رمضان کے پکوان

رمضان کے پکوان

اسپیشل فیچر

تحریر : منیرا کرن


آلو اور قیمہ کی پوریاں
اجزاء: میدہ 500 گرام، عمدہ قیمہ 250 گرام، آلو250 گرام، گھی ڈیڑھ پائو، گرم مصالحہ دو چائے کے چمچے، مرچ سرخ دو چائے کے چمچے، پسی ہوئی پیاز دو کھانے کے چمچے۔
ترکیب: قیمہ میں تمام پیاز اور باقی سب مصالحہ آدھا آدھا ڈال کر اسے ابال لیا جائے اور آلو چھیل کر اور انہیں پیس کر باقی مصالحہ ان میں ملا دیجیے اور انہیں باریک کر لیجیے۔ قیمہ کو علیحدہ پیسئے اور گندھے ہوئے میدہ کے پیڑے بنا کر دونوں چیزیں تھوڑی تھوڑی رکھ کر پوریاں بنایئے اور انہیں گرم گھی میں تلیے۔

بالائی (کریم)کی پوریاں:
اجزاء:عمدہ بالائی (کریم)400 گرام، گھی 500 گرام،میدہ آدھا کلو، نمک ایک چائے کا چمچ، زعفران 5 گرام۔
ترکیب: بالائی اور میدہ کو ملا کر ہلکی آنچ پر رکھیں اور کسی چمچ سے چلاتے رہیں تاکہ جل نہ جائے۔ نمک اور زعفران بھی شامل کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد میں یہ مرکب گندھے ہوئے آٹے کی طرح سخت ہو جائے گا۔ اسے اتار لیں اور ٹھنڈا کر کے چھوٹے چھوٹے پیڑے بنا کر پوریاں بنائیں اور گھی میں بادامی سینک کر کھائیں۔ اگر میٹھی پوریاں بنانی مقصود ہوں تو میدہ اور بالائی کے ساتھ حسب ضرورت شکر شامل کر لیں۔

ملک شیک
اجزاء: شربت 4 کھانے کے چمچ، دودھ 2 کپ، چینی حسب ضرورت، برف کے کیوبز حسب ضرورت، پستہ، بادام حسب خواہش
ترکیب: ایک بلینڈر میں دودھ، چینی اور برف کے کیوبز ڈال کر 2 سے 3 منٹ کیلئے بلینڈ کر لیں۔ گلاس میں نکالیں اور کٹے ہوئے پستے، بادام چھڑک کر پیش کریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
امریکہ :مہاجروں کی سرزمین

