جزائر ہوائی:بحرالکاہل کی جنت

جزائر ہوائی:بحرالکاہل کی جنت

اسپیشل فیچر

تحریر : فقیر اللہ خاں


جس طرح کسی مہتابی جھیل میں کنول کے پھول تیرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح بحراکاہل میں بکھرے ہوئے ہوائی کے جزیرے بھلے لگتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرالکاہل میں ہوائی کے جزیرے ایک بڑے صحرا میں نخلستان کی مانند ہیں۔ امریکہ کے مغربی ساحل سے لے کر چین، جاپان اور روس کی بندرگاہ ولاڈی واسٹک تک بحرالکاہل پھیلا ہوا ہے اور اس کے تقریباً وسط میں ہوائی کے جزیروں کا وجود قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے۔ ان جزائر کی خوبصورتی کی وجہ سے ہوائی کو بحرالکاہل کی ملکہ (Queen of Pacifie)اور بحرالکاہل کی ''جنت‘‘ (Paradise fo Pacifie)جیسے خوبصورت ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
ہوائی کے جزیروں کی کل تعداد 132ہے لیکن ان میں صرف 8جزائر ایسے ہیں جن کو بڑے جزیرے کہا جاتا ہے۔ باقی سوا سو کے قریب جزیرے صرف نام کے ہی جزیرے ہیں، ان پر آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے عملاً ہوائی کی ریاست ان آٹھ جزیروں پر ہی مشتمل ہے۔دنیا کا سب سے بڑا سمندر بحرالکاہل جو کہ جنوب میں نیوزی لینڈ سے لے کر شمال میں آبنائے بیرنگ تک اور کیلیفورنیا سے لے کر چین، جاپان اور روس کے ساحلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہی وہ سمندر ہے جس کی گہرائی (36400فٹ) دنیا کے سب سے بڑے پہاڑ کوہ ہمالیہ کی چوٹی مائونٹ ایورسٹ (29028فٹ) سے بھی زیادہ ہے اور یہی وہ سمندر ہے جس کے پیٹ میں ہزاروں آتش فشاں چھپے ہوئے ہیں۔ یہی آتش فشاں جب پھٹتے ہیں تو کئی طرح کے سونامی جنم لیتے ہیں۔ حقیقت میں جزائر ہوائی بھی آتش فشانوں کی ہی پیداوار ہیں۔ خطۂ جاپان سے لے کر ہوائی تک کا علاقہ آتش فشاں پہاڑوں کی آماجگاہ ہے۔ ہوائی کے جزیروں پر اور ان کے ارد گرد سیکڑوں آتش فشاں موجود ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا آتش فشاں پہاڑ جس کی بلندی 13679فٹ ہے، ہوائی ہی میں سرتانے کھڑا ہے۔ اسی مناسبت سے کسی شاعر کا ایک شعر یاد آ گیا جو جزائر ہوائی پر صادق آتا ہے۔
ہزاروں خار دامن میں چھپے رہتے ہیں غنچوں کے
بظاہر دیکھنے میں ہر کلی معصوم ہوتی ہے
کچھ ایسی ہی صورتحال جزائر ہوائی اور اس کے قریب و جوار کی ہے۔ دراصل بحرالکاہل کے اندر آتش فشانوں کا ایک جہاں آباد ہے۔
ریاست ہوائی امریکہ کی پچاسویں اور جونیئر ترین ریاست ہے۔ اس لئے اس کو کمسن ریاست بھی کہا جاتا ہے۔ ہوائی کو 21اگست 1959ء میں ریاست کا درجہ دیا گیا۔ اس سے قبل 60سال ہوائی امریکہ کی مقبوضہ کالونی رہی۔ ایک عرصہ سے ہوائی پر بادشاہوں کی حکومت رہی۔ 1810ء سے لے کر 1893ء تک ہوائی میں تجارت کی غرض سے آئے ہوئے امریکیوں اور یورپی تاجروں نے شاہی حکمران کے خلاف سازش کرکے اسے تخت سے محروم کر دیا۔1894ء سے لے کر 1898ء تک ہوائی ایک آزاد جمہوریہ رہی۔1898ء میں ہوائی کے جزائر امریکہ کے مقبوضات رہے اور 60 سال تک امریکہ نے ہوائی کو اپنی کالونی بنائے رکھا۔ امریکہ نے یہاں پر کاروباری سرگرمیوں کے علاوہ یہاں کی دفاعی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوائی میں دفاعی تنصیبات اور فوج بھی تعینات کردی۔
ہوائی کی ریاست کا کل رقبہ 642مربع میل اور 2010ء کے اعداد و شمار کے مطابق آبادی 136030 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کا دارالخلافہ ہونولولو ہے جو جزیرہ اور آہو پر واقع ہے۔ ہوائی کے آٹھ جزائر میں سب سے بڑا جزیرہ ہوائی ہے جس کو Big Islandبڑا جزیرہ کہتے ہیں اور یہی وہ جزیرہ ہے جس پر زیادہ آتش فشاں پائے جاتے ہیں۔جزیرہ OAHU جزیرہ ہوائی سے رقبہ کے لحاظ سے چھوٹا لیکن آبادی سب جزیروں سے زیادہ (تقریباً دو تہائی) ہے۔ بڑی بندرگاہ پرل ہاربر اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی اسی جزیرہ پر موجود ہے۔
