آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


اقوام متحدہ کے قیام کا اعلان
9اکتوبر 1944ء کو برطانیہ، چین، امریکہ اور سویت یونین نے اقوام متحدہ کے قیام کا اعلان کیا۔ جس کے بعد 24 اکتوبر کو معرض وجود میں آیا۔ ہر امن پسند ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہو وہ اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا ہے۔ شروع شروع میں اس کے صرف 51 ممبر تھے جبکہ اب اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193 ہے۔ سیکورٹی کونسل یا سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی اراکین کو معطل یا خارج کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے خارج کیا جا سکتا ہے۔

ملکہ الزبتھ دوم کا دورہ پاکستان
1997ء میں آج کے روز ملکہ الزبتھ دوم پاکستان کے چھ روزہ دورے پر آئیں۔ یہ 1961ء کے بعد ان کا دوسرا دورہ پاکستان تھا۔ ایوان صدر میں ان کا استقبال صدر فاروق لغاری نے کیا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والی ملکہ نے اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف اور اپوزیشن لیڈر بینظیربھٹو سے بھی ملاقات کی۔ ملکہ نے اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد کا دورہ بھی کیا۔انہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز ''نشان پاکستان‘‘ سے نوازا گیا۔ستر سال تخت برطانیہ سنبھالنے والی ملکہ الزبتھ 96 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
ناسا کا روبوٹک چاند مشن
2009ء میں آج کے دن ناسا کی طرف سے بھیجا گیا روبوٹک مشن چاند پر اترا۔ نیل آرمسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم 20 جولائی 1969ء کو رکھا تھا اور یہ مشن اس کی 40 ویں سالگرہ سے 32 دن پہلے یعنی 17جون 2009ء کو روانہ کیا گیا تھا۔ کئی مہینوں کی مسافت طے کرنے کے بعد روبوٹک چاند گاڑی چاند کی سطح پر اتری۔
ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ
9اکتوبر 2012ء میں وادی سوات کے مرکزی شہر منگورہ میں 14 سالہ ملالہ یوسف کو گھر سے سکول کے درمیانی راستے میں مبینہ طور پر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حملے میں ملالہ کے سر میں گولی لگی تھی۔طالبان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ملالہ یوسف کو طالبان مخالف سوچ رکھنے پر حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ڈاکٹر ذاکر نائیک تقابل ادیان کے ماہر عظیم اسلامی سکالر

