طوفان کیا ہوتا ہے ؟ اسے سمجھنے کے لیے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ جس طرح ایک دریا کی سطح پر اگر خلاف معمول کوئی اونچ نیچ واقع ہو جائے تو پانی کی روانی میں خلل پڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ بھنور یا گردباد بننا شروع ہو جاتے ہیں،بالکل اسی طرح کرہ ہوائی میں بھی جب ہوائیں چلتی ہیں تو فضا میں مختلف مقامات پر ہوا کے دبائو میں فرق پڑ جاتا ہے۔جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر ہوا کی روانی میں رکاوٹ واقع ہو کر فضا میں بھنور پیدا ہونے لگتے ہیں۔ نتیجتاً ہر سمت ہوائیں اپنا رخ بدل لیتی ہیں اور چاروں طرف سے کم دباو کے مرکز کی طرف بھنور کی شکل میں چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ ہواؤں کے اس بھنور کوطوفان کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں اگرچہ اس کیفیت کو صرف طوفان ہی کہاجاتا تھا لیکن اب سائنس دانوں نے طوفان کو بھی بالحاظ ساخت اور شدت مختلف ناموں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ویسے تو ''سائیکلون‘‘ اور ''ہریکین‘‘طوفان کی دو مرکزی اقسام ہیں تاہم '' ٹائی فون‘‘ اور ''ٹور نیڈو‘‘ بھی طوفان کی ہی اقسام ہیں۔سائنسی نقطۂ نظر سے طوفان کی ابتدائی شکل کو ''سائیکلون‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی شدت کو ''ہریکین‘‘ کہا جاتا ہے۔ طوفان کیوں اور کیسے آتے ہیں ؟بعض ماحولیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صنعتی آلودگی، گرین ہائوس گیسوں کے بے دریغ اخراج کے سبب زمینی درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافے نے کرہ ارض کو جس طرح غیر مستحکم کر دیا ہے اس کی وجہ سے طوفانوں اور قدرتی آفات میں خلاف معمول اضافہ ہو گیا ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان ایم بسٹر اور کے اے عما کے بقول ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل سمندروں کی سطح پر درجۂ حرارت میں پچھلے پچاس سالوں کے دوران 0.2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ماہرین ماحولیات کہتے ہیں، ٹراپیکل طوفان خط استوا کے قریب گرم سمندری پانیوں پر بنتے ہیں۔جب یہ گرم ہوا اوپر کی جانب اٹھتی ہے تو ہوا کے کم دباؤ والا ایک مقام بنتا ہے۔جوں جوں ہوا دوبارہ ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے، اسے نیچے سے اٹھنے والی مزید گرم ہوا ایک طرف دھکیل دیتی ہے اور یہ عمل تیز ہواؤں اور بارش کا سبب بنتا ہے۔جب اس عمل کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ ایک استوائی یا ٹراپیکل طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ عام طور پر 63 کلومیٹر کی رفتار سے آنے والا طوفان استوائی یا ٹراپیکل طوفان کہلاتا ہے جبکہ یہی ہوائیں اگر 119 کلومیٹر کی رفتار کو چھونے لگیں تو یہ طوفان، سائیکلون، ٹائفون یا ہریکین کہلاتے ہیں۔ سمندری طوفانوں میں ہریکین زمین پر تباہی مچانے والے طوفانوں میں سے ایک ہیں اور اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ یہ طوفان پہلے سے زیادہ طاقت ور اور تباہ کن ہو رہے ہیں۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہریکین کیسے بنتے ہیں اور موسمی تبدیلی ان پر کیا اثر ڈال رہی ہے ؟۔ہریکین کیسے بنتے ہیں ؟ہریکین کی شروعات بحر کے اوپر چھوٹے طوفانوں کے طور پر ہوتی ہے۔ سمندر کا درجۂ حرارت جب 27 ڈگری سنٹی گریڈ سے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے تو سمندری طوفان کے بادل تعداد اور سائز میں بڑھنے لگتے ہیں۔ہوائیں دائرے کی شکل میں اوپر کی طرف اٹھنے لگتی ہیں، ایسے میں زمین کی گردش ان ہواؤں کو اور زیادہ تیز کر کے گھومنے میں مدد دیتی ہے۔ہوا کی اوسط رفتار 119 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے تو طوفان کا درمیان کا حصہ جنم لے کر ہریکین کی شکل دھار لیتا ہے۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ہر طوفان ہریکین نہیں ہوتا ۔ کیٹیگری 5 کے طوفان زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ان کی رفتار 252 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ مستقبل میں طوفان بارے خدشاتاقوام متحدہ کے آب و ہوا کے ادارے ''آئی پی سی سی‘‘ نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے عالمی درجۂ حرارت بڑھتا جا رہا ہے ، اس بات کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ دنیا میں بارشوں کی شرح اور ہوا کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ طوفانوں کا زیادہ تناسب سب سے شدید زمروں یعنی چار اور پانچ تک پہنچ جائے گا۔ بالفاظ دیگر جتنا زیادہ عالمی درجۂ حرارت بڑھے گا ان تبدیلیوں کی شدت میں اضافہ اتنا زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے آئی پی سی سی کا کہنا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت 1.5ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود رہے تو کیٹیگری چار اور پانچ تک پہنچنے والے استوائی طوفانوں کے تناسب میں لگ بھگ 10 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ درجۂ حرارت میں یہ اضافہ 2 سنٹی گریڈ تک پہنچنے کی صورت میں یہ تناسب 13 فیصد اور درجۂ حرارت 4 ڈگری سنٹی گریڈ پر یہ اضافہ 20 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ دنیا کے تباہ کن طوفان بھولا سائیکلون 1970 میں بھولا سائیکلون جو 13 نومبر کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش )کے علاقے بھولا میں آیا تھا، اس میں 10 لاکھ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں صرف بھولا کے علاقے میں ایک لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ اسی وجہ سے اس طوفان کو '' بھولا سائیکلون ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ طوفان تاریخ کا بدترین طوفان کہلاتا ہے۔ ملٹن ہریکین رواں سال اکتوبر میں امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے ملٹن میں آنے والا ہریکین طوفان رواں صدی کا ایک تباہ کن طوفان تھا۔200کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والا یہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ پورے علاقے کی زندگی معطل ہو کر رہ گئی تھی۔ 15 لاکھ سے زائد افراد بجلی سے محروم ہو گئے۔33 لاکھ کے قریب لوگوں کو اس علاقے سے انخلا کرنا پڑا۔ اس طوفان میں230 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