انفرادیت:ریاست ہوائی چند خصوصیات کی وجہ سے امریکہ کی باقی ریاستوں سے ممتاز اور انفرادی حیثیت کی حامل ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔(1)ہوائی امریکہ کی واحد ریاست ہے جو شمالی امریکہ میں نہیں بلکہ امریکہ کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔(2)ہوائی میں امریکہ کی دوسری ریاستوں کی طرح ''ڈے لائٹ سیونگ ٹائم‘‘ مستعمل نہیں ہے۔ (3) ریاست ہوائی میں دو زبانوں انگریزی اور ہوائی کو سرکاری زبانیں تسلیم کیا گیا ہے۔(4)یہ امریکہ کی واحد ریاست ہے جو جزائر پر مشتمل ہے۔ (5) ہوائی کی سرحدیں کسی دوسرے ملک بلکہ اپنے ملک کی بھی کسی ریاست سے نہیں ملتیں۔(6)آتش فشانوں کے لاوا اگلنے کی وجہ سے اس کا رقبہ بڑھتا رہتا ہے۔(7)ہوائی زبان کے صرف 12حروف تہجی ہیں۔
محل و قوع:ہوائی کی ریاست امریکہ کے مغربی ساحلی شہر سان فرانسسکو سے 2397میل، مغربی میں جاپان سے 3850 میل، چین کے ساحل سے 4900میل، فلپائن کے شہر منیلا سے 5293میل اور جنوب میں خط استوا سے 1800میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ جبکہ ہوائی خط سرطان پر واقع ہے۔ ہوائی کے چھوٹے بڑے 132جزیرے ہیں جو کہ جنوبی اور سب سے بڑے جزیرے ہوائی سے شمالی مغرب کی جانب ایک قوس کی شکل میں 1522میل کی لمبائی میں پھیلے ہوئے ہیں۔
نک نیم :اس ریاست کے کئی نک نیم ہیں جو درج ذیل ہیں:
الوہاسٹیٹ: الوہا Alohaہوائی زبان میں ہیلو کو کہتے ہیں اور یہ لفظ اس ریاست میں آنے والوں کیلئے خوش آمدید کے طور پر بولا جاتا ہے۔ یہ نک نیم سرکاری طور پر اس وقت رکھا گیا جب ہوائی کو 1959ء میں ریاست کا درجہ دیا گیا۔ ہونولولو کی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ٹاور کے اوپر بھی Aloha موٹے حروف میں لکھا ہوا ہے۔
بحرالکاہل کی جنت:ہوائی کو Paradise of Pacific اس کے خوبصورت محل وقوع کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ بلکہ کچھ سیاح تو اس کو بحرالکاہل کی ملکہ Queen of Pacificکے نام سے بھی پکارتے ہیں۔
پائن ایپل سٹیٹ:کیونکہ اس ریاست میں بہت زیادہ مقدار میں انناس پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے اس ریاست کو پائن ایپل سٹیٹ بھی کہتے ہیں اور دنیا کا 25فیصد اننا اس ریاست سے برآمد کیا جاتا ہے۔
رینبو( Rainbow) سٹیٹ:وہ اس وجہ سے کہ اس ریاست کے جزائر قوس قزح کی طرف ایک قوس کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں۔
کمسن ریاست:ہوائی کی ریاست امریکہ کی 50 ریاستوں میں سب سے آخر میں وفاق میں شامل ہوئی تھی۔ اس لئے اس ریاست کو کمسن ریاست کہا جاتا ہے۔
سینڈوچ آئی لینڈ:برطانوی جہاز راں کیپٹن جیمز کک 1778ء میں ہوائی کے جزائر میں لنگر انداز ہوا تو اس نے ان جزائر کو سینڈوچ آئی لینڈ کا نام دیا۔ دراصل کیپٹن جیمز کک کو مالی مدد دینے والا برطانیہ کا ایک سیاستدان اور حکومت کا اہم رکن تھا۔ اس سفر کے تمام خراجات اسی نے برداشت کئے تھے۔ اس لئے جیمز کک نے ہوائی کے جزائر کی دریافت کو اپنے Spensorکے نام پر سینڈوچ کے نام سے منسوب کیا۔مشہور امریکی مصنف مارک ٹوئن نے ہوائی کے جزائر کو دیکھ کر ان الفاظ میں تبصرہ کیا: "Hawaii is the Lovliest fleet of Islands, that lies anchored in any ocean" یعنی( ہوائی کے) جزائر خوبصورت جہازوں کے بیڑے کی مانند ایک خاص ترتیب سے کسی سمندر میں لنگر انداز ہیں۔ ہوائی کے جزائر کیونکہ براعظم امریکہ اور براعظم ایشیاء کے درمیان واقع ہیں اس لئے ان دونوں براعظموں کے کلچر کا حسین امتزاج ہوائی کے جزائر میں پایا جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ایئر ڈیفنس سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟

ایئر ڈیفنس سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟

دنیا میں جدید جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے۔ اب میدانِ جنگ صرف زمین تک محدود نہیں رہا بلکہ فضا، خلا اور سائبر سپیس بھی جنگی حکمت عملیوں کا اہم حصہ بن چکی ہیں۔ اسی تناظر میں ایئر ڈیفنس سسٹم کسی بھی ملک کی سلامتی کا ایک ناگزیر جزو بن چکا ہے۔ یہ سسٹم دشمن کے فضائی حملوں کو روکنے، میزائلوں، ڈرونز، جنگی طیاروں اور دیگر فضائی خطرات کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایئر ڈیفنس سسٹم کیسے کام کرتا ہے ایئر ڈیفنس سسٹم دراصل ایک جامع دفاعی نظام پر مشتمل ہوتا ہے جو زمین سے فضا میں آنے والے کسی بھی خطرے کی بروقت شناخت، سراغ رسانی، تعاقب اور تباہی کے لیے کام کرتا ہے۔ اس نظام میں مختلف ٹیکنالوجیز شامل ہوتی ہیں:ریڈار سسٹم: جو فضا میں موجود اشیا(جیسا کہ طیارے، میزائل، ڈرونز) کی نشاندہی کرتا ہے۔کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم: جو خطرے کا تجزیہ کرتا ہے اور دفاعی اقدامات کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے۔میزائل یا راکٹ: جو نشانے پر فائر کئے جاتے ہیں اور دشمن کی فضائی قوت کو تباہ کرتی ہیں۔ایئر ڈیفنس سسٹمز کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے! شارٹ رینج سسٹمز: یہ عام طور پر قریبی خطرات جیسے ڈرونز یا لو فضا میں پرواز کرنے والے میزائلوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ لانگ رینج سسٹمز: یہ سینکڑوں کلومیٹر دور سے آنے والے بیلسٹک میزائل یا جنگی طیاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔دنیا کے بڑے اور مشہور ایئر ڈیفنس سسٹمز۔ ایس400 ٹریومف،روسایس400 دنیا کا سب سے جدید اور خطرناک ائئر ڈیفنس سسٹم مانا جاتا ہے۔ یہ سسٹم روس نے تیار کیا ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک وقت میں 36 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کی رینج 400 کلومیٹر تک ہے اور یہ 30 کلومیٹر بلندی تک اہداف کو نشانہ بناسکتا ہے۔چین ، ترکی اور بھارت نے یہ نظام خریدا ہے۔معرکۂ حق کے دوران افواج پاکستان کی کارروائی میں اس ائیر ڈیفنس سسٹم کو بھی تباہ کیا گیا تھا جو کہ اپنی نوعیت کا ایک الگ کارنامہ ہے۔پیٹریاٹ، امریکہامریکی ساختہ پیٹریاٹ سسٹم 1980ء کی دہائی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ سسٹم خاص طور پر بیلسٹک میزائلوں اور طیاروں کے خلاف مؤثر ہے۔ سعودی عرب، جاپان ، اسرائیل اور دیگر ممالک میں یہ سسٹم تعینات ہے۔ آئرن ڈوم، اسرائیلیہ سسٹم اسرائیل نے تیار کیا ہے اور وہی اسے استعمال کرتا ہے۔ یہ مختصر فاصلے پر داغے جانے والے راکٹ اور مارٹر گولوں کو روکنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آئرن ڈوم کو ایک تیز ردعمل دینے والا سسٹم مانا جاتا ہے تاہم حالیہ دنوں ایران کے میزائلوں کے خلاف بارہا اس سسٹم کی ناکامی ثابت ہوئی ہے۔THAAD،امریکہTHAAD (Terminal High Altitude Area Defense )سسٹم امریکی ڈیفنس کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے تیار کیا تھا۔ یہ بیلسٹک میزائلوں کو ان کے ٹرمینل فیز میں یعنی جب وہ زمین کے قریب آ رہے ہوں،مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی رینج 200 کلومیٹر سے زائد ہے۔HQ-9،چینیہ چینی ایئر ڈیفنس سسٹم روسی ایس300 کا متبادل ہے۔ یہ سسٹم درمیانے اور طویل فاصلے کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین نے اسے پاکستان، ترکمانستان اور دیگر اتحادی ممالک کو فراہم کیا ہے۔ باراک 8 یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم بھارت اور اسرائیل کا تیار کردہ ہے جو خاص طور پر بحری جنگی جہازوں کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ 100 کلومیٹر فاصلے تک کے فضائی خطرات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔پاکستان کا ایئر ڈیفنس سسٹمپاکستان ایئر ڈیفنس کے حوالے سے خاصا متحرک ہے۔ پاکستان آرمی ایئر ڈیفنس کمانڈ پاک فضائیہ کے ساتھ مل کر مختلف سسٹمز پر کام کر رہی ہے۔ پاکستان کے اہم سسٹمز میں چینی HQ-9، LY-80 (میڈیم رینج) اور خود تیار کردہ ہتھیار شامل ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں FD-2000 جیسے جدید چینی سسٹمز بھی حاصل کیے ہیں۔مستقبل کے ایئر ڈیفنس سسٹمزدنیا بھر میں ایئر ڈیفنس کی سمت تیزی سے بدل رہی ہے۔ اب ہائپرسانک میزائلز، سٹیلتھ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے فضائی دفاع مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ امریکہ اور چین جیسے ممالک لیزر ڈیفنس سسٹمز پر بھی کام کر رہے ہیں جو روشنی کی رفتار سے اہداف کو تباہ کر سکتے ہیں۔بلا شبہ ایئر ڈیفنس سسٹمز آج کے دور کی جنگی حکمت عملیوں کا ایک اہم ستون بن چکے ہیں۔ چاہے وہ کسی ملک کی سرحدی حفاظت ہو یا شہری آبادیوں کا دفاع، ان کا کردار ناقابلِ انکار ہے۔ جیسے جیسے دنیا میں ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، ویسے ویسے ان سسٹمز کی اہمیت اور افادیت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر ملک اپنی دفاعی ضروریات کے مطابق ایئر ڈیفنس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ کسی بھی فضائی حملے کا مؤثر اور فوری جواب دیا جا سکے۔

