اکبری دربار کے گویے
اکبر کے دربار میں جتنے گویے اور سازندے تھے، ان میں اکثریت گوالیار والوں کی تھی، جو راجہ مان سنگھ گوالیاری کی وجہ سے موسیقی کا بڑا مرکز تھا۔ ابوالفضل نے آئین اکبری میں اکبر کے درباری ماہرین فن کے حسب ذیل نام لکھے ہیں۔تان سین گوالیاری،باز بہادر مالوی،رامداس گوالیاری،سبحان خاں، ہرگیان خان گوالیاری،میان چند گوالیاری،بچتر خاں گوالیاری،محمد خان ڈھاری،سلطان حافظ حسین مشہدی، دائود ڈھاری، سرود خاں گوالیاری،میاں لال گوالیاری،تان ترنگ خاں،ملا اسحاق ڈھاری،سورداس گوالیاری،چاند خاں،رنگ سین اگرئی،رحمت اللہ،حافظ خواجہ علی مشہدی،پیرزادہ خراسانی،نائک چرجوگوالیاری۔
تان سین: ان میں انمول ہیرا تان سین تھے،جس نے حضرت غوث ؒ گوالیاری کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی''خزینۃ الاصفیا‘‘ کے مصنف کا بیان ہے کہ حضرت غوث نے اس کو اپنا خلیفہ بھی بنایا تھا۔ موسیقی کی تعلیم راجہ مان سنگھ کے قائم کردہ گانودیالیہ میں پائی، جہاں بڑے بڑے ارباب کمال جمع ہو گئے تھے۔ نائک بخشو کا اس وقت انتقال ہو چکا تھا، اس لئے تان سین کو بخشو سے فیض حاصل نہ کرنے کا قلق رہا لیکن کہا جاتا ہے کہ بخشو نے اپنے سینہ کی ساری دولت اپنی لڑکی کو دے دی تھی، اس لئے تان سین نے اسی سے کسب فیض کیا۔ پھر بندر ابن پہنچ کر باباہری داس سے بھی تربیت حاصل کی اور جب کمال حاصل کر لیا تو راجہ چندر بھتہ(ریواں) کے یہاں آکر ملازمت کی۔ اکبر نے اس کی شہرت سنی تو اس کو اپنے یہاں مدعو کیا اور جس روز وہ دربار میں آیا اسی روز اس کو دو کروڑ دام یعنی دو لاکھ روپے کے انعام سے نوازا۔ اکبر خود موسیقی کا ماہر تھا، اس لئے تان سین کی بڑی قدر کرتا رہا۔ وہ تان سین کے ساتھ اس کے استاد بابا ہری داس کے پاس جاتا جو اپنے عہد کے سب سے بڑے استاد اور بھگت سمجھے جاتے تھے۔ تان سین جب کوئی چیز ہری داس کے سامنے گاتا تو اکبر اس کو غلط طریقہ پر گانے کیلئے اشارہ کرتا تو اس وقت تان سین کو ہری داس ٹوکتے اور خود گا کر بتانے لگتے جس کو سن کر اکبر محظوظ ہوتا۔ تان سین نے دھرپدکے مشکل راگ کو آسان بنا کر سو بہار ایجاد کیا۔''راگ درپن‘‘ میں ہے کہ اس نے ملہار اور کانہڑا، کلیاں اساوری اور دیوکندھار اور پھر کانہڑا کو درباری کانہڑا اور کلیان سے ملا کر راگنیاں پیدا کیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کی موسیقی کو جو عروج حاصل ہوا وہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک زریں باب ہے۔ مشہور ہے کہ وہ جنگل میں گاتا تو چرندے اور درندے مست ہو جاتے، یا دریا کے کنارے راگ چھیڑ دیتا تو پانی سے شعلے نکلنے لگتے۔ ابو الفضل نے آئین اکبری میں لکھا ہے کہ تان سین جیسا گانے والا ہزار برس میں بھی پیدا نہ ہو سکا۔ ''اقبال نامہ جہاں گیری‘‘ میں لکھا ہے کہ تان سین کے ہزاروں گیت ابھی تک رائج ہیں، جن میں بہت سے اکبر کے نام پر ہیں۔
تان سین نے 997ھ(مطابق1589ء) میں وفات پائی، اکبر نے اس کی وفات پر کہا کہ اب دنیا سے نغمہ سرائی ختم ہو گئی۔ گوالیار میں اس کا مزار حضرت غوث گوالیاریؒ کے مقبرہ میں ہے، اس کے مزار پر نیم کا ایک درخت ہے جس کے بارہ میں مشہور ہے کہ گانے والے اس کی پتیاں کھا لیتے ہیں تو ان کی آواز پہلے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ تان سین کے تین بیٹے بلاس خان، صورت سین اور تان ترنگ خاں تھے۔ ان تینوں نے موسیقی وراثت میں پائی۔ اکبری دربار کے مذکورہ بالا گویوں کی فہرست میں تان ترنگ خاں کا بھی نام ہے ۔
باز بہادر: اکبری دربار کا دوسرا ماہر فن سلطان باز بہادر تھا، وہ مالوہ کا حکمراں تھا لیکن مالوہ پر اکبر کی لشکر کشی کے بعد شاہی دربار سے وابستہ ہو گیا۔ ابو الفضل نے آئین اکبری میں لکھا ہے کہ گانے میں اس کی مثال نہ تھی، اس کے گانے کی طرز باز خانی کے نام سے مشہور ہوئی۔وہ سازو آہنگ دونوں کا ماہر تھا۔