ڈاکٹر ذاکر نائیک تقابل ادیان کے ماہر عظیم اسلامی سکالر

ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مبلغ ، اسلامی سکالر تو ہیں ہی لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ادیان کے تقابلی جائزے کے ماہر کی حیثیت سے بھی مسلمہ مانی جاتی ہے۔ بنیادی طور پران کے خاندان کے بیشتر افراد ایلوپیتھی ڈاکٹر ہیں۔ ذاکر نائیک 1965ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1991ء تک شعبہ طب سے وابستہ رہے۔ ٹرننگ پوائنٹ: طب سے تبلیغ تک بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ذاکر نائیک کی زندگی میں مذہبی تبدیلی کے سفر کا ''ٹرننگ پوائنٹ‘‘ 1991ء میں پاکستان کے دورے کے بعد آیا۔ وہ روحانی طور پر پاکستانی مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد سے حد درجہ متاثر تھے اور اکثر کہا کرتے تھے ''ڈاکٹر اسرار احمد اردو بولنے والے مذہبی داعیوں میں سب سے اعلیٰ مقام پر ہیں‘‘۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی کی جدو جہد کو سمجھنے کیلئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر اپنی زندگی پر مبنی وڈیوز کی ایک سیریز ''ذاکر نائیک بائیو گرافی:میری زندگی میری کہانی‘‘ کے نام سے بنا رکھی ہے۔ ایسی ہی ایک وڈیو میں وہ کہتے ہیں، ''1991ء میں، میں جب پاکستان گیا تو وہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو ملنے گیا تو دوران گفتگو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میرا ایم بی بی ایس ختم ہو گیا ہے، اب میں میڈیکل پریکٹس کے ساتھ دعوت اسلامی پر بھی کام کروں گا‘‘۔ بقول ذاکر نائیک ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے کہا، آپ کو میڈیکل اور داعی بننے میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کرنا ہو گا کیونکہ اس طرح آپ بیک وقت دونوں شعبوں کے ساتھ صحیح انصاف نہیں کر سکیں گے۔ ڈاکٹر اسرار خود بھی میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ بقول ذاکر نائیک، انڈیا واپسی پر میں سارا راستہ اپنے مستقبل بارے سوچتا آیا، گھر پہنچ کر والد صاحب سے مشورہ کیا کہ میں دو گھنٹے دعوت اسلامی کیلئے وقف کرنا چاہتا ہوں،باقی وقت میں میڈیکل پریکٹس کروں گا، والد صاحب نے بخوشی اجازت دے دی۔ اگلے ہی روز میں نے والد صاحب سے پانچ ہزار روپے لے کر ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے کر وہاں سے ''اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد میں نے والد صاحب کو کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اب نصف یوم میڈیکل کو اور باقی وقت دعوت اسلامی کو دینا چاہیے، جس پر والد صاحب نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اب رفتہ رفتہ مجھے ڈاکٹر اسرار احمد کی بات یاد آنے لگی کہ ایک وقت میں ایک کام کے ساتھ ہی انصاف کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جب میں نے والد صاحب کو اپنا مکمل وقت دعوت اسلامی کو دینے کے ارادے سے مطلع کیا تو انہوں نے مجھے بخوشی اس کی اجازت دے دی ‘‘۔تعلیمات اور اعزازاتذاکر نائیک کہتے ہیں وہ دعوت اسلامی کی تبلیغ کیلئے عظیم اسلامی مبلغ و محقق احمد دیدات سے بہت متاثر ہیں۔ جن سے ان کی پہلی ملاقات 1987ء میں ہوئی تھی۔ 2006ء میں احمد دیدات نے ''دیدات پلس‘‘ کے لقب سے نوازا۔ ذاکر نائیک اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ بارے کہتے ہیں، یکم اپریل 2000ء کو ان کا معروف امریکی مسیحی سکالر ولیم کیمبل کے ساتھ کئی گھنٹے طویل مناظرہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ جس کا عنوان ''قرآن اور بائبل سائنس کی روشنی میں‘‘ تھا۔ یہ مناظرہ براہ راست ایک امریکی ٹیلی وژن پر دکھایا گیا، جس کے اختتام پر دنیا بھر سے فوری طور پر 34 ہزار لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس مناظرے کے بعد انہیں عالمی طور پر تقابل ادیان کا ماہر سمجھا جانے لگا اور دنیا بھر کی حکومتوں اور تنظیموں نے انہیں اپنے اپنے ملکوں میں خطاب کی دعوت دینا شروع کر دی۔یہی وہ دور تھا جب بھارتی انتہا پسند ہندوئوں نے انہیں نشانے پر لینا شروع کردیا کیونکہ بڑی تیزی سے ہندو مشرف با اسلام ہونا شروع ہو چکے تھے۔21 جنوری 2006ء بھارت کے سب سے بڑے ہندی عالم روی شنکر کے ساتھ ان کا مناظرہ ''اسلام میں تصورء خدا اور ہندو مذہب‘‘ کے عنوان سے ہوا، جسے انہوں نے تھوڑی ہی دیر میں خاموش کرا دیا۔اس مناظرے کے بعد متعدد ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔2007ء میں انہوں نے بمبئی میں 10 روزہ ''امن کانفرنس‘‘کا اہتمام کیا جس کے اختتام پر انگنت ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔جس نے انتہا پسند ہندو سماج کو ہلا کر رکھ دیا۔ہندو ذہنیت نے ذاکر نائیک کے اجتماعات پر پابندی لگوائی تو انہوں نے دعوت اسلامی کیلئے ''پیس‘‘ ٹی وی چینل کا آغاز کیا اور اپنے خطابات کو پیس ٹی وی،انٹرنیٹ ، تحریروں اور غیر ملکی دوروں کے ذریعے جاری رکھا۔2011ء سے 2014ء تک امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے انہیں دنیا کی 500 بااثر ترین شخصیات میں مسلسل شامل رکھا۔ 2013ء کو متحدہ عرب امارات کی حکومت نے انہیں ''بین الاقوامی قرآن ایوارڈ‘‘ اور ساڑھے سات لاکھ درہم انعام سے نوازا۔ اسی سال ملائشیا کے بادشاہ نے بھی انہیں ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا۔ 2014ء کو شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے انہیں ''شارجہ ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔ 2014ء میںگیمبیا کی حکومت نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ اس سے پہلے دعوت دین کی خدمات کے صلے میں مصر یونیورسٹی بھی انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نواز چکی تھی۔ 25 مارچ 2015ء سعودی فرماں روا شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے انہیں مسلم دنیا کا سب سے بڑا تمغہ ''شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ بمع ساڑھے سات لاکھ ریا ل سے نوازا۔ ہجرت کے اسباب انتہا پسندہندوئوں نے ان پر منی لانڈرنگ سے لے کر نوجوانوں کو ''شدت پسندی‘‘ پر اکسانا جیسے الزامات عائد کرکے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرا دیئے۔ ان حالات کے پیش نظر 2016ء میں ذاکر نائیک کو 20 ممالک نے اپنے ہاں رہائش کی دعوت دی لیکن ذاکر نائیک نے اسلام پسندی اور ملائشیا کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر ملائشیا میں منتقل ہونے کو ترجیح دی۔ بھارت نے متعدد بار انٹرپول کے ذریعے ذاکر نائیک کی حوالگی کی درخواستیں بھی دی ہیں لیکن انٹرپول ہر مرتبہ ان ثبوتوں کو بے بنیاد قرار دے کر ان درخواستوں کو مسترد کر دیتا ہے۔   

