انسانی صحت کیلئے ابھرتا ہوا خطرہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کیلئے اکٹھے ہونے والے عالمی رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے ''Antimicrobial Resistance‘‘ (AMR)پر بھی غوروخوض کیا اور دنیا کو درپیش اس بڑے طبی خطرے سے بچاؤ کی تدابیر پر غور کیا گیا ۔اینٹی بیکٹیریل رزسٹنس صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ بن کا سامنے آ رہا ہے ۔ پچھلے کچھ برسوں سے عالمی سطح پر ''ہفتہ آگاہی برائے اینٹی بائیوٹکس‘‘ ہر سال نومبر کے کسی ہفتے میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے مزاحمتی اثرات (Resistance) سے آگہی اور شعور دینا ہے اور مزید ادویاتی مدافعت کو روکنا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس سے لے کر اینٹی وائرلز تک بہت سی جراثیم کش ادویات کی بدولت گزشتہ ایک صدی کے عرصہ میں انسانی کی اوسط عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہر سال یہ ادویات لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان ادویات کے خلاف مزاحمت اس وقت جنم لیتی ہے جب یہ بیکٹیریا، وائرس، فنگی اور طفیلی جرثوموں پر اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔ اس طرح مریضوں کو ان ادویات کا فائدہ نہیں ہوتا اور انفیکشن کا علاج مشکل یا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں بیماری کے پھیلاؤ، اس کی شدت میں اضافے، جسمانی معذوری اور موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں معمولی چوٹ، معمول کی سرجری یا عام انفیکشن بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں یا کمزور قوت مدافعت والے افراد میں ناقابل علاج انفیکشن ان کی زندگی کو لاحق دوسرا بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔ کئی عواملAntimicrobial Resistance کا سبب بن سکتے ہیں، اینٹی بائیوٹکس ادویات کا حد سے زیادہ استعمال ان میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کا بغیر ضرورت کے استعمال، ڈاکٹروں کی جانب سے بھاری مقدار میں یہ ادویات تجویز کرنا یا انہیں حسب ضرورت استعمال کیے بغیر چھوڑ دینا اینٹی بیکٹیریل رزسٹنس کا سبب بنتا ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جیسا کہ مویشیوں کی افزائش اور انہیں بیماریوں سے بچانے کیلئے اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے سے ان دواؤں کے خلاف مزاحم جراثیم انسانوں میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں آبادیوں اور طبی مراکز میں صحت و صفائی کے ناقص انتظام سے بھی ادویات کے خلاف مزاحم جراثیم کی طاقت میں اضافہ ہوتاہے۔
بڑے پیمانے پر لوگوں اور اشیا کی نقل و حرکت کے باعث ادویات کے خلاف مزاحم جراثیم باآسانی سرحد پار پہنچ جاتے ہیں۔ سیلف میڈیکیشن بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کے بعد اینٹی بائیوٹکس کا صحیح استعمال نہ کرنا۔عام مشاہدے کی بات ہے کہ ڈاکٹر نے کسی مریض کو ایک ہفتے کیلئے کوئی دوا تجویز کی مگرمریض نے تین دن کھانے کے بعد چھوڑ دی یا ایک کھائی اورایک دو دن ناغہ کر کے پھر شروع کر لی یا دن میں دو بار کھانے کی بجائے ایک بار کھائی۔
معیاری ادویات کی عدم دستیابی، مثال کے طور پر اینٹی بائیوٹک دوا میں فعال جزو (Active ingredient) کی مقدار کم ہے تو وہ دوا بھی اے ایم آر کا سبب بن سکتی ہے۔ ہمارے ہسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول سسٹم کا نہ ہونا،صاف پانی کی عدم دستیابی، لائیو سٹاک اور ایگریکلچر میں اینٹی مائیکروبیلز کا بے جا استعمال، حفظان صحت کی کمی، ناقص صفائی اورصاف پانی کی عدم دستیابی بھی اس مسئلے کا سبب بن سکتی ہے۔
اے ایم آر میں اضافے سے انفرادی و اجتماعی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے نظام ہائے خوراک، ترقی اور سلامتی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق اس طبی مسئلے سے 2030ء تک دنیا کو 3.4 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔صحت سے وابستہ عالمی تحقیقی اداروں کے مطابق ہر سال تقریباً سات لاکھ افراد''اے ایم آر‘‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو 2050ء تک یہ تعداد ایک کروڑ سالانہ تک جا پہنچے گی اور 2050ء تک تقریباً تین کروڑ افراد اس سے غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔''اے ایم آر‘‘ 100 فیصد قابل انسداد ہے۔ 2015ء میں اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے عالمگیر اقدام کی منظوری دی گئی تھی اور اس ضمن میں عوامی سطح پر آگاہی کو بڑھایا گیا، جراثیم کش ادویات کے استعمال کو ذمہ دارانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس مسئلے پر مزید تحقیق بھی جاری ہے۔دنیا بھر میں تمام لوگوں کی طبی خدمات تک رسائی ممکن بنا کرجراثیم کش ادویات کی طلب میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں انفیکشن کی روک تھام اور اس پر قابو پانا، حفاظتی ٹیکے لگانا اور پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کے منصوبوں کو بڑھانا ضروری ہو گا۔