عظیم مسلم ریاضی دان:البغدادی
البغدادی کا پورا نام ابو منصور عبدالقاہرا بن طاہر ابن محمد ابن عبداللہ التمیمی الشافعی البغدادی ہے۔ وہ بغداد میں پیدا ہوئے اور 1037ء میں وفات پائی۔ البغدادی کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق قبیلہ تمیم سے تھا اور وہ شافعی مسلک کے پیرو کار تھے۔
البغدادی جب سن شعور کو پہنچے تو اپنے والد کے ہمراہ ایران کے شہر نیشا پور چلے آئے۔ خراسان کے بہت سے علماء نے اس سے کسب فیض کیا اور وہ ان کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہو گئے۔ وہ سترہ علوم کا درس دیتے تھے، لیکن انہیں فقہ، جبر و مقابلہ، قانون وراثت اور دینیات جیسے علوم پر کامل دستگاہ حاصل تھی۔ وہ بہت مالدار آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی دولت علم اور علماء کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ جب ترکمانوں نے نیشاپور میں فتنہ فساد برپا کیا تو البغدادی نیشا پور کو چھوڑ کر نسبتاً ایک پرسکون شہر اسفرائین منتقل ہو گئے۔ یہاں بھی انہوں نے علم کے حصول اور اس کے فروغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کئی برس تک مسجد میں مختلف موضوعات پر خطبات دیتے رہے اور اس خدمت کے بدلے میں کبھی معاوضہ قبول نہیں کیا۔
البغدادی سے بہت سی تصانیف منسوب کی جاتی ہیں لیکن تاحال ان پر تحقیق کا عمل جاری ہے۔ ان کتابوں میں ان کی معروف ترین کتاب ''الفرق بین الفرق‘‘ ہے، جو اسلامی فرقوں اور بعض غیر اسلامی مذاہب پر ایک مفید کتاب ہے۔
البغدادی کو حساب میں بھی خاصا ورک حاصل تھا۔ یہاں اس موضوع سے متعلق ان کی دو کتابوں کے حوالے سے بات کی جائے گی۔ البغدادی کی ان دو تصانیف میں سے ایک ''کتاب فی المساح'‘‘ اور دوسری التکمیل فی الحساب‘‘ ہے۔ اوّل الذکر میں عام پیمائشی اصول بیان کئے گئے میں اور لمبائی، رقبے اور حجم کی اکائیوں سے متعلق بحث کی گئی ہے۔ دوسری تصنیف''التکمیل فی الحساب‘‘ بھی خاصی اہم ہے۔ ان کے تعارف میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے قبل کی ریاضیاتی تحریریں یا تو بہت زیادہ مختصر ہیں اور یا پھر یہ حساب کے صرف کسی ایک خاص نظام سے متعلق ہیں۔ اسی چیز کے پیش نظر انہوں نے اپنی کتاب میں حساب کی مروجہ تمام ''قسموں‘‘ سے بحث کی ہے اور ریاضی کے علم کو زیادہ جامع انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس دور میں اسلامی دنیا تین حسابی نظاموں سے متعارف تھی۔ یہ تین نظام انگشت شماری، ستنی پیمانہ اور ہندی حساب تھے۔ ہندی حساب کے کچھ عرصہ بعد یونانی ریاضیاتی تحریریں بھی مسلم حساب دانوں تک پہنچ گئیں اور ان تحریروں کے ذریعے وہ اقلیدس، نکوماچس اور دوسرے یونانی ریاض دانوں سے بھی متعارف ہو گئے۔ یہ تمام ریاضیاتی نظام آہستہ آہستہ اسلامی روایت کے تحت یکجا ہو گئے۔ البغدادی نے ان نظاموں کو ایسے وقت میں پیش کیا، جب یہ ایک نئی روایت میں ڈھل رہے تھے لیکن ابھی تک اپنے مخصوص خدو خال برقرار رکھے ہوئے تھے۔ تاہم یہ نظام دوسرے ریاضیاتی نظاموں سے مختلف تصورات اور طریقے ضم کرکے انفرادی طور پر بھی خاصے توانا ہو چکے تھے۔
البغدادی نے اپنی تصنیف میں سات ریاضیاتی نظاموں سے بحث کی ہے ان میں سے پہلے دو نظام ہندسوں اور کسروں کے ہندی حساب سے متعلق ہیں۔ تیسرے نمبر پر سنتی پیمانے سے بحث کی گئی ہے، جسے ہندی اعداد میں بیان کیا گیا ہے اور ہندی طریق سے پیش کیا گیا ہے۔