9اکتوبر عالمی یوم ڈاک

9اکتوبر عالمی یوم ڈاک

ہم ہر سال کچھ مقرر تاریخوں پر یوم استاد، ماں کا دن، لیبر ڈے، ارتھ ڈے، یوم امن اور یوم آزادی وغیرہ کے نام سے مختلف دن مناتے ہیں تاکہ اس دن کی مناسبت سے اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ بالکل اسی طرح 9اکتوبر کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیورسل پوسٹل یونین کے زیر اہتمام ممبر ممالک میں ''ورلڈ پوسٹ ڈے یعنی عالمی یوم ڈاک منایا جاتا ہے تاکہ عوام کے اندر ڈاک کے نظام اور اس کی خدمات کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کی جا سکے۔یوں تو پیغام رسانی اور ڈاک کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان، وقت کا پہیہ جوں جوں آگے کی طرف حرکت کرتا گیا توں توں پیغام رسانی کے ذرائع بھی ترقی کرتے گئے۔ تاریخ کے ہر دور میں اور دنیا کے ہر طرف کسی نہ کسی شکل میں ڈاک کا تصور موجود تھا۔ آج سے سات ہزارسال پہلے فرعون مصر میں ڈاک کا حوالہ ملتا ہے۔ حضور ﷺ کے زمانے سے مسلمان مختلف فوجی مہمات کے دوران پیغام رسانی کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ تھے۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ کے مراسلے جو اس وقت آس پاس کے غیر مسلم حکمرانوں کو بھیجے گئے تھے بھی نظام ڈاک کا ابتدائی نقشہ پیش کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے نظام ڈاک کو سائنسی خطوط پر منظم کیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے خاص خاص فاصلوں پر چوکیاں بنائی تھیں، جہاں گزشتہ چوکی کا ہرکارہ ڈاک لے کر پہنچتاتو اگلا ہرکارہ تازہ دم گھوڑالیے تیار ہوتا، اسی طرح یہ سلسلہ قائم رہتا اور بنا کسی تاخیر کے ڈاک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا۔بدلتے وقت نے اس میں تبدیلیاں کیں اور موجودہ ڈاک کا نظام قائم ہوا ۔ اسی طرح اموی خلفاء اور عباسی خلفاء نے بھی اپنے اپنے ادوار میں نظام ڈاک پر خصوصی توجہ دی۔برصغیر پاک و ہند کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ علائو الدین خلجی اور شیر شاہ سوری نے ڈاک کی بہتری کیلئے کئی دور رس اصلاحات اور اقدامات کئے۔ مغل بادشاہ بھی ڈاک کی اہمیت سے بے خبر نہ تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے برصغیر میں اپنا تسلط مستحکم کیا تو نظام ڈاک کو برطانوی نظام کے مطابق جدید اور سائنسی خطوط پر استوار کیا گیا۔آج ورلڈ پوسٹ ڈے ہے، 1874ء میں آج ہی کے دن یونیورسل پوسٹل یونین بنائے جانے کیلئے 22 ممالک نے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔ برسوں بعد 1969ء میں جاپان کے ٹوکیو میں ایک تقریب میں آج ہی کے دن کو ورلڈ پوسٹ ڈے (عالمی یوم ڈاک) کے طور پر منانے کا فیصلہ لیا گیا۔ اس کا مقصد تھا کہ شہریوں کو ڈاک سروس سے جوڑا جائے اور ان میں اس کے تئیں بیداری لائی جائے۔2024ء کا تھیم ''ملک بھر میں مواصلات اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے 150 سال‘‘ہے۔پوسٹ آفس صرف پرانی عمارتوں اور لال ڈبوں والے نہیں، کئی پوسٹ آفس اپنے انوکھے پن کے سبب ٹورسٹ اسپاٹ بھی بن چکے ہیں۔ جیسے ویتنام میں دنیا کا سب سے خوبصورت پوسٹ آفس ہے، جسے دیکھنے کیلئے دور دور سے سیاح آتے ہیں۔ اسے سائیگان سینٹرل پوسٹ آفس کہتے ہیں۔ ویتنام کے ہوچی منہی شہر میں اس ڈاک گھرکو 1886ء میں فرینچ آرکیٹیکٹ گستاؤ ایفل نے بنایا تھا۔ یہ فرانسیسی واستود وہی ہیں، جنہوں نے اسٹیچو آف لبرٹی اور آئیفل ٹاور کا ڈیزائن تیارکیا تھا۔ اس پوسٹ آفس کو بنانے میں تین سال لگے۔ یوروپین ریلوے اسٹیشن کی طرز پر اسے بنایا گیا ہے۔ یہاں دیواروں پرنقاشی ہے اوربہت ہی بڑے بڑے جھروکے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ ٹیلیفون بھی لگے ہوئے ہیں تاکہ سیاح اطمینان سے اپنے دوستوں اورگھر والوں کو فون کر سکیں۔دنیا کی سب سے ٹھنڈی جگہ انٹارکٹکا کا بھی ایک پوسٹ آفس ہے، جسے ''پورٹ لاکری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا ایک حصہ میوزیم کی طرح بھی کام کرتا ہے۔ یہاں سے دنیا کے کسی بھی حصے میں ایک خط پہنچانے کی قیمت ہے ایک ڈالر اور اسے پہنچنے میں دو ہفتے سے لے کرایک سال تک کا بھی وقت لگ سکتا ہے۔ یہ اس پر منحصرکرتا ہے کہ آپ نے کس موسم میں خط پوسٹ کیا ہے۔اسی طرح بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں ایک تیرنے والا یعنی ''فلوٹنگ پوسٹ آفس‘‘ ہے، جو کہ ایک ہاؤس بوٹ میں بنا ہوا ہے۔ یہ کشمیر کی ڈل جھیل میں واقع ہے اور یہاں پر کسی بھی دوسرے پوسٹ آفس کی طرح ہی کام ہوتا ہے۔ 2014ء کے سیلاب میں پوسٹ آفس بہنے لگا تھا، جب فوجیوںنے اسے باندھ کر رکھا۔ معمولات زندگی ٹھیک ہونے کے بعد تیرنے والا پوسٹ آفس دوبارہ کام کرنے لگا۔جدید دور میں ٹیلی فون، موبائل اور کمپیوٹر نے رابطوں میں آسانی پیدا کردی تاہم پوسٹل سروس کی اہمیت آج بھی زندہ ہے، پاکستان پوسٹ نے کوریئر سروسز، سیم ڈے ڈیلیوری اور انٹرنیشنل کوریئر کی نئی سہولیات بھی متعارف کرادی ہیں۔  

8اکتوبر2005پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ!

8اکتوبر2005پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ!

