لاہور غزنویوں سے مغلوں تک ہر حکمران اس شہر سے وابستہ رہا
شہر لاہور کو زمانہ قدیم سے ہی خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس شہر کے بارے میں ایک محاوارہ بہت مشہور ہے کہ ''جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیاای نئی‘‘ یعنی کہ جس نے لاہور نہیںدیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ اس شہر کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات مشہور ہیں۔ اس شہر کی تاریخ پر نظر د وڑائی جائے تو پہلی صدی عیسوی سے جا ملتے ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہر سکندر اعظم کی مہم جوئی کا بھی محور رہا ہے۔ پھر یہی خطہ ہندومت اور اسلام کی باہمی آویزشوں اور محاذ آرائی کا مرکز رہا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کی ابتدائی تاریخ میں اسے زبردست اہمت حاصل رہی ۔
غزنویوں سے لے کر مغلوں تک شمالی ہندوستان کا ہر مسلمان حکمران خاندان اس شہر کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں وابستہ رہا ہے۔ کئی مرتبہ یہ مسلمان حکمران کا پایہ تخت بھی رہا۔ غرض اس شہر کو ہمیشہ سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سکھوں کی تاریخ میں اسے ارجن کی شہادت اور رنجیت سنگھ کے دارالسلطنت کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔
مشرق اور مغرب کے مورخ اور شاعر لاہور کی عظمت کے اعتراف میںمشترکہ طورپر یہ پڑھا''ہندوستان کے شہروں میں عظیم شہر‘‘ ابوالفضل نے سولہویں صدی میں لاہور کو تمام قوموں کا پر شکوہ مسکن قرار دیا ہے۔ یہ مقامی ضرب المثل میں کہا گیا ہے کہ اگر شیراز اور اصفہان کو اکٹھا کیا جائے تو بھی ایک لاہور نہیں بن سکتا۔تھیوناٹ نامی سیاح 1665ء عیسوی میںاس وقت لاہور میں وارد ہوا جب یہ شہر زوال پذیر تھا۔ اس نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اس کی آمد سے تھوڑی دیر پہلے تک لاہور شہر اور اس کے نواحی علاقوں کی لمبائی تین میل کے برابر تھی۔ برنیئر نے اس شہر کے محلوں ، گلیوں کی لمبائی اور مکانوں کی بلندی کا آگرہ اور دہلی سے موازنہ کیا ہے۔ ہمارے اپنے شاعر ملٹن نے ''جنتِ گمگ شتہ‘‘ میںلاہور کو قدیم اور جدید دور کا شہرت یافتہ اور دنیا کی طاقت ور ترین سلطنتوں کا پایہ تخت قرار دیا ہے۔
لاہور شہر کے سنگ بنیاد رکھنے کی صحیح تاریخ کا آج تعین کرنا ممکن نہیں، البتہ مختلفواقعات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس شہر کو کس دور میں عروج حاصل ہواتھا۔اس سے پہلے یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اس شہر کی بنیاد ساتویں صدی کے آخر میں رکھی گئی اور اسے ایک عظیم سلطنت کا پہلا تخت قرار دیا گیا۔ دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ پہلی صدی عیسوی میں اس شہر کا وجود ناپید تھا۔
یونانی مورخوں نے مشرق میں سکندراعظم کی مہم جوئی کے سلسلے میں اس شہر کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ ترنیز نے سنگلالہ نامی شہر کا ذکر کیا ہے جواس دور کا مضبوط قلعہ تھا جس نے لاہور اور اس کے گردو نواح کا علاقہ تسخیر کرلیا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ سنگالہ شہر راوی سے تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سکندر اعظم نے لاہور کے قریب راوی کو پار کیا تھا اور غالب امکان یہی ہے کہ وہ جگہ جدید لاہور شہر ہی تھی تاہم اگر اس زمانے میں لاہور مشہور شہر ہوتا تو اس کا تذکرہ ضرور کیا جاتا۔
اس سے اگلے زمانے میں بھی لاہور کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ سٹریبونے بھی 66 قبل مسیح اور24 عیسوی کے درمیان تاریخ لکھی ہے، لاہور شہر کا کوئی ذکرنہیں ہے۔ پلسینی نے22ء اور79ء کے درمیان دریائے سندھ اور الہ آباد کے درمیان واقع شاہی سڑک کی جو تفصیل لکھی ہے اس میں لاہور کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اگرچہ لاہور منادر اور سکائتھ خاندانوں کے پایہ تخت رہا ہے لیکن لاہور سے انڈو بیکٹرین یا انڈو سکائتھ دور کے کوئی سکے برآمد نہیں ہوئے۔ سو ہم پورے وثوق کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیںکہ لاہور کی بنیاد پہلی سے ساتویں عیسوی کے درمیانی میں روکھی گئی ہے۔
اسکندریہ میں150 عیسوی میں تیار ہونے والے جغرافیئے میں لبوکالا نامی شہر کا ذکر موجود ہے جو کیسپریا(کشمیر) کے اس علاقے میں دریائے سندھ اور پلیبو تھرا کے درمیان واقع تھا۔جس میں بداستیز (جہلم) سندا ہال (چندرا بھاگا یا چناب) اور آدریز (راوی) بہتے تھے۔
دلفورڈ نے اس جگہ کے نام اور مقام کے بارے میں تحیقیق کے بعد لکھا ہے کہ یہ شہر لاہور تھا۔ میجر جنرل کننگھم نے حال ہی میں لاہور سے25 میل دور ایک تباہ شدہ شہر امپاکپی کا سراغ لگایاہے۔ ٹاڈ کی تحقیق کے مطابق جس وقت اسکندریہ میں پٹولمی کا جغرافیہ لکھا گیا، اس وقت لاہور کو ایک اہم شہرت کی حیثیت حاصل تھی۔
ناڈ نے مزید لکھا ہے کہ شہزادہ کینکسین نے دوسری صدق عیسوی کے وسط میں لاہور سے ہجرت کی تھی۔ ان تمام روایتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ لاہور کی بنیاد پہلی صدی کے آخر یا دوسری صدی کے شروع میں رکھی گئی تھی۔