یادرفتگان، شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد، اردو ادب کی کثیر الجہات شخصیت
بہت سی صفات جو انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی عطا کر دی گئیں، ان میں ایک نمایاں صفت زبان ہے۔ ان گنت مخلوقات کو الگ الگ زبانیں عطا کرنے والے نے انسان سے خصوصی محبت فرمائی اور اسے ایک سے زیادہ زبانیں بولنے اور سمجھنے کی طاقت سے نوازا۔ زبانوں کو ارتقا کے مراحل سے انتہا تک پہنچانے کے لیے شاعر اور ادیب پیدا کئے جاتے رہے۔ یہی سلسلہ چلتے چلتے جب اردو زبان تک پہنچا تو اس کے لئے عظیم مرقع نگار، فلالوجی کے ماہر، معروف اخبار نویس، جدید فارسی کے استاد کامل، ماہر تعلیم، نامور انشاء پرداز، جدید نظم کے بانی و مجدد شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کا انتخاب کیا گیا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مولانا محمد حسین آزاد، اردو کے پہلے شہید صحافی محمد باقر کے گھر 10جون 1830ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ والد کی شہرت اور وقار ''دہلی اردو اخبار‘‘ تھا۔ جس کا سفر 1836ء سے شروع ہو کر 1857ء میں اختتام پذیر ہوا۔ مولانا آزاد کو بچپن سے ہی ادبی ماحول میسر رہا اور ابراہیم ذوق کی شاگردی نصیب ہوئی۔ اس لیے آپ لفظ کی طاقت اور خوبصورتی سے مکمل طور پر واقف تھے جبکہ طبیعت میں نازک مزاجی اور حساس پن زیادہ تھا۔ ان دونوں خوبیوں کی بدولت آپ کا تخیلی دنیا آباد کر لینا فطری عمل تھا۔ اس تخیل کو نثر کی صورت عطا کرتے ہوئے پورے کا پورا منظر ہی کاغذ پر اتار لیتے تھے کہ آج بھی پڑھنے والے کو اپنے سامنے، وہ سب کچھ حقیقت نظر آتا ہے۔
ان کی نثر میں روانی سلاست اور فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے۔ مرقع نگاری کرتے ہوئے وہ تصوراتی تصویروں میں رنگ بھرنے کیلئے موقع محل کی مناسبت سے الفاظ و تراکیب کا خوبصورت استعمال کرتے ہیں۔مولانا نے ایسا طرز ادا تخلیق کیا جس کی تقلید نہیں کی جا سکتی۔ آپ ''جدید شاعرانہ نثر‘‘ کی پہلی اور اہم مثال ہیں۔ آپ الفاظ کے صوتی اثرات کو کام میں لاکر عبارت میں موسیقی اور ترنم پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد کی'' نیرنگ خیال‘‘ ہو یا پھر ''آب حیات ‘‘کسی کو بھی، کہیں سے بھی کھول کر پڑھنا شروع کردیں۔ آپ لفظوں کے حسن سے محظوظ ہوں گے۔ آپ کی نظریں لفظوں کو چومتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جائیں گی۔ دل کی دھڑکنیں تک مولانا کے اسلوب میں ڈھل جائیں گی۔ لفظوں کا طلسم آپ پر ایسی کیفیت طاری کر دے گا کہ آپ کو ہر لفظ میں اس کا منظر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ الفاظ اجسام کی صورت آپ کے روبرو مسکرا رہے ہوں گے اور پھر ایسی حالت سے باہر نکلنا، کتاب کو بند کرنا، دل و دماغ کے لیے محشر برپا کر دینے کے مترادف بن جائے گا۔