آج سے 19 سال قبل 8 اکتوبر2005 ء کو آنے والے زلزلے نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالاکوٹ اور آزاد کشمیر کے چار اضلاع نیلم، مظفر آباد، باغ اور پونچھ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ ماہ مقدس رمضان کے مبارک دن تھے اور صبح سویرے کا وقت تھا۔وہاں کے باسی اپنے اپنے روزمرہ کاموں کا آغاز کر چکے تھے کہ ایسے میں اچانک زمین شدت سے لرزنے لگی، عمارتیں زمین بوس ہونے لگیں۔چند لمحوں میں ہی وہاں قیامت گزر گئی۔اسلام آباد جیسے شہر میں مارگلہ ٹاورز، دکانات، سرکاری عمارات اور سیکڑوں گھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اس قیامت خیز زلزلے کی نذر ہوگیا۔ بالاکوٹ مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔ دیہات میں کوئی مکان نہیں بچ پایا۔کسی کا کوئی اثاثہ محفوظ نہیں رہا۔ اس زلزلہ میں آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کی 15 سے زائد تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ایک محتاظ اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب لوگ اس خوفناک زلزلے کی نذر ہوگئے تھے۔اس زلزلہ نے جو تباہی پھیلائی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ چھ ماہ سے زائد کے عرصہ میں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی عمارتوں کے نیچے دبی لاشیں نکالنے میں لگے۔ اس دن درجنوں مقامات پر تو پوری پوری آبادیاں اورگائوںلقمہ اجل بن گئے۔ ہزاروں لوگوں کو کفن اور قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔ یہ اتنی خوفناک قدرتی آفت تھی کہ اس سے بچ جانے والے لوگ آج بھی سکتے کے عالم میں ہیں۔اس سانحہ کے زخم انیس برس گزرنے کے بعد آج بھی تازہ ہیں۔ہزاروں ایسے بدقسمت افراد اب بھی زندہ ہیں،جو اس زلزلے میں معذور ہو گئے تھے وہ آج بھی سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں ۔زلزلہ کے دوران سب سے پہلے ایک فلاحی جماعت کی طرف سے ریسکیو و ریلیف آپریشن شروع کیا گیا۔زلزلہ کے چند منٹ بعد ہی ریسکیو آپریشن شروع کرنے پر اس ادارے کی امدادی سرگرمیوں کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ان کے رضاکار خچروں اور ربڑ بوٹس کے ذریعہ دریائے نیلم عبور کر کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں پہنچ کر متاثرین کو خوراک اور دیگر امدادی اشیاء پہنچاتے رہے ۔دوسری جماعت جس نے سب سے زیادہ زلزلہ متاثرین کی مدد کی وہ جماعت اسلامی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی نام نہاد سیاسی جماعتوں نے سوائے بیانات دینے کے متاثرین کی کوئی خاص مدد نہیں کی تھی۔ اس سے ان کی عوام سے کتنی ہمدردی ہے صاف ظاہر ہوتی ہے۔ قیامت خیز زلزلے کو19 سال گزر گئے لیکن حکومتی وعدوں اور دعوئوں کے باوجود نیو بالا کوٹ سٹی ابھی تک نہ بن سکا، سڑکوں سکولوں اور دیگر سہولیات حتیٰ کے تمام سرکاری اداروں کے دفاتر اور عدالتیں بھی شلٹرز میں چل رہی ہیں۔ نہ اولڈ سٹی بن سکا اورنہ ہی نیو سٹی ۔ حکومتوں کی بے حسی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت سارے منصوبے تاخیر کا شکارر ہے ۔یہ ہی حال دیگر تمام زلزلہ سے متاثرہ مقامات کا بھی ہے ۔قیامت خیززلزلہ کے بعد پاکستان کی عوام کے علاوہ دنیا بھر سے اربوں ڈالرز کی امداد پاکستان کو ملی تھی۔سوال یہ ہے کہ اتنی امداد ملنے کے باوجود (حالانکہ امداد نہ بھی ملتی تو بھی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ متاثرین کی بحالی کیلئے مدد کرتی) اربوں ڈالرز کی وہ امداد کہاں گئی؟ بے شمار ملکی اور غیرملکی رضاکار ادارے اور کارکن بھی دن رات زلزلہ متاثرین کی مدد میں مصروف رہے تھے، سوال یہ ہے کہ کیااس سب کے باوجود زلزلہ متاثرین اورزلزلہ زدہ علاقوں کی صورتحال کیوں نہ بدلی۔ انہیں کیوں نہیں ریلیف ملا؟اس وقت کی حکومت کے بعد نئی آنے والی حکومتوں نے ان زلزلہ متاثرین کی بحالی کے منصوبوں کو جاری کیوں نہیں رکھا؟۔ مثلاًحکومت نے زلزلے کے فوری بعدبالا کوٹ میں دوبارہ پختہ تعمیر پر پابندی عائد کر دی تھی اور اعلان کیا تھاکہ موجودہ شہر سے23کلومیٹر دور ''بکریال‘‘ کے مقام پر ''نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ تعمیر کیا جائے گا اورمتاثرین کو وہاں بسایا جائے گا۔ اس نئے شہر کااس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے افتتاح بھی کیا ،کام بھی شروع ہوا لیکن 19 سال گزرے ''نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ کیا تعمیر ہوتا؟ اس کی طرف جانے والی سڑک بھی نہ بن سکی اوراب یہ منصوبہ مکمل طور بند ہی ہوچکا ہے ۔اس منصوبے پر اب تک 4 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت بدل جانے سے کیا ایسے عوامی،فلاحی منصوبوں کو ترک کر دینا چاہیے ۔کیونکہ بہت سارے وعدے پرویز مشرف مرحوم نے بھی کیے تھے اس کے بعد ان کی حکومت نہیں رہی انہوں نے جو وعدے عوام سے کیے تھے یا منصوبے شروع کیے تھے وہ آنے والی حکومت نے بند کر دیئے ،کسی حد تک یہ ہی حال گزشتہ اور موجودہ حکومت کا بھی ہے۔ ایسی سوچ کو ،ایسی پالیسی کو ،عوام دشمنی کے علاوہ کیا نام دیا جائے۔اْس وقت کی حکومت نے عوام سے آبادکاری کے جو وعدے کیے موجودہ اور اس سے قبل کی حکومت ان کو پوراکرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے ۔ان کو عوام سے غرض نہیں اپنے نام سے غرض ہے۔ مظفرآباد زلزلے میں سب سے زیادہ تباہ ہونے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔سنا ہے اس شہر میں ترکی نے ایک عالیشان مسجد ،سعودی عرب نے یونیورسٹی اور ہسپتال،متحدہ عرب امارات نے ہسپتال اس کے علاوہ سکول وکالج بھی یہ ہی ممالک بنا رہے ہیں ۔عوام الناس کی جانب سے دی ہوئی امداد بھی انہی جماعتوں نے زلزلہ متاثرین تک پہنچائی ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں کیا کیا ہے؟سیاسی جماعتوں نے کیا کیا ہے؟ اربوں ڈالرز کی ملنے والی امداد کو ہڑپ کرنے کے علاوہ ،بیانات دینے کے علاوہ حکومت کو چاہیے تھاعوام کو رہائش،روزگار ہی فراہم کرنے میں مدد کرتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ابھی تک یعنی 19 سال گزر جانے کے بعد بھی سیکڑوں زلزلہ متاثرین عارضی گھروں میں رہائش رکھے ہوئے کسی غیبی امداد کے منتظر ہیں! 

