انڈے کے غذائی فوائد

انڈے کے غذائی فوائد

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر فروہ


انڈے طویل عرصے سے دنیا بھر کی غذاؤں میں ایک اہم مقام رہا ہے، جو ان کی استعداد اور غذائیت کی قدر کیلئے منایا جاتا ہے۔ یہ سادہ کھانے کی شے بے شمار فوائد پیش کرتی ہے جو متوازن غذا اور مجموعی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انڈا (مرغی) مشہور عام چیز ہے جس سے تقریباً ہر شخص واقف ہے۔ دودھ کی طرح انڈے میں مکمل خوراک ہوتی ہے یعنی اس میں وہ تمام اجزاء موجود ہوتے ہیں جو صحت کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ انڈوں کی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً مرغی کا انڈا، بطخ کا انڈا، ٹرکی کا انڈا اور شتر مرغ کا انڈا۔ مرغی کا انڈا عام طور پر زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
انڈے میں چھلکا گیارہ حصہ سفیدی ستاون اور زردی بتیس حصہ ہوتی ہے۔ گھریلو مرغیوں کے انڈے سائز اور وزن میں مختلف ہوتے ہیں مگر ان کے اجزائے خوراک تقریباً برابر ہی ہوتے ہیں۔ تازہ انڈے کا ذائقہ نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ دیسی مرغی ایک سال میں ساٹھ تا اسی انڈے دیتی ہیں جبکہ ولائتی مرغیاں ایک سو بیس سے ایک سو پچاس تک انڈے دیتی ہیں۔
صحیح انڈوں کی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ انڈے کو روشنی کی طرف کر کے دوسری طرف سے دیکھیں اگر صاف نظر آئے تو ٹھیک ہے۔ اگر اس میں کوئی داغ نظر آئے تو پھر انڈا خراب ہے۔ اس کے علاوہ انڈوں کو پانی میں ڈال کر دیکھا جا سکتا ہے۔ صحیح انڈے ڈوب جائیں گے جبکہ خراب انڈے اوپر تیریں گے۔ انڈے کا رنگ اکثر سفید ہوتا ہے۔ کچھ انڈے ہلکے بھورے بھی ہوتے ہیں۔ اس کا ذائقہ پھیکا ہوتا ہے۔ اس کا مزاج زردی مائل بہ گرمی، سفیدی سرد تر درجہ دوم اور چھلکا سرد درجہ دوم اور خشک درجہ دوم ہوتا ہے۔ اس کی مقدار خوراک دو سے چار انڈے ہے۔
انڈے کے فوائد:
1۔ انڈے خون پیدا کرتے ہیں۔
2۔ دل‘ دماغ اور باہ کو قوت دیتے ہیں۔
3۔ کمزور مریضوں کی بہترین غذا ہے۔
4۔ انڈے کی زردی سے روغن نکالا جاتا ہے جو بال اگانے میں بڑا موثر ہوتا ہے۔
5۔ عام جسمانی کمزوری میں دو انڈوں کی زردی اورسفیدی ایک پیالے میں ڈال کر اچھی طرح سے پھینٹیں اور پھر گرم دودھ پائو بھر میں تین چمچے خالص شہد ملا کر پینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
6۔ جن لوگوں کو رعشہ کی شکایت ہو ان کیلئے آدھ پکے انڈے کی زردی نہایت مفید ہوتی ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ روزانہ نہار منہ دو آدھ پکے انڈوں کی زردی کھائیں۔
7۔ بچوں کو قے اور دست آنے کی صورت میں ایک انڈے کی سفیدی کو پائو بھر پانی میں پھینٹ کر چینی ملا کر پلانے سے صحت ہوتی ہے۔
8۔ انڈوں کے چھلکوں کا کشتہ بنا کر سیلان الرحم اور ذیابیطس کی بیماریوں میں استعمال کرنا بے حد مفید ہے۔
9۔ انڈے کا تیل دماغی قوت بڑھانے‘ بال پیدا کرنے اور گنج دور کرنے کیلئے مفید ہے۔
10۔ انڈوں کے چھلکے خوبصورت کھلونے بنانے اور چھپکلیوں کو الماریوں سے دور رکھنے کے لئے کام آتے ہیں۔
11۔ انڈے کو ایک سال تک محفوظ رکھنے کیلئے چار پانچ کلو پانی کو دس منٹ تک ابال کر ٹھنڈا کر کے اس میں آدھا کلو سوڈیم سلی کیٹ ملا کر کسی مرتبان میں انڈے ڈال کر پانی ڈال دیں تو انڈے ایک سال تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔
12۔ سینے کی جلن کی صورت میں گرم دودھ میں دیسی انڈا پھینٹ کر پلانے سے آفاقہ ہوتا ہے۔
13۔ گرتے ہوئے بالوں کو روکنے کیلئے انڈا پھینٹ کر بالوں کی جڑوں میں لگائیں دو گھنٹے بعد سر دھونے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کم از کم ایک ہفتہ تک یہ عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
14۔ سینہ کی کھڑکھڑاہٹ اور معدہ کے منہ سے خون آنے کو روکتا ہے۔
15۔ انڈا لحمیات کا بہترین ماخذ ہے۔
٭...٭...٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
بدوقبائل:دنیا کے قدیم ترین خانہ بدوش

