آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا
پاکستان اپنے قیام کے اگلے ہی ماہ یعنی 30 ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ کا رکن بنا اور 1960ء میں اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ بن گیا۔ اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت پاک فوج نے نمایاں اور مثالی خدمات سرانجام دی ہیں۔ گزشتہ 64 برسوں میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے بے شمار امن مشنز میں خدمات فراہم کی ہیں۔ملکوں اور قوموں کے درمیان جھگڑوں اور تنازعات کے حل کا ذمے دار ادارہ اقوام متحدہ ہے، جس کا قیام دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد آئندہ نسلوں کو ممکنہ جنگوں سے بچانے اور دنیا بھر میں امن و امان کا قیام یقینی بنانے کیلئے 24 اکتوبر 1945ء کے دن عمل میں لایا گیاتھا۔
مولانا جلال الدین رومی کا یوم پیدائش
30 ستمبر 1207ء کو اس وقت افغانستان کی سرحدوں میں واقع علاقے بلخ میں مولانا جلال الدین رومیؒ کی پیدائش ہوئی۔ والدین نے ان کا نام محمد جلال الدین رکھا۔ انہوں نے اپنے معروف ادبی فن پارے ''مثنوی معنوی‘‘ کی تصنیف ترکی کے شہر قونیہ میں کی۔ فارسی زبان میں مصّنفہ مثنوی معنوی 25 ہزار 618 اشعار پر مشتمل ہے۔
انڈونیشیا میں زلزلہ
2009ء میں آج کے روز انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں تباہ کن زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں ایک ہزار 115 افراد ہلاک ہو گئے۔ دو ہسپتالوں سمیت درجنوں بہت سی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر سات اعشاریہ چھ تھی۔ زلزلے کے بعد بحر الکاہل میں سونامی سے آگاہ کرنے والے سینٹر نے سونامی کی وارننگ جاری کی تھی، جسے بعد میں واپس لے لیا گیا۔ پیڈنگ شہر کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔

فن لینڈ کا جہاز ہائی جیک
''فن ایئر‘‘ کی پرواز 405 اولو اور ہیلسنکی، فن لینڈ کے درمیان طے شدہ مسافر پرواز تھی، جسے 30 ستمبر 1978ء کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔ جس میں 44 مسافر اور 5 عملہ کے ارکان سوار تھے۔ ہائی جیکر جو ایک بلڈنگ کنٹریکٹر تھا نے پائلٹ کو ایمسٹرڈیم، نیدرلینڈز اور ہیلسنکی جانے پر مجبور کرنے کے بعد، تاوان کا مطالبہ کیا اور اپنے یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ اگلے دن اسے اس کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ 2013ء کی فن لینڈ کی ڈرامہ فلم ''دی ہائی جیک دیٹ وینٹ سائوتھ‘‘ اس کیس کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ہلسا مچھلی:بنگال کی جل پری

