حکایت ِمولانا رومیؒ:ادب
حجاج بن یوسف ثقفی سے منقول ہے کہ اس نے کوتوال (پہرہ دار) کو حکم دیا کہ رات کو شہر کا گشت کیا کرے ،اور عشاء کے بعد جس کو (آوارہ پھرتا ہوا) پائے اسے سزا دے ۔ پہرے دار نے رات میں گشت کیا اور تین لڑکوں کو پایا جو جھومتے ڈولتے ہوئے جا رہے تھے ۔ پہرے دار نے ان کو گھیر لیا اور کہا: تم کون ہو؟ تم نے امیر المومنین کے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی؟۔ پس ان میں سے ایک لڑکے نے کہا :میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کے سامنے خادم و مخدوم سب ہی کی گردنیں جھک جاتی ہیں۔ لوگوں کی گردنیں اس کے پاس ذلت کے ساتھ آتی ہیں اور وہ ان سے مال بھی لیتا ہے اور خون بھی لیتا ہے۔ پہرے دار رک گیا اور ( دل میں) کہا کہ شاید یہ امیر المومنین کے خاص لوگوں میں سے ہے۔ دوسرے سے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا میں ا س شخص کا بیٹا ہوں جس کی ہانڈی کبھی آتش دان (چولہے) سے نہیں اترتی اور اگر کسی روز اتر بھی جاتی ہے تو پھر فوراً اسی کی طرف واپس جاتی ہے۔ تو لوگوں کو اس کی آگ کے پاس بھیڑ لگائے دیکھے گا کہ کوئی کھڑ ا ہے اور کوئی بیٹھا ہے۔پہرے دار نے پھرہاتھ روک لیا اور دل میں یہ خیال کیاکہ شاید یہ عرب کے شریف خاندان کا بچہ ہے۔
تیسرے سے کہا: تو کون ہے؟
ا س نے کہا میں اس شخص کا بیٹا ہوں جو ہمت و جواں مردی سے صفوں میں گھس جاتا ہے اور ننگی تلوار سے صفوں کو سیدھی کر ڈالتا ہے۔ اس کے پائوں رکاب سے اس وقت بھی جدا نہیں ہوتے جبکہ گھوڑے میدان کار زار میں پیٹھ دے بھاگتے ہیں۔ پہرے دار اسے سزا دینے سے رک گیا اور یہ سمجھا کہ شاید یہ عرب کے کسی بہادر شخص کا لڑکا ہے۔ صبح ہونے پر پہرے دار نے ان کا قصہ حجاج کے گوش گزار کیا۔ حجاج نے ان کو بلا کر ان کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہو اکہ پہلا لڑکا نائی کا ہے، دوسرا حجام کا اور تیسرا لڑکا جولاہے کا بیٹا ہے۔ حجاج کو ان کی فصاحت کلامی پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے اپنے اپنے صحیح احوال کو کس خوبی اور دانشمندانہ طرز سے ظاہر کیا ہے ۔بیشک ان کا یہ طرز بیان قابل داد ہے۔ حجاج نے ہم نشینوں سے کہا کہ اپنی اولاد کو ادب کی تعلیم دو ۔اس واسطے کہ اگر ان کے کلام میں فصاحت نہ ہوتی تو بخدا میں ان کو سزا دیتا۔
٭...٭...٭