بدوقبائل:دنیا کے قدیم ترین خانہ بدوش

سائنس کی ترقی نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔دنیا جو ایک ''گلوبل ولیج‘‘ کا روپ دھار چکی ہے ، اس کی روایات بدل گئیں ، اس کے اطوار، اس کا کھانا پینا اس کا رہن سہن ، حتی کہ سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اب بھی دنیا کے کونے کھدروں میں چند ایک ایسے قبیلے موجود ہیں ، صدیاں بیتنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے آپ کو ذرہ برابر بھی نہیں بدلا۔ اگرچہ ایسے علاقے آٹے میں شاید نمک سے بھی کم ہوں گے لیکن اردن کے گردونواح میں واقع ''وادیٔ رم‘‘ کے بدو معدودے ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو جوں کے توں رہے۔ وہ آج بھی خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آج کا سعودی عرب صدیوں پہلے خانہ بدوش بدوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا ۔اسلام سے پہلے کے معاشرے میں بدو قبائل کے لوگ کئی گروہوںاورذاتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان سب کے رسم و رواج ، رہن سہن اور طرز حکمرانی جدا جدا تھے۔ تیسری صدی کے بعد ان میں معاشرتی شعور اجاگر ہوا تو تمام بدو گروہوں نے مل کر ایک اتحاد بنا لیا اور یوں یہ ایک قبائلی کنفیڈریشن کی صورت میں منظر عام پر آئے جس نے ان کی طاقت میں اضافہ کردیا۔اس دور میں خطہ عرب جغرافیائی لحاظ سے دو حصوں، حجاز اور نجد پر مشتمل تھا۔مغربی ساحلی علاقہ حجاز کہلاتا تھا جس میں مکہ ، مدینہ اور جدہ جیسے شہر شامل تھے جبکہ دوسرا علاقہ نجد کہلاتا تھا۔جس میں صحرائی اور پہاڑی علاقے شامل تھے، آج کل کا شہر ریاض بھی اسی خطے کا حصہ تھا۔ اس وسیع و عریض علاقے میں صدیوں سے خانہ بدوش اور جنگ پسند بدو قبائل کے لوگ آباد تھے۔اس علاقے کو یہ انفرادیت حاصل تھی کہ یہاں کبھی کسی غیر ملکی طاقت کا راج نہیں رہا بلکہ یہاں بدو قبائل ہی آباد چلے آ رہے تھے جو خود کو آزاد اور خود مختار سمجھتے تھے۔آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کی رحلت تک تقریباً پورا خطہ عرب دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا تھا اور اس وقت تک عرب کے تمام بدوؤں کے گروہ اسلام کے پرچم تلے آچکے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بدوؤں کی شناخت ثانوی حیثیت اختیار کرتی گئی ماسوائے بدوؤں کے ان قبائل کے جنہوں نے اپنی روایات اور اپنے مسکن کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان میں وادیٔ رم سب سے نمایاں ہے، جہاں آج بھی دنیا سے بے نیاز بدو، خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خانہ بدوش بدو کیسے رہتے ہیںوادیٔ رم کے خانہ بدوش بدوؤں کا شاید یہ سب سے قدیم قصبہ ہے جس کا رہن سہن، رسم و رواج ، کھانا پینا بالخصوص مہمان نوازی کا اعلیٰ وصف ذرہ برابر بھی نہیں بدلا۔ وادیٔ رم عرب دنیا میں بدوؤں کا اب سب سے بڑا مرکز ہے۔ ایک بات جو بدوؤں کو دوسری اقوام سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کے نام ہیں ، جس میں ان کے پردادا سے لے کر ان کے باپ اور قبیلے تک کا نام شامل ہوتا ہے ، جسے یاد کرنا یا روانی میں دہرانا آسان نہیں ہوتا۔ وادی رم کی مہمان نوازی دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ صدیوں سے ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے در پر آیا ہر شخص ان کا مہمان ہے ، اسی لئے گھر پر آئے فرد یا افراد کی خاطر مدارت کرنا صدیوں سے ان کی روایات کا حصہ چلا آ رہا ہے ۔یہی حال ان کے لباس کا ہے جو صدیوں سے جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ یہ لوگ آج بھی سر پر ایک مخصوص عمامہ پہنتے ہیں جسے مقامی زبان میں ''شماغ‘‘ کہتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ یہ سفید رنگ کا ایک لمبا روائتی کرتا پہنتے ہیں جسے مقامی زبان میں '' ثوب‘‘ کہا جاتا ہے۔