کنگ آف کامیڈی عمر شریف یادوں میں آج بھی زندہ
پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں عمر شریف بہت دراز قد کے مالک تھے۔ انڈسٹری کے ہر حلقے سے تعلق رکھنے والے لوگ عمر شریف کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔2021ء میں ہمیں چھوڑ جانے والے عمر شریف آج بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔وہ اپنی شاندار کامیڈی سے لوگوں کو ہنساتے ہنساتے لوٹ پوٹ کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ عمر شریف کی اداکاری سے بے ساختہ قہقہوں کا طوفان سا آجاتا تھا۔ وہ شوبز کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ فلم، ٹی اور اسٹیج کے اداکار، فلم ڈائریکٹر، موسیقار، شاعر، مصنف، پروڈیوسر اور ایک بہتریں میزبان تھے۔ اسٹیج کی تاریخ عمر شریف کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے نہ صرف ملک میں بلکہ بھارت سمیت دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ عمر شریف کو جنوبی ایشیا کے ''کنگ آف کامیڈی‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔
کراچی کے مشہور علاقے لیاقت آباد میں 19 اپریل 1960ء کو محمد عمر نامی بچے نے جنم لیا بعدازاں وہ بچہ کامیڈی کنگ عمر شریف کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ 4سال کی عمر میں یتیم ہوجانے والے عمر شریف نے 14 برس کی عمر میں اسٹیج ڈراموں سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور کامیابی کی سیڑھیاں کچھ اس انداز میں چڑھنا شروع کیں کہ پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ عمر شریف نے اسٹیج، فلم اور ٹی وی میں اپنی جاندار اور بے مثال اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن ان کی بنیادی وجہ شہرت مزاحیہ اسٹیج ڈرامے ہیں۔
کامیڈی کنگ کا اصل نام محمد عمر تھا لیکن انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں کام کا آغاز کرنے کے بعد نام عمر ظریف رکھ لیا۔عمر شریف منور ظریف کو اپنا استاد مانتے تھے۔ وہ منور ظریف سے اتنا متاثر تھے کہ کئی مرتبہ اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ '' میں چاہتا ہوں مرنے کے بعد جس شخص سے میری ملاقات ہو وہ منور ظریف ہوں‘‘۔ بعدازاں ہالی وڈ فلم ''لارنس آف عریبیہ‘‘ میں ہالی وڈ کے مصری اداکار عمر شریف کی اداکاری سے اس قدر متاثر ہوئے کے اپنے نام کے ساتھ شریف لگا لیا۔
اسٹیج ڈراموں کے بے تاج بادشاہ نے 1980ء میں آڈیو کیسٹ پر اسٹیج ڈرامے ریلیز کرنے کا ٹرینڈ متعارف کرایا جو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی کافی مقبول ہوئے۔ عمر شریف نے 50سے زائد اسٹیج ڈراموں میں کام کیا۔ان کے مقبول ڈراموں میں 1989ء میں ریلیز ہونے والا مشہور مزاحیہ ڈرامہ ''بکرا قسطو ں پر‘‘، ''بڈھا گھر پر ہے‘‘، ''میری بھی تو عید کرا دے‘‘، ''ماموں مذاق مت کرو‘‘ نمایاں ہیں۔ڈرامہ ''بکرا قسطوں پر‘‘ سے انہیں بے پناہ شہرت ملی۔ اس ڈرامے کے پانچ پارٹ پیش کئے گئے۔ اس ڈرامہ نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کئے ۔
پاکستان کے اس عظیم سپوت کو کئی بھارتی کامیڈینز اپنا استاد مانتے تھے جنہوں نے اس بات کا اظہاربھی کیا کہ وہ عمر شریف سے متاثر ہیں۔ کئی بھارتی فنکاروں نے ان کے انداز کو کاپی کرنے کی بھی کوشش کی۔ اداکار گووندا پاکستانی عظیم اداکار عمر شریف کی کامیڈی اور اداکاری کے نہ صرف معترف تھے بلکہ ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ فلم ''قلی نمبر ون‘‘ میں عمر شریف کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی۔ بھارتی کامیڈین جانی لیور اور راجو شری واستو، عمر شریف سے بہت متاثر تھے اور انہیں برصغیر کا ''کامیڈی کنگ ‘‘ مانتے تھے۔ عمر شریف نے بھارت میں کئی ایوارڈ شوز کی میزبانی کی۔
