہمیشہ کیلئے کافی ہوگی‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

فرٹیلائزر کمپنی میں دھماکہ17 اپریل، 2013 کو امریکہ کی ریاست ویسٹ، ٹیکساس میں ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی کے اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن کی سہولت میں ایک امونیم نائٹریٹ دھماکہ ہوا ۔دھماکے کے فوراً بعدریسکیو کیلئے اقدامات شروع کر دئیے گے لیکن اسی دوران پندرہ افراد ہلاک، 160 سے زائد زخمی اور 150 سے زائد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔حادثے کے بعد تحقیقاتی ٹیموں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکہ اسٹوریج میں موجود امونیم نائٹریٹ کہ وجہ سے ہی ہوا۔ اس کے بعد 11 مئی 2016 کو، بیورو آف الکحل، ٹوبیکو، آتشیں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد نے کہا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔کمبوڈیا میں خانہ جنگیکمبوڈیا کی خانہ جنگی کمیونسٹ اور حمیر روج کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔اس جنگ کو محققین نے کمبوڈین قتل عام بھی کہا ہے،اکثر مورخین کا ماننا ہے کہ یہ ہٹلر کے کئے گئے قتل عام سے زیادہ بھیانک اور خطرناک تھا۔ خمیر روج کو شمالی ویتنام اور ویت کانگ کی بھی حمایت حاصل تھی۔یہ جنگ دونوں گروہوں کے درمیان لڑی گئی جس میں لاکھوں بے گناہ افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ اکتوبر 1970ء کے بعد اس میں شدت آتی گئی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد آخر کا ر آ ج کے دن 1975ء میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔لینا قتل عاملینا قتل عام یا لینا پھانسی سے مراد 17 اپریل 1912ء میں شمالی سائبیریا میں دریائے لینا کے قریب ہڑتال پر بیٹھے گولڈ فیلڈ کے کارکنوں پر فائرنگ ہے۔گولڈ فیلڈ کے کارکنان اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج تھے جب حکومتی حکام کی جانب سے ان پر گولیوں کی برسات کر دی گئی۔اس کے قبل ہڑتالی کارکنان کو کہا گیا کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں لیکن ہڑتالی کمیٹی نے حکام کی بات ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں ہڑتالی کمیٹی کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی وجہ سے بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا،حالات کو بے قابو ہوتا دیکھ کر امپیریل روسی فوج کے سپاہیوں نے ہجوم پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں سیکٹروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقع نے روس میں انقلابی آگ کو بہت ہوا دی۔فرانسیسی افواج کاشام سے انخلاء17اپریل کو شام میں بطور قومی دن منایا جاتا ہے۔اسے انخلا کا دن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 1941ء میں شام کی مکمل آزادی کے بعد17اپریل1946ء کو شام سے آخری فرانسیسی فوجی کے انخلاء اور فرانسیسی مینڈیت کے خاتمے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ کو کئی نئی قوموں میں تقسیم کیا گیا، جس سے جدید عرب دنیا اور جمہوریہ ترکی وجود میں آئے۔ 1916 میں فرانس، برطانیہ اور روس کے درمیان سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد، لیگ آف نیشنز نے 1923 میں فرانس کو موجودہ شام اور لبنان پر مینڈیٹ دیا۔ 