امریکہ :مہاجروں کی سرزمین

'' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘امریکہ دراصل مہاجروں کی سرزمین ہے۔ ایسے ملک کے متعلق عام فہم الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ '' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ تو بے جا نہ ہوگا۔ امریکہ کے اصل مکین اس وقت آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ باقی سارے لوگ کوئی کہیں سے آیا تو کوئی کہیں سے۔ گوروں نے تین چار صدی قبل اپنی سہولت اور خدمت کیلئے افریقہ کے کالے لوگوں کو یہاں بسایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہی کالے انہی کے حاکم بنے بیٹھے ہیں۔ ان میں سابق صدر بارک اوباما، سابق وزرائے خارجہ بیڈن پاول اور کونڈالیزا رائیس نمایاں شخصیات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ راقم نے دیکھا کہ امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں کئی اہم عہدوں پر کالے براجمان ہیں۔ پولیس چیف، شہروں کے میئر، عالمی شہرت کی حامل یونیورسٹیوں کے سربراہ اور کئی محکموں میں کالے بلاتفریق اپنا اپنا رول ادا کر رہے ہیں، گو یہ مقام انہیں بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ کالوں(سیاہ فام) کو یہ شہری آزادی اور عزت دلوانے کی خاطر امریکہ کے نامور صدور کو بھی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لیکن آج کل امریکہ میں تعصب کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ امریکہ اور اہل امریکہ نے خندہ پیشانی سے باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے۔ یقیناً یہ فراخ دلی کا ثبوت ہے۔ باہر کی دنیا سے آئے ہوئے ایسے ایسے دانشور اور انٹلیکچوئل اکٹھے ہو گئے ہیں کہ آج انہوں نے ساری دنیا کو آگے لگا لیا ہے۔ حکومت نے تھنک ٹینکوں کا ایک بریگیڈ تشکیل دے دیا ہے جس کے نتیجہ میں امریکہ نے ساری دنیا کو ایک شہر کی حیثیت دے کر خود کو کوتوال شہر بنا لیا ہے۔ یہ امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ شمال اور جنوب میں صرف دو معصوم سے ممالک کی اسے قربت حاصل ہے۔امریکہ بذات خود اتنا بڑا ملک ہے کہ اس کی 50 ریاستوں میں سے کئی ریاستیں دنیا کے کئی ممالک سے بھی بڑی ہیں۔ قدرت نے دو بڑے سمندروں کے ہزار ہا میل لمبے کنارے دیئے ہیں۔ امریکہ میں ہر طرح کا موسم موجود ہے۔ اتنی نسلوں اور قسموں کے لوگ وہاں آباد ہیں جس کی نظیر دنیا کے کسی اور ملک میں ملنی مشکل ہے۔ گویا امریکہ ایک طرح سے چوں چوں کا مربہ ہے۔ دنیا کی ہر زبان کے لوگ امریکہ میں موجود ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اخبار امریکہ سے شائع ہو رہا ہے۔ اور پھر جمہوریت کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عالمی سطح پر کشتی لڑنے والا پہلوان بھی اپنی ریاست کا گورنر منتخب ہو جاتا ہے۔ کبھی وقت تھا کہ برطانیہ کی نو آبادیات میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اب یہ اعزاز امریکہ کو حاصل ہے۔ آج امریکہ کا دائرہ اختیار آٹھ ٹائم زونوں پر محیط ہے۔ اس ملک کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جیسے ہمارے ملک کی سرحدوں سے شروع ہو کر فلپائن تک ایک ہی ملک ہو۔اگر آپ سابقہ سوویت یونین کی کسی ریاست یا کسی عرب ملک میں چلے جائیں تو ہر وقت آپ کو اپنی شناخت کیلئے پاسپورٹ رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں اگر آپ ایک دفعہ داخل ہو گئے تو آپ اپنا پاسپورٹ اپنے اٹیچی میں سنبھال کر رکھ لیں، کہیں کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹ سے اپنے ملک واپس جا رہے ہوں آپ سے پاسپورٹ طلب نہیں کیا جائے گا۔خیر یہ تو امریکہ کا ایک رخ ہے، امریکہ میں ایسے ایسے جرائم جنم لیتے ہیں جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے۔ پولیس والوں کو مجرموں کے ہاتھوں پٹتے دیکھا ہے۔ پولیس سے اسلحہ چھین کر پولیس پر ہی استعمال ہونے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ سوفٹ چوڑی سڑک کے ایک طرف سے سرنگ کھود کر بنکوں کی تجوریاں خالی کرنے کے واقعات بھی امریکہ میں ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھ سالہ بچے کو باپ کی کار کی چابیاں Ignitionمیں ڈال کر کار کو شہر کی سڑکوں پر گھماتے ہوئے دیکھا گیا۔ اور تو اور ایک 13سالہ بچے نے ایئرپورٹ سے سیسنا طیارہ نہ صرف اڑایا بلکہ بحفاظت قریبی شہر کے ایئرپورٹ پر اتار بھی لیا۔ خیر جتنا بڑا ملک اتنی بڑی باتیں۔مذہب کی اتنی آزادی ہے کہ کئی چرچوں کے ماتھے پر برائے فروخت کے بورڈ آویزاں ہیں۔ بلکہ کئی چرچ تو مساجد میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کہیں مذہبی تعصب نظر نہیں آتا، ہاں کہیں ایک آدھ مثال ہے تو وہ کسی کا ذاتی جنون ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں ایسی ایسی قدرتی آفات آتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اگر کہیں آگ بھڑک اٹھتی ہے تو کیلیفورنیا کے وسیع جنگل میل ہا میل تک شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ سمندری طوفان آتا ہے تو پورے کے پورے مکانات سڑکوں پر دھرے نظر آتے ہیں۔ اگر بجلی چلی جائے تو پورے امریکہ کا 1/4(ایک چوتھائی) تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ ہمارے ساتھ ہوا کیسے؟ مگر پھر بھی امریکہ کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے نہ اس کی تھانیداری پر۔ امریکہ ہر طور اپنا جھنڈا بلند کئے ہوئے ہے۔  