عمر شریف بے ساختگی، برجستگی اور بے باکی میں کمال رکھتے تھے۔ وہ بلا کے ذہین تھے اور بات سے بات نکالنے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ 2009ء میں انہوں نے اپنے لیٹ نائٹ ٹاک شو ''دی شریف شو‘‘ کا آغاز کیا اور متعدد فنکاروں، گلوکار اور سیاست دانوں کے انٹرویوز کیے۔
عمر شریف اپنے ایک اسٹیج ڈرامہ کی وجہ سے تنازع کا شکار بھی رہے، پاکستان کے پچاسویں یوم آزادی پر پیش کئے گئے اسٹیج ڈرامہ ''عمر شریف حاضر ہو‘‘ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو عدالت میں بلایا جاتا تھا اورکٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے پوچھا جاتا تھا کہ انہوں نے آج تک پاکستان کیلئے کیاخدمات انجام دی ہیں۔ اس ڈرامے کی وجہ سے وکلا نے عمر شریف پر مقدمہ کردیا تھا۔
عمر شریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی پہلی بیوی کا نام دیبا عمر تھا۔ دوسری شادی اداکارہ شکیلہ قریشی سے ہوئی جو 80ء کی دہائی کی معروف ٹیلی ویژن اداکارہ تھیں۔ تیسری شادی سٹیج اداکارہ زریں غزل سے 2005ء میں کی۔صرف پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
کامیڈی کنگ اداکاری کی دنیا میں شہرت حاصل کرنے کے باوجود انسانیت کے جذبے سے سرشار تھے، انہوں نے 2006ء میں عمر شریف ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت ''ماں‘‘ کے نام سے ہسپتال کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔
عمر شریف دل کے عارضے میں مبتلا تھے، ایک بار دل کا بائی پاس بھی کروا چکے تھے لیکن زندگی کے آخری دنوں میں انہیں گردوں کی بیماری نے بھی آ لیا تھا۔عمرشریف کی اپیل کے بعد حکومت سندھ نے ان کاعلاج حکومتی سرپرستی میں کروانے کا اعلان کیااور انہیں امریکہ لے جانے کیلئے ایک ایئر ایمبولینس کا انتظام کیا گیا۔ امریکہ کے راستے میں ان کا پہلا سٹاپ جرمنی تھا جہاں ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہونے کی وجہ سے ان کو ایئر ایمبولینس سے اتار لیا گیا اور ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں دونسلوں کو اپنی مزاحیہ اداکاری سے محظوظ کرنے والا فنکار اس جہاں فانی سے کوچ کرگیا۔
عمر شریف نے اپنی معیاری اداکاری اور فیملی کامیڈی پر کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔ 5دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے عمر شریف کو حکومت پاکستان کی جانب سے فن کی دنیا میں بے مثل خدمات سر انجام دینے اور بین الااقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے پر ''تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔
عمر شریف کا فلمی کریئر
عمر شریف کے کریڈٹ پر 35 فلمیں ہیں۔پہلی فلم ''مسٹر 420‘‘ 1992ء میں ریلیز ہوئی۔ وہ اس فلم کے ہیرو، ڈائریکٹر اور مصنف تھے۔وہ ایک ہی سال میں چار مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کرنے والے پاکستان کے واحد فنکار ہیں۔ان کی دیگر مقبول فلموں میں ''مسٹر چارلی‘‘، ''بہروپیہ‘‘، ''چلتی کا نام گاڑی‘‘، ''چاند بابو‘‘، ''کھوٹے سکے‘‘، ''ہتھکڑی‘‘، ''لاٹ صاحب‘‘، ''پھول اور مالی‘‘،''جھوٹے رئیس‘‘، ''پیدا گیر‘‘، ''ڈاکو چور سپاہی‘‘، ''خاندان‘‘، ''نہلے پہ دہلا‘‘، ''مس فتنہ‘‘، ''غنڈا راج‘‘، ''سب سے بڑا روپیہ‘‘ شامل ہیں۔
فلمی کریئر میں عمر شریف نے 3 بار گریجویٹ ایوارڈ حاصل کیا۔