نور محل بہاولپور:نواب صادق محمد خان چہارم کا ایک تعمیراتی شاہکار
![نور محل بہاولپور:نواب صادق محمد خان چہارم کا ایک تعمیراتی شاہکار](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27368_69359780.jpg)
اسپیشل فیچر
نواب سر صادق محمد خان چہارم ریاست بہاولپور کے دسویں نواب تھے۔ آپ کی ساڑھے چار سال کی عمر میں دستار بندی کی گئی لیکن تخت نشینی بلوغت میں ہوئی۔ وہ تعمیرات کے ماہر تھے۔ اپنے اس ذوق کا انہوں نے جگہ جگہ مظاہرہ کیا۔ اس وجہ سے انہیں بہاولپور کا شاہجہان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے دور حکومت میں نور محل، صادق گڑھ پیلس اور دربار محل جیسی عظیم عمارتیں بنائی گئی۔
نواب صادق محمد خان چہارم1861ء میں پیدا ہوئے اور 1899ء میں وفات پائی۔اپنی 38 سال کی عمر میں انہوں نے اس قدر عمارتیں اور محل بنوائے، باغات لگوائے کہ کسی حکمران نے اتنے کام نہیں کیے۔ انہوں نے اپنا دارالحکومت احمد پور شرقیہ سے بہاولپور منتقل کرنے کا سوچا اور رہائش کیلئے بہاولپور بسنے کی ٹھانی۔ ایک منصوبے کے تحت یہاں ایک محل بنوانے کی تجویز زیر غور ہوئی تو جگہ کے انتخاب کیلئے انہوں نے خود شہر بہاولپور کے اندر باہر چکر لگائے اور بستی ملوک شاہ کے قریب52 ایکڑ قطعہ اراضی حاصل کر کے نور محل کی بنیاد رکھی گئی۔
نور محل کی تعمیر 1872 ء میں شروع ہوئی اور 1875ء میں ختم ہوئی۔ محل کیا تھا لق ودق صحرا میں بہشت بریں کا ٹکڑا تھا۔ درمیان میں نور محل کی عمارت، چار اطراف درخت ہائے ثمر بار اور قحطات سرسبز و گل ہائے رنگارنگ کی دلفریبی سے ذوق تمکنت حزیں کار فرما تھا ۔
محل کا داخلی دروازہ جنوبی سمت رکھا گیا جہاں ایک باوقار پورچ میں چار سیڑھیاں چڑھ کر برآمدہ آتا پھر مستطیل کمرے کے داخلی دروازے تھے۔ اس کمرے سے ایک وسیع ہال میں داخل ہوا جاتا تھا۔ اس مرکزی ایوان میں شمالی جانب تخت شاہی ہوتا تھا جس کے عقب میں دیوار کے سائز کا آئینہ نصب کیا گیا تھا۔ دائیں بائیں معزز درباریوں، سند نشینوں اور وزراء کیلئے اعلیٰ و پائیدار کرسیاں تھیں جن پر در باری حفظ مراتب و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے سب جلوہ فگن ہوتے تھے۔
اس دربار کی چھت جالی دار رکھی گئی تھی۔ جالی کی انتہائی گولائی زمین کے فرش سے تین فٹ بلند تھی۔ چھت کے زیریں حصے پر انتہائی نفیس گلکاری کی گئی تھی۔ گلکاری کے رنگ اور ان کی آرائش ایرانی خصائص کی غمازی کرتے تھے۔ بعض مقامات پر یہ تضاد انتہائی بار یک جزئیات سے بھی آشکارا تھی۔
اس مصوری کے بنیادی اسلوب میں کسی کسی جگہ عمومی فن کاری کی خصوصیات اجاگر کی گئی تھیں۔ چھت کے نیچے مضبوط پیتل کی زنجیروں سے بلوری جھاڑ، فانوس جو تمام تر ولایتی تھے لٹکتے تھے۔ جب ان کی قندیلیں روشن کی جاتیں تو ایک عجیب روح پر در منظر پیش نظر ہوتا تھا۔ دربار کے انعقاد کے وقت جلال شاہی اور جمال در بار شاہی کا خوشگوار امتزاج ہوتا تھا۔ دربار کے عقب میں دیوار کے ساتھ لگے ہوئے آئینے میں دربار کا منظر منعکس ہوتا تو رعب و دبدبہ کا مظہر ہوتا۔
اس ہال کے مشرقی و مغربی جانب رہائشی کمرے جو نواب صاحب کی رہائش و مہمان نوازی کیلئے استعمال ہوتے وہ تمام تر ضروری سامان سے آراستہ تھے۔ خواب گا ہیں، نشست گا ہیں، غسل خانے ہر طرح خود کفیل تھے۔ ہر کمرے میں چھت، فرش اور دیواروں سے نفاست و ذوق آرائش کی مہک آتی تھی۔ سامان آرائش و زیبائش انتہائی اعلی نفیس ہونے کے علاوہ ایک ہی رنگ میں متعین کیے گئے تھے اعلیٰ و قیمتی پردے اس قدر عالیشان کہ عمل کی زمین دو تار میں اضافہ کرتے تھے۔
دوسری منزل پر اس دربار ہال کے سر اطراف ایک چوڑی گیلری کی موجودگی سے نہ صرف نچلی منزل کے ہال میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھا گیا تھا کہ وہاں مجمع بوقت انعقاد دربار اور جشن کی تقریبات منائے جانے کی صورت میں آواز نہ گونجنے پائے۔ محل جو اطالوی طرز تعمیر کی خصوصیات رکھتا تھا، اس میں جنوبی جانب اور درمیان میں دو مخروطی گنبد تھے، جن کے اندر نیچے سے اوپر تک آنے کیلئے زینے بنائے گئے تھے تاکہ تیسری منزل تک با آسانی رسائی ہو سکے۔ تمام عمارت کی تعمیر میں چونے اور پنجکاری کا کام کیا گیا تھا۔ دو اینٹوں کے درمیان مصالحہ کی اس قدر تہہ رکھی گئی تھی کہ تمام اینٹیں گوند سے چپکائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ شمالی جانب لوہے کا ایک گول زینہ ہے جس کی سیڑھیاں بالائی منزل تک رسائی کا کام دیتی ہیں۔ غالبا یہ زینہ پہرے داروں اور محافظین عمارت کیلئے بنایا گیا تھا۔ عمارت سے کچھ فاصلے پر بھی خانہ، تو شہ خانہ مطبخ (باورچی خانہ) اور اصطبل کی عمارت تعمیر کی گئی تھیں۔ مہتم عمارات و مطبخ محل کا ایک افسر ہوتا تھا۔ نور محل کے مغربی گوشے میں 1906ء میں نواب محمد بہاول خان پنجم نے ایک عالیشان مسجد تعمیر کرائی تھی۔
پاکستان کے قیام کے بعد سرکاری تقریبات تو نورمحل میں نہ ہونے کے برابر ہو گئیں مگر ریاست کا عملہ دیکھ بھال کیلئے متعین تھا۔ 1955 ء میں ون یونٹ کے بعد اس میں کمی آ گئی مگر مرمت وغیرہ ہوتی رہی مگر 1966ء میں اس کے والی جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو محل کا کوئی والی وارث نہ رہا۔ بس اس کا اللہ ہی وارث ہے۔اب اس کا انتظام عسکری ادارے کے پاس ہے۔