یہاں پر چاروں طرف پھیلی پہاڑیاں اور چٹانیں انتہائی ناہموار ہیں جن پر چڑھنا عام انسانوں کیلئے مشکل ہوتا ہے جبکہ مقامی افراد گلہری کی مانند ان پر باآسانی چڑھ جاتے ہیں۔یہاں کے لوگوں نے دس میٹر سے بلند ہر پہاڑی کا نام رکھا ہوتا ہے۔ وادیٔ رم بظاہر اس علاقے کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس کا رقبہ 720 مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ بدوں کا روائتی طرز زندگی ابھی تک صدیوں پرانا ہی ہے جبکہ مرد و زن اپنے اپنے خیموں میں الگ رہتے ہیں۔ گھر پر آئے مرد مہمان نہ تو گھر کے زنان خانے تک جا سکتے ہیں اور نہ ہی گھر کی خواتین ان کے سامنے آ سکتی ہیں ، البتہ باہر سے آئی خواتین یہاں کے مردوں سے مل سکتی ہیں۔ مہمان نوازی کی ابتدا یہاں قہوے سے ہوتی ہے جبکہ دور سے آئے مہمانوں کو کھانا بھی پیش کیا جاتا ہے۔اگر مہمان مختصر عرصے کیلئے آیا ہو تو اسے مقامی ڈش '' زرب‘‘ پیش کی جاتی ہے جو بکری کے گوشت اور سبزی پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ خاص مہمان کیلئے روائتی کھانا '' منسف‘‘ تیار کیا جاتا ہے جو بکری کے گوشت اور پنیر کے ساتھ بنتا ہے۔ رات بسر کرنے والے مہمانوں کو یہ رباب کے ذریعے مقامی موسیقی سے محظوظ بھی کرتے ہیں۔وادیٔ رم کہاں ہے اور کتنی قدیم ہے ؟ سعودی عرب کی سرحد سے ملحق عقبہ کے مشرق میں لگ بھگ 60 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی اردن میں ریت، پتھر اور گرینائٹ کی چٹانوں پر مشتمل ایک وادی ہے جسے '' وادی رم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اردن کی سب سے بڑی وادی ہے۔اس وادی کا قریب ترین شہر واڑی ہے جو بحرہ احمر پر واقع بندرگاہ شہر عقبہ سے ایک گھنٹے کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں پر اردن کی دوسری بلند ترین پہاڑی ''جبل رم‘‘ موجود ہے جس کی بلندی 5689 فٹ ہے ، جبکہ اردن کی بلند ترین چوٹی ''جبل امعد رمی‘‘ ہے جس کی بلندی 6040 فٹ ہے۔ وادی رم صحرا کو ''چاند کی وادی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ چونکہ کرۂ ارض کے سب سے متاثر کن مناظر میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر اپنی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ صحرائے رم کی ایک طویل قدیم تاریخ ہے جو کبھی اس خطے کا اہم تجارتی راستہ ہوا کرتا تھا۔یہ آثارقدیمہ کی دریافتوں سے مالا مال خطہ ہے جس میں پیٹروگلیف اور نوشتہ جات شامل ہیں جو ہزاروں سال پہلے انسانوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وادیٔ رم کو دنیا کے سامنے سب سے پہلے 1917ء میں متعارف کرانے والا برطانوی فوج کا ایک کرنل ٹی ای لارنس تھا جس کا اکثر وادی ٔ رم سے گزر ہوتا تھا۔ اس نے اپنی شاطرانہ چالوں سے عربوں کے دلوں میں ترکوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی۔ اسی وجہ سے اس کی شہرت '' لارنس آف عریبیا‘‘ کے لقب سے ہونے لگی۔ بعد میں متعدد انگلش فلموں کی شوٹنگز بھی اسی وادی میں ہوتی رہیں، جن میں ''لارنس آف عریبیا‘‘ نامی فلم قابل ذکرہے۔ قدیم تاریخی حوالوں سے اس امر کے واضح شواہد ملتے ہیں کہ موجودہ خطہ عرب میں انسانی آبادکاری برفانی دور ختم ہونے کے بعد یعنی لگ بھگ 13000قبل مسیح سے لے کر 18000قبل مسیح کے دوران شروع ہوئی۔ تاریخی حوالوں سے یہاں سب سے پہلے '' دلمن‘‘ نامی ایک تہذیب کا ذکر ملتا ہے۔اس زمانے میں یمن کو ''سبا‘‘، موجودہ عمان کو ''میگن‘‘ جبکہ اردن کو '' نباطین‘‘ کہا جاتا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وادی عرب کے لوگ شروع سے اپنے آپ کو '' العرب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ جہاں تک وادی ٔ رم میں انسانی آبادکاری کا تعلق ہے ، اگرچہ ماہرین ابھی تک اس کی صحیح تاریخ کا تعین تو نہیں کر سکے تاہم گمان غالب یہی ہے کہ یہ دو سے تین ہزار سال قدیم کا عرصہ ہو سکتا ہے۔