’’میں چڑیا گھر میں ہوں‘‘

’’میں چڑیا گھر میں ہوں‘‘

یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے والی سب سے پہلی ویڈیوآپ روزانہ یوٹیوب پر بہت سی ویڈیو دیکھتے ہیں جن میں سے کچھ ویڈیو محفوظ (سیو) کر لیتے ہیں اور بعض کو شیئر بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ذہنوں میں ایک سوال آتا ہے کہ سب سے پہلے یو ٹیوب پر کونسی ویڈیو اپ لوڈ کی گئی تھی؟۔ تو آئیے ہم کو آپ کوبتاتے ہیںکہ وہ کونسی ویڈیو تھی جو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی، اس کا تخلیق کار کون تھااور اس نے یہ ویڈیوکہاں پر جا کر شوٹ کی تھی۔ 2005ء کے آغاز میں انٹرنیٹ کا جال دنیا بھر میں پھیل چکا تھا اور تقریباً ہر کوئی انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا تھا۔ 14 فروری 2005ء میں پے پال کمپنی کے تین سابق ملازمین جاوید کریم، سٹیوچن اور چاڈ لی نے انٹرنیٹ پر ویڈیو شیئرنگ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ''یو ٹیوب‘‘ کا آغاز کیا۔ یو ٹیوب کی تخلیق نے ویڈیو دیکھنے، ویڈیو بنانے اور ویڈیو شیئر کرنے میں انقلاب برپا کر دیا۔یو ٹیوب کے آنے سے دنیا میں ایک نئی صنعت قائم ہوئی اورآج یوٹیوبرز اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے اشتہارات کی مد میں اچھی خاصی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ یہ 7 اپریل 2005ء کی بات ہے جب جاوید کریم نے ''می ایٹ دی زو‘‘نامی پہلی یوٹیوب ویڈیو پوسٹ کی۔ 18 سیکنڈ کی ویڈیو، جس کا عنوان ہے ''میںچڑیا گھر میں ہوں‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جاوید، کریم، یو ٹیوب کے شریک بانی، سین ڈیاگو چڑیا گھر میں ہاتھیوں کے ایک جھنڈ کے سامنے کھڑے ہیںاور کہہ رہے ہیں کہ ''ٹھیک ہے، تو یہاں ہم ہاتھیوں کے سامنے ہیں، وہ ویڈیو کلپ میں مزید کہتے ہیں ''ان لڑکوں کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ ان کے پاس واقعی، واقعی، واقعی لمبے تنے ہیں، اور یہ بہت اچھا ہے اور بس اتنا ہی کہنا ہے‘‘۔''می ایٹ دی چڑیا گھر‘‘ کو جاوید کریم نے اپ لوڈ کیا تھا، جو یوٹیوب کے تین بانیوں میں سے ایک ہیں، اور اسے سین ڈیاگو چڑیا گھر میں کچھ ہاتھیوں کے ساتھ ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔آج، ''Me At the Zoo ‘‘کو پانچ کروڑ چالیس لاکھ (54,000,000) سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے اور تقریباً دس لاکھ اس پر تبصرے ہیں۔ جاوید کریم کی اس ویڈیو نے انیرنیٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا اور یوٹیوب کو ویڈیو شیئرنگ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بنانے میں مدد کی۔ اس ویڈیو نے کئی نئی آن لائن صنعتیں شروع کیں اور لوگوں کے میڈیا استعمال کرنے کا طریقہ بدل دیا۔آج کل یوٹیوب پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والے یوٹیوبرزنے زیادہ تر روایتی طریقہ اپنا رکھا ہے جیسا کہ ''میرے چینل کو سبسکرائب کریں،لائک کریں اور کمنٹ ضرور کریں۔ جاوید کریم کی ویوڈیو بہت ہی سادہ ہے اور انہوں نے صرف اتنا ہی کہہ کر ویڈیو ختم کردی کہ ''بس اتنا ہی کہنا ہے ‘‘۔''می ایٹ دی زو‘‘ ویڈیو اپ لوٹ ہونے کے ایک سال بعد جاوید کریم اوران کے ساتھی شریک بانی نے یہ پلیٹ فارم گوگل کو 1.65 بلین ڈالرمیں فروخت کردیا تھااور اس وقت یوٹیوب کے مطابق یوٹیوب پلیٹ فارم پر ہر ماہ 2 ارب سے زیادہ صارفین وزٹ کرتے ہیں اور ویڈیوز دیکھتے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے یوٹیوب انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پلیٹ فارم ہے۔ اس وقت ٹی وی شوز، فلموں اور لائیو سٹریمنگ سروس کے ساتھ یو ٹیوب انٹرنیٹ کا سب مقبول پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ یوٹیوب انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں روزانہ ایک ارب گھنٹے کا مواد دیکھا جاتا ہے اور یہ سب جاوید کریم کی ویڈیو''می ایٹ دی زو‘‘ کے اپ لوڈ ہونے کے ساتھ شروع ہوا۔ یوٹیوب کے ماہانہ 2.5 ارب سے زیادہ صارفین ہیں جو اجتماعی طور پر روزانہ ایک ارب گھنٹے سے زیادہ ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ مئی 2019ء تک، ویڈیوز کو پلیٹ فارم پر 500 گھنٹے سے زیادہ مواد فی منٹ کی شرح سے اپ لوڈ کیا جا رہا تھا اور 2021ء تک، مجموعی طور پر تقریباً 14 ارب ویڈیوزیو ٹیوب پر اپ لوڈ ہو چکی تھیں ۔اکتوبر 2006ء میں، یوٹیوب کو گوگل نے 1.65 بلین ڈالرمیں خریدا تھا ۔ گوگل نے صرف اشتہارات سے آمدنی سے یوٹیوب کے کاروباری ماڈل کو بڑھایا، بامعاوضہ مواد جیسے فلمیں اور یوٹیوب کے ذریعہ تیار کردہ خصوصی مواد کی پیشکش تک۔ یوٹیوب نے گوگل کے ایڈسینس پروگرام میں شامل کیا، جس سے یوٹیوب کے صارفین کی آمدن میں اضافہ ہوا اور 2022ء میں یوٹیوب کی سالانہ اشتہاری آمدنی بڑھ کر 29.2 بلین ڈالر ہوگئی جو کہ 2020ء کے مقابلے میں 9 بلین ڈالر زیادہ بنتی ہے۔گوگل نے خریدار ی کے بعد یوٹیوب کی ویب سائٹ کو مزید بہتر بنایا اور موبائل ایپس ، نیٹ ورک ٹیلی ویژن اور دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ لنک کر کے یوٹیوب کے صارفین میں اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر ویڈیو کیٹیگریز میں میوزک ویڈیوز، ویڈیو کلپس، خبریں، مختصر اور فیچر فلمیں، گانے، دستاویزی فلمیں، مووی اور ٹیزر ٹریلرز، لائیو سٹریمز، وی لاگز اور بہت کچھ شامل کیا۔ یوٹیوب پلیٹ فارم پر زیادہ تر موادصارفین یعنی یوٹیوبرز کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے۔YouTube نے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اپنی ترقی اور کامیابی کے باوجود یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر بعض اوقات مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلانے، کاپی رائٹ شدہ مواد کے اشتراک، اپنے صارفین کی رازداری کی خلاف ورزی، سنسرشپ کو فعال کرنے، بچوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو خطرے میں ڈالنے، اور پلیٹ فارم کے متضاد یا غلط نفاذ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔   

