کنگ آف کامیڈی عمر شریف یادوں میں آج بھی زندہ

کنگ آف کامیڈی عمر شریف یادوں میں آج بھی زندہ

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد ارشد لئیق


پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں عمر شریف بہت دراز قد کے مالک تھے۔ انڈسٹری کے ہر حلقے سے تعلق رکھنے والے لوگ عمر شریف کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔2021ء میں ہمیں چھوڑ جانے والے عمر شریف آج بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔وہ اپنی شاندار کامیڈی سے لوگوں کو ہنساتے ہنساتے لوٹ پوٹ کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ عمر شریف کی اداکاری سے بے ساختہ قہقہوں کا طوفان سا آجاتا تھا۔ وہ شوبز کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ فلم، ٹی اور اسٹیج کے اداکار، فلم ڈائریکٹر، موسیقار، شاعر، مصنف، پروڈیوسر اور ایک بہتریں میزبان تھے۔ اسٹیج کی تاریخ عمر شریف کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے نہ صرف ملک میں بلکہ بھارت سمیت دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ عمر شریف کو جنوبی ایشیا کے ''کنگ آف کامیڈی‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔
کراچی کے مشہور علاقے لیاقت آباد میں 19 اپریل 1960ء کو محمد عمر نامی بچے نے جنم لیا بعدازاں وہ بچہ کامیڈی کنگ عمر شریف کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ 4سال کی عمر میں یتیم ہوجانے والے عمر شریف نے 14 برس کی عمر میں اسٹیج ڈراموں سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور کامیابی کی سیڑھیاں کچھ اس انداز میں چڑھنا شروع کیں کہ پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ عمر شریف نے اسٹیج، فلم اور ٹی وی میں اپنی جاندار اور بے مثال اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن ان کی بنیادی وجہ شہرت مزاحیہ اسٹیج ڈرامے ہیں۔
کامیڈی کنگ کا اصل نام محمد عمر تھا لیکن انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں کام کا آغاز کرنے کے بعد نام عمر ظریف رکھ لیا۔عمر شریف منور ظریف کو اپنا استاد مانتے تھے۔ وہ منور ظریف سے اتنا متاثر تھے کہ کئی مرتبہ اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ '' میں چاہتا ہوں مرنے کے بعد جس شخص سے میری ملاقات ہو وہ منور ظریف ہوں‘‘۔ بعدازاں ہالی وڈ فلم ''لارنس آف عریبیہ‘‘ میں ہالی وڈ کے مصری اداکار عمر شریف کی اداکاری سے اس قدر متاثر ہوئے کے اپنے نام کے ساتھ شریف لگا لیا۔
اسٹیج ڈراموں کے بے تاج بادشاہ نے 1980ء میں آڈیو کیسٹ پر اسٹیج ڈرامے ریلیز کرنے کا ٹرینڈ متعارف کرایا جو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی کافی مقبول ہوئے۔ عمر شریف نے 50سے زائد اسٹیج ڈراموں میں کام کیا۔ان کے مقبول ڈراموں میں 1989ء میں ریلیز ہونے والا مشہور مزاحیہ ڈرامہ ''بکرا قسطو ں پر‘‘، ''بڈھا گھر پر ہے‘‘، ''میری بھی تو عید کرا دے‘‘، ''ماموں مذاق مت کرو‘‘ نمایاں ہیں۔ڈرامہ ''بکرا قسطوں پر‘‘ سے انہیں بے پناہ شہرت ملی۔ اس ڈرامے کے پانچ پارٹ پیش کئے گئے۔ اس ڈرامہ نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کئے ۔
پاکستان کے اس عظیم سپوت کو کئی بھارتی کامیڈینز اپنا استاد مانتے تھے جنہوں نے اس بات کا اظہاربھی کیا کہ وہ عمر شریف سے متاثر ہیں۔ کئی بھارتی فنکاروں نے ان کے انداز کو کاپی کرنے کی بھی کوشش کی۔ اداکار گووندا پاکستانی عظیم اداکار عمر شریف کی کامیڈی اور اداکاری کے نہ صرف معترف تھے بلکہ ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ فلم ''قلی نمبر ون‘‘ میں عمر شریف کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی۔ بھارتی کامیڈین جانی لیور اور راجو شری واستو، عمر شریف سے بہت متاثر تھے اور انہیں برصغیر کا ''کامیڈی کنگ ‘‘ مانتے تھے۔ عمر شریف نے بھارت میں کئی ایوارڈ شوز کی میزبانی کی۔
عمر شریف بے ساختگی، برجستگی اور بے باکی میں کمال رکھتے تھے۔ وہ بلا کے ذہین تھے اور بات سے بات نکالنے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ 2009ء میں انہوں نے اپنے لیٹ نائٹ ٹاک شو ''دی شریف شو‘‘ کا آغاز کیا اور متعدد فنکاروں، گلوکار اور سیاست دانوں کے انٹرویوز کیے۔
عمر شریف اپنے ایک اسٹیج ڈرامہ کی وجہ سے تنازع کا شکار بھی رہے، پاکستان کے پچاسویں یوم آزادی پر پیش کئے گئے اسٹیج ڈرامہ ''عمر شریف حاضر ہو‘‘ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو عدالت میں بلایا جاتا تھا اورکٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے پوچھا جاتا تھا کہ انہوں نے آج تک پاکستان کیلئے کیاخدمات انجام دی ہیں۔ اس ڈرامے کی وجہ سے وکلا نے عمر شریف پر مقدمہ کردیا تھا۔
عمر شریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی پہلی بیوی کا نام دیبا عمر تھا۔ دوسری شادی اداکارہ شکیلہ قریشی سے ہوئی جو 80ء کی دہائی کی معروف ٹیلی ویژن اداکارہ تھیں۔ تیسری شادی سٹیج اداکارہ زریں غزل سے 2005ء میں کی۔صرف پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
کامیڈی کنگ اداکاری کی دنیا میں شہرت حاصل کرنے کے باوجود انسانیت کے جذبے سے سرشار تھے، انہوں نے 2006ء میں عمر شریف ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت ''ماں‘‘ کے نام سے ہسپتال کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔
عمر شریف دل کے عارضے میں مبتلا تھے، ایک بار دل کا بائی پاس بھی کروا چکے تھے لیکن زندگی کے آخری دنوں میں انہیں گردوں کی بیماری نے بھی آ لیا تھا۔عمرشریف کی اپیل کے بعد حکومت سندھ نے ان کاعلاج حکومتی سرپرستی میں کروانے کا اعلان کیااور انہیں امریکہ لے جانے کیلئے ایک ایئر ایمبولینس کا انتظام کیا گیا۔ امریکہ کے راستے میں ان کا پہلا سٹاپ جرمنی تھا جہاں ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہونے کی وجہ سے ان کو ایئر ایمبولینس سے اتار لیا گیا اور ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں دونسلوں کو اپنی مزاحیہ اداکاری سے محظوظ کرنے والا فنکار اس جہاں فانی سے کوچ کرگیا۔
عمر شریف نے اپنی معیاری اداکاری اور فیملی کامیڈی پر کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔ 5دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے عمر شریف کو حکومت پاکستان کی جانب سے فن کی دنیا میں بے مثل خدمات سر انجام دینے اور بین الااقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے پر ''تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔

عمر شریف کا فلمی کریئر
عمر شریف کے کریڈٹ پر 35 فلمیں ہیں۔پہلی فلم ''مسٹر 420‘‘ 1992ء میں ریلیز ہوئی۔ وہ اس فلم کے ہیرو، ڈائریکٹر اور مصنف تھے۔وہ ایک ہی سال میں چار مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کرنے والے پاکستان کے واحد فنکار ہیں۔ان کی دیگر مقبول فلموں میں ''مسٹر چارلی‘‘، ''بہروپیہ‘‘، ''چلتی کا نام گاڑی‘‘، ''چاند بابو‘‘، ''کھوٹے سکے‘‘، ''ہتھکڑی‘‘، ''لاٹ صاحب‘‘، ''پھول اور مالی‘‘،''جھوٹے رئیس‘‘، ''پیدا گیر‘‘، ''ڈاکو چور سپاہی‘‘، ''خاندان‘‘، ''نہلے پہ دہلا‘‘، ''مس فتنہ‘‘، ''غنڈا راج‘‘، ''سب سے بڑا روپیہ‘‘ شامل ہیں۔
فلمی کریئر میں عمر شریف نے 3 بار گریجویٹ ایوارڈ حاصل کیا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
کیو گارڈن

کیو گارڈن

لندن شہر کے جنوب مغربی سمت ایک ایسا باغ جو نباتات کے تحفظ اور تحقیق کی غرض سے بنایا گیا ہے، اسے ''کیو گارڈن‘‘(Kew Garden)) کہا جاتا ہے۔ کیوگارڈن کا قیام 1759ء میں عمل میں آیا۔ اس کا رقبہ 330 ایکڑ ہے اور یہ باغ شاہی(رائل) پارکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کا صحیح نام ''کیو رائل بوٹانک گارڈن‘‘ ہے۔ اس باغ میں موجود چھوٹے بڑے درختوں کی تعداد 27ہزار اور جڑی بوٹیوں والے پودوں اور پھولوں کی تعداد 85لاکھ ہے۔ یہ باغ نہ صرف سیرو تفریح کیلئے ایک بے مثال جگہ ہے بلکہ ساری دنیا سے تحقیق کرنے والے طلباء کیلئے یہ ایک بہت بڑا مرکز ہے۔ یہاں پر موجود پودوں اور درختوں کی تحقیق بارے ایک لائبریری بھی موجود ہے، جس کا قیام1841ء میں ہوا۔ لائبریری میں تین لاکھ کتب اور رسائل موجود ہیں۔ اس باغ کی اہمیت اس بات سے عیاں ہو جاتی ہے کہ کیو گارڈن کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 2003ء میں عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا۔ اس باغ کی 260ویں سالگرہ2019ء میں منائی گئی۔ شاہ جارج سوم کی والدہ شہزادی آگسٹا نے 1759ء میں کیو گارڈن کی بنیاد رکھی تھی۔کیو گارڈن کو دیکھنے والوں کی تعداد 21 لاکھ سالانہ ہے۔ اس میں17ہزار نایاب اقسام کے پودے بھی موجود ہیں، جن کی حفاظت اور دیکھ بھال میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی جاتی۔ کیو گارڈن میں شیشے کے گلاس ہائوس بھی بنائے گئے ہیں جن میں پودوں کو فطرتی ماحول اور مخصوص درجہ حرارت میں نشوؤنما پانے کا موقع میسر ہے۔ اس ماحول میں برطانیہ کی سخت سردی یا کسی قسم کی گرمی کا پودوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ ایسے شیشے کے گھروں کو ملکہ وکٹوریہ کے دور میں 1863ء میں بنایا گیا تھا۔ دنیا کے ہر خطہ سے پودوں کو یہاں لاکر اکٹھا کیا گیا ہے۔اس وقت تقریباً 300 سائنسدان یہاں پر موجود ہیں جو پودوں، پھولوں اور درختوں کی تحقیق میں مصروف عمل ہیں۔ کیو گارڈن میں تقریباً1500سے زائد افراد کام کر رہے ہیں، جن میں700سٹاف، 300 سائنسدان، 100تحقیق کنندہ، 100 طلبا کے علاوہ350رضا کار ہیں۔کیو گارڈن میں ایک ایسا پودا بھی موجود ہے جو گملے کی طرح برتن میں محفوظ ہے۔ یہ پودا ایک نایاب پودوں کے متلاشی فرانسس میسن نے مشہور جہازراں کیپٹن کک کے ہمراہ سفر میں 1775ء میں جنوبی افریقہ سے حاصل کیا تھا۔کیو پیلسکیو گارڈن میں ایک ''کیو پیلس‘‘ بھی موجود ہے جو شاہ جارج سوم کی جاگیر سمجھی جاتی تھی۔ اس پیلس کو نئے سرے سے تزئین و آرائش کے بعد2006ء میں عوام کیلئے کھولا گیا۔ یہ محل برطانیہ کے شاہی محلات میں سب سے چھوٹا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ نے 1837ء میں یہ عوام کیلئے تحفتاً عنایت کیا تھا۔پولیس فورسکیو گارڈن کی اپنی پولیس فورس بھی ہے جس کا قیام178 سال قبل1845ء میں عمل میں آیا۔ یہ پولیس فورس کیو گارڈن کی حفاظت پر مامور ہے۔ اس پولیس میں دو سارجنٹ اور 12آفیسر ہیں۔ اس پولیس کے پاس وہی اختیارات ہیں جو شہر کی پولیس کے پاس ہیں۔