انیس ناگی عمدہ شاعر باکمال نقاد اور منفرد ناول نگار

انیس ناگی عمدہ شاعر باکمال نقاد اور منفرد ناول نگار

ڈاکٹرانیس ناگی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، وہ ایک عمدہ شاعر، باکمال نقاد، منفرد ناول نگار اور فلم میکر تھے۔ انہوں نے جنون کی حد تک ادب سے محبت کی اور ان گنت کتابیں تصنیف کیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ادب، ناگی صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھاتو غلط نہ ہو گا۔ انیس ناگی 30 جولائی 1939ء کو شیخو پورہ میں پیدا ہوئے۔ سنٹرل ماڈل سکول لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ 1957ء میں گورنمنٹ کالج کے جریدے ''راوی‘‘ کے مدیر بنے۔ 1960-61ء میں پنجاب یونیورسٹی کے میگزین ''محور‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 1960ء کی دہائی میں نئی شاعری کی تحریک میں حصہ لیا، جس کے شرکاء کے نزدیک رائج شاعری کا روایتی پیرایہ ناقابل قبول ہوچکا تھا۔انیس ناگی نے اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کرنے کے بعد تدریس شروع کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور اورفیصل آباد میں پڑھاتے رہے، پھر مقابلے کا امتحان پاس کر کے صوبائی سول سروس میں شامل ہو گئے۔ اس دوران پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی بھی کی۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پھر تدریس کی طرف آئے۔ اس میں ان کا دل لگتا تھا۔ ان کے شاگرد ان کے مداح تھے۔ زندگی کی آخری سانسیں 7 اکتوبر 2010ء کو پنجاب پبلک لائبریری میں لیں، جہاں ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کے پاس مقالے کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنے آئی ہوئی ایک طالبہ تھی جس نے ان کے گھر اور کالج اطلاع دی۔شاعری میں انہوں نے زیادہ تر نثری لفظوں کی طرف توجہ دی۔ ان کا شعری مجموعہ ''زرد آسمان‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ وہ ایک سخت گیر نقاد تھے اور کسی بھی ادب پارے کیلئے تحسین کے چند کلمات ادا کرنا ان کیلئے بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ان کی تصانیف میں '' نقدِ شعر، نیا شعری افق، تصورات، نذیر احمد کی ناول نگاری، افتخار جالب: جدید ادب کا معمار، مذاکرات، جان ایس پرس کی نظمیں (ترجمہ)، سعادت حسن منٹو، غالب ایک شاعر ایک اداکار، جنس اور وجود، ابھی کچھ اور، دیوار کے پیچھے، میں اور وہ، زوال، قلعہ، ناراض عورتیں، بریگیڈ 313، بشارت کی رات، غیرممنوعہ نظمیں، بے خوابی کی نظمیں، زرد آسمان، روشنیاں، نوحے، آگ ہی آگ، مستقبل کی کہانی، جہنم میں ایک موسم، ہوائیں، بیابانی کا دن اور چوہوں کی کہانی‘‘ شامل ہیں۔تنقید میں ان کی کئی کتابیں قابل ذکر ہیں جنہوں نے بے شمار لوگوں کومتاثر کیا۔ ان میں ''ڈپٹی نذیر احمدکی ناول نگاری، تنقید شعر‘‘ کا بہت نام لیا جاتا ہے لیکن سعادت حسن منٹو پر لکھی گئی ان کی کتاب انتہائی لاجواب ہے۔ اگر تخلیقی تنقید پڑھنی ہو تو پھر ادب کے قاری کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے وہ کچھ ڈھونڈ نکالا جو شاید دوسرے نقاد نہیں ڈھونڈ سکے۔ مثال کے طور پر انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے مارکزم دریافت کرلیا۔ مارکسی فلسفے کے اہم ترین نکات کو انہوں نے جس طرح منٹوکے افسانوں سے رابطہ جوڑا وہ انہی کا کمال ہے۔ جہاں تک ان کے ناولوں کا تعلق ہے تو اس میں وہ واضح طور پر کامیو کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ انیس ناگی باغیانہ روش کے حامی تھے اور انہوں نے ہمیشہ ادب میں ایک باغی کی حیثیت سے اپنے آپ کو روشناس کرایا۔ ان کا ناول ''دیوار کے پیچھے‘‘ ایک بہت عمدہ ناول ہے جو خود کلامی(Monologue) کے اسلوب میں لکھا گیا ہے اس میں بڑے خوبصورت طریقے سے معاشرتی انتشار کی عکاسی کی گئی ہے۔ ''میں اور وہ‘‘ وجودی فکر کا نمائندہ ناول ہے۔ ناگی صاحب کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے مترجم بھی تھے اور اس میدان میں بھی انہوں نے کئی کارنامے سرانجام دیئے۔منٹو پر فلم کا سکرپٹ لکھا اور فلم خود بنائی جس مین منٹو کا کردار یونس ادیب نے نبھایا۔خود نوشت سوانح حیات ''ایک ادھوری سرگزشت‘‘ کے نام سے لکھی۔ 1999ء میں اکادمی ادبیات کی طرف سے ناول ''کیمپ‘‘ پر وزیر اعظم ادبی انعام ملا۔ انیس ناگی کا نام ان کے کام کی وجہ سے ادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔خاموشی کا شہرہوا دھند کے پھیلے لب چومتی ہے کہاں زندگی ہے؟ کہاں زندگی کے نشاں ہیں کہ تم شہر میں ہو جہاں ایک ہی روپ ہے جو ہمیشہ رہے گا اٹھو باؤلے اب تمہیں کس تمنا نے منزل کا دھوکا دیا ہے کہ تم سانس کی اوٹ میں چپ کھڑے سوچتے ہو یہاں ہر نفس بے صدا ہے یہاں ہر گھڑی اب سسکتی سی زنجیر ہر اک وفا تیرگی کا ستوں ہے چلو خواہشیں ڈھونڈنے بن سنور کے چلو خواہشیں ڈھونڈنی ہیں نہیں تو یہی خامشی بھوت بن کر گھروں کے کواڑوں کے پیچھے ہمیشہ ڈراتی رہے گی اک بے کشش نظمپہلے کشش عورت میں تھی پھر کشش لفظوں میں تھی اب لفظ عورت بے کشش لہروں تک زمین و آسماں کو دیکھتے ہیں کائناتی سلسلوں میں سلسلہ وہ ڈھونڈتے ہیں جو ہمیں ویران کر کے جا چکا ہے   

