ڈاکٹر ذاکر نائیک تقابل ادیان کے ماہر عظیم اسلامی سکالر
ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مبلغ ، اسلامی سکالر تو ہیں ہی لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ادیان کے تقابلی جائزے کے ماہر کی حیثیت سے بھی مسلمہ مانی جاتی ہے۔ بنیادی طور پران کے خاندان کے بیشتر افراد ایلوپیتھی ڈاکٹر ہیں۔ ذاکر نائیک 1965ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1991ء تک شعبہ طب سے وابستہ رہے۔
ٹرننگ پوائنٹ: طب سے تبلیغ تک
بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ذاکر نائیک کی زندگی میں مذہبی تبدیلی کے سفر کا ''ٹرننگ پوائنٹ‘‘ 1991ء میں پاکستان کے دورے کے بعد آیا۔ وہ روحانی طور پر پاکستانی مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد سے حد درجہ متاثر تھے اور اکثر کہا کرتے تھے ''ڈاکٹر اسرار احمد اردو بولنے والے مذہبی داعیوں میں سب سے اعلیٰ مقام پر ہیں‘‘۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی کی جدو جہد کو سمجھنے کیلئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر اپنی زندگی پر مبنی وڈیوز کی ایک سیریز ''ذاکر نائیک بائیو گرافی:میری زندگی میری کہانی‘‘ کے نام سے بنا رکھی ہے۔ ایسی ہی ایک وڈیو میں وہ کہتے ہیں، ''1991ء میں، میں جب پاکستان گیا تو وہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو ملنے گیا تو دوران گفتگو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میرا ایم بی بی ایس ختم ہو گیا ہے، اب میں میڈیکل پریکٹس کے ساتھ دعوت اسلامی پر بھی کام کروں گا‘‘۔ بقول ذاکر نائیک ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے کہا، آپ کو میڈیکل اور داعی بننے میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کرنا ہو گا کیونکہ اس طرح آپ بیک وقت دونوں شعبوں کے ساتھ صحیح انصاف نہیں کر سکیں گے۔ ڈاکٹر اسرار خود بھی میڈیکل ڈاکٹر تھے۔
بقول ذاکر نائیک، انڈیا واپسی پر میں سارا راستہ اپنے مستقبل بارے سوچتا آیا، گھر پہنچ کر والد صاحب سے مشورہ کیا کہ میں دو گھنٹے دعوت اسلامی کیلئے وقف کرنا چاہتا ہوں،باقی وقت میں میڈیکل پریکٹس کروں گا، والد صاحب نے بخوشی اجازت دے دی۔ اگلے ہی روز میں نے والد صاحب سے پانچ ہزار روپے لے کر ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے کر وہاں سے ''اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد میں نے والد صاحب کو کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اب نصف یوم میڈیکل کو اور باقی وقت دعوت اسلامی کو دینا چاہیے، جس پر والد صاحب نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اب رفتہ رفتہ مجھے ڈاکٹر اسرار احمد کی بات یاد آنے لگی کہ ایک وقت میں ایک کام کے ساتھ ہی انصاف کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جب میں نے والد صاحب کو اپنا مکمل وقت دعوت اسلامی کو دینے کے ارادے سے مطلع کیا تو انہوں نے مجھے بخوشی اس کی اجازت دے دی ‘‘۔
تعلیمات اور اعزازات
ذاکر نائیک کہتے ہیں وہ دعوت اسلامی کی تبلیغ کیلئے عظیم اسلامی مبلغ و محقق احمد دیدات سے بہت متاثر ہیں۔ جن سے ان کی پہلی ملاقات 1987ء میں ہوئی تھی۔ 2006ء میں احمد دیدات نے ''دیدات پلس‘‘ کے لقب سے نوازا۔ ذاکر نائیک اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ بارے کہتے ہیں، یکم اپریل 2000ء کو ان کا معروف امریکی مسیحی سکالر ولیم کیمبل کے ساتھ کئی گھنٹے طویل مناظرہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ جس کا عنوان ''قرآن اور بائبل سائنس کی روشنی میں‘‘ تھا۔ یہ مناظرہ براہ راست ایک امریکی ٹیلی وژن پر دکھایا گیا، جس کے اختتام پر دنیا بھر سے فوری طور پر 34 ہزار لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس مناظرے کے بعد انہیں عالمی طور پر تقابل ادیان کا ماہر سمجھا جانے لگا اور دنیا بھر کی حکومتوں اور تنظیموں نے انہیں اپنے اپنے ملکوں میں خطاب کی دعوت دینا شروع کر دی۔یہی وہ دور تھا جب بھارتی انتہا پسند ہندوئوں نے انہیں نشانے پر لینا شروع کردیا کیونکہ بڑی تیزی سے ہندو مشرف با اسلام ہونا شروع ہو چکے تھے۔
21 جنوری 2006ء بھارت کے سب سے بڑے ہندی عالم روی شنکر کے ساتھ ان کا مناظرہ ''اسلام میں تصورء خدا اور ہندو مذہب‘‘ کے عنوان سے ہوا، جسے انہوں نے تھوڑی ہی دیر میں خاموش کرا دیا۔اس مناظرے کے بعد متعدد ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔2007ء میں انہوں نے بمبئی میں 10 روزہ ''امن کانفرنس‘‘کا اہتمام کیا جس کے اختتام پر انگنت ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔جس نے انتہا پسند ہندو سماج کو ہلا کر رکھ دیا۔ہندو ذہنیت نے ذاکر نائیک کے اجتماعات پر پابندی لگوائی تو انہوں نے دعوت اسلامی کیلئے ''پیس‘‘ ٹی وی چینل کا آغاز کیا اور اپنے خطابات کو پیس ٹی وی،انٹرنیٹ ، تحریروں اور غیر ملکی دوروں کے ذریعے جاری رکھا۔
2011ء سے 2014ء تک امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے انہیں دنیا کی 500 بااثر ترین شخصیات میں مسلسل شامل رکھا۔ 2013ء کو متحدہ عرب امارات کی حکومت نے انہیں ''بین الاقوامی قرآن ایوارڈ‘‘ اور ساڑھے سات لاکھ درہم انعام سے نوازا۔ اسی سال ملائشیا کے بادشاہ نے بھی انہیں ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا۔ 2014ء کو شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے انہیں ''شارجہ ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔ 2014ء میںگیمبیا کی حکومت نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ اس سے پہلے دعوت دین کی خدمات کے صلے میں مصر یونیورسٹی بھی انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نواز چکی تھی۔ 25 مارچ 2015ء سعودی فرماں روا شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے انہیں مسلم دنیا کا سب سے بڑا تمغہ ''شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ بمع ساڑھے سات لاکھ ریا ل سے نوازا۔
ہجرت کے اسباب
انتہا پسندہندوئوں نے ان پر منی لانڈرنگ سے لے کر نوجوانوں کو ''شدت پسندی‘‘ پر اکسانا جیسے الزامات عائد کرکے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرا دیئے۔ ان حالات کے پیش نظر 2016ء میں ذاکر نائیک کو 20 ممالک نے اپنے ہاں رہائش کی دعوت دی لیکن ذاکر نائیک نے اسلام پسندی اور ملائشیا کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر ملائشیا میں منتقل ہونے کو ترجیح دی۔ بھارت نے متعدد بار انٹرپول کے ذریعے ذاکر نائیک کی حوالگی کی درخواستیں بھی دی ہیں لیکن انٹرپول ہر مرتبہ ان ثبوتوں کو بے بنیاد قرار دے کر ان درخواستوں کو مسترد کر دیتا ہے۔