برنارڈبارچ بہرے پن نے جس کی زندگی بدل دی

برنارڈبارچ بہرے پن نے جس کی زندگی بدل دی

گزشتہ صدی کے اختتام کا ذکر ہے کہ نیویارک کے سٹی کالج کے میدان میں لڑکے بیس بال کھیل رہے تھے۔ اچانک ان میں لڑائی ہو گئی۔ ایک لڑکے نے بیس بال کا بلا دوسرے لڑکے کے سر پر دے مارا۔ جس لڑکے کے سر پر بلا لگا وہ برنارڈ بارچ تھا۔ بلا لگتے ہی وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے بائیں کان کا پردہ پھٹ چکا ہے اور وہ بہرہ ہو چکا ہے۔اس بہرے کان نے برنارڈ بارچ کی ساری زندگی بدل دی۔ اس نے ویسٹ پوائنٹ میں بھرتی ہونے اور باقاعدہ فوج میں فائٹر بننے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ وہ اس سلسلے میں امتحان بھی پاس کر چکا تھا۔ لیکن بہرہ ہو جانے کے باعث اسے ویسٹ پوائنٹ میں نہ لیا گیا۔ بہرے کان نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ فوج میں جانے کا خیال ترک کرکے کوئی کاروبار کرے۔ بعد میں اس نے کاروبار میں بے حد دولت کمائی اور اپنے لئے کاروباری حلقے میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ صدر ووڈروولسن اس کی تجارتی ذہانت سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اسے ایک بڑی تجارتی ذمہ داری سونپ دی جو اس سے پہلے امریکی تاریخ میں کسی شخص کو نہ سونپی گئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں امریکہ کی ساری صنعت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے زمانے میں کسی صنعت کو چلانے یابند کرنے کا پورا اختیار اسے حاصل تھا۔ کوئی بھی تاجر یا کار خانہ دار اس کی رضامندی کے بغیر کسی دوسرے دھات یا چیز کا ایک پونڈ بھی حاصل نہ کر سکتا تھا۔جب ووڈوروولسن 1919ء میں معاہدہ امن پر دستخط کرنے کیلئے یورپ گیا تو وہ برنارڈ بارچ کو اقتصادی مشیر کی حیثیت سے اپنے ساتھ لے گیا۔ برنارڈ بارچ نے مابعد جنگ کے ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلے کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے حل کیا۔ یعنی امریکی قوم کو کسی قسم کی بے روزگاری اور مالی بحران کا شکار کئے بغیر اسے جنگی صنعت سے نکال کر دوبارہ زمانۂ امن کی صنعت میں داخل کرنے کا مسئلہ۔برنارڈ بارچ کی زندگی پر بیس بال کے بلّے کی ایک چوٹ ہی اثر انداز نہیں ہوئی بلکہ ایک نجومی کے پاس اس کا ایک دفعہ کا جانا بھی اس کی زندگی کو بدلنے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی والدہ اسے ایک دفعہ ایک ایسے نجومی کے پاس لے گئی جس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے سر کی نبض پرہاتھ رکھ کر بتا سکتا ہے کہ وہ آئندہ زندگی میں کیا کام کرے گا۔ اس نے برنارڈ کے سر کی نبض دیکھ کر بتایا کہ اسے تاجر بننا چاہئے لیکن برنارڈ بارچ اپنے والد کی طرح ایک سرجن بننا چاہتا تھا۔ اپنے والد کی طرح اس کے اندر بھی طب کا ولولہ موجود تھا اور وہ ایک برس تک علم طب کا مطالعہ بھی کرتا رہا۔ اس کی والدہ اسے کہا کرتی کہ نجومی کے مشورے کے مطابق اسے کاروبار کے متعلق علم حاصل کرنا چاہئے ۔اپنی والدہ کو خوش کرنے کی غرض سے وہ شیشے کا سامان بنانے والی ایک فیکٹری میں پندرہ شلنگ ہفتہ وار تنخواہ پر ملازم ہو گیا اور رات کے وقت قانون پڑھنے لگا۔ اس پر اس کی والدہ کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں وہ وکیل نہ بن جائے۔ نجومی کی نصیحت کو ذہن پر رکھتے ہوئے وہ اکثر اپنے بیٹے سے کہتی رہتی، بارنی! ایسا کام کرو جس میں ڈھیروں روپیہ ہو۔ آخر ایک دن اس نے والدہ کا کہا مان لیا۔وہ وال سٹریٹ(امریکہ کی سٹاک مارکیٹ) گیا اور وہاں سٹہ کھیلا۔ یہ کھیلنے والوں کی ننانوے فیصد تعداد تباہ ہو گئی لیکن برنارڈ بارچ نے لاکھوں پونڈ کمائے۔ یہ ایک حیرت ناک ریکارڈ ہے۔اس سلسلے میں دو باتیں قابل ذکر ہیں اوّل اس نے تھوڑے عرصہ میں بڑے بڑے تاجروں کو اپنا دوست بنا لیا تھا وہ اس کی دلکش شخصیت، ایمانداری، سدا بہار مسکراہٹ اور چابک دستی سے بڑے متاثر ہوتے تھے۔ بڑے بڑے تاجر اسے اپنے ساتھ کھلاتے اور اسے کاروبار کے گر بتاتے، تھوڑے ہی عرصے میں وہ ترقی کرنے لگا۔ ابھی وہ ستائیس برس کا تھا کہ ٹامس فارچون ریار نے لیگٹ اینڈ میٹر تمباکو خریدنے کیلئے برنارڈ بارچ کو دو لاکھ چالیس ہزار پونڈ دے دیئے۔وال سٹریٹ میں برنارڈ بارچ کی کامیابی کا دوسرا اہم راز یہ تھا کہ وہ ہمیشہ حقائق کی تلاش میں رہتا تھا۔ بارچ ہر کام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرتا اور اس کے بارے میں ضروری حقائق پہلے ہی سے معلوم کر لیتا۔ کسی کام کا عملی جائزہ لئے بغیر وہ اس میں ہرگز ہاتھ نہ ڈالتا۔برنارڈ بارچ نے ایک دفعہ وال سٹریٹ میں اتفاقیہ طور پر بے حد روپیہ کمایا۔ واقعہ یوں ہے کہ کئی ماہ کی تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ تانبے کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے، اس کی قیمت گر جائے گی اور تانبے پر آٹھ فیصد نفع کم ہو جائے گا لہٰذا اس نے تانبے کے ہزاروں شیئر فروخت کر دیئے۔ نفع کم ہو گیا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر سٹاک دس درجے کم ہو گیا۔ دوسرے دن صورت حالات پر غور کرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ تانبے کے سٹاک کے بغیر ہی رہنا بہتر ہوگا۔ ایک سال کے اندر اندر تانبے کا سٹاک ایک سو درجے گر گیا اور اس کیلئے وہی سودا نفع بخش بن گیا۔اسے روپیہ کمانے اور روپیہ تقسیم کرنے دونوں باتوں سے محبت تھی۔ چند برس ہوئے اس نے امریکہ کی فوج کو بارود بنانے کیلئے مشینری خریدنے کی خاطر چھ لاکھ پونڈ دیئے۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے آثار بھانپ گیا تھا اور امریکی فوج کی لاپرواہی نے اسے چوکنا کردیا تھا۔گزشتہ جنگ کے دوران میں اس نے اپنی جیب سے سترہ ہزار پونڈدے کر ماہرین کے ایک گروہ کو کچھ ایسے حقائق جن کی امریکی حکومت کو ضرورت تھی معلوم کرنے کیلئے بھیجا۔ یہ خرچ حکومت کو ادا کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ جنگی صنعت کے بارے میں خرچ ہونا تھا لیکن برنارڈ بارچ وہ خرچ خود برداشت کرنے پر مصر رہا۔1918ء میں جب واشنگٹن میں فلو کی خطر ناک وبا پھیلی تو برنارڈ بارچ نے غریبوں کو اس وباء سے بچانے کیلئے اپنی جیب سے ایک ہسپتال بنوایا۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جب امریکہ میں جنگی سامان بننا بند ہو گیا تو اس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے۔ برنارڈ بارچ نے ان لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کیلئے دس ہزار پونڈ بطور کرایہ دیا۔برنارڈ بارچ کو اپنے والد سے ایک نصیحت ورثے میں ملی تھی۔ یہ نعمت اس کی زندگی میں چراغ راہ رہی ہے۔ اس کے والد نے وہ نصیحت اپنی ایک تصویر کے نیچے لکھ کر اسے دی تھی۔ وہ تصویر برنارڈ بارچ کے کمرے میں اس طرح آویزاں ہے کہ آتے جاتے اس پر نظر پڑتی رہے، وہ نصیحت یہ ہے:''ہمیشہ ایک غیر متزلزل استقلالکو اپنا رہنما بنائو‘‘  