انسانی آنکھ کی پتلی

انسانی آنکھ کی پتلی

دور ِ جدید میں سائنس کی ترقی جہاں انسانی زندگی کیلئے دیگر بہت سی آسانیاں پیدا کر رہی ہے، وہاں صحت کے شعبے میں بھی کئی قابل قدر جدتیں ہوئی ہیں اور کئی ایسی تحقیقات جاری ہیں جن کی کامیابی انسانی اعضاء کی کارکردگی میں انقلابی تبدیلی لانے کا سبب بنے گی۔ آنکھ ہی کولے لیں، جو انسانی جسم کا ایک حساس ترین عضو ہے مگر کچھ جدید تحقیقات کی مدد سے ہماری آنکھ کی کارکردگی میں نمایاں بہتری کا امکان نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں آسڑیلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز اور امریکہ کی شہرہ آفاق سٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات قابل ذکر ہیں جن سے انسانی بینائی میں انقلابی تبدیلی کا امکان ہے۔نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے سائنسدان ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کی مدد سے انسانی آنکھ کے ریٹینا (پردۂ چشم) میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکے گا۔''نیورو پروستھیٹکس‘‘ (Neuro prosthetics)دنیا بھر میں ایک ابھرتا ہوا سائنسی میدان ہے، جس میں ایسے آلات کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے جو اعصاب سے منسلک ہو کر غیر فعال انسانی اعضا ء کو دوبارہ فعال کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال ''کوکلیئر امپلانٹ‘‘(cochlear implant) ہے جسے عشروں سے سماعت کی بحالی کیلئے کان میں نصب کیا جا رہا ہے۔ اسی تصور سے متاثر ہو کر یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے محققین ایسے آلات کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جن کی مدد سے نابینا یا عمر رسیدہ افراد کی بصارت کو بحال کیا جا سکے گا، تاہم آنکھ کی ساخت اور حساسیت کے باعث اس عمل میں کئی پیچیدگیاں حائل تھیں۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنسدان ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے ان مسائل کا حل سولر پینل کی صورت میں نکالا ہے۔ اس تحقیق سے امید پیدا کی جارہی ہے کہ جلد ہی نابینا اور معمر افراد کی بصارت کو بحال کرنا ممکن ہو جائے گا۔ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے اس تحقیق کے بارے جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انسانی آنکھ کے ریٹینا یا پردۂ چشم میں کچھ خاص سیل ہوتے ہیں جنہیں ''فوٹو ریسیپٹرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ '' فوٹو ریسپیٹرز‘‘ بیرونی ماحول سے آنکھ میں پڑنے والی روشنی کو سگنلز میں تبدیل کر کے دماغ تک بھیجتے ہیں۔ڈاکٹر رؤمر کے مطابق ان ہی ''ریسیپٹرز‘‘ کی مدد سے ہم دن اور رات میں مختلف رنگوں یا اندھیرے کا احساس کرتے ہیں۔ بصارت کے زیادہ تر مسائل جیسا کہ عمر کے ساتھ بینائی کم ہونا وغیرہ ان فوٹو ریسیپٹرز میں خرابیوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کان میں سماعت کیلئے لگائے جانے والے آلے کی سرجری'' کوکلیئر امپلانٹ‘‘ کئی عشروں سے کی جا رہی ہے، اسی طرز پر آنکھ میں خراب فوٹو ریسیپٹرز کو فعال کرنے کیلئے بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے پر سائنسدان ایک طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے کا ایک قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ ریٹینا میں وولٹیج پلس بنانے کیلئے الیکٹروڈز استعمال کیے جائیں، لیکن اس کیلئے آنکھ میں وائرنگ کرنا ہو گی، جو ایک انتہائی پیچیدہ سرجری ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سولر پینل آنکھ کی پتلی کے ساتھ نصب کیے جائیں تو یہ سورج کی روشنی کو الیکٹرک پَلس میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ پلسز دماغ تک پہنچ کر وہاں ایسا سگنل پیدا کرتی ہیں جس سے بصارت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے سولر پینلز پورٹیبل ہیں اور آنکھ میں ان کو لگانے کیلئے کیبلز یا وائرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس تکنیک پر دنیا بھر میں کئی سائنسدان کام کر رہے ہیں مگر زیادہ تر محققین نے اپنے تجربات کیلئے سیلیکون سے بنے آلات استعمال کیے ہیں جبکہ ان کی توجہ کا مرکز دیگر سیمی کنڈکٹر مرکبات جیسے گیلیئم آرسینائڈ اور گیلیئم انڈیم فاسفائیڈ پر ہے، جن کی خصوصیات کو باآسانی اور حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے محقق ڈاکٹر رؤمر بتاتے ہیں کہ یہ مرکبات اپنی افادیت اور سستے ہونے کے باعث سولر پینل انڈسٹریز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق دماغ میں نیورونز کو متحرک کرنے کیلئے زیادہ وولٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ گیلیئم آرسینائڈ کے تین سولر سیلز سے اتنا وولٹیج پیدا کیا جاسکتا ہے جو دماغ تک سگنل یا پلس پہنچا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ان کی ٹیم نے لیبارٹری میں دو سولر سیلز کو تقریبا ایک مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر ایک دوسرے کے اوپر لگایا ہے جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کا مزیش کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں انہیں بصارت کیلئے درکار پکسل سائز میں لانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی ان سولر پینلز کو باحفاظت الگ کرنے کیلئے مناسب تکنیک بھی استعمال کرنی ہو گی۔ڈاکٹر رؤمر کہتے ہیں کہ جب ان کی ٹیم دو سولر سیلز کے ساتھ ان تمام مراحل کو کامیابی سے عبور کر لے گی تو اس کے بعد پھر تین سولر سیلز جوڑنے پر کام کیا جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جانوروں پر مرحلہ وار ٹیسٹنگ کے بعد جب یہ ڈیوائس انسانوں کیلئے دستیاب ہو گی تو اس کا ممکنہ سائز دو مربع ملی میٹر تک ہو گا۔ اس سے قبل امریکہ میں بھی سائنسدانوں نے ایک ایسی مصنوعی آنکھ تیار کی ہے جو سولر پینل کی طرح روشنی سے چارج ہوتی ہے۔ سائنسدان پہلے بھی مصنوعی یا مشینی آنکھ تیار کر چکے ہیں مگر انہیں بیٹری سے چارج کرنا پڑتا ہے۔اس مصنوعی آنکھ میں ریٹینا کو ٹرانسپلانٹ کر کے مریض کی قوتِ بصارت کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی سٹینفوڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی تیار کردہ اس ''بائیونک آئی‘‘ کے بارے میں تحقیق سائنسی جریدے ''نیچر فوٹونکس‘‘ میں رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اس آنکھ میں خصوصی شیشوں کی جوڑی کی مدد سے انفراریڈ شعاعوں جیسی روشنی کو آنکھوں میں بھیجا جاتا ہے جس سے ٹرانسپلانٹ کیے گئے ریٹینا کو توانائی ملتی ہے اور وہ ایسی معلومات مہیا کرتا ہے جن سے مریض دیکھ سکتا ہے۔ اکثر لوگوں کی آنکھوں میں بڑھاپے سے ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن سے وہ خلیے مر جاتے ہیں جو کہ آنکھ کے اندر روشنی کو وصول کرتے ہیں۔ آگے چل کر یہی علامات اندھے پن میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔تاہم اس مصنوعی ریٹینا میں آنکھوں کے پیچھے کی وریدیں مرتعش رہتی ہیں جن سے کئی بار آنکھوں کے مریضوں کو دیکھنے میں مدد ملتی ہے ۔سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے مطابق اس طریقہ میں ٹرانسپلانٹڈ ریٹینا سولر پینل کی طرح کام کرتا ہے جسے آنکھ کے پیچھے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو کیمرے سے منسلک شیشوں کا ایک جوڑا آنکھ کے سامنے ہونے والی تمام چیزوں کو ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں انفراریڈ کے تقریباً برابر شعاؤں میں بدل کر ریٹینا کی جانب بھیجتا ہے۔اس مصنوعی ریٹینا کا ابھی انسانوں پر تجربہ نہیں کیا گیا ہے مگر چوہوں پر اس کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ 