ہلسا مچھلی:بنگال کی جل پری

مچھلی قدرت کی انمول تخلیق ہے۔جہاں پانی کی فراوانی ہے مچھلیاں وہاں پائی جاتی ہیں۔ یہ جھیلوں ، چشموں ،تالابوں ،ندی نالوں، دریاوں اور سمندروں میں پائی جاتی ہیں۔یہ آبی مخلوق کی وہ منفرد قسم ہے جس کی اب تک 21 ہزار سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مچھلی صرف ایک خوراک ہی نہیں بلکہ کئی بیماریوں کا،علاج بھی ہے۔ مچھلی کو آبی حیات میں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کی بعض انواع کچھ مذاہب میں مقدس مانی جاتی ہیں، لیکن ہم جس مچھلی کا ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ نہ صرف اپنے ذائقے کی وجہ سے ہر دلعزیز اور کچھ مذاہب میں مقدس ہے بلکہ وہ ثقافتی اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے۔ہلسا نام کی یہ مچھلی ، بنگالی ثقافت کا ایک اہم جزو تصور ہوتی ہے۔ مذہبی رسومات ہوں ، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، خصوصی ضیافتیں ہوں ہلسا کی موجودگی کے بغیر نامکمل تصور ہوتی ہیں۔دراصل ہلسا اور بنگال کا ساتھ صدیوں پرانا ہے۔ وقت بدلا زمانے بدلے لیکن بنگال کی ثقافت سے ہلسا کو کوئی نہیں نکال سکا۔اسی لئے تو بنگالی فخر سے اسے '' بنگالی جل پری‘‘ کہتے ہیںاور کیوں نہ کہیں،بنگالی ثقافت میں ہلسا کی دعوت کو نہ صرف صلح کا پیغام تصور کیا جاتا ہے بلکہ اسے دوستی کو مضبوط بنانے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کا وسیلہ بھی مانا جاتا ہے۔بنگال میں اسے ساس سسر کی خوشنودی کا حصول بھی کہا جاتا ہے۔اور تو اور اسے شریک حیات کی خفگی دور کرنے کا وسیلہ اور مسرت کا سامان بھی کہا جاتا ہے۔بنگال میں صدیوں پرانی ایک روایت سننے کو ملتی ہے کہ ، ہلسا کے بغیر بنگال کی سماجی اور معاشرتی زندگی پھیکی اور بے رونق ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی ثقافتی اور سماجی اہمیت بھلا اور کیا ہوگی کہ بنگال کے رسم و رواج کے مطابق دولہا کے گھر سے شادی کی رسومات کی ابتدا ہی سجی سجائی ہلسا مچھلی سے ہوتی ہے جسے ایک خوبصورت پلیٹ میں سجا کر دولہا سے ہاتھ لگوا کر دلہن کے گھر بھیجا جاتا ہے۔ بیشتر گھرانے لڑکے والوں کی طرف سے آئی اس مچھلی کو سالن کی شکل میں بطور خاص بنا کر نہ صرف خود کھاتے ہیں بلکہ اپنے قریبی اور خاص عزیز و اقارب کو بھی بھجواتے ہیں جو ایک طرح سے اس نئے رشتے کے بندھن کی اطلاع ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ رسم نو بیاہتا جوڑے کی نئی زندگی کی شروعات پر خیر سگالی کا ایک پیغام بھی ہوتا ہے۔ بنگالیوں کا یہ صدیوں پرانا عقیدہ ہے کہ یہ رسم نوبیاہتا جوڑوں کی زندگی میں خوشگوار تعلقات کی ضامن ہوتی ہے۔ہلسا مچھلی بنگلہ دیش کی قومی مچھلی ہے۔ بنگالیوں کے مذہبی تہواروں میں بھی ہلسا کی ایک مسلمہ حیثیت ہے۔ہندوں کی رسم کالی پوجا ، سرسوتی پوجا اور لکشمی پوجا میں ہلسا کے بنے پکوان خصوصی طور پر نذرانے کے طور پر چڑھائے جاتے ہیں۔ان چڑھاوں کو خیرو برکت اور بھگوان کی خوشنودی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہلسا مچھلی صرف بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ ہندوستانی ریاست مغربی بنگال میں بھی '' درگاہ پوجا‘‘ کے دوران ہر سال اکتوبر میں دنیا بھر سے آئے لاکھوں عقیدت مندوں کی میزبانی کا حق ادا کرتی ہے۔