یادگاری سکےکیو گارڈن نے اپنی 250 ویں سالگرہ2009ء میں منائی۔ اس تقریب کو یادگار رکھنے کیلئے رائل منٹ نے 50 پنس کی مالیت کے دو لاکھ دس ہزار (210,000)سکے جاری کئے۔ آج بھی ان یادگاری سکوں کی قیمت ان کی ذاتی قدر سے100گناہے۔گریٹ پاگوڈاکیو گارڈن میں ایک چینی طرز کا مندر بھی موجود ہے۔ اس مندر کو 1762ء میں6ماہ کے عرصہ میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی دس منزلیں اور سیڑھی کے 253 قدم ہیں۔ یہ مندر 164 فٹ بلند اور اس کا قطر49فٹ ہے۔ یہ مندر بھورے رنگ کی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مندر دور ہی سے سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتا ہے۔کیو گارڈن کی سیر ہر عمر کے افراد کیلئے نہایت دلچسپ اور نباتات کے تحقیق کے شوقین افراد کیلئے گراں قدر علمی اضافے کا باعث ہے۔کیو گارڈن کے چار داخلی دروازے ہیں۔ مغربی سمت الزبتھ گیٹ ہے جو مین گیٹ کہلاتا ہے۔ برینٹ فورڈ گیٹ دریائے ٹیمز کی جانب واقع ہے۔ وکٹوریہ گیٹ اور لائن گیٹ کیو روڈ کی جانب ہیں۔ لندن کی مقامی بسیں وکٹوریہ گیٹ اور لائن گیٹ کے پاس رکتی ہیں۔ گارڈن میں300گاڑیوں کیلئے پارکنگ بھی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بیت المقدس فتح ہوا2اکتوبر 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور فرانک سلطنت ختم کی۔ 88 سالہ صلیبی دور کا خاتمہ کرتے ہوئے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوںکے قبضے سے واگزار کرایا تھا۔ بلاشبہ یہ سلطان کی بہت بڑی فتح تھی جس کی بنا پر اس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں بہت جلی حروف میں کیا جاتا ہے۔ فٹ بال ٹیم کا ہوائی حادثہ2اکتوبر1970ء کو ایک چارٹڈ مارٹن ہوائی جہاز ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا۔ یہ گولڈن ایگل ایوی ایشن کے ذریعے چلائے جانے والا جڑواں انجن والا جہاز تھا۔ 20افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ دو افراد طبی امداد کے دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ یہ ان دو طیاروں میں سے ایک تھا جو 1970ء کی ویچیٹا اسٹیٹ فٹ بال ٹیم کو لوگان، یوٹاہ لے کر جا رہا تھا۔ گونزالز کی جنگگونزالز کی جنگ ٹیکساس کے انقلاب کی پہلی فوجی کارروائی تھی۔ یہ لڑائی 2اکتوبر 1835ء کو ٹیکساس ،گونزالز کے قریب باغی ٹیکسیائی آباد کاروں اور میکسیکو کے فوجیوں کے دستے کے درمیان لڑئی گئی۔ 1831ء میں، میکسیکو کے حکام نے گونزالز کے آباد کاروں کو ایک چھوٹی توپ دی تاکہ انہیں کومانچے کے چھاپوں سے بچنے میں مدد ملے۔ 1835ء میںبغاوت کا آغاز ہوا اور حکام نے ان سے توپ واپس مانگ لی لیکن باشندوں نے انکار کر دیاجس پر توپ کی بازیابی کیلئے ڈریگن فورس کے اہلکار بھیجے گئے۔ویسٹ نکل مائنز سکول پر حملہ2اکتوبر2006ء کو پنسلوینیا کے ایک گاؤں میں امیشن کمیونٹی کے ویسٹ نکل مائنز سکول میں فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا۔ حملہ آور چارلس کارل رابرٹس نے سکول کی طالبات کو یرغمال بنا لیا اور اس کے بعد انہیں گولی مار کر قتل کر دیا۔ حملے کے بعد حملہ آور نے گرفتاری کے ڈر سے خودکشی کر لی۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد سکول کو منہدم کر دیا گیا اور اسی سکول کو کسی دوسری جگہ تعمیر کیا گیا۔کارانڈیرو کا قتل عامکارانڈیرو کا قتل عام 2 اکتوبر 1992ء کو برازیل کے ساؤ پالو میں کارانڈیرو میں اس وقت ہوا جب فوجی پولیس نے جیل میں ہونے والے فسادات کے بعد قید خانے پر دھاوا بول دیا۔ اس قتل عام میں 111 قیدیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی بہت بڑی خلاف ورزی تھی۔اس واقعہ کا آغاز قیدیوں کی بغاوت کے بعد ہوا۔جیل میں فٹ بال کے کھیل کے دوران دو گروہوں میںلڑائی ہوئی اور اسی لڑائی نے ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔    

