کیو گارڈن
لندن شہر کے جنوب مغربی سمت ایک ایسا باغ جو نباتات کے تحفظ اور تحقیق کی غرض سے بنایا گیا ہے، اسے ''کیو گارڈن‘‘(Kew Garden)) کہا جاتا ہے۔ کیوگارڈن کا قیام 1759ء میں عمل میں آیا۔ اس کا رقبہ 330 ایکڑ ہے اور یہ باغ شاہی(رائل) پارکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کا صحیح نام ''کیو رائل بوٹانک گارڈن‘‘ ہے۔ اس باغ میں موجود چھوٹے بڑے درختوں کی تعداد 27ہزار اور جڑی بوٹیوں والے پودوں اور پھولوں کی تعداد 85لاکھ ہے۔ یہ باغ نہ صرف سیرو تفریح کیلئے ایک بے مثال جگہ ہے بلکہ ساری دنیا سے تحقیق کرنے والے طلباء کیلئے یہ ایک بہت بڑا مرکز ہے۔
یہاں پر موجود پودوں اور درختوں کی تحقیق بارے ایک لائبریری بھی موجود ہے، جس کا قیام1841ء میں ہوا۔ لائبریری میں تین لاکھ کتب اور رسائل موجود ہیں۔ اس باغ کی اہمیت اس بات سے عیاں ہو جاتی ہے کہ کیو گارڈن کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 2003ء میں عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا۔ اس باغ کی 260ویں سالگرہ2019ء میں منائی گئی۔ شاہ جارج سوم کی والدہ شہزادی آگسٹا نے 1759ء میں کیو گارڈن کی بنیاد رکھی تھی۔
کیو گارڈن کو دیکھنے والوں کی تعداد 21 لاکھ سالانہ ہے۔ اس میں17ہزار نایاب اقسام کے پودے بھی موجود ہیں، جن کی حفاظت اور دیکھ بھال میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی جاتی۔ کیو گارڈن میں شیشے کے گلاس ہائوس بھی بنائے گئے ہیں جن میں پودوں کو فطرتی ماحول اور مخصوص درجہ حرارت میں نشوؤنما پانے کا موقع میسر ہے۔ اس ماحول میں برطانیہ کی سخت سردی یا کسی قسم کی گرمی کا پودوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ ایسے شیشے کے گھروں کو ملکہ وکٹوریہ کے دور میں 1863ء میں بنایا گیا تھا۔ دنیا کے ہر خطہ سے پودوں کو یہاں لاکر اکٹھا کیا گیا ہے۔
اس وقت تقریباً 300 سائنسدان یہاں پر موجود ہیں جو پودوں، پھولوں اور درختوں کی تحقیق میں مصروف عمل ہیں۔ کیو گارڈن میں تقریباً1500سے زائد افراد کام کر رہے ہیں، جن میں700سٹاف، 300 سائنسدان، 100تحقیق کنندہ، 100 طلبا کے علاوہ350رضا کار ہیں۔
کیو گارڈن میں ایک ایسا پودا بھی موجود ہے جو گملے کی طرح برتن میں محفوظ ہے۔ یہ پودا ایک نایاب پودوں کے متلاشی فرانسس میسن نے مشہور جہازراں کیپٹن کک کے ہمراہ سفر میں 1775ء میں جنوبی افریقہ سے حاصل کیا تھا۔
کیو پیلس
کیو گارڈن میں ایک ''کیو پیلس‘‘ بھی موجود ہے جو شاہ جارج سوم کی جاگیر سمجھی جاتی تھی۔ اس پیلس کو نئے سرے سے تزئین و آرائش کے بعد2006ء میں عوام کیلئے کھولا گیا۔ یہ محل برطانیہ کے شاہی محلات میں سب سے چھوٹا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ نے 1837ء میں یہ عوام کیلئے تحفتاً عنایت کیا تھا۔
پولیس فورس
کیو گارڈن کی اپنی پولیس فورس بھی ہے جس کا قیام178 سال قبل1845ء میں عمل میں آیا۔ یہ پولیس فورس کیو گارڈن کی حفاظت پر مامور ہے۔ اس پولیس میں دو سارجنٹ اور 12آفیسر ہیں۔ اس پولیس کے پاس وہی اختیارات ہیں جو شہر کی پولیس کے پاس ہیں۔
یادگاری سکے
کیو گارڈن نے اپنی 250 ویں سالگرہ2009ء میں منائی۔ اس تقریب کو یادگار رکھنے کیلئے رائل منٹ نے 50 پنس کی مالیت کے دو لاکھ دس ہزار (210,000)سکے جاری کئے۔ آج بھی ان یادگاری سکوں کی قیمت ان کی ذاتی قدر سے100گناہے۔
گریٹ پاگوڈا
کیو گارڈن میں ایک چینی طرز کا مندر بھی موجود ہے۔ اس مندر کو 1762ء میں6ماہ کے عرصہ میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی دس منزلیں اور سیڑھی کے 253 قدم ہیں۔ یہ مندر 164 فٹ بلند اور اس کا قطر49فٹ ہے۔ یہ مندر بھورے رنگ کی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مندر دور ہی سے سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتا ہے۔
کیو گارڈن کی سیر ہر عمر کے افراد کیلئے نہایت دلچسپ اور نباتات کے تحقیق کے شوقین افراد کیلئے گراں قدر علمی اضافے کا باعث ہے۔کیو گارڈن کے چار داخلی دروازے ہیں۔ مغربی سمت الزبتھ گیٹ ہے جو مین گیٹ کہلاتا ہے۔ برینٹ فورڈ گیٹ دریائے ٹیمز کی جانب واقع ہے۔ وکٹوریہ گیٹ اور لائن گیٹ کیو روڈ کی جانب ہیں۔ لندن کی مقامی بسیں وکٹوریہ گیٹ اور لائن گیٹ کے پاس رکتی ہیں۔ گارڈن میں300گاڑیوں کیلئے پارکنگ بھی ہے۔