زمانہ قدیم میں تو مغربی اور مشرقی بنگالی نئے سال کا آغاز چاول اور تلی ہوئی ہلسا مچھلی سے کیا کرتے تھے ، لیکن اب یہ روایت بہت کم علاقوں میں نظر آتی ہے۔ ہلسا نہ صرف چاندی کی طرح چمکتی خوبصورت مچھلی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ ذائقہ دار اور لذیذ بھی ہے۔ بنگالی خواتین اسے بے شمار طریقوں سے بناتی ہیں۔درحقیقت ہلسا مچھلی بنگالیوں اور میانمار کے لوگوں کی بنیادی خوراک چلی آرہی ہے۔بنگالیوں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ مچھلی کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں کرتے۔وہ مچھلی کا سر تا دم ہر حصہ انتہائی رغبت سے کھاتے ہیں۔مچھلی ہی بنگالیوں کی روزانہ خوراک کا حصہ ہے۔مچھلی کا سالن جسے ''جھول‘‘کہتے ہیں چاول کے ساتھ ملا کر کھانا ، یہاں کی سب سے مقبول ڈش سمجھی جاتی ہے۔ایک اور بات کا یہاں بڑا چرچا ہے کہ مچھلی ،بالخصوص ہلسا کا دماغ کھانے سے انسانی دماغ مضبوط اور طاقت ور بنتا ہے۔ اگرچہ اس مچھلی کی پیداوار بین الاقوامی طلب کے مقابلے میں کافی کم ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل کو غیر قانونی شکار کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔چونکہ یہ اپنے منفرد ذائقے کی بدولت دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے یہ عام مچھلیوں کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہے اور صرف امیروں کے دستر خواں تک ہی رسائی حاصل کر پاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہلسا مچھلی کی فی کلو قیمت پاکستانی روپوں میں آٹھ ہزار روپے تک ہے۔ہلسا مچھلی کا مرکزی ٹھکانہ خلیج بنگال کے ساتھ لگنے والے دریا ہیں۔ ان میں دریائے گنگا اور پدما سرفہرست ہیں جہاں بنگال کے مچھیرے ان کا بڑی بے رحمی سے شکار کرتے نظر آتے ہیں۔یہ سردیاں پانی کی تہہ میں گزارتی ہے اور موسم گرما کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتی ہے ، سردیاں ختم ہوتے ہی یہ غولوں کی شکل میں خلیج بنگال کے دریاوں میں چارسو تیرتی نظر آتی ہے۔ بے آف بنگال لارج میرین ایکو سسٹم کے مطابق دنیا میں ہلسا مچھلی کی کل پیداوار کا 60 فیصد بنگلہ دیش ، 20 فیصد میانمار جب کہ اس کے علاوہ کچھ مقدار ہندوستان اور انتہائی قلیل مقدار پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں پکڑی جاتی ہے۔ ہلسا کی بقا کو لاحق خطرات اگرچہ بنگلہ دیش میں مچھلی کے بے دریغ شکار پر کسی حد پابندی ہے ، لیکن میانمار جو بنگلہ دیش کے بعد ہلسا کی پیداوار میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اس کا شکار بلا تعطل سارا سال جاری رہتا ہے۔ ااس کی بڑی وجہ یہاں بڑی حد تک غربت کا ہونا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرہ ہلسا کی بڑھتی ہوئی مانگ اور بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ جس کی بڑی وجہ بڑے '' تجارتی ٹرالر‘‘ ہیں۔ ان ٹرالروں میں بڑے بڑے باریک جال لگے ہوتے ہیں جن کے سوراخوں کا سائز بمشکل 2.5 سینٹی میٹر تک ہوتا ہے جس میں چھوٹی سے چھوٹی مچھلیاں بھی پھنس جاتی ہیں۔ ہلسا کے معدوم ہو جانے کی ایک بڑی وجہ عالمی طور پر بڑھتی موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کی آلودگی بھی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اس آبی مخلوق کی بقا کو پلاسٹک کے کچرے سے خطرہ ہے جسے خوراک سمجھ کر کھا کر یہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

