یادرفتگاں: ایس بی جان۔۔

اسپیشل فیچر
دنیائے موسیقی میں کئی نام ایسے ہیں جنہوں نے ان گنت فلمی و غیر فلمی گیت گائے اور اپنے ان گیتوں کی بدولت اپنا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ میں لکھوا لیا۔ اس کے برعکس کچھ گلوکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے کئی فلمی گیت گانے کے ساتھ بیشمار غیر فلمی گیت بھی گائے لیکن انہوں نے ایک ایسا نغمہ گایا جو ان کی شناخت بن گیا اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی وہ اپنے اس گیت ہی کی بدولت پہچانے جاتے ہیں۔ ایسے گلوکاروں کی فہرست میں ایک نام ایس بی جون کا بھی ہے جن کے ایک گیت نے انہیں لازوال شہرت سے ہمکنار کر دیا۔ اس ایک گیت نے انہیں وہ مقام عطا کر دیا جو دوسرے گلوکاروں کیلئے قابل رشک ہے۔ جو گیت ان کی وجہ شہرت بنا وہ ہے ''تو جو نہیں ہے، تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ یہ گانا پاکستانی فلم ''سویرا‘‘ کیلئے انہوں نے ریکارڈ کروایا تھا جو 1959ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔
پہلے ہی فلمی گیت سے لازوال شہرت حاصل کرنے والے گلوکار ایس بی جون اکتوبر 1934ء میں کراچی کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام سنی بنجمن جون تھا اور وہ میوزک ورلڈ میںایس بی جون کے نام سے مشہور ہوئے۔ سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ برنی روڈ کے قریب کمیان سنگیت وڈیالا میں پنڈت رام چندر ترویدی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔انہیں آلات موسیقی بجانے کا شوق تھا اور وہ وہاں طبلہ سیکھنے گئے تھے لیکن ان کے گرو نے انہیں کہا کہ وہ گائیکی سیکھیں۔ انہوں نے اپنے گرو کی بات کا مان رکھتے ہوئے گائیکی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور 1950ء میں گائیکی کو پیشے کے طور پر اپنایا اور ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہو گئے۔ ریڈیو کیلئے انہوں نے بیشمار غزلیں اور گیت ریکارڈ کروائے۔ انہوں نے کراچی سٹیج پر بھی بہت عرصہ تک پرفارم کیا۔ان کی گائیکی کے چرچے فلمی دنیا تک پہنچے اور انہیں فلمی گیت گانے کی پیشکش ہوئی۔
1959ء ہدایتکار رفیق رضوی کی فلم ''سویرا‘‘ ان کی پہلی فلم تھی ،جس میں موسیقار منظور نے ان سے دو گیت گوائے ۔ فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے ان گیتوں میں سے ''تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ، یہ مانا کہ محفل جواں ہے ، حسیں ہے‘‘ ایک سدابہار گیت ثابت ہوا تھا۔ یہ گیت اداکار کمال پر فلمایا گیا تھا۔ایس بی جون نے اس گیت کو جتنی خوبصورتی سے گایا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ گیت بھارت میں بھی بہت مقبول ہوا۔ اس فلم میں ایس بی جون نے ایک اور گیت ''میری ملاقات ہوئی، پیا جی کے ساتھ ہوئی‘‘بھی گایا تھا، ناظم پانی پتی کا لکھا ہوا یہ نغمہ بھی معیاری تھا ۔وہ فلمی دنیا میں خاص کامیابی حاصل نہ کر سکے اور اپنے مختصر سے فلمی کریئر میں مجموعی طور پر پانچ فلموں کے لئے دس گیت گائے۔ان کے کم فلمی گیت گانے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں فلمیں لاہور میں بنتی تھیں اور ان کیلئے کراچی چھوڑنا ممکن نہیں تھا۔
ان کی دوسری فلم ''رات کے راہی‘‘ تھی جو 1960ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ایک گیت ''بات چھوٹی سی ہے ، مانو یا نہ مانو میں‘‘میں انہوں نے زبیدہ خانم اور احمدرشدی کے ساتھ شرکت کی تھی، اے حمید کی موسیقی میں یہ گیت بھی فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا تھا۔ 1961ء میں آنے والی فلم ''انسان بدلتا ہے‘‘ میں بھی ایس بی جون نے زبیدہ خانم کے ساتھ ایک دوگانا ''ہم تم اور یہ کھوئی کھوئی رات‘‘ گایا، یہ گیت شمیم آرا اور درپن پر فلمایا گیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی گیت مقبول نہ ہو سکا تھا۔
ہدایتکار شیخ حسن نے اپنی فلم '' لاکھوں فسانے‘‘کیلئے ایس بی جون سے پہلی بار تین گیت گوائے ۔تینوں گیت '' دنیا میں لاکھوں فسانے ، کیا دل پر گزری‘‘ ،''کسی ہم سفر کی تلاش ہے مجھے‘‘ اور''کتنے جوہر ہیں غربت میں‘‘ سولو سانگز تھے لیکن کسی گیت کو عوامی پذیرائی نہ مل پائی تھی۔1961ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں موسیقار دیبو بھٹاچاریہ تھے۔پانچویں اور آخری فلم ''پیار کی سزا‘‘ 1964ء میں منظرعام پر آئی ،اس فلم میں بھی ان کے تین گیت شامل تھے، جن میں سے ایک گیت ''اب رات ہے اور ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے‘‘ سولو گیت تھا۔ دیگر دو گیت ''آنکھ ملانا برا ہے ، دل کا ملانا برا ہے‘‘ اور ''دل لے کے اب جی ، کدھر چلے ہو‘‘ گلوکارہ شمیم بانو کے ساتھ تھے۔
ایس بی جون نے غزلیں بھی گائیں جن میں احمد فراز کی غزلیں بھی شامل ہیں۔انہوں نے ابن انشا کی غزل '' کل چودھویں کی رات تھی‘‘کو لافانی بنا دیا ۔وہ گلوکار طلعت محمود، ہیمنت کمار اور محمد رفیع کے زبردست مداح تھے اورسٹیج پر ان گلوکاروں کے گیت گاتے تھے۔ ایس بی جون پہلے عیسائی گلوکار تھے جنہیں 2010ء میںصدارتی ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔ 1934ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے ایس بی جون کا 5 جون 2021ء کو کراچی ہی میں انتقال ہوگیا۔انہوں نے 87برس کی عمر پائی۔ان کے بیٹے گلین جون بھی ایک بہترین گلوکار ہیں۔