سیاحت وسیلہ زر!
چینی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی قومی ہفتہ تعطیل ''گولڈن ویک‘‘ میں یکم تاسات اکتوبر کے دوران ساڑھے اکیس ملین لوگ بیجنگ کی سیر کو آئے۔ اس طرح اندازاً پونے چار بلین امریکی ڈالر کمائی ہوئی۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ ساڑھے چار ملین سیاح دیہی علاقے دیکھنے گئے۔اس طرح کی خبریں پڑھ کر دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ افسردگی اس بات کی ہم وہ لوگ ہیں جو کسی طور روزی روٹی کمانے کا ڈھنگ نہیں جانتے۔ حالانکہ دنیا میں عجیب کام ہوا ہے۔ ہر وقت کماتے رہنے والوں کو چھٹی اور فراغت دے کر بھی کمائی کی جاتی ہے۔ سیاحتی صنعت اسی فراغت کے سہارے کھڑی ہے۔ لیکن سہارا دینے یا لینے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ سیاحت کی صنعت کا سادہ سا اصول ہے کہ ملک ''قابلِ مشاہدہ‘‘ ہونا چاہیے۔ ہم لوگ تو شاید''قابلِ توجہ‘‘ بھی نہیں رہے۔
ہم چین سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ چینی محنت اور عزم کی تعریف کر کر کے تھک جاتے ہیں مگر خود محنت کے قریب بھی نہیں جاتے۔ اگر کسی طالب علم سے پاکستان کے سیاحتی مقامات اور دل فریب نظاروں پر مضمون لکھنے کو کہا جائے تو ایسے ایسے مقامات اور علاقے فہرست میں شامل ہوں گے کہ لگے گا جس نے وطن عزیز نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ثقافتی تنوع اور دلکش مقامات کی بہتات کے باوجود پاکستان میں ملکی اور غیرملکی سیاحت کا فروغ کیوں نہیں ہو سکا۔ آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اگر ہم چینی سیاحتی صنعت کی ترقی کا تجزیہ کریں تو کچھ اہم اسباب سامنے آتے ہیں، جن کی مدد سے ہم اپنی ناکامی کے اسباب کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ چین کے عالمی اثر و رسوخ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس سے چینی کلچر کے بارے میں تجسس اور دلچسپی پیدا ہونا فطری بات ہے۔ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد چینی روایات، معاشرت، بود و باش، کھانوں اور فکر و نظریات سے آگہی کیلئے چین کا رخ کر رہی ہے۔ ہمیں ترقی اور اثر و رسوخ میں اضافہ تو مستقبل قریب میں کہیں نظر نہیں آتا البتہ ہم پسماندگی کی نمایاں مثال ضرور پیش کر سکتے ہیں۔ شاید کہ دوسرے لوگ ہمیں عبرت حاصل کرنے کیلئے دیکھا کریں۔
دوسری چیز چین میں وسیع پیمانے پر مڈل کلاس کا ظہور ہے۔ مڈل کلاس نے مقامی اور بین الاقوامی سفر و سیاحت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ خریداری اور خرچ میں مڈل کلاس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مڈل کلاس کی موجودگی سے صارفانہ اور تفریحی رجحانات پیدا ہوتے ہیں اور سیر و سیاحت، آرام و سکون اور فراغت بلند معیار زندگی کے اشاریے بن جاتے ہیں۔ ہماری معاشی پالیسیاں ایسی ہیں کہ مڈل کلاس بے چاری سفید پوش سے کفن پوش ہونے کو ہے۔ اس لیے ملکی سیاحت سکول اور کالج کے مری ٹرپس تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی۔ کسان اور کاشت کار بھی اسی مڈل کلاس کا ایک حصہ ہیں۔ نقد آور فصلوں کے نرخ ایسے غیر منصفانہ ہو گئے ہیں کہ پہلے جو کسان گندم اور کپاس بیچ کر لبرٹی مارکیٹ اور مکی مارکیٹ کا رخ کیا کرتے تھے اب وہ اپنی اپنی فصلیں محفوظ کرنے میں مصروف ہیں اور امید یہ ہے کہ شاید فصلوں کا ریٹ بڑھ جائے اور کچھ ہاتھ آ جائے۔
تیسری بات یہ ہے کہ محض مڈل کلاس کے موجود ہونے سے بھی کچھ نہیں ہوتا جب تک انفراسٹرکچر ہی نہ ہو۔ اس میں ٹرانسپورٹ، رہائش، مواصلات اور دیگر ''دلکشیاں‘‘ شامل ہیں۔ سیاحت اب کوئی عام صنعت نہیں رہی بلکہ سٹریٹجک انڈسٹری بن چکی ہے۔ یہ ترقی کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں، کاروباری ادارے اور عوام سبھی کا حصہ ڈالنا ضروری ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ چین میں سیاحتی صنعت انتہائی ترقی یافتہ ہے اس لیے وہاں لاکھوں سیاح اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ بلکہ وہاں بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مثلاً اگرچہ چین میں سیاحتی مقامات کے تنوع میں اضافہ ہونا ابھی باقی ہے اور کچھ علاقوں میں جدید سفری سہولتوں کی فراہمی پر بھی کام ہو رہا ہے تاہم ان کمزوریوں کے باوجود چینی حکومت کا عزم اور سیاحت کے فروغ کی حکمت عملی قابل تعریف ہے۔ کیونکہ حکومت سیاحتی صنعت اور ہوٹل انڈسٹری کو نئے اور جدید انداز میں فروغ دے رہی ہے، جہاں مستقبل میں مزید دلچسپ تفریحی سرگرمیوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ حکومت کی جانب سے سیاحتی صنعت کی پروموشن اور مارکیٹنگ ہی ہے کہ جس کے باعث ہر سال لاکھوں مقامی اور غیر ملکی سیاح چین کی خوبصورتی اور رنگینی سے لطف کشید کرنے چلے آ تے ہیں۔
سیاحتی صنعت دراصل سیاحتی وسائل، سیاحتی سہولیات اور سیاحتی خدمات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جب سیاحتی مقامات تک رسائی کیلئے سہولیات ہی موجود نہ ہوں اور سیاحوں کے اطمینان کیلئے سروسز کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو تو پھر ایسے ملک میں مہم جوئی ہی ہو سکتی ہے سیاحت ممکن نہیں۔ پرانے وقتوں میں کہتے تھے کہ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ وہ تو ہے لیکن آج سیاحت وسیلہ زر بھی ہے۔ تو کیا ہمیں ''زر‘‘ نہیں چاہیے؟