کیپٹن کُک بہت بڑا جہاز راں، جغرافیہ دان اور سائنسدان

کیپٹن کُک بہت بڑا جہاز راں، جغرافیہ دان اور سائنسدان

کیپٹن جیمز کک تاریخ کا ایک ایسا کریکٹر ہے۔ جس نے بحرالکاہل کو فٹ بال کا گرائونڈ بنائے رکھا۔ جیمز کک پیدا تو برطانیہ میں (27اکتوبر 1728ء)ہوا تھا لیکن اس کی موت ہوائی کے لوگوں کے ہاتھوں ہوئی۔ جیمز کک بہت بڑا جہاز راں، جغرافیہ دان اور سائنسدان تھا۔ یہ رائل نیوی میں کیپٹن کے عہدہ تک پہنچا۔ وہ تین دفعہ دنیا کے سفر پر روانہ ہوا۔ اور ہر دفعہ کامیابیوں نے اس کے قدم چومے۔ برطانیہ میں جیمز کک کو ایک ہیرو کا درجہ ملا۔ پہلا سفر اس نے 1768ء میں شروع کیا اور 1771ء میں برطانیہ واپس پہنچا۔ شروع سفر میں وہ جب برطانیہ سے روانہ ہوا تو اس نے اپنے فلیٹ کا رخ بحراوقیانوس کے مغربی ساحل ملک برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو کی طرف کیا۔ یہاں سے وہ جنوبی امریکہ کی بندر گاہ کیپ ہارن سے ہوتا ہوا بحرالکاہل میں داخل ہوا۔ یہاں سے وہ نیوزی لینڈ کے مشرق میں واقع نیو فائونڈ لینڈ میں پہنچا۔ یہاں پر موجود جزائر آج بھی کک آئی لینڈز کے نام سے مشہور ہیں یہ پندرہ جزائر ہیں جن کا نام کیپٹن جیمز کک کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہاں سے وہ انٹارکٹیکا کی طرف بڑھا لیکن انٹارکٹیکا کی طرف اس کے راستے میں دیوار بن گئی۔ یہاں سے اسے اپنے جہازوں کا رخ بحرالکاہل کی طرف موڑنا پڑا۔ آسٹریلیا کے شمال میں انڈونیشیا کے جزائر کی طرف کیپٹن کک بڑھا ۔ پھر فلپائن سے ہوتا ہوا 1778ء میں ہوائی میں وارد ہوا۔ ہوائی میں اس نے تین ماہ قیام کیا اور اپنے تیسرے سفر میں وہ ہوائی سے شمال کی جانب بحرہ بیرنگ کی طرف بھی گیا لیکن وہاں بھی بحر منجمد شمال کی برف نے اسے واپس جانے پر مجبور کردیا اس سفر میں کپٹن کک کے کچھ جہازوں کو نقصان بھی پہنچا۔کیپٹن کک پہلا یورپی جہاز راں تھا جس نے ہوائی کا دو مرتبہ دورہ کیا۔ جہازوں کی مرمت کے دوران اس کے ایک جہاز کو مقامی لوگوں نے قبضہ میں لے لیا۔ کیپٹن کک اس کا بدلہ لینے کیلئے ہوائی کے بادشاہ کو یرغمال بنا کر اپنا جہاز چھڑانا چاہتا تھا۔ لیکن اس کوشش میں مقامی لوگوں نے ایک لڑائی میں کیپٹن جیمز کک اور اس کے 4ساتھیوں کو مار ڈالا۔ یہ واقعہ14 فروری 1779ء کو پیش آیا اس وقت جیمز کک کی عمر50برس تھی۔کیپٹن کک نے بارہ سالہ جہاز رانی کے دور سے یورپی لوگوں نے بہت کچھ سیکھا۔ کیپٹن کک نے ہوائی کے جزائر کو سینڈوچ آئی لینڈ کا نام دیا۔ جیمز کک کے بعد بہت سے تاجر، سیاح اور وہیل کے شکاری ہوائی آنے شروع ہو گئے اور برطانیہ اور ہوائی کے تعلقات اس قدر بڑھ گئے کہ ہوائی کے جھنڈے میں برطانیہ کے جھنڈے کا عکس آج بھی موجود ہے۔

