برنارڈبارچ بہرے پن نے جس کی زندگی بدل دی
گزشتہ صدی کے اختتام کا ذکر ہے کہ نیویارک کے سٹی کالج کے میدان میں لڑکے بیس بال کھیل رہے تھے۔ اچانک ان میں لڑائی ہو گئی۔ ایک لڑکے نے بیس بال کا بلا دوسرے لڑکے کے سر پر دے مارا۔ جس لڑکے کے سر پر بلا لگا وہ برنارڈ بارچ تھا۔ بلا لگتے ہی وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے بائیں کان کا پردہ پھٹ چکا ہے اور وہ بہرہ ہو چکا ہے۔
اس بہرے کان نے برنارڈ بارچ کی ساری زندگی بدل دی۔ اس نے ویسٹ پوائنٹ میں بھرتی ہونے اور باقاعدہ فوج میں فائٹر بننے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ وہ اس سلسلے میں امتحان بھی پاس کر چکا تھا۔ لیکن بہرہ ہو جانے کے باعث اسے ویسٹ پوائنٹ میں نہ لیا گیا۔ بہرے کان نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ فوج میں جانے کا خیال ترک کرکے کوئی کاروبار کرے۔ بعد میں اس نے کاروبار میں بے حد دولت کمائی اور اپنے لئے کاروباری حلقے میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ صدر ووڈروولسن اس کی تجارتی ذہانت سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اسے ایک بڑی تجارتی ذمہ داری سونپ دی جو اس سے پہلے امریکی تاریخ میں کسی شخص کو نہ سونپی گئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں امریکہ کی ساری صنعت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے زمانے میں کسی صنعت کو چلانے یابند کرنے کا پورا اختیار اسے حاصل تھا۔ کوئی بھی تاجر یا کار خانہ دار اس کی رضامندی کے بغیر کسی دوسرے دھات یا چیز کا ایک پونڈ بھی حاصل نہ کر سکتا تھا۔
جب ووڈوروولسن 1919ء میں معاہدہ امن پر دستخط کرنے کیلئے یورپ گیا تو وہ برنارڈ بارچ کو اقتصادی مشیر کی حیثیت سے اپنے ساتھ لے گیا۔ برنارڈ بارچ نے مابعد جنگ کے ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلے کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے حل کیا۔ یعنی امریکی قوم کو کسی قسم کی بے روزگاری اور مالی بحران کا شکار کئے بغیر اسے جنگی صنعت سے نکال کر دوبارہ زمانۂ امن کی صنعت میں داخل کرنے کا مسئلہ۔
برنارڈ بارچ کی زندگی پر بیس بال کے بلّے کی ایک چوٹ ہی اثر انداز نہیں ہوئی بلکہ ایک نجومی کے پاس اس کا ایک دفعہ کا جانا بھی اس کی زندگی کو بدلنے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی والدہ اسے ایک دفعہ ایک ایسے نجومی کے پاس لے گئی جس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے سر کی نبض پرہاتھ رکھ کر بتا سکتا ہے کہ وہ آئندہ زندگی میں کیا کام کرے گا۔ اس نے برنارڈ کے سر کی نبض دیکھ کر بتایا کہ اسے تاجر بننا چاہئے لیکن برنارڈ بارچ اپنے والد کی طرح ایک سرجن بننا چاہتا تھا۔ اپنے والد کی طرح اس کے اندر بھی طب کا ولولہ موجود تھا اور وہ ایک برس تک علم طب کا مطالعہ بھی کرتا رہا۔ اس کی والدہ اسے کہا کرتی کہ نجومی کے مشورے کے مطابق اسے کاروبار کے متعلق علم حاصل کرنا چاہئے ۔اپنی والدہ کو خوش کرنے کی غرض سے وہ شیشے کا سامان بنانے والی ایک فیکٹری میں پندرہ شلنگ ہفتہ وار تنخواہ پر ملازم ہو گیا اور رات کے وقت قانون پڑھنے لگا۔ اس پر اس کی والدہ کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں وہ وکیل نہ بن جائے۔ نجومی کی نصیحت کو ذہن پر رکھتے ہوئے وہ اکثر اپنے بیٹے سے کہتی رہتی، بارنی! ایسا کام کرو جس میں ڈھیروں روپیہ ہو۔ آخر ایک دن اس نے والدہ کا کہا مان لیا۔