آج کا دن

آج کا دن

'' اپالو 16‘‘ کی چاند سے زمین پر واپسی 27 اپریل 1972ء کو امریکہ کی طرف سے خلا میں بھیجا جانے والا خلائی جہاز ''اپالو 16‘‘ چاند سے واپس زمین پر اترا۔ ''اپالو 16‘‘ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اپالو خلائی پروگرام کا دسویں مشن تھا، جو ''ناسا‘‘ کے زیر انتظام تھا اور چاند پر اترنے والا یہ پانچواں اور اختتامی مشن تھا۔ اس مشن کے دوران خلاء بازوں نے 71گھنٹے چاند پر گزارے اس دوران انہوں نے 20 گھنٹے 14 منٹ پر مشتمل تین بار چاند پر چہل قدمی بھی کی۔یونان پر قبضہ1941ء میں آج کے دن یونان پر اس وقت قبضہ شروع ہوا جب نازی جرمنی نے اپنے اتحادی اٹلی کی مدد کیلئے سلطنت یونان پر حملہ کیا۔ جون 1941ء تک تمام یونان پر قبضہ کر لیا گیا۔ یہ قبضہ جرمنی اور اس کے اتحادی بلغاریہ کو اکتوبر 1944ء میں اتحادیوں کی جانب سے دباؤ پر دستبردار ہونے تک جاری رہا۔ ڈنیپروپیٹروسک دھماکے27اپریل 2012ء میں یوکرین میں ڈنیپرو پیٹروسک کے چار ٹرام سٹیشنز پر دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بم دھماکے دو گھنٹے کے اندر ہوئے۔ چار گھریلو ساختہ بم چار ٹرام اسٹیشنوں کے قریب کوڑے دان میں رکھے گئے تھے۔ پہلا بم اس وقت پھٹا جب ٹرام مسافروں کو لینے کیلئے سست ہو رہی تھی۔ دوسرا بم 30 منٹ بعد پھٹا۔ تیسرا بم دوسرے کے فوراً بعد پھٹا۔ چوتھے دھماکے کے بعد ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان معاہدہ27 اپریل 2018ء کو شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن کے درمیان کوریا کے امن، خوشحالی اور دوبارہ اتحاد کیلئے پانمونجوم اعلامیہ پر کوریائی سربراہی اجلاس جوائنٹ سکیورٹی ایریا میں پیس ہاؤس کی جانب سے دستخط کئے گئے۔ اعلامیے کے مطابق شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی حکومتوں نے کوریائی جنگ اور کوریائی تنازعے کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کیلئے تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔یہ اعلامیہ 6 ستمبر 2018 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔وِلو(willow) جزیرہ کی تباہی 27 اپریل 1978ء کو وِلو (willow) آئی لینڈ، ویسٹ ورجینیا میں پلیزنٹس پاور اسٹیشن پر زیر تعمیر کولنگ ٹاور گر کر تباہ ہو گیا۔اس خوفناک حادثے میں تعمیراتی سائٹ پر موجود 51 کارکن جاں بحق ہوئے۔ اسے امریکی تاریخ کا سب سے مہلک تعمیراتی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی کے دوران، دریائے اوہائیو کے کنارے وادی میں کوئلے سے چلنے والے بہت سے پاور پلانٹس بنائے جا رہے تھے۔ الیگینی پاور سسٹم ولو آئی لینڈ پر ایک اور بڑا پلانٹ بنا رہا تھا، جس میں دو الیکٹرک جنریٹر موجود تھے ۔ 

قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

زمانہ قدیم کے انسان نے جب معاشرہ تشکیل دیا تو اسے سب سے پہلے اپنے استعمال کیلئے دو چیزوں کے ذخیرہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی ، ایک پانی اور دوسرا اناج۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی اس روئے زمین پر دھات ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان کو صرف مٹی ہی دستیاب تھی، جسے بروئے کار لاکر انسان نے پانی اور اناج کو ذخیرہ کرنے کیلئے کٹورہ نما برتن ایجاد کیا ہو گا۔ شاید یہ اس روئے پر پہلا برتن ہو گا۔ اس کے بعد کے انسان نے شکار کیلئے جس اوزار کو استعمال کیا وہ پتھر سے بنا نوک دار تیر نما ہتھیار تھا۔ بعد ازاں دھات کی ایجاد کے ساتھ ہی انسان نے دھات سے کلہاڑی ، چھری اور اس طرح کے دیگر اوزار اپنی روزمرہ زندگی کی ضرورت کے مطابق بنانا شروع کئے۔ لکڑی کا استعمال بھی انسانی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جب انسان نے ایندھن کے علاوہ لکڑی کو تعمیراتی استعمال کے ساتھ ساتھ گھریلو ضرورت کی اشیاء بنانے میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ شروع میں لوگ اپنی ضرورت کی اشیا خود بنا لیا کرتے تھے جسے اڑوس پڑوس والے باوقت ضرورت مستعار بھی لے لیا کرتے تھے۔لیکن جب معاشرتی حجم میں اضافہ ہوتا گیا تو انسانی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں تو ایک فرد یا ایک خاندان کیلئے مختلف انواع کی اشیاء ایک ساتھ بنانا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ افراد نے اپنی آسانی کے مطابق یہ کام بانٹ لئے۔ شاید یہی وہ دور تھا جب اس معاشرے میں ہنر کی تقسیم کی بنیاد کے ساتھ ہی انسانی پیشے کے حوالے سے انسانی ذات کی بھی بنیاد پڑی۔دراصل ''ذات‘‘ بنیادی طور پر ایک سماجی رابط کا نام ہے جو اسے اپنے پیشے ، ثقافت ، تہذیب اور وراثت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔یوں لکڑی کے ہنرمند کو '' ترکھان‘‘ ، لوہے کے کاریگر کو '' لوہار‘‘ ، اعلیٰ ہذا القیاس موچی ، جولاہا ، کمہار وغیرہ کی ذاتیں معرض وجود میں آتی چلی گئیں۔ ان پیشوں کی شناخت انیسویں صدی عیسوی میں اس وقت اور بھی نمایاں ہو گئی جب پنجاب کے دیہاتوں میں بالخصوص سکھ شاہی کے دور میں اپنی روزمرہ زندگی کے دوران سرداروں اور وڈیروں کو اپنے لئے کمیوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی۔جہاں یہ لوگ زراعت کیلئے ہل، درانتی اور دیگر اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ کپڑا بننے،رنگنے ، جوتیاں بنانے ، لکڑی سے فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء بنانے میں مصروف رہتے تھے اور یوں یہ ''کردار‘‘ ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک بن کے رہ گئے۔ ذیل میں ہم ان میں سے چند کرداروں کا فرداً فرداً تعارف کراتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو چکے ہیں یا معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔کمہارکمہار ، مٹی کے برتن بنانے والے کو کہتے ہیں۔ یہ پیشہ انسانی تہذیب کا سب سے پرانا پیشہ یوں ہے کہ انسان نے جب معاشرے کو تشکیل دیا تو سب سے پہلے اس نے مٹی کے برتنوں کو رواج دیا ۔اس کے بعد قدیم ترین تہذیبوں سے انسانی اور جانوروں کی شکل میں کچھ مورتیاں بھی ملی تھیں جو چوبیس ہزار سال قبل مسیح کے دور کی بتائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ چودہ ہزار سال قبل مسیح میں میسو پیٹیمیا ( موجودہ عراق )سے مٹی کی بنی اینٹیں بھی ملی ہیں۔ایک وہ دور تھا جب مٹی سے بنے پانی کے کٹورے سے لے کر ہانڈی تک روزمرہ ضرورت کی بیشتر اشیاء کمہاروں کی کاریگری کا پیش خیمہ ہوتی تھیں۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ دھات ، پلاسٹک اور چائنا مٹی کے بننے والے برتنوں کی تیاری ہے۔جس کے باعث اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ نتیجتاً اس قدیم فن کے روح رواں دن بدن مالی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کے سبب وہ اپنی نئی نسل کو اس فن سے دور رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور یوں صدیوں پرانا یہ فن اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اب آخری سانس لینے پر مجبور ہو چکا ہے۔