انسانی صحت کیلئے ابھرتا ہوا خطرہ

انسانی صحت کیلئے ابھرتا ہوا خطرہ

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کیلئے اکٹھے ہونے والے عالمی رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے ''Antimicrobial Resistance‘‘ (AMR)پر بھی غوروخوض کیا اور دنیا کو درپیش اس بڑے طبی خطرے سے بچاؤ کی تدابیر پر غور کیا گیا ۔اینٹی بیکٹیریل رزسٹنس صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ بن کا سامنے آ رہا ہے ۔ پچھلے کچھ برسوں سے عالمی سطح پر ''ہفتہ آگاہی برائے اینٹی بائیوٹکس‘‘ ہر سال نومبر کے کسی ہفتے میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے مزاحمتی اثرات (Resistance) سے آگہی اور شعور دینا ہے اور مزید ادویاتی مدافعت کو روکنا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس سے لے کر اینٹی وائرلز تک بہت سی جراثیم کش ادویات کی بدولت گزشتہ ایک صدی کے عرصہ میں انسانی کی اوسط عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہر سال یہ ادویات لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان ادویات کے خلاف مزاحمت اس وقت جنم لیتی ہے جب یہ بیکٹیریا، وائرس، فنگی اور طفیلی جرثوموں پر اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔ اس طرح مریضوں کو ان ادویات کا فائدہ نہیں ہوتا اور انفیکشن کا علاج مشکل یا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں بیماری کے پھیلاؤ، اس کی شدت میں اضافے، جسمانی معذوری اور موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں معمولی چوٹ، معمول کی سرجری یا عام انفیکشن بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں یا کمزور قوت مدافعت والے افراد میں ناقابل علاج انفیکشن ان کی زندگی کو لاحق دوسرا بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔ کئی عواملAntimicrobial Resistance کا سبب بن سکتے ہیں، اینٹی بائیوٹکس ادویات کا حد سے زیادہ استعمال ان میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کا بغیر ضرورت کے استعمال، ڈاکٹروں کی جانب سے بھاری مقدار میں یہ ادویات تجویز کرنا یا انہیں حسب ضرورت استعمال کیے بغیر چھوڑ دینا اینٹی بیکٹیریل رزسٹنس کا سبب بنتا ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جیسا کہ مویشیوں کی افزائش اور انہیں بیماریوں سے بچانے کیلئے اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے سے ان دواؤں کے خلاف مزاحم جراثیم انسانوں میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں آبادیوں اور طبی مراکز میں صحت و صفائی کے ناقص انتظام سے بھی ادویات کے خلاف مزاحم جراثیم کی طاقت میں اضافہ ہوتاہے۔ بڑے پیمانے پر لوگوں اور اشیا کی نقل و حرکت کے باعث ادویات کے خلاف مزاحم جراثیم باآسانی سرحد پار پہنچ جاتے ہیں۔ سیلف میڈیکیشن بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کے بعد اینٹی بائیوٹکس کا صحیح استعمال نہ کرنا۔عام مشاہدے کی بات ہے کہ ڈاکٹر نے کسی مریض کو ایک ہفتے کیلئے کوئی دوا تجویز کی مگرمریض نے تین دن کھانے کے بعد چھوڑ دی یا ایک کھائی اورایک دو دن ناغہ کر کے پھر شروع کر لی یا دن میں دو بار کھانے کی بجائے ایک بار کھائی۔ معیاری ادویات کی عدم دستیابی، مثال کے طور پر اینٹی بائیوٹک دوا میں فعال جزو (Active ingredient) کی مقدار کم ہے تو وہ دوا بھی اے ایم آر کا سبب بن سکتی ہے۔ ہمارے ہسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول سسٹم کا نہ ہونا،صاف پانی کی عدم دستیابی، لائیو سٹاک اور ایگریکلچر میں اینٹی مائیکروبیلز کا بے جا استعمال، حفظان صحت کی کمی، ناقص صفائی اورصاف پانی کی عدم دستیابی بھی اس مسئلے کا سبب بن سکتی ہے۔اے ایم آر میں اضافے سے انفرادی و اجتماعی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے نظام ہائے خوراک، ترقی اور سلامتی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق اس طبی مسئلے سے 2030ء تک دنیا کو 3.4 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔صحت سے وابستہ عالمی تحقیقی اداروں کے مطابق ہر سال تقریباً سات لاکھ افراد''اے ایم آر‘‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو 2050ء تک یہ تعداد ایک کروڑ سالانہ تک جا پہنچے گی اور 2050ء تک تقریباً تین کروڑ افراد اس سے غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔''اے ایم آر‘‘ 100 فیصد قابل انسداد ہے۔ 2015ء میں اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے عالمگیر اقدام کی منظوری دی گئی تھی اور اس ضمن میں عوامی سطح پر آگاہی کو بڑھایا گیا، جراثیم کش ادویات کے استعمال کو ذمہ دارانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس مسئلے پر مزید تحقیق بھی جاری ہے۔دنیا بھر میں تمام لوگوں کی طبی خدمات تک رسائی ممکن بنا کرجراثیم کش ادویات کی طلب میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں انفیکشن کی روک تھام اور اس پر قابو پانا، حفاظتی ٹیکے لگانا اور پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کے منصوبوں کو بڑھانا ضروری ہو گا۔