وہ وال سٹریٹ(امریکہ کی سٹاک مارکیٹ) گیا اور وہاں سٹہ کھیلا۔ یہ کھیلنے والوں کی ننانوے فیصد تعداد تباہ ہو گئی لیکن برنارڈ بارچ نے لاکھوں پونڈ کمائے۔ یہ ایک حیرت ناک ریکارڈ ہے۔اس سلسلے میں دو باتیں قابل ذکر ہیں اوّل اس نے تھوڑے عرصہ میں بڑے بڑے تاجروں کو اپنا دوست بنا لیا تھا وہ اس کی دلکش شخصیت، ایمانداری، سدا بہار مسکراہٹ اور چابک دستی سے بڑے متاثر ہوتے تھے۔ بڑے بڑے تاجر اسے اپنے ساتھ کھلاتے اور اسے کاروبار کے گر بتاتے، تھوڑے ہی عرصے میں وہ ترقی کرنے لگا۔ ابھی وہ ستائیس برس کا تھا کہ ٹامس فارچون ریار نے لیگٹ اینڈ میٹر تمباکو خریدنے کیلئے برنارڈ بارچ کو دو لاکھ چالیس ہزار پونڈ دے دیئے۔
وال سٹریٹ میں برنارڈ بارچ کی کامیابی کا دوسرا اہم راز یہ تھا کہ وہ ہمیشہ حقائق کی تلاش میں رہتا تھا۔ بارچ ہر کام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرتا اور اس کے بارے میں ضروری حقائق پہلے ہی سے معلوم کر لیتا۔ کسی کام کا عملی جائزہ لئے بغیر وہ اس میں ہرگز ہاتھ نہ ڈالتا۔
برنارڈ بارچ نے ایک دفعہ وال سٹریٹ میں اتفاقیہ طور پر بے حد روپیہ کمایا۔ واقعہ یوں ہے کہ کئی ماہ کی تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ تانبے کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے، اس کی قیمت گر جائے گی اور تانبے پر آٹھ فیصد نفع کم ہو جائے گا لہٰذا اس نے تانبے کے ہزاروں شیئر فروخت کر دیئے۔ نفع کم ہو گیا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر سٹاک دس درجے کم ہو گیا۔ دوسرے دن صورت حالات پر غور کرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ تانبے کے سٹاک کے بغیر ہی رہنا بہتر ہوگا۔ ایک سال کے اندر اندر تانبے کا سٹاک ایک سو درجے گر گیا اور اس کیلئے وہی سودا نفع بخش بن گیا۔
اسے روپیہ کمانے اور روپیہ تقسیم کرنے دونوں باتوں سے محبت تھی۔ چند برس ہوئے اس نے امریکہ کی فوج کو بارود بنانے کیلئے مشینری خریدنے کی خاطر چھ لاکھ پونڈ دیئے۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے آثار بھانپ گیا تھا اور امریکی فوج کی لاپرواہی نے اسے چوکنا کردیا تھا۔
گزشتہ جنگ کے دوران میں اس نے اپنی جیب سے سترہ ہزار پونڈدے کر ماہرین کے ایک گروہ کو کچھ ایسے حقائق جن کی امریکی حکومت کو ضرورت تھی معلوم کرنے کیلئے بھیجا۔ یہ خرچ حکومت کو ادا کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ جنگی صنعت کے بارے میں خرچ ہونا تھا لیکن برنارڈ بارچ وہ خرچ خود برداشت کرنے پر مصر رہا۔
1918ء میں جب واشنگٹن میں فلو کی خطر ناک وبا پھیلی تو برنارڈ بارچ نے غریبوں کو اس وباء سے بچانے کیلئے اپنی جیب سے ایک ہسپتال بنوایا۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جب امریکہ میں جنگی سامان بننا بند ہو گیا تو اس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے۔ برنارڈ بارچ نے ان لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کیلئے دس ہزار پونڈ بطور کرایہ دیا۔برنارڈ بارچ کو اپنے والد سے ایک نصیحت ورثے میں ملی تھی۔ یہ نعمت اس کی زندگی میں چراغ راہ رہی ہے۔ اس کے والد نے وہ نصیحت اپنی ایک تصویر کے نیچے لکھ کر اسے دی تھی۔ وہ تصویر برنارڈ بارچ کے کمرے میں اس طرح آویزاں ہے کہ آتے جاتے اس پر نظر پڑتی رہے، وہ نصیحت یہ ہے:
''ہمیشہ ایک غیر متزلزل استقلال
کو اپنا رہنما بنائو‘‘