چی گویرا جس کی پوری زندگی محکوم طبقات کی جنگ لڑتے گزری

چی گویرا جس کی پوری زندگی محکوم طبقات کی جنگ لڑتے گزری

''کسی بھی مقصد کیلئے جاری رہنے والی جدوجہد کی موت کے آنے تک کوئی حد نہیں ہوتی۔دنیا کے کسی بھی خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ ہمارا بھی مسئلہ ہے ۔سامراج کیخلاف کسی ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی بھی ملک کی شکست ہماری شکست ہے‘‘۔ یہ تاریخی الفاظ چی گویرا نے 1965ء میں '' ایفرو ایشین سالیڈیرٹی ‘‘کے سیمینار میں اپنی زندگی کے آخری بین الاقوامی خطاب میں کہے تھے جبکہ اس خطاب کے لگ بھگ دوسال بعد جی گویرا سامراجی قوتوں کے ہاتھوں ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا گیا۔آرنستو رافیل گویرا ڈی لا سیرناجسے عرف عام میںچی گویرا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نو آبادیاتی نظام کیخلاف بغاوتوں کی قیادت کرنے والا عالمی شہرت یافتہ گوریلا رہنما ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر ، متعدد کتابوں کا مصنف ،شاعر ، فوٹو گرافر، ڈائری نویس، رگبی اور شطرنج کا بہترین کھلاڑی ، بہترین موٹرسائیکل رائیڈر ، سفارت کار اور فوجی تھیوریسٹ بھی تھا۔ یہ محکوم اقوام کو سامراجی نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔دنیا بھر کے مظلوم طبقات کی نجات کا علم بردار چی گویرا 14 جون 1928ء کو ارجنٹیناکے علاقے روسا ریو میںپیدا ہوا۔اس نے بیونس آئیرز یونیورسٹی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔ سیاحت کا شوق بچپن سے تھا۔اس دوران 1950ء میں اس نے جنوبی اور وسطی امریکہ کا پہلا سفر بذریعہ سائیکل کیا، جو 4500 کلومیٹر پر محیط تھاجبکہ دوسرا سفر اس نے 1951ء میں اپنی سائیکل پر ایک موٹر لگا کر کیا۔ یہ سفر لگ بھگ 8000 کلومیٹر پر محیط تھا۔ اس کا تیسرا سفر 1953ء میں موٹر سائیکل پر ہی تھا۔ ا س دوران اسں نے بارہا چلی ، پیرو ، کولمبیا ، پانامہ ، برازیل ، کیوبا بولیویا، ایکواڈور، وینزویلا، پیرا گوئے اور نکارا گوا کا دورہ کیا۔ اپنے اس سفر کی روداد اس نے اپنی تصنیف ''دی موٹر سائیکل ڈائریز‘‘میں بیان کی ہے۔بعد ازاں اسی نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی۔ یہی وہ دور تھا جب چی گویرا نے اس پورے براعظم میں پھیلی بھوک، غربت، بے گھری اور ظلم و تشدد کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا سب سے بڑا سبب سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا ہے۔ اس کی ڈائری کے مطابق ''ان لوگوں کی مدد کے جذبے کے تحت میں نے میڈیکل کے شعبے کو خیر آباد کہا اور ہتھیار بند سیاسی جدوجہد کے میدان میں قدم رکھا‘‘۔ چی گویرا نے اپنی جدوجہد کا آغاز گوئٹے مالا سے کیا کیونکہ یہاں کی جمہوری حکومت جیکو بو آربینز کی سربراہی میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کیلئے کوشاں تھی۔چی گویرا ، گوریلا آربینز کے اقدامات سے بہت متاثر ہوئے۔ اس لئے گوئٹے مالا میں رہ کر اس نے اس کاساتھ دینے کا ارادہ کیا۔بدقسمتی سے 1954ء میں گوئٹے مالا کی فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا۔اس عمل نے سرمایہ دارانہ نظام بارے اس کی نفرت میں اور اضافہ کر دیا۔چی گویرا کمیونسٹ نوجوانوں پر مشتمل مسلح گروہ کا حصہ بن گیالیکن گوئٹے مالا میں عوام کے عمومی رویہ سے مایوس ہو کر اسے یہاں سے کوچ کرنا پڑا۔چی گویرا کا اگلا پڑاو کیوبا تھا، جہاں ان کی نظریں کیوبا میں انقلاب پسند تحریکوں پر تھیں۔ جون 1955ء میں یہ فیڈل کاسترو کے بھائی راول کاسترو سے ملا۔ جب فیڈل کاسترو کو کیوبا میں جیل سے رہائی ملی تو راول کاسترو کے ذریعے اس کی فیڈل کاستروسے ملاقات ہوئی۔یہاں پر وہ لاطینی امریکہ میں انقلابی تحریک منظم کرنے کی شرط پر کاسترو کے شانہ بشانہ ڈکٹیٹر کیخلاف گوریلا جنگ میں شامل ہو گیا۔