اونٹ رے اونٹ
انسان اور اونٹ کا ساتھ کئی صدیوں پر محیط ہے۔ مستند شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نے لگ بھگ تین ہزار سال قبل اونٹ کو سدھارنا اور باربرداری کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک انسانی باربرداری اور سفر کیلئے بڑے پیمانے پر اونٹ ہی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ گئے زمانوں میں تو تجارتی قافلوں میں اونٹ ہی استعمال ہوا کرتے تھے جو شمالی افریقہ کے صحراؤں سے لے کر جزیرہ نما عرب تک سفر کرتے تھے۔اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ قدرت کی کوئی تخلیق بلا جواز نہیں ہوتی۔اونٹ ہی کی مثال لیں جو اپنی مخصوص جسمانی ساخت اور پیروں کی بناوٹ کے اعتبار سے اپنے چوڑے اور چپٹے پاؤں کی بدولت ریگستان میں کئی کئی میل بغیر رکے چلنے کی صلاحیت سے مالا مال جانور ہے۔یہی وجہ ہے کہ اونٹ ریگستانی جانور سمجھا جاتا ہے۔
زمانے بدلے سفر اور باربرداری کا ذمہ ٹیکنالوجی نے لے لیا تو انسان نے اونٹ کو اپنی تفریح طبع کیلئے استعمال میں لانا شروع کر دیا۔ برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتے چلیں کہ اونٹ کی بیشتر خصلتیں انسان سے ملتی جلتی ہیں۔ بظاہر اونٹ ایک مسکین جانور ہے۔ یہ ڈھول کی تھاپ پے ناچتا بھی ہے، اگر غصے میں ہو تو دھاڑتا بھی ہے ، اگر اسے مشتعل کیا جائے تو یہ لڑائی پر بھی اتر آتا ہے۔ انسان نے اپنی تفریح طبع کیلئے جہاںاس کے دوڑ کے مقابلے کرانے شروع کر دئیے ہیں، وہیں اس کے لڑانے کے مقابلے بھی ہو رہے ہیں،دنیا کے بیشترممالک میں اونٹوں کا''مقابلہ حسن‘‘ بھی ہر سال باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دور جدید میں اونٹ سے اب کیا کیا کام لئے جا رہے ہیں۔
اونٹوں کی دوڑ
قدیم روایات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ''اونٹ دوڑ‘‘کی شروعات سعودی عرب میں قبل از اسلام سے چلی آ رہی ہیں۔ شواہد سے پتہ چلا ہے کہ اس دور میں بھی اونٹ دوڑ کے بڑے بڑے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں اونٹ دوڑ کا تسلسل برقرار رہا اور پھر رفتہ رفتہ متحدہ عرب امارات میں بھی اس کے مقابلے منعقد ہونا شروع ہوئے۔ ان ممالک کے علاوہ اونٹ دوڑ کے مقابلے اب مغربی ایشیا، شمالی افریقہ ، پاکستان، منگولیا، آسٹریلیا اور سال گزشتہ سے اب فرانس بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔
جزیرہ نما عرب کا خطہ زمانہ قدیم سے ہی اونٹوں کی افزائش کیلئے مشہور ہے۔سعودی عرب میں اس کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے حال ہی میں ایک الیکٹرانک پلیٹ فارم کی شروعات کی ہے جس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو ڈی این اے کی تفصیلات کی مدد سے محفوظ کرنا ہے۔ وہاں پر اب ہر اونٹ کا شناختی کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو محفوظ کرنا اور اس کی نسل کا شجرہ ترتیب دینا ہے۔ ذہن میں رہے کہ سعودیہ اور عرب امارات میں اونٹوں کی قیمت پاکستانی کرنسی میں کروڑوں اور بعض اوقات اربوں روپے تک جاتی ہے۔ سعودی عرب میں زمانہ قدیم سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ''اونٹ خریدتے وقت اونٹ کی ماں کو ضرور دیکھو‘‘۔ شاید اسی وجہ سے اونٹوں کے شجرے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا ہو گا۔