آج کا دن

آج کا دن

یوم کپور جنگ: اسرائیل کا ناقابل تلافی نقصان''جنگ یوم کپور‘‘ کے دوران 1973ء میں آج کے روز اسرائیل کو شدید نقصان اٹھانا پرا۔ مصر پر ایک حملے کے دوران اس کے 150 سے زائد ٹینک تباہ ہو گئے۔ اس جنگ کا آغاز 6 اکتوبر کو ہوا تھااور یہ 26 اکتوبر 1973ء تک جاری رہی۔ یہ جنگ مصر و شام کے عرب اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ کا آغاز یہودیوں کے تہوار یوم کپور کے موقع پر ہوا جب مصر اور شام نے جزیرہ نما سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر حملہ کیا۔ جزیرہ نما سینا پر اسرائیل نے 1967ء میں ''جنگ شش روزہ‘‘ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔اس جنگ میں اسرائیل کو 1948ء کے بعد سب سے زیادہ نقصان جھیلنا پڑا۔ مجموعی طور پر اس کے 2,656 فوجی ہلاک ہوئے، 15ہزار زخمی جبکہ تقریباً 1ہزار جنگی قیدی بنائے گئے۔''گرینڈ شکاگو فائر‘‘8اکتوبر 1871ء کو شکاگو میں آگ بڑھک اٹھی۔ تاریخ میں ''گرینڈ شکاگو فائر‘‘ کے نام سے محفوظ اس آتشزدگی میں تقریباً پورا شہر جل گیا۔ آگ 3 دن تک لگی رہی اور اس میں 300 افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے۔ آگ سے شہر کا تقریباً 3.3 مربع میل (9 کلومیٹر ) رقبہ تباہ ہو گیا۔ آگ شہر کے مرکز کے جنوب مغرب میں شروع ہوئی۔اٹلی فضائی حادثہ8 اکتوبر 2001ء کو اٹلی میں ایک افسوسناک فضائی حادثہ پیش آیا، جس میں دونوں طیاروں میں سوار 114 افراد اور زمین پر موجود 4 افراد ہلاک ہو گئے۔ اسکینڈی نیویئن ایئر لائنز سسٹم کی فلائٹ 686، 110 افراد کو کوپن ہیگن، ڈنمارک لے کر جا رہی تھی۔ طیارہ ٹیک آف کرتے ہی ایک ڈبل انجن بزنس جیٹ جو چار افراد کو لے کر فرانس جا رہا تھا سے ٹکرا گیا۔ تحقیق کے بعد شدید دھند کو حادثے کی وجہ قرار دیا گیا۔فرینکلن نیشنل بینک کا دیوالیہ 1974ء میں آج کے روز امریکی فرینکلن نیشنل بینک دیوالیہ ہوا۔ فرینکلن نیشنل بینک فرینکلن اسکوائر پر لانگ آئی لینڈ، نیو یارک میں واقع ہے۔ یہ کبھی ریاستہائے متحدہ کا 20 واں سب سے بڑا بینک تھا۔ 8 اکتوبر 1974ء کو یہ بدانتظامی کی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا۔یہ ریاستہائے متحدہ کی تاریخ میں بینک کی سب سے بڑی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔  