چوتھے نمبر پر انگشت شماری کا نظام پیش کیا گیا ہے۔ البغدادی سے قبل عربی انگشت شماری سے متعلق دو تصانیف دستیاب ہیں۔ ان میں سے ایک تصنیف ابو الوفا اور دوسرے الکرجی(یا الکرخی) کی ہے۔ دونوں تصانیف میں زیادہ تر طویل اور پیچیدہ کسری نظام کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں غیر محدود مشترک کسر کا تصور پیش نہیں کیا گیا۔ البغدادی کی تصنیف میں یہ نظام دکھائی نہیں دیتا اور وہ ہندی نظام کو ترجیح دیتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس کی انگشت شماری آسان حلوں(شارٹ کٹس) اور محدود سلسلوں کے میزان کی طرح کے یونانی ریاضی سے لئے گئے موضوعات تک محدود ہے اور یہ ہندی حساب میں نہیں ہیں۔
بابل کے ریاضی دان ڈایوفانٹس کی کتابوں میں بھی یہی انداز اپنایا گیاہے۔ البغدادی کے بیان کردہ اگلے دو نظام غیر ناطق اعداد کے حساب اور اعداد کے خواص سے متعلق ہیں۔ اوّل الذکر نظام میں اقلیدس کی تصنیف ''اولیات‘‘ کی فصل ہم میں بیان کئے گئے غیر ناطق اعداد کے قوانین عددی بنیادوں پر پیش کئے گئے ہیں۔ دوسرے میں نکوماچس کی اصلاح کے ساتھ فیثا غورث کا نظریہ اعداد پیش کیا گیا ہے۔
البغدادی کی کتاب کا یہ حصہ دس باب پر مشتمل ہے، لیکن مسودے کے کچھ حصے غائب ہو چکے ہیں۔ صرف پہلے تین باب اور اصغری باب کی چند سطریں باقی ہیں۔ البغدادی کے بیان کردہ سات نظاموں میں سے آخری نظام یعنی کاروباری حساب کاروباری مسئلوں سے شروع ہوتا ہے اور عجیب معموں سے متعلق دو بابوں پر ختم ہوتا ہے۔ یہ عجوبے تفریحی مسئلوں یا اصول مقیاس کی کسی بھی جدید کتاب میں جگہ پا سکتے ہیں۔ یہاں ایک مثال دی گئی ہے جو یونانی، ہندی اور چینی ماخذ میں بھی پائی جاتی ہے۔
البغدادی کی تصنیف میں غالباً ایک ایسا مسئلہ حل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے جسے ازمنہ وسطیٰ کی ریاضیات کے مورخین نے بھی حل کرنے کی کوشش کی۔ انشاۃ ثانیہ کے ابتدائی دور کے لاطینی حساب دان دو گروہوں میں منقسم تھے۔ ایک گروہ ''Algorists‘‘کا تھا، جبکہ دوسر گروہ ''Abacists‘‘کا تھا۔ ان دونوں ناموں کی صحیح حقیت اس وقت معلوم نہیں تھی، لیکن اب معلوم ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ ہندو عربی حساب میں ''Abacus‘‘(تختہ شمار) استعمال کیا جاتا تھا۔ لہٰذا Abacists ایسے ریاضی دان ہو سکتے ہیں جو تختہ شمار کو استعمال میں لاتے تھے جبکہ Algorists لازمی طور پر پرانے نظام سے وابستہ ہوں گے۔ اس رائے کی تصدیق پروس ڈوسی موڈی بیلڈامانڈی کی ایک تصنیف سے بھی ہوتی ہے۔ اس تصنیف میں، جس کا نام Algorithmus ہے، تختہ شمار کو واضح طور پر مسترد کیا گیا ہے۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ''Algorist‘‘اور ''Algorithms‘‘کے لفظ مشہور مسلمان ریاضی دان الخوارزمی کے نام کا بگاڑ ہیں۔ الخوارزمی ہندی حساب پر کام کرنے والا پہلا مسلم سائنسدان تھا۔
البغدادی نے اپنی تصنیف ''التکمیلہ‘‘ میں اس کتاب کا حوالہ دیا ہے اور ایک مقام پر اس کتاب میں بیان کردہ بعض طریقوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان طریقوں کے بعد انگشت شماری کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الخوارزمی کی یہ کتاب انگشت شماری سے متعلق تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جو ریاضی دان الخوارزمی کی اس کتاب کے معترف تھے انہیں Algorists کہا جاتا تھا Abacists کہا جاتا تھا۔