لوہارکسی دانشور نے ایک موقع پر کیا خوب کہا تھا کہ ''کاشتکاری ، لوہار کے بغیر ایسے ہی جیسے پانی کے بغیر کاشتکاری‘‘۔ اگر بات پنجاب کی، کی جائے تو پنجاب میں صدیوں سے زراعت کا شعبہ نمایاں رہا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کاشتکاری کی غرض سے دیہاتوں میں آباد کہنا کرتی تھی۔ کاشتکاری چونکہ ایک ''ٹیم ورک‘‘ کا نام ہے اس لئے دیہاتوں میں اس ٹیم کو ''کامے‘‘ یا ''کمی‘‘ کہا جاتا تھا۔ زراعت میں ان افراد کی حیثیت بنیادی ہوتی تھی اس لئے ان کے بغیر کاشتکاری یا زرعی نظام کا چلنا ناممکن ہوتا تھا۔یہ کامے جو لوہار ،ترکھان ، نائی ، مصلی، جولاہوں وغیرہ پر مشتمل ہوتے تھے، انہیں معاشرے میں نیچ سمجھا جاتا تھا۔لوہار ایسا پیشہ تھا جو زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ زرعی اوزار بنانا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے تھا۔چنانچہ یہی وجہ تھی کہ لوہار ، کمی طبقے کا سب سے معزز کردار سمجھا جاتا تھا ۔ اب وقت بدل گیا ہے کیونکہ بیلوں کی جوڑی کے ساتھ لوہار کے بنے ہلوں کی جگہ اب ٹریکٹر نے لے لی ہے ، لکڑیاں کاٹنے والے آلات کی جگہ الیکٹرک آرے نے لے لی حتی کہ فضل کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک کے تمام مراحل اب جدید مشینوں نے سنبھال لئے ہیں۔ایسے میں اب لوہار کا وجود صرف چھوٹی چھوٹی چھریوں، درانتیوں اور کچھ دیگر اوزاروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کے سبب یہ اپنی اگلی نسل کو اپنا موروثی پیشہ منتقل کرنے پر تیار نہیں ہے ۔موچیموچی کو عام طور پر ''چمار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں موچی کو دیہی علاقوں بالخصوص پنجاب کے دیہاتوں میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ موچی کا کام ویسے تو دیہی علاقوں میں جوتیاں بنانا، مرمت کرنا، بیل گاڑیوں اور دیگر جانوروں کے چھانٹے بنانا اور چمڑے کے دوسرے متفرق کام کرنا ہوتا تھا لیکن دیہاتوں میں موچی سے فصلوں کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک اور محنت مزدوری کے دوسرے کام بھی لئے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ موچی کا کام جوتے بنانے تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ دیگر پیشوں بالخصوص زرعی پیشے میں مشینی انقلاب نے ہنر مندوں کی ہنر مندی کو مشینوں کے تابع لا کھڑا کیا۔ نتیجتاًجفت ساز (موچی )تیزی سے بے روزگار ہونے لگے اور اب یہ پیشہ صرف جوتا مرمت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ مشینوں پر تیار جوتے باآسانی دستیاب ہو چکے ہیں جس کے سبب ان کی نئی نسل اب تیزی سے اس خاندانی پیشہ سے کنارہ کشی اختیار کرتی جارہی ہے۔ جولاہااب سے لگ بھگ چار، پانچ عشرے پہلے تک ''جولاہا‘‘ جسے پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ''پاولی‘‘بھی کہا جاتا ہے ،پنجاب کی ثقافت اور سماجی زندگی کا ایک اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ پنجاب کے ہر گاؤں میں جہاں نائی ، کمہار ، موچی ،تیلی، کمہار اور ترکھان ہوا کرتے تھے وہیں کم از کم ایک یا دو گھر ایسے ضرور ہوا کرتے تھے جن کے ایک کمرے میں کھڈیاں لگا کر کھیس ، کھدر اور دریاں وغیرہ بنائی جا رہی ہوتی تھیں، اور یہ گھر کسی جولاہے کا ہوتا تھا۔ اپنے ہی گاوں کی کپاس سے کھڈیوں پر تیار کردہ کپڑے گاؤں کے باسیوں کا پہناوا اور ان جولاہوں کا ذریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔ جولاہا بڑے مزے میں تھا کہ اچانک حکومت کو '' ترقی‘‘ کی سوجھی اور قرار پایا کی دیسی کپاس کی کاشت ملک کیلئے شجر ممنوعہ ہے، اس کی جگہ امریکن کپاس نے لے لی اور کھڈیوں کی جگہ ٹیکسٹائل ملوں نے۔ جولاہا حیران پریشان کہ اب وہ کرے تو کیا کرے ؟ پیٹ کا ایندھن بھرنے کیلئے وہ انہی ملوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو گیا۔یوں ماضی کا ایک اہم کردار ہمیشہ کیلئے گمنامی کے اندھیروں میں کھو گیا۔صرف یہی نہیں بلکہ ماضی کے ایسے ہی لاتعداد کردار جن میں چوہڑے (خاکروب )، ماچھی ، ماشکی ،مصلی، ملاح، دھوبی ، قصاب ، ترکھان اور ایسے ہی بہت سارے مزید طبقات بھی شامل تھے اب رفتہ رفتہ وقت کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔  

