جیمز ویب،نسل انسانی کیلئے نیا گھرڈھونڈپائے گی؟
فلکیات کی دنیا میں ایک نیا انقلاب اس وقت آیا جب 1990ء میں ہبل ٹیلی سکوپ کو خلاء میں روانہ کیا گیا۔ہبل ٹیلی سکوپ خلاء میں بھیجی جانے والی پہلی دور بین تھی۔اس نے خلاء سے جو تصاویر بھیجیں انہوں نے فلکیات کے کئی نظریات کو بدل کر رکھ دیا۔ہبل ٹیلی سکوپ نے آسمان کے ایک چھوٹے سے حصے کی تصویر بھیجی، جس میں سیکڑوں کہکشاؤں کو دیکھا جا سکتا ہے۔اس سے قبل سائنس دانوں کا خیال تھا کہ ہماری کہکشاں(ملکی وے) ہی کل کائنات ہے اور اس کے آگے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔اس دور بین کی بدولت کائنات کے راز انسانوں پر کھلنا شروع ہوئے۔ آج ہم جو کچھ بھی کائنا ت کے بارے میں جانتے ہیںوہ دراصل ہبل ٹیلی سکوپ کی بدولت ہی ممکن ہو ا ہے۔ہبل کو کام کرتے 30 سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔اب یہ ٹیلی سکوپ بوڑھی ہو چکی ہے اور اگلے چند سال بعد اسے ڈی کنڈیشن کر دیا جائے گا۔دنیا کی یہ مشہور ترین ٹیلی سکوپ ممتاز ماہر فلکیات ایڈون پی ہبل سے موسوم ہے۔ ایڈون پی ہبل 1889ء میں پید اہوئے، جن کا انتقال1953ء میں ہوا۔ہبل واحدخلائی دوربین ہے جسے خلاء بازمدار میں مرمت کر سکتے ہیں اور نئے اجزا لگا کر کارکردگی بڑھا سکتے ہیں۔ اب تک ہبل ٹیلی سکوپ کو چار مرتبہ مرمت کیا جاچکا ہے۔
ہماری کائنات کا بیش تر حصہ انفراریڈ سپیکٹرم پر مشتمل ہے۔ ہبل ٹیلی سکوپ مرئی سپیکٹرم میں کام کرتی ہے،جس کی وجہ سے ہم کائنات میں موجود بہت دور کی چیزوں کو نہیں دیکھ سکتے۔سائنس دانوں کے مطابق 13ارب سال پہلے جو ستارے اور سیارے بنے ان کی روشنی آج بھی سفر کر رہی ہے۔یہ روشنی ہمیں زیادہ تر انفراریڈ ریجن میں نظر آتی ہیں۔اس لئے ضروری تھا کہ ایسی دوربین بنائی جائے جو انفراریڈ ریجن میں کام کرے۔ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ سائنس دانوں کی30 سال کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔اس ٹیلی سکوپ کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے یورپین سپیس ایجنسی اور کینیڈا سپیس ایجنسی کے تعاون سے بنایا۔اس کو بنانے والی ٹیم میں15ممالک سے تعلق رکھنے والی 258کمپنیوں کے ہزاروں سائنس دان ، انجینئرز اور ٹیکنیشن شامل تھے۔اس پر کام کا آغاز1996ء میں ہوا اور تکمیل میں تقریباً30سال کا عرصہ لگا۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ کا نام ناسا کے سابق سربراہ جیمز ویب کے نام پر رکھاگیا۔جیمز ویب1961ء سے1968ء تک ناسا کے سربراہ رہے۔انہوں نے چاند پر بھیجے جانے والے مشن اپالو کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔جیمزویب سپیس ٹیلی سکوپ کی تیاری پر دس بلین ڈالر لاگت آئی۔اس ٹیلی سکوپ کے شیشے کا قطر6.5میٹر ہے جس کو اٹھارہ چھوٹے شیشوں کی مدد سے بنایا گیا ۔یہ سب بیر یلیم نامی دھات سے بنائے گئے ہیں تاکہ یہ خلاء کے سخت ماحول کو جھیل سکیں۔بیریلیم پر انسانی بال کے برابر سونے کی پرت بھی چڑھائی گئی ہے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ روشنی منعکس کر سکے۔جیمزویب کے مقابلے میں ہبل ٹیلی سکوپ کے آئینہ کا قطر صرف8فٹ کا تھا۔سورج کی روشنی سے بچانے کیلئے اس پر ایک سن شیلڈ لگائی گئی ہے جس کی جسامت ایک ٹینس کورٹ کے برابر ہے۔جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کو 25دسمبر2021ء کو زمین سے15لاکھ کلومیٹر دور خلاء میں چھوڑا گیا اور اسے ہبل ٹیلی سکوپ کا جانشین قراردیا گیا۔یہ خلائی سائنس کی تاریخ کا ایک منفرد کارنامہ ہے۔اس کی منزل زمین سے 15لاکھ کلومیٹردور لاگرانج پوائنٹ 2 ہے ، جسے ایل 2کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔لاگرانج پوائنٹ خلاء میں ایسے مقامات ہوتے ہیں جہاں دو اجرام فلکی کی کشش ثقل برابر ہوجاتی ہے۔ یہ وہ بارڈر لائن ہے جہاں ہماری زمین کی حدود کا اختتام اور سورج کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔جیمز ویب کے ڈی ٹیکٹرکو223ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھنا ضروری تھا اس لئے اس جگہ کا انتخاب کیا گیا کیونکہ اس مقام پر ہمیشہ زمین کا سایہ رہتا ہے۔
جیمز ویب 30دن کی مسافت کے بعد24جنوری2022ء کو اپنی منزل مقصود پر پہنچی۔96دن اس مقام پر رہنے کے بعد ٹیلی سکوپ کا درجہ حرارت 223دگری سینٹی گریڈ تک کم ہوا،118دن بعد اس کے تمام شیشے کھلے اور مزید کچھ ہفتے اسی جگہ گزارنے کے بعد180دن بعد یعنی جون تک اس نے اپنا کام شروع کیا۔یہ ٹیلی سکوپ ہبل ٹیلی سکوپ سے سو گنا زیادہ طاقتور ہے۔سائنس دانوں کے مطابق آئینہ جتنا بڑا ہو گا ہم انتی ہی زیادہ روشنی جمع کر سکتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ہم وقت سے بہت پیچھے تک جا سکتے ہیں،یہ ایک طرح کی ٹائم مشین ہے،اس کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹیلی سکوپ خلا ء میں ان ستارون کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا جن میں شاید کبھی زندگی کا وجود رہا ہو یا شاید اس وقت بھی موجود ہو۔
جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کے مشن کی معیاد پانچ تا دس سال ہے۔اس کا انفراریڈ احاطہ0.6تا28.5مائیکرون ہے۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کا وزن تقریباًساڑھے چھ ہزار کلو گرام کے برابر ہے۔اس خلائی دور بین کو چند متعینہ مقاصد کے تحت بھیجا گیا ہے جیسا کہ ان کہکشاؤں کو دریافت کرنا جو کائنات کے بالکل ابتدا میں وجود میں آئی تھیں۔قریب اور دور کی کہکشاؤں کا مطالعہ کرناتاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ان کا ارتقا کیسے ہوا۔ستارون کی تشکیل کا مشاہدہ کرنا۔سیاروں کے نظام کی طبیعیاتی و کیمیائی خصوصیات کی پیمائش کرنا ، بشمول ہمارے نظام شمسی کے اور ان نظاموں میں زندگی کے امکانات کی تحقیق کرنا۔