لندن آئی اہل دنیا کیلئے اس صدی کا پرکشش تحفہ

لندن آئی اہل دنیا کیلئے اس صدی کا پرکشش تحفہ

لندن آئی جس کو عرفِ عام میں ہم لندن کی آنکھ بھی کہہ سکتے ہیں، ایک ایسا عجوبہ ہے جس کو سیاح جب تک اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں، ان کی لندن کی یاترا مکمل نہیں ہوتی یہ اہل لندن کی طرف سے اہل دنیا کیلئے اس صدی کا پرکشش تحفہ ہے۔ ویسے بھی لندن میں ان گنت پرکشش مقامات ہیں لیکن جب سے یہ منظر عام پر آیا ہے اس نے سب کی بلندیوں میں اپنا منفرد مقام حاصل کر لیا ہے۔لندن آئی کا پہلے نام ملینیم وہیل تھا جو صدی کے آغاز میں عوام کیلئے کھولا گیا لندن آئی دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 443فٹ ہے اور یہ براعظم یورپ کا سب سے بڑا وہیل (چکر) ہے۔ اس وہیل کا قطر 394فٹ ہے۔ اس میں 32ہنڈولے ہیں اور ہر ہنڈولے میں 25مسافر سوار ہو سکتے ہیں یعنی ایک وقت میں800مسافر اس میں سوار ہو کر لندن شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ لندن شہر کے 32اضلاع ہیں اسی مناسبت سے وہیل کے ہنڈولوں کی تعداد 32ہے۔ آخری ہنڈولے کا نمبر33ہے، وہ اس طرح کہ 13نمبر کے ہندسے کو برطانیہ میں پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، اسی لئے 12نمبر کے ہنڈولے کے بعد اگلے ہنڈولے کا نمبر14ہے۔لندن آئی کا افتتاح31دسمبر1999ء کو اس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کیا تھا لیکن افتتاح تقریب کے اگلے دن کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر اس وہیل کو عوام کے لئے بند رکھا۔ سب سے پہلے یکم فروری 2000ء کو ایک مسافر نے اس پر سواری کی اور بعد ازاں 9 مارچ 2000ء کو اسے عوام کیلئے کھول دیا گیا۔ اس وہیل کو تیار کرنے پر 70ملین پائونڈ کا خرچ ہوا۔ اس وہیل کی تکمیل میں ساڑھے تین سال کا عرصہ لگا۔ اس وہیل میں ہر سال 35لاکھ سے زائد مسافر سوار ہوتے ہیں۔ آپ کے سامنے سارا لندن آپ کی آنکھ کے کیمرے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ہر ہنڈولے کا وزن 10ٹن ہے۔ وہیل کا پورا چکر 30منٹ میں مکمل ہوتا ہے۔ اس وہیل کے گھومنے کی رفتار10انچ فی سیکنڈ0.9=کلو میٹر (0.6میل) فی گھنٹہ ہے۔ ہر ہنڈولے کے اندر بیٹھنے کے لئے نشستیں ہیں۔ اس کے اندر ٓپ گھوم پھر سکتے ہیں۔مسافروں کو اتارنے یا سوار کرانے کیلئے یہ رکتا نہیں بلکہ اس کے چلنے کی رفتار چیونٹی کی رفتار کے مشابہہ ہے۔ ہنڈولہ میں سب مسافر آرام سے سوار ہو سکتے ہیں اور چلتے چلتے اُتر بھی سکتے ہیں۔ البتہ معذور یا عمر رسیدہ افراد کے لئے اسے روکا بھی جا سکتا ہے۔ سب ہنڈولے ایئرکنڈیشنڈ ہیں۔ ان ہنڈولوں میں آپ اپنی یا اپنے بچوں کی سالگرہ کی یادگارتقریب منانا چاہیں تو منا سکتے ہیں۔لندن آئی کا خواب تو اہل لندن نے دیکھا تھا لیکن اس خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یورپ کی دوسری برادری نے ہر ممکن مدد کی۔ وہ اس طرح کہ ہنڈولوں کے لیے سٹیل برطانیہ نے سپلائی کیا اور ہالینڈ میں ایک کمپنی نے جوڑنے میں اپنا کردار ادا کیا، تاریں اٹلی سے، بیرنگ جرمنی سے، چرخی اور اس کا دھرا چیک ری پبلک سے، ہنڈولوں میں کھڑکیوں کا شیشہ اٹلی کے شہر وینس سے استعمال ہوا۔ باقی الیکٹرک کا سازو سامان برطانیہ نے مہیا کیا۔ وہیل کا مرکزی دھرا(Hub)دوستونوں سے منسلک ہے جو دریائے ٹیمز پر 65ڈگری پر جھکے ہوئے ہیں۔جس طرح پیرس میں ایفل ٹاور ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے بالکل اسی طرح لندن آئی بھی لندن کا ایک شاہکار ہے۔ ایفل ٹاور کے اوپر چڑھ کر آپ پیرس شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح لندن آئی میں سوار ہو کر آپ لندن کا دلفریب نظارہ کر سکتے ہیں۔ پیرس کے ایفل ٹاور کی طرح لندن آئی بھی شہر کے لئے ایک خوبصورت علامت ہے۔راقم نے جب لندن وزٹ کے موقع پر جہاز کے لیڈ کرنے سے قبل لندن آئی کا نظارہ کیا تو بہت محظوظ ہوا۔ لندن میں بہتے ہوئے ٹیمز کے ٹرننگ کو شمار کرتے کرتے جب لندن آئی پر نگاہ پڑی تو ٹیمز کی گنتی ہی بھول گیا اور لندن آئی کے ہنڈولے شمار کرنے شروع کردیئے۔ یہ اتنا خبوصورت شاہکار ہے کہ اس کو کسی کی نظر نہ لگے۔ 443فٹ کی بلندی کے ساتھ اس وقت یہ وہیل دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ کچھ لوگ اس وہیل میں پچیس تیس مرتبہ سوار ہو چکے ہیں اور انتظامیہ ان کے نام ریک ریکارڈ میں محفوظ کر لیتی ہے۔مختلف یادگاری موقعوں پر اسے خوبصورت رنگ برنگی روشنیوں سے نہلا دیا جاتا ہے۔ ویسے خوبصورت منظر کو دیکھنے والی آنکھ اپنے کیمرہ میں اسے ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیتی ہے۔ لندن کا ٹرپ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک لندن آئی کے ہنڈولوں میں جھولے نہ لئے جائیں۔لندن آئی میں سوار ہو کر چاروں اطراف تیس سال تک بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ لندن آئی اس وقت '' مرلن انٹرٹیمنٹ گروپ‘‘ کی ملکیت ہے۔لندن آئی تک پہنچنے کیلئے قریبی ٹیوب سٹیشن واٹر لو، چیئرنگ کراس اور ویسٹ منسٹر چند منٹ کے فاصلہ پر واقع ہیں۔