بدوقبائل:دنیا کے قدیم ترین خانہ بدوش

بدوقبائل:دنیا کے قدیم ترین خانہ بدوش

سائنس کی ترقی نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔دنیا جو ایک ''گلوبل ولیج‘‘ کا روپ دھار چکی ہے ، اس کی روایات بدل گئیں ، اس کے اطوار، اس کا کھانا پینا اس کا رہن سہن ، حتی کہ سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اب بھی دنیا کے کونے کھدروں میں چند ایک ایسے قبیلے موجود ہیں ، صدیاں بیتنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے آپ کو ذرہ برابر بھی نہیں بدلا۔ اگرچہ ایسے علاقے آٹے میں شاید نمک سے بھی کم ہوں گے لیکن اردن کے گردونواح میں واقع ''وادیٔ رم‘‘ کے بدو معدودے ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو جوں کے توں رہے۔ وہ آج بھی خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آج کا سعودی عرب صدیوں پہلے خانہ بدوش بدوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا ۔اسلام سے پہلے کے معاشرے میں بدو قبائل کے لوگ کئی گروہوںاورذاتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان سب کے رسم و رواج ، رہن سہن اور طرز حکمرانی جدا جدا تھے۔ تیسری صدی کے بعد ان میں معاشرتی شعور اجاگر ہوا تو تمام بدو گروہوں نے مل کر ایک اتحاد بنا لیا اور یوں یہ ایک قبائلی کنفیڈریشن کی صورت میں منظر عام پر آئے جس نے ان کی طاقت میں اضافہ کردیا۔اس دور میں خطہ عرب جغرافیائی لحاظ سے دو حصوں، حجاز اور نجد پر مشتمل تھا۔مغربی ساحلی علاقہ حجاز کہلاتا تھا جس میں مکہ ، مدینہ اور جدہ جیسے شہر شامل تھے جبکہ دوسرا علاقہ نجد کہلاتا تھا۔جس میں صحرائی اور پہاڑی علاقے شامل تھے، آج کل کا شہر ریاض بھی اسی خطے کا حصہ تھا۔ اس وسیع و عریض علاقے میں صدیوں سے خانہ بدوش اور جنگ پسند بدو قبائل کے لوگ آباد تھے۔اس علاقے کو یہ انفرادیت حاصل تھی کہ یہاں کبھی کسی غیر ملکی طاقت کا راج نہیں رہا بلکہ یہاں بدو قبائل ہی آباد چلے آ رہے تھے جو خود کو آزاد اور خود مختار سمجھتے تھے۔آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کی رحلت تک تقریباً پورا خطہ عرب دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا تھا اور اس وقت تک عرب کے تمام بدوؤں کے گروہ اسلام کے پرچم تلے آچکے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بدوؤں کی شناخت ثانوی حیثیت اختیار کرتی گئی ماسوائے بدوؤں کے ان قبائل کے جنہوں نے اپنی روایات اور اپنے مسکن کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان میں وادیٔ رم سب سے نمایاں ہے، جہاں آج بھی دنیا سے بے نیاز بدو، خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خانہ بدوش بدو کیسے رہتے ہیںوادیٔ رم کے خانہ بدوش بدوؤں کا شاید یہ سب سے قدیم قصبہ ہے جس کا رہن سہن، رسم و رواج ، کھانا پینا بالخصوص مہمان نوازی کا اعلیٰ وصف ذرہ برابر بھی نہیں بدلا۔ وادیٔ رم عرب دنیا میں بدوؤں کا اب سب سے بڑا مرکز ہے۔ ایک بات جو بدوؤں کو دوسری اقوام سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کے نام ہیں ، جس میں ان کے پردادا سے لے کر ان کے باپ اور قبیلے تک کا نام شامل ہوتا ہے ، جسے یاد کرنا یا روانی میں دہرانا آسان نہیں ہوتا۔ وادی رم کی مہمان نوازی دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ صدیوں سے ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے در پر آیا ہر شخص ان کا مہمان ہے ، اسی لئے گھر پر آئے فرد یا افراد کی خاطر مدارت کرنا صدیوں سے ان کی روایات کا حصہ چلا آ رہا ہے ۔یہی حال ان کے لباس کا ہے جو صدیوں سے جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ یہ لوگ آج بھی سر پر ایک مخصوص عمامہ پہنتے ہیں جسے مقامی زبان میں ''شماغ‘‘ کہتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ یہ سفید رنگ کا ایک لمبا روائتی کرتا پہنتے ہیں جسے مقامی زبان میں '' ثوب‘‘ کہا جاتا ہے۔