نوجوان الجھن کا شکار کیوں؟

نوجوان الجھن کا شکار کیوں؟

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی، شعور اور بقا کی بنیاد ہوتی ہے اور طالب علم قوم کا مستقبل سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں کل آبادی کاتقریباً65 فیصدبنتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت طالب علموں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کے مستقبل کے معمار ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی حالات ایسے ہیں کہ اکثر طلبہ منزل کی سمت واضح نہ ہونے کے باعث الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ایسے میں طلبہ کی صحیح رہنمائی، مشورہ اور کردار سازی ازحد ضروری ہو جاتی ہے تاکہ نوجوان تعلیمی، اخلاقی، سماجی اور پیشہ ورانہ میدانوں میں کامیاب ہو سکیں۔تعلیم کا مقصد صرف ڈگری نہیںہمارے ہاں تعلیم کو صرف ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور والدین اور اساتذہ طالب علموں کو اکثر نمبروں کی دوڑ میں لگائے رکھتے ہیں، جبکہ تعلیم کا اصل مقصد شعور، سوچ، تحقیق، اخلاق اور ہنر کی تربیت ہوتا ہے۔ ایک باشعور طالب علم وہی ہوتا ہے جو کتابوں سے زیادہ سیکھنے پر توجہ دے، سوال کرے، تحقیق کرے اور تخلیقی سوچ اپنائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مطالعہ کی عادت اپنائیں۔ہمارے ملک کے نوجوانوں میں مطالعہ کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا، غیر متعلقہ مواد اور غیر نصابی سرگرمیوں میں وقت کا ضیاع ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ صرف نصاب ہی نہیں بلکہ حالات حاضرہ، تاریخ، سائنس، مذہب، ادب اور معاصر موضوعات کابھی مطالعہ کریں۔ روزانہ کم از کم 30 منٹ کا مطالعہ ایک کامیاب زندگی کی طرف قدم ہے مگر یہ کم از کم حد ہے‘ اس میں اپنی کوشش سے جو اضافہ کر سکے یہ اس کیلئے مفید ہے۔ یہ بھی مد نظر رکھیں کہ کامیاب زندگی کی بنیاد وقت کی قدر اور نظم و ضبط ہے۔ ایک طالب علم کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں باقاعدگی، منصوبہ بندی اور وقت کے درست استعمال کو شعار بنانا چاہیے۔ سونے، جاگنے، پڑھنے، آرام کرنے، اور تفریح کرنے کے اوقات طے کریں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔ موبائل اور سوشل میڈیا کا متوازن استعمالاس دور میں موبائل فون اور سوشل میڈیا ایک طرف معلومات کا خزانہ ہیں،مگر وہیں یہ وقت کا بہت بڑا ضیاع بھی بن چکے ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر بے مقصد گھنٹوں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو تعلیمی ویڈیوز، لیکچرز، آئی ٹی کورسز اور معلوماتی مواد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کا جائزہ لے اور اسے مثبت سمت میں بدلے۔یاد رکھیں کہ آج کا دور صرف ڈگری کا نہیں بلکہ مہارتوں کا ہے۔آئی ٹی، گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، کنٹینٹ رائٹنگ، فری لانسنگ، زبانیں سیکھنا اور سوشل میڈیا مینجمنٹ جیسی صلاحیتیں ہر طالب علم کو اپنے وقت کے ساتھ سیکھنی چاہئیں۔چھٹیوں یا فالتو وقت میں کوئی آن لائن کورس کریں، یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ سیکھے ہوئے ہنر مستقبل میں بہت کام آئیں گے ۔تعلیم کا اصل مقصدتعلیم کا اصل مقصد کردار سازی ہے۔ ہمارے ملک اور معاشرے کو اچھے گریڈز کے ساتھ ساتھ اچھے انسانوں کی بھی ضرورت ہے۔ ایک طالب علم کو ایمانداری، سچائی، عاجزی، تحمل اور احترام جیسے اوصاف کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ معاشرے میں اگر تبدیلی لانی ہے تو اس کی ابتدا تعلیمی اداروں سے ہونی چاہیے۔ترقی یافتہ قوموں میں اساتذہ کو سب سے بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔ دوستوں کا انتخابآدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ طالب علم کی کامیابی میں دوستوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ نیک، محنتی اور سنجیدہ سوچ رکھنے والے دوست آپ کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ وقت ضائع کرنے والے دوست زندگی برباد کر سکتے ہیں۔ اس لیے صحبت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔ طالب علم کو صرف کتابی علم ہی نہیں بلکہ اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنے معاشرے سے بھی جڑے رہنا چاہیے۔ حالات حاضرہ، ملکی مسائل، سیاسی و سماجی مسائل، اور معاشرتی خدمات کا شعور ہونا چاہیے۔ یہ طلبہ کل کے لیڈر ہیں، انہیں ابھی سے ملک سے محبت، خدمت اور دیانتداری کا سبق سیکھنا ہو گا۔ مایوسی کو شکست دیںہمارے نوجوانوں اور طلبا میں مایوسی، ڈپریشن اور بے مقصدیت متعدی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ معاشرتی دباؤ، تعلیمی ذمہ داریاں اور روشن مستقبل کے مواقع کی کمی ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ مایوسی کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر کوئی طالب علم محنت کرے، ثابت قدم رہے، خود پر بھروسہ رکھے اور دعا کے ساتھ کوشش جاری رکھے تو وہ ضرور کامیاب ہوگا۔پاکستانی طلبہ میں بے پناہ ذہانت اور صلاحیت ہے، لیکن ان کو صحیح رہنمائی، ماحول اور مواقع کی ضرورت ہے۔ یہ رہنمائی اساتذہ، والدین، میڈیا، اور خود طالب علم کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہمارے طالب علم سنجیدہ ہوں، وقت کی قدر کریں، تعلیم کو مقصدِ حیات بنائیں اور مثبت رویہ اختیار کریں تو کوئی شک نہیں کہ وہ خود کو سنوار سکتے ہیں اور پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکتے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

پکا سو کی پہلی نمائش24جون 1901 ء کو پیرس میں ایک نوجوان ہسپانوی مصور پابلو پکا سو کی پہلی سولونمائش نے مصوروں اور نقادوں کو حیران کر دیا۔ اس سے قبل بھی پیرس میں آرٹ کی کئی نمائشیں ہو چکی تھیں لیکن یہ اپنے طرز کی ایک منفرد نمائش تھی جس میں پابلو پکا سو نے جدید طریقہ مصوری کا استعمال کیا تھا۔وہ دورِ جدید کا سب سے بڑا مصور اور تجریدی مصوری کا بانی تھا۔پکا سو کو جدید دنیا کا سب سے مشہور اور قابل مصور تصور کیا جاتا ہے اور جہاں بھی آرٹ یا فن کی بات کی جائے وہاں پکا سو کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔جبرالٹر کا محاصرہجبرالٹر کے محاصرے کا آغاز 24جون 1779ء کو ہوا۔ یہ سپین اور فرانس کی جانب سے جبرالٹر کو انگریزوں کے قبضے سے چھڑوانے کی ایک کوشش تھی، جس میں سپین اور فرانس کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سپین اور فرانس کو جبرالٹر پر حملے کے دوران انگریز افواج کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔کینیڈا ، ایئرمیل سروس کا آغاز24جون 1918 ء کو کینیڈا میں پہلی ایئرمیل سروس کا آغازکیا گیا۔ اس سے قبل پیغام رسانی کیلئے بہت سے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن اس طرح پیغام پہنچانے میں بہت وقت لگ جاتا تھا ۔ایئر میل کو پیغام رسانی کیلئے انقلاب کی حیثیت حاصل ہوئی۔ائیر میل کاباقاعدہ آغاز پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوا جب ہوائی جہازوں کی ٹیکنالوجی میں بہتری آئی اور انہیں باقاعدہ ڈاک کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔سیام کا نام تھائی لینڈ رکھا گیا24جون 1939ء کو فیلڈ مارشل پلیک فیبونسوسنگرم(Plaek phibusongkram)نے سیام کا نام تبدیل کرکے تھائی لینڈ رکھا۔ فیلڈ مارشل پلیک فوج کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ تھائی لینڈ کے تیسرے وزیراعظم بھی تھے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سی اصلاحات کیں جن میں ایک یہ بھی شامل تھی۔ سیام کا نام تھائی لینڈ رکھنے کا ایک مقصد اس کو جدید دنیا سے متعارف کروانا بھی تھا۔ 

وبائی امراض بطور جنگی ہتھیار !

