دو نسلوں کی گراں قدر محنت کا نمونہ:بروک لین برج
امریکہ مہاجرین کا ملک ہے اور ان مہاجرین میں براعظم افریقہ سے لائے ہوئے غلاموں کے علاوہ ایک کثیر تعداد اہل یورپ کی بھی ہے۔ جو کہ تقریباً ہر ملک سے ہجرت کرکے امرکہ سے آ بسے اور ان مہاجرین میں سے بہت قابل اور ذہین لوگ بھی موجود تھے۔ جنہوں نے جب امریکہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو اپنی تمام تر دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر انہوں نے ریڈ انڈین امریکہ کی تصویر ہی بدل کر رکھ دی۔
اسی طرح کے ذہین لوگوں میں سے ایک آدمی جان آکسٹس روئے بلنگ بھی تھا۔ اس کی فیملی جرمنی سے ہجرت کرکے امریکہ آ بسی تھی۔ نیویارک شہر کے قلب مین ہیٹن کو شہر کے دوسرے حصوں سے ملانے کیلئے اس سے قبل East Riverکے اوپر کوئی پل نہیں تھا ا ور دریائے ایسٹ کو عبور کرکے ہین ہیٹن آنے جانے کیلئے چھوٹی کشتیاں اور فیری ہی استعمال ہوتی تھیں۔ شہر کی انتظامیہ نے مین ہیٹن کو ملانے کیلئے جب اس کے اوپر پل بنانے کی تجویز پاس کی تو انہوں نے جان روئے بلنگ سے رابطہ کیا۔ اس سے قبل جان نے کئی پل ڈیلاوپئر پنسلوانیا، ٹیکساس اور اوہایو میں ڈیزائن کئے تھے لہٰذا جان نے بروک لین برج بھی ڈیزائن کرنے کی حامی بھر لی۔
اس نے تاریخی بروک لین پل کا ڈیزائن بنایا اور ایک دن سروے کے دوران اس کے پائوں پر ایسی چوٹ لگی جو بعد میں جان لیوا ثابت ہوئی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے واشنگٹن روئے بلنگ نے اپنے باپ کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ اس پل کی تعمیر شروع ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ روئے بلنگ پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ اپنے گھر میں بستر کا ہو کے رہ گیا۔ پھر بھی واشنگٹن روئے بلنگ اور اس کی بیوی Fmlyنے ہمت نہ ہاری۔ واشنگٹن کی بیوی خود ایک ماہر ریاضی دان اور انجینئرنگ کے رموز سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔ واشنگٹن اپنے بستر سے اپنی بیوی کو ہر طرح سے رہنمائی کرتا اور ان ہدایات پر اس کی بیوی ایملی پل کی سائٹ پر جا کر عمل درآمد کرواتی۔ اس طرح یہ پل دو نسلوں کی گراں قدر محنت سے 23مئی 1883ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچا اور تاریخ کا انوکھا باب رقم کیا۔
اس پل کی تعمیر پر 13سال کا عرصہ لگا جس میں دو نسلوں نے حصہ لیا اس پل کی تعمیر کے دوران 27کارکنوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
بروکلین برج 6016فٹ لمبا اور 85 فٹ چوڑا ہے جبکہ اس کے چھ لین ہیں۔ دو ستونوں کا درمیانی فاصلہ 1596 فٹ ہے۔ دریا کی سطح آب سے پل تک کا فاصلہ 135 فٹ ہے۔ اس پل کے بنے ہوئے 128 سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے اور ابھی بھی یہ پل رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب اس پل کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس وقت نیویارک میں یہ پہلا پل تھا۔ اس وجہ سے اس کو بہت پرانے پل کا درجہ حاصل ہے۔ اب بھی مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق روزانہ گزرنے والی گاڑیوں کی تعداد سوا لاکھ سے زائد ہے۔
پل کی تعمیر کے پہلے دن1800 گاڑیاں گزریں اور ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے اس پل کو پیدل عبور کیا جن میں ایملی سب سے آگے تھی اُس وقت کے امریکہ کے صدر Chester A Arthur نے افتتاح کے وقت اس پل کو عبور کیا۔ دوسری طرف بروک لین کے میئر نے اُن کا استقبال کیا۔
واشنگٹن روئے بلنگ کیونکہ بیماری کی وجہ سے اس قابل نہیں تھا کہ وہ افتتاحی تقریبات میں شرکت کر سکتا اس لئے افتتاحی تقریبات کے بعد صدر بذات خود واشنگٹن روئے بلنگ کے گھر گئے، اس کے ساتھ مصافحہ کیا اور پل کی تکمیل پر اس کو مبارک باد دی۔
یہ وہ پل ہے جس پر ٹریفک آج بھی دن رات رواں دواں ہے لیکن اس کے بعد بنے ہوئے کئی پل جو اس کے دائیں بائیں بنتے رہے آج ختم ہو کر ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ پل آج بھی امریکہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مئی 2008ء میں اس پل کی سوا سو سالہ تقریبات بھی منائی گئیں۔