یہاں پر چاروں طرف پھیلی پہاڑیاں اور چٹانیں انتہائی ناہموار ہیں جن پر چڑھنا عام انسانوں کیلئے مشکل ہوتا ہے جبکہ مقامی افراد گلہری کی مانند ان پر باآسانی چڑھ جاتے ہیں۔یہاں کے لوگوں نے دس میٹر سے بلند ہر پہاڑی کا نام رکھا ہوتا ہے۔ وادیٔ رم بظاہر اس علاقے کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس کا رقبہ 720 مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ بدوں کا روائتی طرز زندگی ابھی تک صدیوں پرانا ہی ہے جبکہ مرد و زن اپنے اپنے خیموں میں الگ رہتے ہیں۔ گھر پر آئے مرد مہمان نہ تو گھر کے زنان خانے تک جا سکتے ہیں اور نہ ہی گھر کی خواتین ان کے سامنے آ سکتی ہیں ، البتہ باہر سے آئی خواتین یہاں کے مردوں سے مل سکتی ہیں۔ مہمان نوازی کی ابتدا یہاں قہوے سے ہوتی ہے جبکہ دور سے آئے مہمانوں کو کھانا بھی پیش کیا جاتا ہے۔اگر مہمان مختصر عرصے کیلئے آیا ہو تو اسے مقامی ڈش '' زرب‘‘ پیش کی جاتی ہے جو بکری کے گوشت اور سبزی پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ خاص مہمان کیلئے روائتی کھانا '' منسف‘‘ تیار کیا جاتا ہے جو بکری کے گوشت اور پنیر کے ساتھ بنتا ہے۔ رات بسر کرنے والے مہمانوں کو یہ رباب کے ذریعے مقامی موسیقی سے محظوظ بھی کرتے ہیں۔وادیٔ رم کہاں ہے اور کتنی قدیم ہے ؟ سعودی عرب کی سرحد سے ملحق عقبہ کے مشرق میں لگ بھگ 60 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی اردن میں ریت، پتھر اور گرینائٹ کی چٹانوں پر مشتمل ایک وادی ہے جسے '' وادی رم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اردن کی سب سے بڑی وادی ہے۔اس وادی کا قریب ترین شہر واڑی ہے جو بحرہ احمر پر واقع بندرگاہ شہر عقبہ سے ایک گھنٹے کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں پر اردن کی دوسری بلند ترین پہاڑی ''جبل رم‘‘ موجود ہے جس کی بلندی 5689 فٹ ہے ، جبکہ اردن کی بلند ترین چوٹی ''جبل امعد رمی‘‘ ہے جس کی بلندی 6040 فٹ ہے۔ وادی رم صحرا کو ''چاند کی وادی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ چونکہ کرۂ ارض کے سب سے متاثر کن مناظر میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر اپنی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ صحرائے رم کی ایک طویل قدیم تاریخ ہے جو کبھی اس خطے کا اہم تجارتی راستہ ہوا کرتا تھا۔یہ آثارقدیمہ کی دریافتوں سے مالا مال خطہ ہے جس میں پیٹروگلیف اور نوشتہ جات شامل ہیں جو ہزاروں سال پہلے انسانوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وادیٔ رم کو دنیا کے سامنے سب سے پہلے 1917ء میں متعارف کرانے والا برطانوی فوج کا ایک کرنل ٹی ای لارنس تھا جس کا اکثر وادی ٔ رم سے گزر ہوتا تھا۔ اس نے اپنی شاطرانہ چالوں سے عربوں کے دلوں میں ترکوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی۔ اسی وجہ سے اس کی شہرت '' لارنس آف عریبیا‘‘ کے لقب سے ہونے لگی۔ بعد میں متعدد انگلش فلموں کی شوٹنگز بھی اسی وادی میں ہوتی رہیں، جن میں ''لارنس آف عریبیا‘‘ نامی فلم قابل ذکرہے۔ قدیم تاریخی حوالوں سے اس امر کے واضح شواہد ملتے ہیں کہ موجودہ خطہ عرب میں انسانی آبادکاری برفانی دور ختم ہونے کے بعد یعنی لگ بھگ 13000قبل مسیح سے لے کر 18000قبل مسیح کے دوران شروع ہوئی۔ تاریخی حوالوں سے یہاں سب سے پہلے '' دلمن‘‘ نامی ایک تہذیب کا ذکر ملتا ہے۔اس زمانے میں یمن کو ''سبا‘‘، موجودہ عمان کو ''میگن‘‘ جبکہ اردن کو '' نباطین‘‘ کہا جاتا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وادی عرب کے لوگ شروع سے اپنے آپ کو '' العرب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ جہاں تک وادی ٔ رم میں انسانی آبادکاری کا تعلق ہے ، اگرچہ ماہرین ابھی تک اس کی صحیح تاریخ کا تعین تو نہیں کر سکے تاہم گمان غالب یہی ہے کہ یہ دو سے تین ہزار سال قدیم کا عرصہ ہو سکتا ہے۔