مولانا آزاد کی جملہ بندی، الفاظ کی نشست و برخاست قاری کو اپنے سحر میں قید کر لیتی ہے اور پھر آزاد کا قیدی کبھی آزاد نہیں ہوتا۔ بطورنمونہ ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
''سودا کے منہ سے رنگ رنگ کے پھول جھڑتے تھے۔ میر بد دماغی اور بے پروائی سے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے تھے، شعر پڑھتے اور منہ پھیر لیتے۔ درد کی آواز درد ناک دنیا کی بے بقائی سے جی بیزار کیے دیتی تھی۔ میر حسن سحر بیانی سے پرستان کی تصویر کھینچتے تھے۔ انشاء اللہ خان انشاء قدم قدم پر نیا بہروپ دکھاتے تھے۔ ناسخ کی گلکاری چشم آشنا معلوم ہوتی اور اکثر جگہ گلکاری اس کی عینک کی محتاج تھی۔ مگر آتش کی زبان اسے جلائے بغیر نہ چھوڑتی۔ مومن کم سخن تھے مگر جب کچھ کہتے تھے تو جرات کی طرف دیکھتے تھے‘‘
جس طرح موبائل اور دیگر ڈیوائسز ہوا میں موجود سگنل اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مولانا آزاد کا قلم بھی جیسے ہی کاغذ کو چھوتا تو گویا سرکٹ مکمل ہوگیا ہے۔ اور آسمانِ تخیل میں معلق الفاظ کرنٹ فلو کی طرح کاغذ پر بہہ نکلتے۔ یہی وجہ تھی کہ آزاد کی آزادانہ طبیعت نے قلم کو پوری آزادی سے برتا۔ وہ صرف ایک صنف تک محدود نہیں رہے بلکہ انشائیہ، تاریخ، جدید نظم، شاعرانہ نثر ، تمثیل نگاری، مکالمہ نگاری اور تذکرہ نگاری بھی کرتے چلے گئے۔ اردو ادب کو گراں قدر تصانیف سے نوازا جن میں آب حیات، درباراکبری، سخندان فارس، ڈرامہ اکبر، سیر ایران، نگارستان فارس، نیرنگ خیال، دیوان ذوق، مکاتیب آزاد، مقالات آزاد، نظم آزاد اور حمکدہ آزاد شامل ہیں۔آپ کا شمار اردو کے عناصرخمسہ میں ہوتا ہے۔ سرسید، نذیر احمد، شبلی اور حالی جیسے ہم عصر ہونے کے باوجود، اپنا الگ اور نمایاں مقام بنانا، ایک ایسی کرامت ہے جو مولانا آزاد کے علاوہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی۔ادب کی انھی خدمات کے عوض حکومت ہند نے 1887ء میں آپ کو شمس العلماء کا خطاب دیا۔
مولانا آزاد پہلے شخص ہیں جنہوں نے لسانی موضوع کو اٹھایا۔ ماہر تعلیم ہونے کے حوالے سے کئی ایک درسی اور تعلیمی کتب لکھیں۔ جن میں اردو کی پہلی کتاب، اردو کی دوسری کتاب، فارسی کی پہلی کتاب، فارسی کی دوسری کتاب، جامع القواعد، قصص ہند، نصیحت کا کرن پھول۔ حکایاتِ آزاد، شہزادہ ابراہیم کی کتاب، جانورستان اور لغت آزاد شامل ہیں۔ علمی اور ادبی حوالے سے آپ نے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔
مولانا آزاد شاعر، ادیب اورعظیم مفکر تھے۔ آپ نے اردو ادب کو تکلف، تصنع اور پرشکوہ الفاظ کی بھیڑ سے آزاد کرانے کے لیے بڑا کام کیا۔ آپ نے موضوع کی اہمیت اور متن کی سادگی و مانوسیت پر زور دیا۔ آپ ادب میں حقیقت نگاری، بے تکلفی اور سادگی کے قائل تھے۔