چی گویرا کا اگلا ہدف کیوبا میں انقلاب پسند تحریکوں میں شمولیت تھی جہاں اس نے کاسترو کے شانہ بشانہ وہاں کے ڈکٹیٹر بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1959ء میں بتیستا کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اسے ملکی معاشی اصلاحات کی ترویج کیلئے کیوبا کے قومی بنک کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اسے ملک کے صنعتی شعبے کی وزارت سونپ دی گئی۔امریکہ نے بادل ناخواستہ کیوبا کی حکومت کو تسلیم تو کر لیا مگر اس کے باوجود کاسترو کی سربراہی میں کیوبا کی انقلابی حکومت عالمی تنہائی کا شکار رہی۔ ایسے میں طے ہوا کہ کاسترو کے سب سے بااعتماد ساتھی چی گویرا ایک وفد کے ساتھ اس انقلابی حکومت کا تعارف اور پیغام پہنچانے کیلئے تیسری دنیا کے ممالک کا دورہ کریں۔چی گویرا کا تین ماہ کا یہ دورہ برما، سری لنکا، بھارت ، انڈونیشیا ، یوگو سلاویہ ،مصر ، مراکش ، شام، یونان اور پاکستان پر مشتمل تھا۔طبعاً اور فطرتاً انقلابی روح کے حامل چی گویرا نے اپنے آپ کو جب اس کام میں غیر موزوں پایا تو اس نے کاسترو کو ایک خط لکھا ،'' مجھے لگتا ہے میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کردیا ہے جو مجھے کیوبا کھینچ لایا تھاچنانچہ میں سمجھتا ہوں اب میری ضرورت یہاں سے کہیں زیادہ ان علاقوں کو ہے جہاں انقلابی تحریکیں اپنے حق کیلئے سرگرم عمل ہیں‘‘۔ 1965ء میں چی گویرا کا اگلا پڑاو کانگو تھا جہاں وزیراعظم کا تختہ الٹ کر ملک میں آمریت مسلط کی جا چکی تھی۔ یہاں اس نے بولیویا کے عوام کی اس جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔یہاں چی گویرا متحرک نوجوانوں میں اپنا جذبہ منتقل کرنا چاہتا تھا جو گوریلا کارروائیوں ہی سے ممکن تھا۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے باعث اسے اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب یہاں کی عوام نے انقلاب کے حصول میں عدم دلچسپی کا ثبوت دینا شروع کیا۔ 1966ء میں کاسترو کے کہنے پر چی گویرا واپس کیوبا لوٹ آیا۔کیوبا سے کچھ عرصہ بعد اس نے بولیویا کی راہ لی جہاں اس نے رینی بارنتوس اور تونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت سنبھالی۔ستمبر 1966ء میں گوریلوں کے ٹھکانوں کی تلاش میں بولیویا سپیشل فورسز نے امریکی سی آئی اے کی زیر نگرانی ایک مخبر کی اطلاع پر چی گویرا کے ٹھکانے کا سراغ لگایا اور بالآخر 8 اکتوبر 1967ء کو ایک جھڑپ کے بعد اسے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔صدر برنتوس نے ایک لمحہ انتظار کئے بغیر اس کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔ بولیویا حکام، امریکی آشیرباد کے تحت اس معاملے کو ایک لمحے کیلئے بھی لٹکانے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔چی گویرا کو گرفتاری کے بعد قریبی گائوں کے ایک سنسان سکول کی عمارت میں رات بھر قید رکھا گیا۔اگلے دن یعنی 9 اکتوبر 1967ء کو بولیویا فوج کے ایک سارجنٹ نے گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا۔ اس کی موت کے بعد اس کی لاش کوغائب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چی گویرا کی باقیات کو کیوبا میں سانتا کلارا کے مقام پر ایک مقبرہ میں پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔یہ وہی مقام ہے جہاں چی گویرا کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب کی آخری جنگ لڑی گئی تھی۔اس کی ڈائری ، دیگر تحریریں اور اس کی تصاویر دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔مخصوص ٹوپی اور منفرد داڑھی والی اس کی تصویر جو ارجنٹینا کے ایک فوٹو گرافر البرٹو کورڈا نے کھینچی تھی وہ آج بھی لاطینی امریکہ کی مقبول ترین تصویر ہے۔اس تصویر سے مزین ٹی شرٹس آج بھی بائیں بازو کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں۔ 

معمر افراد کا عالمی دن

معمر افراد کا عالمی دن

معمر افراد کا عالمی دن دنیا بھر میں یکم اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔یہ خوش آئند ہے اور یقیناً اقوام عالم کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم اپنے بزرگوں، معمر افراد کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی خدمات کے اعتراف ہی کی وجہ سے اس دن کو منانے کا فیصلہ 1990 ء میں اقوام متحدہ کی ایک قردار میں کیا گیا تھا اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد معمر افراد کی ضروریات، مسائل اور تکالیف سے معاشرے کو آگاہی فراہم کرنا اور لوگوں کی توجہ بوڑھے افراد کے حقوق کی طرف دلانا ہے۔ دنیا میں انسانیت کی بقاء دو رشتوں کو قرار دیا گیا اور ان دو رشتوں کو ماں اور باپ کہا جاتا ہے۔ ہر دور میں ان رشتوں کی محبت، خدمت اور احساس کا جذبہ غالب رہا ہے خصوصاً جب یہ دو رشتے عمر کے آخری حصے میں پہنچ جائیں، تو ان کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ایک مسلمان کیلئے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کے بڑھاپے اورکمزوری کے زمانے میں ان کی خوب خدمت کی جائے اور ان کے مکمل اخراجات اٹھائے جائیں اور یہی چیز اُس کیلئے جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ان کی خدمت اوراخراجات میں غفلت اور کوتاہی سے کام لینا جنت سے محرومی کاذریعہ ہے۔ دین اسلام میں اس بات کی سختی سے تاکید کی گئی اور یہ دعا بھی سکھلائی گئی کہ ''پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘(سورہ بنی اسرائیل)۔ قرآن کریم کے اس حکم میں اولاد کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسے والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں معمر افراد کیلئے انسانوں کے مختلف رویے پائے جاتے ہیں۔ آئیے مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند، عرب دنیا و تمام مسلم ممالک میں تقریباً 95فیصد بوڑھے والدین و دیگر معمر افراد کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اولڈ ایج ہوم(ہاسٹل)میں بزرگوں کی تعداد کُل آبادی کا بمشکل 2 فیصد ہے۔ جبکہ مغربی ممالک میں یہ تعداد تقریباً 40فیصد ہے، بوڑھے والدین اور معمر افراد کو اولڈ ایج ہوم(ہاسٹل) میں بھیج دیا جاتا ہے۔ عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کی چاہت ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کے درمیان رہے، اولاد اور اولاد کی اولاد کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ ایسے معمر افراد جو ان ہاسٹلوں میں آ جاتے ہیں ان کی اپنی اولاد کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنے کی خواہش ایک حسرت بن جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں رواں سال ایسے 37 ہزار افراد کا انتقال ہو گیا جو تنہا رہتے تھے، سیکڑوں لاشیں مہینوں بعد ملی۔ ان 37 ہزار میں تقریباً تیس ہزار افراد عمر رسیدہ تھے۔ جاپان کی پچاس فیصد آبادی ساٹھ سال سے زائد عمر والوں کی ہونے والی ہے۔ معمر افراد کی آبادی کا اس حد تک بڑھ جانا حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج بن رہا ہے، اسی وجہ سے جاپان میں حکومت کی طرف سے اب ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جس میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ تیسرے بچے کی ولادت پہ وظائف وغیرہ کی بڑھوتری ہو گی۔ معمر افراد کے حوالے سے دنیا بھر سے الگ الگ نوعیت کے بھیانک حقائق ہیں، کینیا کے علاقے کلیفی ساحل پر ہر ہفتے کم از کم اپنے خاندان کے ایک بزرگ کو جادو ٹونے کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، جن بزرگوں کی حفاظت اور خدمت کرنی چاہیے انہیں ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب وہاں کے لوگ اپنے بالوں کی سفیدی کو کالا رنگ لگا کر دوبارہ کالا کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2023ء میں دنیا بھر میں معمر افراد کی تعداد 98کروڑ دس لاکھ تھی جبکہ 2050 تک دنیا بھر میں یہ تعداد دو ارب ہو جائے گی۔ ایک طرف بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف ان کی صحت، خوراک، حفاظت اور کئی دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ یہ سُن کر ہی رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کئی ممالک میں تو اپنی مرضی سے باقاعدہ طور پر خودکشی کیلئے مراکز بنے ہوئے ہیں جیسا کہ سوئٹزر لینڈ میں۔ ان مراکز میں اپنی زندگی کے خاتمے کیلئے آنے والوں کی90فیصد تعداد بزرگوں کی ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور تمام ترقی یافتہ ممالک میں ہر قسم کی سہولیات، آسائشیں تو بزرگ شہریوں کیلئے فراہم کی جاتی ہیں لیکن بزرگ افراد کا اصل سکون، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، اُن کے بچے ان کے قریب رہ کر بھی بہت دور چلے جاتے ہیں۔ معمر افراد انسانی سماج کا عضو معطل یا اس کیلیے بارِگراں یا زمین کا بوجھ نہیں ہیں بلکہ وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں اور ہر اعتبار سے انسانی تکریم کے مستحق ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل نو دنیا بھر میں والدین، بزرگوں اور سماج میں موجود تمام معمر افراد کے ساتھ ہمدردی اور محبت و تعلق کا ایسا نمونہ پیش کریں، جس سے خوشگوار فضا قائم ہو اور آنے والی نسل ذہنی وفکری طور پر اپنے بزرگوں کی خدمت کیلئے خوش دلی سے آمادہ رہے۔

آج کا دن

آج کا دن

گاڑی فورڈ ٹی متعارفدنیا کی معروف کارساز کمپنی فورڈ نے یکم اکتوبر1908ء کو فورڈ ماڈل ٹی کے نام سے ایک سستی گاڑی متعارف کروائی۔اس گاڑی کو فورڈ کی پہلی سستی آٹو موبائل کے طور پر بھی شمار کیا جاتا ہے جس نے درمیانی طبقے کے امریکیوں کیلئے کار کا سفر آسان بنایا۔اس کار کی پیداوار1908ء سے لے کر1927ء تک جاری رہی۔فورڈ ماڈل ٹی کی قیمت میں کمی کی اصل وجہ فورڈ کی موثر اور جدید فیبریکیشن تھی جس میں انفرادی اور اسمبلی لائن دونوں شامل تھیں۔اس گاڑی کو ایک امریکی اور دو ہنگری انجینئرز نے ڈیزائن کیا تھا۔ماڈل ٹی کو ''ٹین لیزی‘‘ اور''فلیور‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔لاس اینجلس بم دھماکےیکم اکتوبر1910ء کو بین الاقوامی ایسوی ایشن آف برج اینڈ سٹرکچرل آئرن ورکرز سے تعلق رکھنے والے ایک یونین رکن نے لاس اینجلس ٹائمز کی عمارت کو بم سے اڑا دیا۔ دھماکے کے بعد عمارت میں آگ لگ گئی جس سے 21 افراد ہلاک اور100کے قریب زخمی ہوئے۔لاس اینجلس ٹائمز اخبار نے اسے صدی کا سب سے بڑا جرم قرار دیا۔جان جے اور جیمز برناباس نامی دو بھائیوں کو1911ء میں بم دھماکے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ان کے ٹرائل کی وجہ سے امریکہ میں ایک مزدور تحریک کا آغاز ہوگیا۔جان برناباس نے عمارت میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کا اعتراف کیا جس کے بعد اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔دمشق پر قبضہحیفہ پر قبضے اور سماخ کی جنگ میں فتح کے بعد یکم اکتوبر 1918ء کو دمشق پر قبضہ کیا گیا جس سے بحیرہ گیلیل سے شمال کی طرف تعاقب کا کھلا اور ٹرانس جارڈن کے تیسرے حملے نے ڈیرہ اور اندرون ملک تعاقت کا راستہ کھول دیا۔پہلی جنگ عظیم کی سینا اور فلسطین مہم کے دوران میگدو کی جنگ میں مصری مہم جوئی کی فیصلہ کن فتح کے بعد دمشق پر اس وقت قبضہ کر لیا گیا جب ڈیزرٹ ماؤنٹڈ کور اور شہزادہ فیصل کی شیرفیل حجاز آرمی نے شہر کو گھیرے میں لیا۔ عثمانی فوج کی جانب سے قائم کی گئیں بہت سی چوکیوں پر آسٹریلیائی ماؤنٹڈ ڈویژن کی جانب سے قبضہ کر لیا گیا۔امریکہ جنوبی کوریا معاہدہیکم اکتوبر1953ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس معاہدے پر کوریا جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے دو ماہ بعد دستخط کئے گئے۔معاہدے کے بعد کوریا جنگ کو روک دیا گیا۔یہ معاہد ہ دونوں ممالک کو باہمی مدد فراہم کرنے کا عہد تھا۔ اس معاہدے کے مطابق اگر دونوں ممالک میں سے کسی کو بھی مسلح حملے کا سامنا کرنا پڑتا تو دونوں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کے پابند تھے۔  

ہلسا مچھلی:بنگال کی جل پری

ہلسا مچھلی:بنگال کی جل پری

مچھلی قدرت کی انمول تخلیق ہے۔جہاں پانی کی فراوانی ہے مچھلیاں وہاں پائی جاتی ہیں۔ یہ جھیلوں ، چشموں ،تالابوں ،ندی نالوں، دریاوں اور سمندروں میں پائی جاتی ہیں۔یہ آبی مخلوق کی وہ منفرد قسم ہے جس کی اب تک 21 ہزار سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مچھلی صرف ایک خوراک ہی نہیں بلکہ کئی بیماریوں کا،علاج بھی ہے۔ مچھلی کو آبی حیات میں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کی بعض انواع کچھ مذاہب میں مقدس مانی جاتی ہیں، لیکن ہم جس مچھلی کا ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ نہ صرف اپنے ذائقے کی وجہ سے ہر دلعزیز اور کچھ مذاہب میں مقدس ہے بلکہ وہ ثقافتی اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے۔ہلسا نام کی یہ مچھلی ، بنگالی ثقافت کا ایک اہم جزو تصور ہوتی ہے۔ مذہبی رسومات ہوں ، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، خصوصی ضیافتیں ہوں ہلسا کی موجودگی کے بغیر نامکمل تصور ہوتی ہیں۔دراصل ہلسا اور بنگال کا ساتھ صدیوں پرانا ہے۔ وقت بدلا زمانے بدلے لیکن بنگال کی ثقافت سے ہلسا کو کوئی نہیں نکال سکا۔اسی لئے تو بنگالی فخر سے اسے '' بنگالی جل پری‘‘ کہتے ہیںاور کیوں نہ کہیں،بنگالی ثقافت میں ہلسا کی دعوت کو نہ صرف صلح کا پیغام تصور کیا جاتا ہے بلکہ اسے دوستی کو مضبوط بنانے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کا وسیلہ بھی مانا جاتا ہے۔بنگال میں اسے ساس سسر کی خوشنودی کا حصول بھی کہا جاتا ہے۔اور تو اور اسے شریک حیات کی خفگی دور کرنے کا وسیلہ اور مسرت کا سامان بھی کہا جاتا ہے۔بنگال میں صدیوں پرانی ایک روایت سننے کو ملتی ہے کہ ، ہلسا کے بغیر بنگال کی سماجی اور معاشرتی زندگی پھیکی اور بے رونق ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی ثقافتی اور سماجی اہمیت بھلا اور کیا ہوگی کہ بنگال کے رسم و رواج کے مطابق دولہا کے گھر سے شادی کی رسومات کی ابتدا ہی سجی سجائی ہلسا مچھلی سے ہوتی ہے جسے ایک خوبصورت پلیٹ میں سجا کر دولہا سے ہاتھ لگوا کر دلہن کے گھر بھیجا جاتا ہے۔ بیشتر گھرانے لڑکے والوں کی طرف سے آئی اس مچھلی کو سالن کی شکل میں بطور خاص بنا کر نہ صرف خود کھاتے ہیں بلکہ اپنے قریبی اور خاص عزیز و اقارب کو بھی بھجواتے ہیں جو ایک طرح سے اس نئے رشتے کے بندھن کی اطلاع ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ رسم نو بیاہتا جوڑے کی نئی زندگی کی شروعات پر خیر سگالی کا ایک پیغام بھی ہوتا ہے۔ بنگالیوں کا یہ صدیوں پرانا عقیدہ ہے کہ یہ رسم نوبیاہتا جوڑوں کی زندگی میں خوشگوار تعلقات کی ضامن ہوتی ہے۔ہلسا مچھلی بنگلہ دیش کی قومی مچھلی ہے۔ بنگالیوں کے مذہبی تہواروں میں بھی ہلسا کی ایک مسلمہ حیثیت ہے۔ہندوں کی رسم کالی پوجا ، سرسوتی پوجا اور لکشمی پوجا میں ہلسا کے بنے پکوان خصوصی طور پر نذرانے کے طور پر چڑھائے جاتے ہیں۔ان چڑھاوں کو خیرو برکت اور بھگوان کی خوشنودی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہلسا مچھلی صرف بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ ہندوستانی ریاست مغربی بنگال میں بھی '' درگاہ پوجا‘‘ کے دوران ہر سال اکتوبر میں دنیا بھر سے آئے لاکھوں عقیدت مندوں کی میزبانی کا حق ادا کرتی ہے۔زمانہ قدیم میں تو مغربی اور مشرقی بنگالی نئے سال کا آغاز چاول اور تلی ہوئی ہلسا مچھلی سے کیا کرتے تھے ، لیکن اب یہ روایت بہت کم علاقوں میں نظر آتی ہے۔ ہلسا نہ صرف چاندی کی طرح چمکتی خوبصورت مچھلی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ ذائقہ دار اور لذیذ بھی ہے۔ بنگالی خواتین اسے بے شمار طریقوں سے بناتی ہیں۔درحقیقت ہلسا مچھلی بنگالیوں اور میانمار کے لوگوں کی بنیادی خوراک چلی آرہی ہے۔بنگالیوں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ مچھلی کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں کرتے۔وہ مچھلی کا سر تا دم ہر حصہ انتہائی رغبت سے کھاتے ہیں۔مچھلی ہی بنگالیوں کی روزانہ خوراک کا حصہ ہے۔مچھلی کا سالن جسے ''جھول‘‘کہتے ہیں چاول کے ساتھ ملا کر کھانا ، یہاں کی سب سے مقبول ڈش سمجھی جاتی ہے۔ایک اور بات کا یہاں بڑا چرچا ہے کہ مچھلی ،بالخصوص ہلسا کا دماغ کھانے سے انسانی دماغ مضبوط اور طاقت ور بنتا ہے۔ اگرچہ اس مچھلی کی پیداوار بین الاقوامی طلب کے مقابلے میں کافی کم ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل کو غیر قانونی شکار کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔چونکہ یہ اپنے منفرد ذائقے کی بدولت دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے یہ عام مچھلیوں کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہے اور صرف امیروں کے دستر خواں تک ہی رسائی حاصل کر پاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہلسا مچھلی کی فی کلو قیمت پاکستانی روپوں میں آٹھ ہزار روپے تک ہے۔ہلسا مچھلی کا مرکزی ٹھکانہ خلیج بنگال کے ساتھ لگنے والے دریا ہیں۔ ان میں دریائے گنگا اور پدما سرفہرست ہیں جہاں بنگال کے مچھیرے ان کا بڑی بے رحمی سے شکار کرتے نظر آتے ہیں۔یہ سردیاں پانی کی تہہ میں گزارتی ہے اور موسم گرما کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتی ہے ، سردیاں ختم ہوتے ہی یہ غولوں کی شکل میں خلیج بنگال کے دریاوں میں چارسو تیرتی نظر آتی ہے۔ بے آف بنگال لارج میرین ایکو سسٹم کے مطابق دنیا میں ہلسا مچھلی کی کل پیداوار کا 60 فیصد بنگلہ دیش ، 20 فیصد میانمار جب کہ اس کے علاوہ کچھ مقدار ہندوستان اور انتہائی قلیل مقدار پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں پکڑی جاتی ہے۔ ہلسا کی بقا کو لاحق خطرات اگرچہ بنگلہ دیش میں مچھلی کے بے دریغ شکار پر کسی حد پابندی ہے ، لیکن میانمار جو بنگلہ دیش کے بعد ہلسا کی پیداوار میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اس کا شکار بلا تعطل سارا سال جاری رہتا ہے۔ ااس کی بڑی وجہ یہاں بڑی حد تک غربت کا ہونا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرہ ہلسا کی بڑھتی ہوئی مانگ اور بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ جس کی بڑی وجہ بڑے '' تجارتی ٹرالر‘‘ ہیں۔ ان ٹرالروں میں بڑے بڑے باریک جال لگے ہوتے ہیں جن کے سوراخوں کا سائز بمشکل 2.5 سینٹی میٹر تک ہوتا ہے جس میں چھوٹی سے چھوٹی مچھلیاں بھی پھنس جاتی ہیں۔ ہلسا کے معدوم ہو جانے کی ایک بڑی وجہ عالمی طور پر بڑھتی موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کی آلودگی بھی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اس آبی مخلوق کی بقا کو پلاسٹک کے کچرے سے خطرہ ہے جسے خوراک سمجھ کر کھا کر یہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