حکایت سعدیؒ: درویش کی اصلاح خویش

حکایت سعدیؒ: درویش کی اصلاح خویش

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ طائفہ درویشاں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس بادشاہ کے مصاحبوں میں ایک صاحب فراست نے اس صورت حال کو محسوس کر لیا تھا اور اس نے بادشاہ سے اس انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے شاہا! اس دنیا میں ہم آپ سے کہیں زیادہ خوش تر ہیں۔ بحوالہ لشکر اور فوج آپ سے کمتر ہیں اور موت میں آپ کے برابر ہیں اور پھر قیامت میں آپ سے بہتر ہیں اگر خدا نے چاہا تو۔ اگر کوئی صاحب سلطنت کامران و کامیاب ہے اور اگر کوئی درویش ایک روٹی کا حاجت مند ہے جس گھڑی یہ اور وہ مر جائیں گے۔پھر آپ مملکت چھوڑ کر جانا چاہیں گے، اس وقت گدائی تو بادشاہی سے بہتر ہو گی۔ طریقت درویشوں کے ظاہری لباس کی پیوند کاری ہے اور سر منڈائے رکھنااور اس کی حقیقت یہ ہے کہ ان کا دل زندہ ہوتا اور نفس مردہ ہو جاتا ہے۔درویشوں کا طریق اللہ کا ذکر کرنا اور شکر ادا کرنا اور خدمت اور اطاعت، ایثار، قناعت توکل، تسلیم اور تحمل جیسی صفات حسنہ ہیں۔ ان صفات کا ذکر کیا گیا ہے انہی سے درویش موصوف ہو کر حقیقت تک پہنچتا ہے۔ اس اگر درویش صرف قبا پہنے ہوئے ہو اور صرف سراگشت کرنے والا آوارہ ہی ہو اور بے نماز اور ہوس کا رسیا ہو جا، اپنے دنوں کو خواہشات کے سائیوں میں رات کرے اور راتوں کو خواب غفلت میں گزار دے۔ جو میسرآئے اس سے اپنا دوزخ بھرتا چلا جائے اور اسی طرح جو زبان پر آئے کہتا چلا جائے۔سخاوت کا ہاتھ لمبامصر کے ایک بڑے سردار پر نزع کا عالم طاری ہوا، چہرے کی سرخی زردی میں تبدیل ہوگئی، دانشمند افسوس ہی کرتے رہ گئے کہ کیا کریں، کیونکہ موت سے بچاؤ کا طب کی دنیا میں کوئی علاج نہیں۔ لوگوں نے سنا کہ مرتے وقت کہہ رہا تھا کہ مصر میں میرا جیسا کوئی نہ تھا لیکن جب انجام کار یہی (موت) ہے تو گویا میں کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے جمع تو کیا مگر اس کا پھل نہ کھایا اور آج مجبوروں کی طرح چھوڑ کر جارہا ہوں۔ عقلمند وہی ہے جو کھا جائے اور دے جائے کیونکہ جو بچ گیا وہ تیرے لیے افسوس کا باعث بنے گا۔ سخاوت کا ہاتھ لمبا کر اور ظلم کا چھوٹا۔ اب اپنے ہاتھ اسے کانٹا نکال لے کہ کفن سے ہاتھ بھی نہ نکال سکے گا۔اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اور مخلوق خدا پر رحم و کرم کرنا ہی انجام کار اخروی کامیابی کی ضامن ہے، گن گن کر رکھتے جانا اور جمع کرتے جانا، نہ دنیا میں کام آیا نہ آخرت میں آئے گا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

برطانیہ کا فرانس کیخلاف اعلان جنگ1337ء میں آج کے روز برطانیہ کے شاہ ایڈورڈ سوئم نے فرانس کے تخت کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک ایسی جنگ کا آغاز کر دیا جو 116 سال تک جاری رہی۔ ایڈورڈ سوم 1327ء میں بادشاہ بنا اور اس نے اپنی وفات تک مملکت انگلستان پر حکومت کی۔ اس نے مملکت انگلستان کو یورپ کی ایک بہت بڑی عسکری طاقت میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہ 29 ستمبر 1376ء کو بیمار ہوا اور کچھ عرصے بعد ہی 21 جون 1377ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ افغانستان پر امریکی بمباری کا آغاز گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی شروع کی۔ اس کارروائی کو ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا نام دیا گیا۔ جلد ہی امریکی اسپیشل فورسز اور سی آئی اے کے ایجنٹ براہ راست بمباری میں مدد کے لیے افغانستان میں داخل ہوئے اور افغان اپوزیشن فورسز کو متحد کیا۔ جلد ہی طالبان کو بے دخل کردیا گیا تاہم اس وقت تک امریکہ کی جانب سے افغان سرزمین پر بڑے پیمانے پر فوج نہیں اتاری گئی تھی۔اٹلانٹس کی چوتھے مشن پر روانگی7اکتوبر 2002ء کو ناسا کی خلائی شٹل اٹلانٹس کینیڈی سپیس سنٹر سے مشن ''ایس ٹی ایس 112‘‘ لے کر بین الاقوامی خلائی مرکز کی طرف روانہ ہوئی۔ یہ خلائی مشن 11 روز پر مشتمل تھا۔ اس مشن کا مقصد خلائی اسٹیشن میں 28ہزار پونڈ کا ایک سٹار بورڈ نصب کرنا تھا۔ خلائی شٹل اٹلانٹس 1985ء میں متعارف کرائی گئی تھی اور یہ اس کا چوتھا مشن تھا۔ فورڈ نے موونگ اسمبلی لائنز متعارف کرائیامریکی کارساز کمپنی فورڈ موٹر نے 1913ء میں آج کے روز پہلی گاڑیوں کی موونگ اسمبلی لائن متعارف کرائی جو کارسازی کی صنعت میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ فورڈ موٹر کمپنی عام طور پر ''فورڈ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کمپنی فورڈ برانڈ کے تحت آٹوموبائل، تجارتی گاڑیاں اور لگژری کاریں فروخت کرتی ہے۔ فورڈ چین کی جیانگلنگ موٹرز میں بھی 32فیصد حصص کی مالک ہے۔ اس کے چین، تائیوان، تھائی لینڈ اور ترکی میں بھی مشترکہ منصوبے ہیں۔