رضیہ سلطان: عظیم تخت نشین خاتون

رضیہ سلطان: عظیم تخت نشین خاتون

ہندوستان کی تاریخ میں عظیم اور جانباز خواتین میں سے ایک رضیہ سلطان حیرت انگیز بہادری اور بے مثال حولہ سے بھرپور نادر الوجود شخصیت کی حامل خاتون سلطان، پردہ نشین معاشرہ کا نایاب ہیرا تھیں۔ جس نے تخت سلطانی پر رونق افروز ہو کر اس عہد میں مرد سلطان کے ہم پلہ اپنی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا اور تقریباً 785 سال پہلے اس سماج میں جس میں عورت کا پردے میں رہنا مستحسن سمجھا جاتا تھا، یہ ثابت کردیا کہ جب اس سماج کی بیٹی پر سلطان ہند کی ذمہ داری آئی تو اس نے سلطنت کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا اور پورے طبقۂ نسواں کیلئے اس کی شخصیت کشش کا سرچشمہ بنی۔ رضیہ سلطان کی شخصیت اور کارناموں سے تمام ہندوستانی خواتین کو تحریک ملتی ہے۔ بہادری اور حوصلہ کی علامت رضیہ سلطانہ جب آلات حرب سے آراستہ ہو کر گھوڑے پر سوار جنگ کیلئے نکلتی ہوں گی تو وہ منظر بہت ہی دلکش ہوتا ہوگا۔رضیہ سلطان نے ہندوستان پر تین سال چھ مہینے اور چھ دن حکومت کی اس مختصر عرصے میں اس نے اپنی لیاقت اور عظمت کے جوہر، دوست اور دشمن دونوں سے تسلیم کرا لئے۔ تخت دہلی پر رضیہ کے فائز ہونے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل امور پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سلطنت دہلی کی تاریخ میں دہلی کے عوام نے پہلی بار کسی کو اپنی مرضی کے مطابق تخت پر بٹھایا تھا۔ اس کے بعد سے دہلی کے عوام کی حمایت رضیہ کے استحکام کا خاص ذریعہ بنی رہی۔ جب تک وہ دہلی سے باہر نہیں نکلی اس وقت تک کوئی بھی بغاوت اس کے خلاف کامیاب نہ ہو سکی اور نہ محل کے اندر کوئی انقلاب برپا ہوا۔ اس نے اپنی تخت نشینی کو ایک معاہدے کی شکل میں یہ کہہ کر دے دی کہ اگر وہ عوام کے توقعات پر پوری نہ اتریں تو عوام کو حق ہوگا کہ وہ اسے تخت سے برطرف کر دیں۔ اس واقعہ سے التمش کا انتخاب صحیح ثابت ہوتا ہے۔دہلی کی فوج اور افسران نے رضیہ کو تخت پر بٹھایا تھا چنانچہ صوبائی گورنر جو عام طور سے ترک حکمراں طبقے کے ایک طاقتور جزو ہوا کرتے تھے، فطری طور پر خود کو ذلیل اور نظر انداز کردہ محسوس کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے آغاز ہی سے رضیہ کو ان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رضیہ نے یہ ثابت کردیا کہ وہ صورتحال کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کر سکتی تھی۔ اقتدار پر قابض ہونے کیلئے اس کا پہلا قدم ہی اس کی سیاسی شخصیت کی دلیل ہے۔ رضیہ کے اندر وہ تمام قابل ذکر خوبیاں موجود تھیں جن کا بادشاہوں کے اندر پایا جانا ضروری ہے، لیکن اس کا عورت ہونا اس کی سب سے بڑی دشواری تھی۔ رضیہ نے تخت نشین ہونے کے بعد تدبر سے کام لیا۔ بدایو، ملتان، جھانسی اور لاہور کے اقطاع دار، جو اس کے مخالف ہو گئے تھے ان کے درمیان میں ایسا اختلاف پیدا کیا کہ وہ آپس میں ہی لڑنے جھگڑنے لگے اور ان کی یکجہتی ختم ہو گئی۔ رضیہ کی اس ہوشمندانہ تدبیر سے اس کا وقار بڑھ گیا۔ اس نے حکومت کے نظام کی نئی تشکیل کرکے خواجہ مہذب الدین کو وزیر بنایا اور نئے نئے اقطاع دار مقرر کئے۔ اس کے بعد شاہی دربار کے افسران کی تقرری ہوئی۔ملک جمال الدین یاقوت کو امیر آخور (گھوڑے کے اصطبل کا داروغہ) مقرر کیا۔ ترکوں نے جمال الدین کی تقرری کی مخالفت کی کیوں کہ وہ ایک حبشی غلام تھا اور اس سے پہلے اس عہدے پر صرف ترک افسران ہی مقرر ہوتے تھے۔وفادار اور قابل اعتماد انتظامیہ کا عملہ مقرر کرنے کے بعد رضیہ نے معاملات پر براہ راست کنٹرول رکھنے کیلئے توجہ کی۔ وہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی، جبکہ امرا رضیہ کی مخالفت کر رہے تھے، کیونکہ وہ ایک مضبوط اور مطلق العنان حکمراں کو تخت پر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ رضیہ اگر پردہ میں رہتی تو ایسا ممکن نہیں تھا، جس تخت پر بیٹھتی تھی درباریوں اور عوام کے حصے سے ایک پردہ کے ذریعے علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ اس طرح کا بھی انتظام تھا کہ محافظ خواتین اس کے پاس کھڑی رہتیں اور ان لوگوں کے بعد رضیہ کے خونی رشتہ دار ہوتے۔ انتظام غیر مناسب ثابت ہو رہا تھا۔ لہٰذا اس نے زنانہ لباس ترک کردیا اور قباو کلاہ پہن کر عوام کے سامنے حاضر ہوئی۔ کھلے بند گھوڑے پر سواری کرتی اور دربار میں موجود رہ کر حکومت کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتی۔ بہادر اور دلیر ہونے کے علاوہ، وہ ایک کامیاب سپاہی اور جنرل بھی تھیں۔ سیاسی سازشوں اور جوڑ توڑ میں مشاق تھی۔ اس کی وجہ سے ترکوں کی سلطنت کا وقار ہندوستان میں بڑھ گیا۔قطب الدین ایبک سے لے کر التتمش تک تمام سلاطین اپنے امراء کے سامنے تخت پر بیٹھنے سے جھجھکتے تھے، یعنی رضیہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی التتمش کے خاندان کے اور افراد اپنی شخصیت اور کردار کے لحاظ سے کمزور تھے، لیکن یہ صرف تنہا رضیہ ہی تھی جو اپنی صلاحیت اور لیاقت کی بنا پر سلطنت دہلی کی سیاست پر حاوی رہنے کی کوشش کرتی رہتیں۔ طبقات ناصری کے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ جلیل القدر، عاقل، عادل، کریم، عالم نواز، عدل گستر، رعیت پرور اور لشکر کش حکمراں تھیں۔