پشاور کا گندھاراعجائب گھر

پشاور کا گندھاراعجائب گھر

پشاور میں گندھارا کاعجائب گھر قائم ہے اس کا شمار پاکستان کے قدیم ترین عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ 1906ء میں یہ پہلے سے تعمیر شدہ میموریل ہال میں قائم کیا گیا تھا۔ عجائب گھر کے تین مشہور حصے گندھارا، مسلم اور قبائلی ہیں۔ اس کی شہرت گندھارا آرٹ کے خوبصورت اور قیمتی مجسموں کی مرہون منت ہے، یہاں تخت بھائی وغیرہ سے لائے ہوئے گوتم بدھ کے مجسمے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے مجسمے بھی ہیں جو فن سنگ تراش کا شاہکار ہیں اور گوتم بدھ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس میں مختلف دور کے نادر سکوں کا بھی خزانہ موجود ہے تاہم اس کا انمول خزینہ پشاور کے نواح میں واقع شاہ جی کی ڈھیری سے 1908ء میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والا کنشک کا زیورات کا صندوقچہ ہے۔ اس منقش صندوقچے میں گوتم بدھ کی ہڈیوں کے تین ٹکڑے پائے گئے تھے۔ یہ نادر صندوقچہ اس عجائب گھر کی اب تک زینت ہے۔اس عجائب گھر کے زیادہ ذخیرے گندھارا تہذیب سے متعلق ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے یہ علاقے آج سے اڑھائی ہزار برس پہلے بھی کسی عظیم الشان تہذیب کا مرکز تھے۔ گندھارا تہذیب کا دارالخلافہ پشکاراوتی تھا جسے ہم آج کل چارسدہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ واقعہ 327-326 قبل مسیح کا ہے۔ پشاور کے عجائب گھر میں زیادہ مجسمے چارسدہ سری بہلول سروان تخت بھائی شاہ جی کی ڈھیری اور جمال گڑھی کی کھدائیوں سے دستیاب ہوئے ہیں۔ اس عجائب گھر کے مجسموں سے رائج الوقت رسم و رواج کے متعلق بہت معلومات ملتی ہیں ان کے عقائد ان کی پوشاک ہمیں تصویروں کی شکلوں میں نظر آتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کی فنی قابلیت کے متعلق بھی علم ہو جاتا ہے ۔مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ آرٹ کے اعتبار سے بڑی مجسموں کے کان اور پیشانی فنی لحاظ سے قابل تعریف نہیں۔ گوتم بدھ کے مجسمے سب سے پہلے گندھارا ہی میں بنائے گئے اور بعد میں جنوبی ہندوستان میں ان مجسموں پر مزید ترقی کی گئی۔امیر سے لے کر غریب تک کی پوشاک اور حالت کا اندازہ ان مجسموں سے لگایا جا سکتا ہے گھروں کے حالات جنگ کے ہتھیاروں زرہ بکتر ہیرے جواہرات ہودے گاڑیاں رتھیں گھوڑے ان کے سازوسامان زراعتی اوزار اور موسیقی کے آلات بھی دکھائے گئے ہیں لوگ کام کر کے کھیلتے عبادت کرتے شادیوں میں مشغول قربانیاں ادا کرتے وغیرہ جیسی حالتوں میں نظر آتے ہیں۔ عام رسومات میں رقص کرتے ہوئے گانے والے سیاح پہلوان اور ڈاکو وغیرہ بھی اپنی اپنی جگہ اہمیت واضح کرتے ہیں یہ مجسمے دلچسپ واقعات رومان اور عقیدت سے لبریز دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے مجسموں سے عجیب غریب حالات کا پتہ چلتا ہے اس کے دائیں ہاتھ کو ہر بتی اور زرخیزی کی دیوی اس کے بچے اور پنیچکا کے بڑے مجسمے ہیں۔ ان واقعات کے علاوہ عجائب گھر میں پرانے سکے موجود ہیں ایک طرف قدیم کتبے ہیں پتھر میں کندہ کتبے کسی کنویں کی تعمیر کی یادگار ہیں پرانے زمانے کے مٹی کے برتن جن پر نقش و نگار بھی ہیں قدیم صنعت کاروں کی فنی قابلیت کا پتہ دیتے ہیں۔٭...٭...٭ 