اونٹ ریس چونکہ اشرافیہ کا شوق ہے اس لئے دوڑنے والے اونٹوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے کئی کئی ملازم رکھنے پڑتے ہیں۔ ایک عمانی ایک ٹی وی انٹرویو میں بتا رہا تھا کہ دوڑنے والے ایک اونٹ کی صرف خوراک کا ماہانہ خرچ 1000 پاونڈ (تقریباً پونے چار لاکھ پاکستانی روپے) سے زیادہ ہوتا ہے۔ جس میں شہد، بادام ، دودھ ، تازہ کھجوریں اور مختلف وٹامنز شامل ہیں۔ اسی انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں یہی عمانی جو دبئی میں اپنے اونٹ کو ریس میں شرکت کیلئے لایا تھا کہہ رہا تھا ''ریس کیلئے سدھائے اونٹ کی قیمت 50لاکھ ڈالر سے لے کر ایک کروڑ ڈالر (تقریباً پونے تین ارب روپے پاکستانی) تک ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سال سعودی عرب میں اونٹوں کی، دنیا کی سب سے بڑی ریس کا انعقاد الائولی صحرا میں کیا گیا تھا۔ جس میں جیتنے والے اونٹوں کے مالکان کو 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر (تقریباً 5 ارب 75 کروڑ پاکستانی روپے) انعامی رقم تقسیم کی گئی۔
اونٹوں کا مقابلہ حسن
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین خوبصورت نظر آنے کیلئے میک اپ کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ جدید طریقہ علاج، جس میں بوٹوکس، سرجریاں اور کاسمیٹکس پروسیجرز شامل ہیں، کراتی ہیں۔لیکن سعودی عرب اور متحدہ امارات سمیت بہت سارے ممالک میں اب اونٹوں کے درمیان مقابلہ حسن کا انعقاد بھی ہونے لگ گیا ہے۔ اس سلسلے میں تشویشناک بات تیزی سے بڑھتا اونٹوں کا مصنوعی اور عارضی علاج ہوتا ہے۔ جس کیلئے بوٹوکس کے انجیکشن اونٹوں کے ہونٹوں ، ناک، جبڑے اور سر کے مختلف حصوں پر لگا کر پٹھوں کو نرم کیا جاتا ہے۔ ہونٹوں اور ناک میں کلوجن بھرا جاتا ہے اور پٹھوں کو موٹا کرنے کیلئے ہارمونز کا استعمال کیاجاتاہے۔ ہر سال چالیس سے پچاس اونٹ اس ''حرکت‘‘ کے باعث نہ صرف اس مقابلے سے خارج کردیئے جاتے ہیں بلکہ انہیں بھاری جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے ایک سو کلومیٹر کی دوری پر 32 مربع کلومیٹر پر پھیلے ایک میدان میں اونٹوں کا دنیا کا سب سے بڑا ''شاہ عبدالعزیز کیمل فیسٹیول‘‘ ہر سال منعقد کیا جاتا ہے جو چالیس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس سال بھی اس میلے میں ایک لاکھ سے زیادہ شائقین روزانہ شریک ہوتے رہے ہیں۔ اس عالمی میلے میں امریکہ ، فرانس، روس، سمیت دنیا کے چالیس سے زیادہ ممالک کے اونٹوں نے شرکت کی ۔ میلے کے اختتام پر فاتحین کو 66 ملین ڈالر ( 17 ارب 80 کروڑ پاکستانی روپے ) کی خطیر رقم انعام میں دی گئی۔
اونٹوں کی خوبصورتی کا معیار کیا ہے ؟
اونٹوں میں خوبصورتی کا معیار لٹکے ہونٹ، بڑی ناک، خم کھاتی متوازن کوہان تو ہے ہی لیکن یہ بعد کے مراحل ہیں۔سب سے پہلے ایک کمیٹی اونٹوں کی ظاہری شکل اور چلنے کے انداز کا بغور جائزہ لیتی ہے جس کا ایک خاص معیار مقرر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں اونٹوں کی خوبصورتی میں مصنوعی طریقوں سے اضافہ تو نہیں کیا گیا۔اس کیلئے جدید ایکسرے کی مدد سے 3 ڈی الٹرا ساؤنڈ کا استعمال کرتے ہوئے اونٹوں کا سر ، گردن ، دھڑ کے عکس لئے جاتے ہیں اور ان اونٹوں سے حاصل شدہ نمونوں کو جینیاتی معائنے کیلئے لیبارٹری بھیجا جاتا ہے۔
اونٹوں کی لڑائی
اونٹوں کی لڑائی بنیادی طور پر زمانہ جہالیت سے چلی آ رہی ہے کیونکہ اس دور میں کھیل اور تفریح کے مواقع محدود ہوا کرتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ جب مہذب معاشرے کی شروعات ہوئی تو لوگوں نے اسے ایک ظالمانہ کھیل کا درجہ دے ڈالا اور یوں حکومتوں کو اس کھیل پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ پاکستان اور بھارت میں اب بھی دیہی علاقوں میں اس کے باقاعدہ مقابلے منعقد ہوتے ہیں جنہیں دنگل کا نام دیا جاتا ہے۔ اونٹوں کے دنگل کا انعقاد ایک ٹھیکے دار کرتا ہے۔ یہ ایک غیر جانبدار شخص ہوتا ہے۔میدان میں ایک ڈھولک والا ، ریفری اور لڑنے والے اونٹوں کے مالک ہوتے ہیں ۔ریفری کا کام اونٹوں کی لڑائی کو نتیجہ خیز بنانا اور فاتح کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