آج کا دن

آج کا دن

گوانتانامو بے کی فائلزگوانتانامو بے کی فائلز 24 اپریل2011ء میں دنیا کے سامنے آئیں اور کئی ایسے انکشافات ہوئے جنہوں نے پوری دنیا کو پریشانی میں مبتلا ء کر دیا۔ 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا گیا اور 2002ء میں گوانتانامو بے حراستی کیمپ قائم کیا گیا۔ دستاویزات میں قیدیوں کے بارے میں درجہ بندی کے جائزے اور انٹرویوز شامل تھے، جنہیں پینٹاگون کی مشترکہ ٹاسک فورس گوانتاناموبے نے لکھا تھا اور اس کا صدر دفتر گوانتانامو بے نیول بیس میں تھا۔ دستاویزات پر ''خفیہ‘‘ اور ''NOFORN‘‘ یعنی ایسی معلومات جو دوسرے ممالک کے نمائندوں کے ساتھ شیئر نہیں کی جاتیں کا نشان لگایا گیا تھا۔دستاویزات میں درج تھا کہ کس طرح سیکڑوں افراد کو بغیر کسی جرم کے کئی سال قید میںرکھا گیا۔برلن معاہدہ24اپریل1926ء کو جرمنی اور سوویت یونین کے درمیان برلن میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے مطابق دونوں ریاستیں غیر جانبداری اور عدم جارحیت کی پابند ہوں گی۔ اس معاہدے کے تحت جرمنی اور سوویت یونین نے پانچ سال کیلئے تیسرے فریق کی طرف سے ایک دوسرے پر حملے کی صورت میں غیر جانبداری کا عہد کیا۔ اس معاہدے نے جرمن اور سوویت معاہدے ''ریپالو 1922ء‘‘ کی توثیق کی۔29 جون 1926 ء کو برلن میں اس معاہدے کی توثیق کا تبادلہ ہوا اور یہ اسی دن سے نافذ العمل ہوا۔بشپس گیٹ دھماکہبشپس گیٹ بم دھماکہ 24 اپریل 1993ء کو ہوا، جب آئرش ریپبلکن آرمی نے لندن شہر کی ایک بڑی سڑک، بشپس گیٹ پر ایک خوفناک ٹرک بم دھماکہ کیا۔ ٹیلی فون پر دھمکیاں تقریباً ایک گھنٹہ پہلے بھیجی گئی تھیں جس کی وجہ سے حفاظتی اقدامات اٹھا لئے گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ دھماکے کی وجہ سے ہلاکتیں کم ہوئیں۔ اس دھماکے میں ایک نیوز فوٹوگرافر ہلاک اور 44 افراد زخمی ہوئے ۔ دھماکے نے قریبی چرچ کو تباہ کر دیا اور لیورپول سٹریٹ سٹیشن اور نیٹ ویسٹ ٹاور بھی تباہ ہو گئے۔دھماکے کے بعد بہت سی کمپنیوں نے حملوں یا اسی طرح کی آفات کی صورت میں ڈیزاسٹر ریکوری پلان متعارف کرایا۔ نقصان کی مرمت پر 350 ملین پاؤنڈز خرچ ہوئے۔ 1994ء میں جاسوسوں کا ماننا تھاکہ وہ ان افراد کی شناخت سے واقف ہیں جنہوں نے یہ حملہ کیا لیکن ان کی گرفتاری کیلئے ان کے پاس ثبوت موجود نہیں تھے۔وول ورتھ بلڈنگوول ورتھ بلڈنگ امریکہ میں ابتدائی طور پر بنائی جانے والی فلک بوس عمارتوں میں سے تھی جسے کاس گلبرٹ نے ڈیزائن کیا تھا ۔ یہ 1913ء سے 1930ء تک دنیا کی سب سے اونچی عمارت تھی، جس کی اونچائی 792 فٹ (241 میٹر) تھی۔ اس کی تعمیر کے ایک صدی سے زیادہ کے بعد تک یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی 100 بلند ترین عمارتوں میں سے ایک رہی۔