مولانا آزاد کا تخیل اس قدرحسین اور بلند تھا کہ الفاظ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔آزاد کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے تو طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔ لیکن جب ان کی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو احساس غم سے گزرنا پڑتا ہے۔ والد گرامی کو پھانسی دیے جانے کے صدمے کے علاوہ بھی آپ کو کئی دکھ جھیلنے پڑے۔ 14 بچوں میں سے یکے بعد دیگرے 13 بچے فوت ہوگئے۔ بیٹی جس سے سب سے زیادہ پیار تھا اس کی وفات سے آپ کو ناقابل برداشت غم پہنچا اور ذہنی طور پر شدید جھٹکا لگا۔ سفر ایران سے واپس آتے ہوئے آپ اونٹ سے سر کے بل نیچے گرے تو ایک پسلی ٹوٹ گئی اور ساتھ ذہنی عارضے کا بھی شکار ہوگئے۔ 1890ء سے 1910ء تک 20 سال اسی حالت جنون میں رہ کر 22 جنوری بمطابق 9 محرم الحرام کو اردو ادب کا یہ بے مثال ستارہ غروب ہوگیا۔
آپ کی وفات پر حالی نے اپنے پرملال دل سے آپ کو یوں خراج پیش کیا:
آزاد وہ دریائے سخن کا دْر یکتا
جس کی سخن آرائی پر اجماع تھا سب کا
ہر لفظ کو مانیں گے فصاحت کا نمونہ
جو اس کے قلم سے دمِ تحریر ہے ٹپکا
ملکوں میں پھرا مدتوں تحقیق کی خاطر
چھوڑا نہ دقیقہ بھی کوئی رنج و تعب کا
دیکھا نہ سنا ایسا کہیں اہل قلم میں
تصنیف کا، تدوین کا، تحقیق کالپکا
صحت میں علالت میں اقامت میں سفر میں
ہمت تھی بلا کی تو ارادہ تھا غصب کا
قرض اپنا ادا کرکے کئی سال سے مشتاق
بیٹھا تھا کہ آئے کہیں پیغام طلب کا
آخر شب عاشورا کو تھی جس کی تمنا
آ پہنچا نصیبوں سے بلاوا اس رب کا
تاریخ وفات اس کی جو پوچھے کوئی حالی
کہہ دو کہ "ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا"
انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالنے کی غرض سے منعقدہ اجلاس 19 اپریل 1874 ء میں آپ نے لیکچر میں کہا:
ـ''فصاحت اسے نہیں کہتے کہ مبالغے اور بلند پردازیوں کے بازوں سے اڑے۔ قافیوں کے پروں سے فر فر کرتے گئے۔ لفاظی اور شوکتِ الفاظ کے زور سے آسمان پر چڑھ گئے اور استعاروں کی تہ میں ڈوب کر غائب ہو گئے۔ فصاحت کے معنی یہ ہیں کہ خوشی یا غم، کسی شے پر رغبت یا اس سے نفرت، کسی شے سے خوف یا خطر، کسی پر قہر یا غضب، غرض جو خیال ہمارے دل میں ہو اس کے بیان سے وہی اثر، وہی جذبہ، وہی جوش سننے والوں کے دل پر چھا جائے جو اصل کے مشاہدہ سے ہوتا ہے۔‘‘
آپ نے انجمن پنجاب کے پہلے موضوعاتی مشاعرے میں اپنی مثنوی ''شب قدر‘‘ پڑھی۔ جو رات کی حالت پر لکھی گئی تھی۔ آپ نے انجمن پنجاب کے حوالے سے 4 نظمیں لکھیں اور 15 لیکچر دیئے ۔ انجمن پنجاب کے لیے کی جانے والی محنت کے تحت آپ کو ''جدید نظم‘‘ کا بانی کہا جاتا ہے۔ جبکہ مہدی افادی کے نزدیک آپ '' آقائے اردو ‘‘ ہیں۔
ساجد ندیم انصاری شعبہ تدریس سے وابستہ
ہیں، مختلف موضوعات پر ان کے مضامین
مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں