موسمیاتی تبدیلیاں ایک عالمی مسئلہ:زمین کو آگ کا گولہ بننے سے کیسے بچایا جائے؟
آج کی دنیا میں اور بے شمار مسائل نسل انسانی کو درپیش ہوں گے مگر ان سب میں میری نظر میں سب سے بڑا مسئلہ جو آج پوری نسل انسانی کے سامنے کھڑا ہے اور جو ہمارے ساتھ ساتھ اس کرہ زمین کی بقا سے بھی وابستہ ہے، وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد پیدا ہونے والا عالمی مسئلہ ہے۔ عالمی حدت کے مسلسل اضافے کے بعد پیدا ہونے والی ناقابل یقین حد تک خطرناک صورتحال جس کا آج کے تمام ممالک اور ان میں بسنے والے انسانوں کو بلا رنگ و ملت کی تفریق کا سامنا ہے۔ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے، جس پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہے۔
موجودہ دور میں بنی نوع انسان اپنی بقا کے حوالے سے مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر پیش آنے والے سب سے اہم مسئلے یعنی موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے۔ موسمیاتی تبدیلی دراصل آب و ہوا کے قدرتی نظام میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا نام ہے جس کی بڑی وجہ انسانی طور طریقوں، معمولات، استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے۔ قدرتی وسائل مثلاً پانی، خوراک، لکڑی، اور زمین کا بے تحاشا اور بلاضرورت استعمال اور ان کے ضیاع جیسے مسائل اس مسئلے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا معاملہ بنیادی طور پر عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی سے منسلک ہے؛ جس کی چند بنیادی وجوہات میں درجہ حرارت بڑھانے میں معاون گیسز مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا بڑے پیمانے پر اخراج اور جنگلات کے رقبے میں نمایاں کمی ہونا سرفہرست ہیں۔
یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے آج کا انسان وقتی طور پر نظریں چرا تو سکتا ہے اور گزشتہ ایک صدی میں مسلسل چراتا بھی رہا، مگر اب اس خطرے سے مستقل جان چھڑانا دنیا کے کسی بھی امیر اور غریب ملک اور اس کے باسیوں کیلئے کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اگر آج کا انسان دور اندیشی کا مظاہرہ کرے اور اس مسئلے کی سنگینی کا باریک بینی سے صحیح اور درست اندازہ لگانے کے قابل ہو تو ہمیں صاف دکھائی دے گا کہ کرہ ارض کی موجودہ صورتحال روز بروز تنزلی کا شکار ہے۔ آج ہمیں درپیش تمام مسائل اسی ایک مسئلے کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی وبا کے اچانک پھوٹ پڑنے تک کے تانے بانے بھی براہ راست نہ سہی، کہیں نہ کہیں اسی موسمی تبدیلیوں کے مسئلے کے ساتھ ہی جڑے ہیں۔
ممالک کی آپس کی تجارتی جنگیں ہوں یا علاقائی چپقلشیں، بھوک، خوراک کی کمی، روزگار، توانائی کے بحران ہوں یا اقتصادی یا شدت پسندی سے نمٹنے کا مسئلہ، کہیں نہ کہیں یہ تمام بحران اس اہم مسئلے کے ساتھ جڑے ہیں۔ اس مسئلے کو شاید اس مثال سے کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔کچھ دیر اگر ہم اپنے اس چھوٹے گول سیارے جسے ہم آپ دنیا یا کرہ ارض بھی کہتے ہیں کی مثال ایک ایسے کرائے کے چھوٹے گھر جیسی لیں جہاں کرائے دار آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں گھر کے رہائشی گھر کی صفائی ستھرائی ٹھیک طریقے سے نہ کریں تو گھر میں جا بجا جالے لگ سکتے ہیں، کھڑکیاں گرد سے اٹ کر میلی ہو سکتی ہیں، کبھی کبھار اتنی کہ بسا اوقات باہر نظر آنا ہی بند ہو جاتا ہے۔ کرائے دار اگر گھر میں سامان زیادہ گھسا لیں تو گھر رہنے کیلئے چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ رہنے والوں کی تعداد کمروں سے بڑھ جائے تو گھر میں ہر قسم کی سہولت کی گنجائش کم پڑ سکتی ہے۔ ظاہر ہے سب گھر کو استعمال کرنے والے کرائے دار پر منحصر ہے کہ وہ گھر کو سلیقے سے استعمال کرتا ہے یا نہیں۔ اگر کرائے دار گھر میں سگریٹ پھونکتا ہے تو ممکن ہے درو دیوار اتنے پیلے پڑ جائیں کہ نیا وال پیپر ڈالنا پڑے۔
اس صورتحال میں یا تو ایسا حل نکالا جائے کہ کچھ عرصہ سگریٹ پر ہی پابندی لگائی جائے یا دھویں کا مناسب سدباب کیا جائے تاکہ گھر کی اندرونی آب و ہوا صاف اور ترو تازہ رہے۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک صدی میں دنیا کا بڑا حصہ کاٹھ کباڑ چیزوں سے بھر گیا۔ سمندر کوڑے دان بنتے چلے گئے، کنکریٹ کے جنگل بڑھتے چلے گئے، دریا سوکھتے چلے گئے، اصل جنگل کٹتے کٹتے بیابان میدان بنتے چلے گئے۔
آج ہم نے دیکھا جب وبائوں نے بغیر کسی رنگ، نسل اور امیر غریب ملک کی تمیز کے انسانوں کو سینوں سے پکڑ کر جھنجوڑنا شروع کیا تو آج کے انسان کی عقل ذرا ٹھکانے لگی اور اس چھوٹے سے سیارے کے باسیوں کے چودہ طبق بھی روشن ہوئے اور انسان گہری نیند سے ذرا جاگے۔ آج گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ انسانی میں پہلی بار سب ممالک سر جوڑے اس خطرے کو سنجیدگی سے دیکھنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں دنیا بھر میں نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، جنگلات کو کاٹنے کی بجائے جنگلات لگانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ میں جس ملک میں رہائش پذیر ہوں وہاں کی موٹر کار بنانے کی کمپنیز نے گاڑیوں میں پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم درجہ پر کرنے کی شروعات کر دی ہے۔ پلاسٹک بیگ کے استعمال کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ہر نئی چیز کو بنانے سے پہلے اس کو ری سائیکل کیسے کیا جائے گا، اس پر پہلے سے زیادہ توجہ کی جا رہی ہے۔ فوسل تیل سے چلنے والی گاڑیاں مکمل ختم کرکے موٹر کار کمپنیاں اگلے دس سال میں صرف ریچارج ایبل بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کے ہدف کو حاصل کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ ہر نئے گھر کی بجلی صرف سولرپینل کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔ کچھ دور اندیش یورپی ممالک تو ان تمام اہداف کو کامیابی سے حاصل بھی کر چکے مگر اب بھی بہت سے ایسے انسان ہمارے ارد گرد موجود ہیں جو وقتی فائدے کیلئے ان تمام مثبت تبدیلیوں کو وقت کا ضیاع سمجھ کر کرہ زمین کو باقی نظامِ شمسی کے سیاروں کی طرح دوزخ بنانے کی طرف لے جانے کی ضد کا شکار ہیں۔