انسانی ہاتھ کیا کہتے ہیں؟

انسانی ہاتھ کیا کہتے ہیں؟

لڑکھڑاتی چال چلتا ہوا مریض کمرے میں اخل ہوا۔ اس نے مجھ سے ہاتھ ملانے کی اپنی سی کوشش کی۔ اس کی گرفت بڑی ڈھیلی تھی اور یوں لگا کہ جیسے گائے یا بھینس کا دودھ نکالتے وقت ہاتھ پڑتے یا چھوٹتے ہیں۔ میں فوراً سمجھ گیا کہ اس کو '' Chorea‘‘ کی بیماری ہے جس میں ہاتھوں میں رعشہ وغیرہ آ جاتا ہے۔انسانی ہاتھ اللہ تعالیٰ کا عجیب اور حسین شاہکار ہیں۔ گوشت پوست، ہڈیوں، عضلات اور پٹھوں کے اس حسین مرقع سے انسان ہر قسم کے کام لیتا ہے۔ ہاتھ اور انگلیوں کے اشارے سے مختلف قسم کے خوشی، غمی، دوستی، محبت، نفرت، گرم جوشی، سرد مہری، اپنائیت وغیرہ کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ انگلیوں کو بند کرکے مکا انسانی عزم کی پختگی کا اظہار کرتا ہے۔ انہیں ہاتھوں کی بدولت انسان نے مختلف قسم کی لاکھوں ایجادات کیں اور ان کی وجہ سے تسخیر کائنات ممکن ہوئی اور ان کی بدولت ہر قسم کی ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں انسانی ہاتھ مختلف قسم کے جذبات کا اظہار کرنے کا ذریعہ ہیں، وہیں ان کی ساخت، سائز، رنگ اور حرکات سے بہت سی بیماریوں کی تشخیص آسان ہو جاتی ہے۔ناخن: ناخنوں کی صحیح تراش آج کل خوبصورتی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ خواتین نت نئے طریقوں سے اپنے ہاتھوں کے ناخنوں کو سجاتی اور بڑھاتی ہیں اور طرح طرح کی نیل پالش سے ان کو مزید خوبصورت بنانے میں لگی رہتی ہیں۔ خون کی کمی کی صورت میں ناخن پیلے اور سفیدی مائل ہو جاتے ہیں۔ Ray Naud's Disease میں ان کی رنگت نیلی ہو جاتی ہے۔ آئرن کی کمی کی صورت میں ناخن چمچہ کی شکل کے لگتے ہیں اور بہت نازک اور کمزور ہو جاتے ہیں۔ انگلیاں: مخروطی انگلیاں خوبصورتی کی نشانی ہیں۔ مختلف بیماریوں میں نہ صرف ان کی خوبصورتی ختم ہوتی ہے بلکہ یہ بھدی اور بدشکل بھی ہو جاتی ہیں۔ دل کی بیماری اور پھیپھڑوں کی بیماری میں ان کی شکلClub- Shaped ہو جاتی ہے۔ اس طرح جوڑوں کے درد کی بیماری میں انگلیاں مڑ سی جاتی ہیں اور Spindle نما ہو جاتی ہیں۔ہاتھوں کا لرزنا: ہاتھوں میں رعشہ (Tremor) بہت سی بیماریوں کا پتہ دیتا ہے جن میں پارکنسونزم، تھائی رائیڈ گلینڈ کا بڑھنا اور جگر کی بیماری وغیرہ شامل ہیں۔ بعض اوقات لکھنے والے، ٹائپ کرنے والے یا موسیقی بجانے والے رعشہ (Tremor) کی وجہ سے لکھنا، ٹائپ کرنا اور آلات بجانا بالکل بھول جاتے ہیں۔ یہ بھی مختلف بیماریوں میں ہو سکتا ہے اور اس کو Writers Cramp کا نام دیا گیا ہے۔ہاتھوں کی تحریر اور لکیریں: اللہ پاک نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے اور اس کی صناعی کے کیا کہنے کہ دو جڑواں بھائیوں کے ہاتھوں کی لکیریں بھی آپس میں نہیں ملتیں۔ انگلیوں کے نشانات آج کل کے دور میں بہت اہم ہیں اور اکثر مجرموں کو پکڑنے کیلئے ان سے مدد لی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر آدمی کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور اس کو پڑھ کر آدمی کی شناخت، اس کی شخصیت اور طبعی میلان کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔

ٹاور برج دریائے ٹیمز کے گلے کا ہار

ٹاور برج دریائے ٹیمز کے گلے کا ہار

لندن میں ٹاور برج دریائے ٹیمز کے اوپر ایک خوبصورت معلق پل ہے۔ لندن شہر کے دس خوبصورت اور پرکشش مقامات کی فہرست میں یہ پل بھی شامل ہے۔ اپنے خوبصورت ڈیزائن اور محل وقوع کی وجہ سے یہ پل لندن شہر کی خاص علامت سمجھا جاتا ہے۔اس کو ٹاور برج اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لندن کی مشہور عمارت لندن ٹاور کے قریب واقع ہے۔ ایک اور پل لندن برج اس ٹاور برج کے اوپر کی جانب صرف آدھے میل کے فاصلے پر بنا ہوا ہے۔ٹاور برج کی تعمیر جون 1886ء میں شروع ہوئی اور جون 1894ء میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس پل کی سب سے انوکھی انفرادیت یہ ہے کہ یہ درمیان میں دو تختوں پر مشتمل ہے اور بوقت ضرورت ان کو پانچ منٹ میں ایک مشینی عمل کے ذریعے86ڈگری تک اوپر اٹھایا جا سکتا ہے اور یہی اس کی تعمیر میں انجینئرنگ کا کمال ہے۔ یہ پل اس وجہ سے اس طرح ڈیزائن کیا گیا تاکہ اس کے نیچے سے دریائی ٹریفک آرام سے گزر سکے۔سرکاری طور پر اس پل کا افتتاح ایڈورڈ پرنس آف ویلز اور شہزادی الیزینڈر نے 30جون 1894ء کو کیا۔افتتاحی تقریب میں لارڈ چیمبر لین اور ہوم سیکرٹری کے علاوہ متعدد اہم شخصیات شریک تھیں۔انیسویں صدی میں جب تجارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی تو مشرقی لندن میں دریائے ٹیمز پر ایک نئے ل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔ 1877ء میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے نئے پل کے ڈیزائن کے لئے درخواستیں طلب کیں۔ ماہر تعمیرات کی طرف سے پچاس سے زائد ڈیزائن پیش کئے گئے۔ ان ڈیزائنوں میں سرہوریس جونز کا تیار کردہ ڈیزائن پسند کیا گیا۔ اس کی 1886ء میں تعمیر شروع کی گئی اور 1894ء میں یہ پل تیار ہو گیا۔ٹاور برج کی لمبائی 800فٹ اور یہ سطح آب سے 213فٹ اونچا ہے۔ اس کے دونوں اطراف کے ٹاور 200فٹ اونچے ہیں۔ بوقت ضرورت اوپر اٹھائے جانے والے دونوں تختے270فٹ لمبے ہیں۔ ان تختوں کا وزن 1000ٹن ہے جو کہ مشین کی مدد سے اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کی تعمیر میں11000ٹن سٹیل اور بنیادوں میں 70ہزار ٹن کنکریٹ استعمال کیا گیا۔ سٹیل کو آپس میں جوڑنے کیلئے 2ملین نٹ بولٹ اور اس کے علاوہ31ملین اینٹوں کا استعمال کیا گیا۔ اس پل کی تعمیر میں 432افراد نے حصہ لیا۔ اس پل کی تعمیر میں کل 11,84000پائونڈ خرچ ہوئے۔ 1885ء میں ایک ایکٹ کے ذریعے اس پل کی تعمیر کی منظوری دی گئی۔ یہ پل 250فٹ چوڑا ہے۔اس ٹاور برج کو عبور کرنے کیلئے روزانہ چالیس ہزار افراد گزرتے ہیں جن میں کاریں، موٹرسائیکل، سائیکل سوار اور پیدل سفر کرنے والے شامل ہیں۔ کسی گاڑی کو 20میل(32کلو میٹر) فی گھنٹہ سے تیز رفتار کی اجازت نہیں۔ سپیڈ کو مخصوص کیمرے چیک کرتے ہیں اور کسی گاڑی کا وزن بھی 20ٹن سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ضوابط کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔دریائی ٹریفک کو گزارنے کیلئے پل کے تختے ا وپر اٹھائے جاتے ہیں جس کیلئے روڈ ٹریفک بند کر دی جاتی ہے۔ ہمیشہ دریائی ٹریفک کو روڈ ٹریفک پر فوقیت دی جاتی ہے جو پہلے کی نسبت اب کم ہو گئی ہے۔ روڈ ٹریفک کو بند کرنے کے پروگرام کے مطابق میڈیا میں مطلع کر دیا جاتا ہے۔ یہ نوٹس24گھنٹہ قبل ویب سائٹ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔پیدل چلنے والے افراد کیلئے لفٹ کے ذریعے180فٹ اوپر بلندی والے راستہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس پیدل راستہ پر شیشے کا فرش لگایا گیا ہے جس سے نیچے کی ٹریفک اور ارد گرد کا نظارہ بہت لطف دیتا ہے۔ ٹاور برج کے قریب ٹیوب سٹیشن ٹاور ہل لائن پر لندن برج ہیں۔ ٹیوب سٹیشن سے ٹاور برج کا پیدل راستہ صرف سات منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ٹاور برج ایک سال میں عموماً850مرتبہ روڈ ٹریفک کیلئے بند اور دریائی ٹریفک کیلئے کھولا جاتا ہے۔