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

''جب بھی میں کتاب کھولتا ہوں فوراً سستی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا بدن تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے‘‘۔ اکثر طالب علم اس بات کی شکایت کرتے ہیں اور ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس اس کے مداوے کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں!علاج اس کا بھی کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں......وجوہاتموقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگائو اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ اس سے رتی بھر مطمئن نہ ہو۔اس کے علاوہ موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں مثلاً ذیابیطس وغیرہ میں بھی بندہ ہر وقت بہت سستی محسوس کرتا ہے اور سویا سویا رہتا ہے۔ نوجوانوں میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں ان کی پسند کا کام نہ ملے۔ انہیں ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جن میں ان کی ذرا دلچسپی نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے اپنا کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افراتفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں، ان میں اس کی خاصی شکایت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت بندہ سست اور پژمردہ ہو تا ہے اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی نیند آ جاتی ہے۔علاج اور بچائوجو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل باتوں پہ عمل کریں۔ اس سے اس طرح کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔(1)۔ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کیلئے تازہ ہوا، مناسب آرام، باقاعدہ ورزش وغیرہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسم صحت مند ہوگا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور آپ جو کام کریں گے آپ کا ذہن آپ کا پورا ساتھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے مندرجہ بالا امور کا خیال رکھا جائے۔ ان میں کوئی چیز کم ہے تو اس کمی کو پورا کر نے کی کوشش کریں۔(2)۔روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ جو اپنا کام باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ بہت کم پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدگی کو زندگی کا شعار بنائیں۔ جو کام آج کرنا ہے اسے آج ہی کریں۔ اس سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوں گے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنیں گی اور کبھی بھی پڑھائی کرتے وقت اونگھ یا نیند آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔(3)۔بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ''سٹڈی فوبیا‘‘ ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی میں لگ جائیں۔ انشاء اللہ کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوگا۔ (4)۔ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی بھی آپ بہت زیادہ پریشانی اور ذہنی دبائو کا شکار ہوں تو اس دوران ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنے آپ کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کیلئے آرام کریں، باہر گھومیں پھریں۔ چائے کا ایک کپ نوش کریں اور اس کے بعد جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر Relax کریں اور اب ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف لگیں۔(5)۔بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کیلئے بعض دوائوں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اصل میں تمام دوائیں کیمیکل اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں اور جب یہ جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جسم پر کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور چھوڑتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز بہت ضروری ہے۔(6)۔اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں اور فکر و پریشانی کی صورت میں زیادہ کھا یا پی کر سکون اور فرار ڈھونڈتے ہیں اور یوں ہر وقت سسترہتے ہیں اور اونگھتے رہتے ہیں۔(7)۔امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم اپنی خوراک کو صحیح رکھیں۔ زیادہ چٹ پٹے اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس سے آپ تندرست اور توانا اور فریش رہیں گے اور اونگھ یا نیند کبھی تنگ نہیں کرے گی۔٭...٭...٭ 

آج کا دن

آج کا دن

اپالو10کی لانچنگ16 اپریل 1972ء کو امریکی خلائی مشن ''اپالو10‘‘ اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ یہ چاند پر اترنے والا پانچواں مشن تھا۔ ''اپالو‘‘ ناسا کا ایک خلائی پروگرام تھا جس میں متعدد خلائی جہاز چاند پر بھیجے گئے۔ اس مشن کا مقصد چاند کی سطح پر لمبے عرصے کیلئے قیام کرنا،سائنسی معلومات اکٹھی کرنا،لونر کا استعمال کرنا اور تصاویر لینا شامل تھا۔اپالو کے ذریعے ماہرین نے چاند پر ایک ایسی جگہ کوتلاش کیاجس کے متعلق کہا گیا کہ یہاں آتش فشاں پھٹا ہے ۔لبنان پراسرائیلی حملہ1996ء میں آج کے روز اسرائیل نے ہیلی کاپٹروں سے لبنان پر میزائل فائر کئے، جس کے نتیجے میں متعدد لبنانی شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے اسرائیل کی حدود سے 8کلومیٹر دور اس وقت ایک ایمبولینس پر میزائل داغا جب وہ اقوام متحدہ کی ایک چوکی سے گزر رہی تھی۔ اس گاڑی میں 13 افراد سوار تھے۔ یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ''آپریشن گریپس آف ریتھ‘‘ کے نفاذ کے اعلان کے فوراً بعد کیا گیا ۔باگا کا قتل عامباگا کا قتل عام 16 اپریل 2013ء کو بورنو ریاست کے گاؤں باگا، نائیجیریا سے شروع ہوا۔ اس قتل عام میں 200 سے زیادہ شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کروڑوں مالیت کی املاک نذر آتش کر دی گئیں۔ تقریباً 2 ہزار سے زائد گھر اور کاروباری مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ مہاجرین، شہری حکام اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نائیجیریا کی فوج پر قتل عام کا الزام لگایا۔ فوجی حکام نے باغی گروپ بوکو حرام کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔ایکواڈور میں زلزلہ2016ء میں آج کے دن ایکواڈور میں شدید زلزلہ آیا۔اس زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی، یہ ایکواڈور میں آنے والے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھا۔جن علاقوں میں زلزلے کا مرکز تھا وہاں ہلاکتوں کی تعداد 75فیصد سے زیادہ تھی۔مانتا کا مرکزی تجارتی شاپنگ ڈسٹرکٹ'' تارکی‘‘ سمیت متعدد عمارتیں گر تباہ ہو گئیں۔