وبائی امراض بطور جنگی ہتھیار !

انسان اور وبائی امراض کا ساتھ قدیمی ہے۔ماہرین ارضیات اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب انسان نے مل جل کر رہنے کو رواج دیا اور انسانی آبادیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی سرگرمیوں میں اضافہ شروع ہوا تو اسے امراض سے پالا پڑا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وبائی امراض نے بھی انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو گا ، لیکن تب انسان کی سوچ محدود ہونے کے سبب وہ اسے بھی ایک عام بیماری سمجھتا رہا ہو گا۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈی این اے کے ذریعے ملنے والی معلومات سے جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق انسان کا وبائی امراض سے سب سے پہلا سامنا جنوبی افریقہ کے جنگلات سے شروع ہونے والی ایک وبا سے لگ بھگ 73000 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ اس تحقیق میں یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ اس وبا نے کتنی انسانی جانوں کو نشانہ بنایا ہوگا ۔ تاہم معلوم انسانی تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا جب 1200 قبل مسیح میں افریقہ ہی سے شروع ہونے والی ایک اور وبا نے مصر سے لے کر بابل تک بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ اس دور میں مصر دنیا بھر میں بہت بڑے تجارتی مرکز کی شہرت رکھتا تھا اور چونکہ اس دور میں زیادہ تر لوگ تجارت کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے ، جس کی وجہ سے اس وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بابل کی قدیم اکادی سلطنت کی اکادو زبان میں اس وبائی بیماری کو ''کسارو متانو ‘‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے لفظی معنی ''بے بس کر دینا ‘‘ تھے۔ لیکن بعد میں اس بیماری کو باقاعدہ طور پر ''مستحظ ‘‘ کا نام دیا گیا۔ مستحظ کے لفظی معنی ایک ایسی بیماری کے ہیں جو ایک شخص سے دوسرے کو اپنی گرفت میں جکڑ لے۔ اس وبا کی تصدیق اس دور کے ملنے والے ان خطوط سے بھی ہوتی ہے جو اُس دور کے وزراء اور مشیروں نے اپنے بادشاہوں کو لکھے تھے۔ ان خطوط میں ایک خط 1170 قبل مسیح میں ماری سلطنت ( موجودہ شام کا علاقہ ) کے ایک وزیر نے اپنے بادشاہ زمری لم کو لکھا تھا جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ چونکہ ایک وبا جو ایک شخص سے دوسرے شخص کے ذریعے منتقل ہو جاتی ہے ، پورے خطے میں پھیل چکی ہے لہٰذا سلطنت کے لوگوں کو خبردار کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں کہ وہ حتی الامکان سفر سے گریز کریں۔ مورخین کچھ اور خطوط کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن میں اس وبا کے ثبوت ملتے ہیں اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل بھی وہاں کے لوگوں کو اس امر کا ادراک ہو چکا تھا کہ یہ ایک متعدی مرض ہے جو ایک شخص کے دوسرے شخص کو چھونے سے یا میل جول کے ذریعے پھیلتا ہے ،جس سے بچاؤکا واحد طریقہ ایک دوسرے سے الگ رہنے اور متاثرہ شخص یا اشخاص سے عدم میل ملاپ ہی میں پوشیدہ ہے۔