’’انزائٹی‘‘ /گھبراہٹ  علامات، اقسام، وجوہات اور علاج

’’انزائٹی‘‘ /گھبراہٹ علامات، اقسام، وجوہات اور علاج

امتحان، رزلٹ، انٹرویواورباس کا سامنا کرنے سے پہلے جیسے معاملات میں پائی جانے والی بے چینی اگر تو آپ کی کارکردگی میں بہتری کا باعث ہے تو یہ ایک مثبت اضطراب (Good Anxiety)ہے لیکن ہمہ وقت رہنے والی غیر ضروری بے چینی اگر بہتری کی بجائے انسان کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بھی شدید متاثر کرے تو یہ لمحہ فکریہ ہے اور اس کا فوری سدِ باب از حد ضروری ہے۔ اس کے ذہنی اثرات کے علاوہ جسمانی اثرات پورے جسم پر سر درد، چکر آنا، پٹھوں میں کھنچاو، تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری اور معدے میں خرابی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ انگزائٹی (Anxiety) کی وجوہات، علامات،اقسام اور علاج کے حوالے سے مزیدجانیں۔انگزائٹی یا اضطراب ایک ایسافطری عمل ہے جس میں ‘‘ایڈرینالین'' نامی کیمیکل دماغ کے دفاعی نظام کو خبردار کرتا ہے کہ انسان ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلیے تیار ر ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کسی خطرے کا خوف بے جا ستاتا رہے اورانسان ہمہ وقت بے چینی کا شکار رہے۔علاماتغیر ضروری پریشانی، چڑچڑا پن، سر درد، تیز دھڑکن، بے خوابی، سانس میں دشواری، معدے کے مسائل اور پٹھوں میں کھنچاؤ شامل ہیں۔ وجوہاتاس مرض کی وجوہات جنیاتی بھی ہوسکتی ہیں اورنفسیاتی بھی۔ عموماً یہ کسی بات کا حد سے زیادہ سٹریس لینے سے لاحق ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی پرانے حادثے کا خوف دل میں بیٹھ جانے کی وجہ سے یا جسم کے دفاعی نظام کو خبردار کرنے والے حصے میں خرابی کی وجہ سے۔اقسام''جنرل انگزائٹی ڈس آرڈر‘‘:اس بیماری میں مریض بلاوجہ اور بے حد پریشان و اداس رہتا ہے جس کے باعث تھکاوٹ اوربے خوابی کا شکار رہتا ہے۔پینک ڈس آرڈر: پینک اٹیکس گھبراہٹ کے دورے اچانک ہو جاتے ہیں اورانسان کو شدید خوف اور پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے دل کا دورہ پڑ رہا ہویا انسان مرنے والا ہے۔فوبیا: کسی مخصوص چیز سے ضرورت سے زیادہ ڈر لگنامثلاً فضائی سفر سے، رش والی جگہوں سے۔سوشل انگزائٹی ڈس آرڈر: اس مرض میں انسان لوگوں سے میل جول سے گھبراتا ہے اور خود کو ان سے کم تر سمجھتا ہے۔علاج:نیند اور خوراک پر بھر پور توجہ دینا ، مثبت سوچ والی صحبت رکھنا، ورزش اور جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رہنا اور قدرتی مناظر کا مشاہدہ کرنے سے انگزائٹی میں بتدریج کمی آتی ہے۔ اضطراب یا انگزائٹی ایک ایسا عارضہ ہے جو موجودہ عہد میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے اور اس کا علاج عموماً سائیکو تھراپی یا ادویات سے کیا جاتا ہے۔ انگزائٹی بنیادی طور پر شدید گھبراہٹ، فکرمندی، پریشانی اور ڈر کو کہا جاتا ہے۔معمولی گھبراہٹ یا ڈر تو نقصان دہ نہیں ہوتا مگر جب کیفیات کی شدت زیادہ ہو اور اکثر ایسا ہو تو پھر ضرور اس کی روک تھام کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔انگزائٹی پر توجہ نہ دی جائے تو معیار زندگی بہت بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔مگر اچھی بات یہ ہے کہ چند آسان اور حیرت انگیز طریقوں سے اس پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔سیدھے کھڑے ہوجائیںجب ہم فکرمند، پریشان یا بے چین ہوتے ہیں تو اپنے بالائی جسم کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کمر کو آگے جھکا لیتے ہیں۔انگزائٹی سے فوری ریلیف کیلئے سیدھا کھڑے ہوکر شانے پیچھے کرلیں اور سینہ باہر نکال کر گہری سانس لیں۔اس سے جسم کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ آپ کسی خطرے کی زد میں نہیں اور سب کچھ آپ کے کنٹرول میں ہے۔بہت زیادہ بے چین ہونے یا فکرمند ہونے پر منفی خیالات کا غلبہ ہو جاتا ہے تو اس کیفیت سے نکلنے کیلئے اردگرد دیکھیں اور جو کچھ نظر آئے اس میں سے 5 چیزوں کے نام زبان سے ادا کریں۔5 آوازوں کو سنیں اور آخر میں جسم کے 5 حصوں کو حرکت دیں جیسے گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھیں، ٹخنے کو گھمائیں، سر اوپر نیچے کریں۔ کانوں کو ہاتھ سے حرکت دیں اور ہاتھ کو گھمائیںلیونڈر، گریپ فروٹ ، چنبیلی ، گلاب، سونف اور لیمن بام وغیرہ کی مہک کو سونگھنا انگزائٹی کی شدت میں کمی لاتا ہے۔مزاحیہ ویڈیو دیکھنے سے انگزائٹی سے فوری نجات میں مدد مل سکتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ہنستے ہوئے بے چینی یا فکرمندی کے شکار نہیں رہ سکتے۔ہنسنے مسکرانے سے جسم کو سکون ملتا ہے اور انزائٹی ختم ہو جاتی ہے۔ورزش سے انگزائٹی کی شدت میں کمی آتی ہے جبکہ مزاج خوشگوار کرنے والے ہارمونز کی تعداد بڑھتی ہے۔تیز چہل قدمی سے ذہن صاف ہوتا ہے اور آپ چلتے ہوئے بار بار گہری سانسیں لے کر انگزائٹی کو قابو کر سکتے ہیں۔پرسکون کرنے والا گانا سنیں یقین کرنا مشکل ہوگا مگر ایک گانے کو اعصابی نظام کو پرسکون کرنے کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ اس گانے کو سننے سے انگزائٹی کی شدت میں 65 فیصد تک کمی آتی ہے۔ بے چین یا فکرمند ہونے پر کچھ کرنے سے ذہنی کیفیت بہتر ہو سکتی ہے جیسے اپنے سامنے میز کی صفائی کر دیں۔کمرے سے کچن میں جاکر پانی پی لیں یا اردگرد گھوم کر کوئی کام کرلیں۔آپ جو مرضی کام کریں۔ اس سے خیالات پر اثرات مرتب ہوں گے اور خیالات ہی عموماً انگزائٹی کا باعث بنتے ہیں۔ انگزائٹی دماغ کو جلد بوڑھا کرتی ہے۔ سوئیڈن کے کیرولینسکا انسٹیٹیوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ دیگر افراد کی جسمانی بو کو سونگھنا سماجی انگزائٹی یا سماجی خوف جیسے مسئلے کا مؤثر علاج ثابت ہو سکتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی کی جسمانی بو کو سونگھنے سے لوگوں کے وہ دماغی حصے متحرک ہوتے ہیں جو جذبات سے منسلک ہوتے ہیں اور سکون کا احساس دلاتے ہیں۔ محققین نے بتایا کہ اس ابتدائی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ دیگر افراد کی جسمانی مہک کو سونگھنے سے سماجی انگزائٹی کا علاج ممکن ہو سکتا ہے۔تحقیق کے دوران لوگوں کے پسینے کے نمونوں کو اکٹھا کرکے جسمانی بو کو مریضوں کو سونگھایا گیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ انسانی جسمانی بو سونگھنے والے افراد کی انگزائٹی میں 39 فیصد تک کمی آئی۔