کیا کوئی شخص یہ تصور کر سکتا ہے کہ آج کے مشرق وسطیٰ کہلانے والے علاقے کو آج سے لگ بھگ تین ہزار سال پہلے ایک وبائی آفت نے نیست و نابود کر کے رکھ دیا تھا۔ان میں موجودہ دور کے شمالی اور جنوبی عراق ، مصر، ترکی اور قبرص شامل تھے۔ یہ ریاستیں یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھیں یا ایک عرصے تک ویران اور سنسان کھنڈروں کا نقشہ پیش کرتی رہی تھیں۔ اس تباہی کے پس پردہ اگرچہ طویل جنگ ، قحط اور کچھ دیگر عوامل تو تھے ہی لیکن ان سب سے نمایاں ایک ایسی عالمی وبا تھی جو اس دور کے لوگوں کے لئے نئی ، غیر متوقع اور اچانک تھی۔ تبھی تو وہاں کے لوگ ایک عرصہ تک اسے ''عذاب الٰہی‘‘ کے نام سے پکارتے رہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب مصر اور ہیٹی(Hittite) دو بڑی طاقتیں ہوا کرتی تھیں اور دونوں اکثر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہتی تھیں۔ واضح رہے کہ اس دور میں مصر کی سرحدیں موجودہ دور کے جدید جنوبی فلسطین تک پھیلی ہوئی تھیں جبکہ ہیٹی نامی سلطنت کی سرحدیں آج کل کے ترکی سے شمالی فلسطین کو چھوتی تھیں۔یہ 1325 قبل مسیح کے آس پاس کا دور تھا جب ہیٹی مصر کے ایک شہر عمقا (موجودہ فلسطین کا علاقہ) پر حملہ آور ہوا ۔ اتفاق سے عمقا کا جڑواں شہر جبیل اس وقت ایک وبا کی زد میں آیا ہوا تھا اور جبیل سے ملحقہ عمقا بھی اس وبا سے متاثر ہو چکا تھا۔ عمقا سے کچھ مصری فوجیوں کو ہیٹی کی افواج یرغمال بنا کر اپنے ساتھ ہیٹی کے دارلحکومت ہٹوسا لے گئیں جو اتفاق سے اس وبائی مرض میں مبتلا ہو چکے تھے؛چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے نہ صرف ہٹوسا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ اس کے مشرق میں واقع اگریت سلطنت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مورخین کہتے ہیں ہٹوسا سمیت ہیٹی کے بیشتر علاقے ہی نہیں بلکہ مصر اور اوغاریت ریاست کے بھی بیشتر علاقوں میں دو عشروں تک اس وبا نے تباہی پھیلائے رکھی جس کے بارے مورخین کا کہنا ہے کہ دوعشروں پر محیط اس وبا سے پورے علاقے کی نصف سے زائد آبادی کا نام و نشان تک مٹ گیا تھا ۔ یہاں تک کہ ہیٹی کے دو بادشاہ سپیلو لیوما اور ارنوواندا کی ہلاکت بھی بالترتیب 1322 اور 1323 قبل مسیح میں اسی وبا سے ہوئی تھی۔ہیٹی کے مغرب میں ارزاوا نامی ایک ریاست تھی جس کے دارالحکومت کا نام اپسا تھا، جس کے ہیٹی سے اختلافات ایک عرصہ سے چلے آرہے تھے؛ چنانچہ ہیٹی کو کمزور دیکھتے ہوئے ارزاوا نے ہیٹی پر حملہ کردیا۔ہیٹی چونکہ مصر کے ساتھ تصادم سے یہ جان چکا تھا کہ خطے کے طول و عرض میں پھیلی اس وبا کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ارزاوا سے بدلہ لیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ ہیٹی نے روایتی طرز پر ارزاوا پر حملہ آور ہونے کی بجائے وبا سے متاثرہ خچر اور کچھ دوسرے جانوروں کو ارزاوا کی سرحد کے اس پار دھکیلنا شروع کر دیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پوری ریاست ارزاوا کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔ ہیٹی سلطنت کی دستاویزات سے بھی اس وبا کو دشمن کے خلاف استعمال ہونے کے اس انوکھے جنگی ہتھیار کی تصدیق ہو جاتی ہے۔

 انقلابی ٹیکنالوجی اب گویائی سے محروم افراد بھی بول سکیں گے

انقلابی ٹیکنالوجی اب گویائی سے محروم افراد بھی بول سکیں گے

گویائی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، جذبات اور ضروریات کا اظہار کرتا ہے لیکن دنیا بھر میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو پیدائشی طور پر یا کسی حادثے، بیماری یا چوٹ کے باعث گویائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے دوسروں سے رابطہ قائم کرنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے، جس سے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ تعلیمی، پیشہ ورانہ اور معاشرتی میدان میں بھی وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔تاہم حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی نے اس مسئلے کا ایک ایسا انقلابی حل پیش کیا ہے جو نہ صرف گویائی سے محروم افراد کی زندگی بدل دے گا بلکہ انسانی فلاح و بہبود کے شعبے میں ایک نئی راہ بھی کھولے گا۔ یہ جدید ٹیکنالوجی ''آواز کی تخلیق‘‘ (Speech synthesis) اور''دماغی سگنلز سے رابطہ‘‘ (Brain-Computer Interface) کے امتزاج سے وجود میں آئی ہے۔اس نئی ٹیکنالوجی میں ایک خصوصی چپ یا سینسر انسانی دماغ میں نصب کیا جاتا ہے جو دماغ کے اُس حصے سے جڑا ہوتا ہے جہاں بولنے کے سگنلز پیدا ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص بولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اگرچہ وہ آواز پیدا نہیں کر سکتا، لیکن دماغ میں وہ سگنلز ضرور پیدا ہوتے ہیں جو بولنے کے عمل سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ سینسر اُن سگنلز کو شناخت کرتا ہے، کمپیوٹر پر منتقل کرتا ہے اور پھر مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی سسٹم ان سگنلز کو سمجھ کر انہیں آواز میں ڈھالتا ہے۔اس نظام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف کسی بھی عام آواز نہیں پیدا کرتا بلکہ مریض کی اپنی سابقہ آواز کے نمونوں کو استعمال کرکے اُسی لہجے، اْسی انداز اور اُسی لب و لہجے میں گفتگو کو ممکن بناتا ہے۔ اس کے لیے مریض کی پرانی ریکارڈنگز، ویڈیوز، یا کسی رشتہ دار کی آواز کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔2023 میں امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کے سائنسدانوں نے ایسے دو مختلف مریضوں پر کامیاب تجربات کیے تھے جو گویائی سے مکمل محروم تھے۔ ان کے دماغی سگنلز کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف الفاظ کی ادائیگی ممکن ہوئی بلکہ چہرے کے تاثرات کو بھی ڈیجیٹل انداز میں ظاہر کیا گیا تاکہ مریض کی بات کو جذبات کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔یہ ٹیکنالوجی نہ صرف گویائی سے محروم افراد کو بولنے کی صلاحیت دے رہی ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی، ذہنی صحت اور معاشرتی تعلقات کو بھی بہتر بنا رہی ہے۔ ایسے افراد جو پہلے اپنے جذبات کا اظہار تحریری یا اشاروں کے ذریعے کرتے تھے، اب براہ راست گفتگو کر سکتے ہیں، جس سے ان کی معاشرتی قبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ترقی یافتہ ممالک میں آزمائی جا رہی ہے لیکن مستقبل قریب میں یہ ترقی پذیر ممالک میں بھی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے حکومت، نجی شعبہ، طبی ادارے اور فلاحی تنظیمیں مل کر ایک جامع پالیسی بنا سکتی ہیں تاکہ معذور افراد کو یہ سہولت فراہم کی جا سکے۔

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم عمار موصلی

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم عمار موصلی

عمار موصلی امراضِ چشم میں مرض موتیا بند کا ماہر تھا۔ اس نے موتیا بند کے سلسلے میں تحقیق کی اور اس کا علاج آپریشن کے ذریعے دریافت کیا۔ مرض موتیا بند تکلیف دہ مرض ہے اور انسان آنکھیں رکھتے ہوئے مجبور ہو جاتا ہے۔ عمار موصلی نے موتیا بند کے آپریشن کئے۔موصلی نے اس فن پر ایک کتاب بھی مرتب کی جس میں اس مرض پر اچھی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا نام ''علاج العین‘‘ ہے۔ اس کا ترجمہ یورپ میں ہوا اور 1905ء میں جرمنی سے یہ ترجمہ شائع بھی ہوا۔ابتدائی زندگیابو القاسم عمار موصلی سائنسدان، طبیب حاذق اور امراض چشم کا نامور ماہر تھا۔ اس کے ابتدائی حالات کا کچھ علم نہیں ہو سکا البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ طبیب الحاکم 996ء کے عہد میں پیدا ہوا اور اس کے بیٹے کے عہد میں اس نے کام کیا۔ علمی خدمات اور کارنامےہمار موصلی کو علم طب سے خاصی دلچسپی تھی۔ اس نے آنکھ اور اس کے امراض سے متعلق گہری تحقیق کی اور اس کام میں پوری زندگی گزاری دی۔ موصلی نے امراض چشم کے علاج کے سلسلے میں ایک نیا طریقہ اختیار کیا جو بہت کامیاب رہا۔ یہ طریقہ آپریشن کا تھا۔ آنکھوں کے بعض امراض میں آپریشن کے ذریعہ علاج کا طریقہ بہت کامیاب اور اطمینان بخش ثابت ہوا، موصلی آنکھوں کا پہلا سرجن تھا۔امراض چشم میں موتیا بند عام مرض ہے جس میں آنکھوں کی پتلی پر ایک باریک سا پردہ آ جاتا ہے۔ موتیا بند کے لئے آپریشن کا طریقہ اسی مشہور ماہر امراض چشم کا ایجاد کردہ ہے۔ موصلی نے سرکاری ہسپتال میں بے شمار مریضوں کی آنکھوں کا آپریشن کیا۔عمار موصلی نے آپریشن کے لئے ایک خاص قسم کا آلہ ایجاد کیا تھا۔ اس نے آپریشن کے اصول اور قاعدے مرتب کئے، احتیاط اور علاج کا طریقہ بتایا، حفظ ماتقدم کے اصول بیان کئے اور اپنی یہ تمام باتیں اور تجربے قلم بند کر لئے۔ موصلی نے اپنی اس ڈائری کو کتاب کی صورت میں مرتب کرکے اس کا نام علاج العین رکھا۔ُُ''علاج العین‘‘ امراض چشم اور علاج و احتیاط کے بارے میں مکمل اور جامع کتاب ہے۔ یہ کتاب یورپ میں بہت مقبول ہوئی اور اس کا ترجمہ یورپ میں ہوا اور جرمنی میں 1905ء میں اس کا ترجمہ بڑے اہتمام سے شائع کیا گیا۔