لوبان جس کا ہر ہر قطرہ بیش قیمت
تاریخ گواہ ہے قدرت نے ہر دور میں ہر خطے اور ہر ملک کو متعدد قدرتی وسائل اور نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہوتا ہے۔ یہ ذرائع عمومی طور پر نباتات، معدنیات یا آبی وسائل کی شکل میں ہوتے ہیں۔ان وسائل کا حصول اور انحصار انسانی پہنچ پر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان کی مثال دی جا سکتی ہے جو بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق لیتھیئم کے قدرتی خزانوں سے مالا مال خطہ ہے لیکن ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کے باعث وہ ابھی تک اس خزانے کو کھودنے میں ناکام رہا ہے۔
گئے زمانوں میں نباتات کی دنیا میں خطہ عرب میں لوبان سب سے قیمتی جنس کے طور پر جانا جاتا تھا جو سونے سے مہنگا ہوا کرتا تھا ، لیکن پھر معدنیات کی دنیا میں تیل کی دریافت نے اس خطے کو دولت سے مالا مال کیا تو لوبان ایک ثانوی جنس کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس خطے میں لوبان کا استعمال اب محض ادویات اور خوشبویات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔قدیم روم کے ایک عالم پلینی دی ایلڈر سن 79 عیسوی میں اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں ''لوبان کی تجارت نے جنوبی عرب کے باسیوں کو اس روئے زمین کے امیر ترین لوگ بنا دیا تھا‘‘۔
جدید سائنس نے لوبان کو مہلک اور جان لیوا امراض کے علاج کیلئے ایک حیرت انگیز عنصر قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ مسیحی برادری میں ایک روایت مشہور ہے کہ''تین دانا لوگ حضرت عیسیٰ ؑکیلئے تین تحائف لے کر آئے۔ ان میں سونا، لوبان اور مر (ایک پودے کا خوشبودار عرق ) شامل تھے۔
قدیم دور کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوبان کو خوشبو اور علاج کیلئے 3500 قبل مسیح سے استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔مصر میں اسے مقدس پودے کی حیثیت حاصل تھی شاید اسی لئے مصری اسے '' خداؤں کا پسینہ‘‘ کہا کرتے تھے۔ جب 1922ء میں مصر کے بادشاہ توت عن خامون کی قبر کشائی کی گئی تو اس میں لوبان سے بنا کپاس کا ایک گچھا پایا گیا تھا جو ممکنہ طور پر خوشبو اور میت کو زیادہ عرصہ محفوظ رکھنے کے خیال سے رکھا گیا ہو گا۔
قدیم دور میں مصر ہی نہیں بلکہ بیشتر ممالک میں اسے پاکیزگی اور روحانی علامت کے طور پر جلایا جاتا تھا، کیونکہ اس دور کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ لوبان سے نکلنے والا دھواں براہ راست جنت میں جاتا ہے۔ ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ لوبان کا دھواں یا اس کی خوشبو الہویت سے رابطے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اسی لئے اس دور کے مندروں میں اس کی دھونی روحانیت کی علامت تصور ہوتی تھی۔
لوبان کیا ہے اور کیسے حاصل ہوتا ہے
لوبان بنیادی طور پر ''بوسو یلیا جینس‘‘ نامی ایک درخت سے حاصل کی گئی خوشبو دار گوند ہے۔ بوسویلیا جینس درخت عمومی طور پر حبس شدہ آب و ہوا والے علاقوں میں ہوتے ہیں ۔دنیا میں زیادہ تر لوبان عمان، ارٹیریا ، صومالیہ، سوڈان ، یمن ، آسام ، ایتھوپیا اور جزیرہ مڈغاسکر میں پایا جاتا ہے۔ عمان کے علاقے ظفار میں پایا جانے والا لوبان ''ہوجاری‘‘ اس وقت دنیا کا مہنگا ترین لوبان ہے۔ اس کے جوہر کی فی کلو قیمت 600 پاؤنڈ (دولاکھ پاکستانی روپے)سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔لوبان کے خالص گوند کی قیمت جو گرامز کے حساب سے بکتی ہے وہ لاکھوں روپے تک جاتی ہے۔
لوبان حاصل کرنے کیلئے اوائل موسم گرما ہی سے اس کے درختوں کو جا بجا کلہاڑی سے کٹ لگائے جاتے ہیں جس سے سفید یا ہلکے بھورے رنگ کے قطرے نیچے رکھے برتنوں میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں جب رس آنا بند ہو جاتا ہے تو اس رس کو اکٹھا کر کے سوکھنے کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں جو دس سے بارہ دنوں میں گوند کی ڈلیوں کی شکل میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔اس گوند کو لوبان کہا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر کچھ دن کے وقفے سے جاڑے کی آمد تک جاری رہتا ہے حتیٰ کہ اس درخت سے رس نکلنا بند ہوجاتا ہے۔ اس پودے کا پانچ سال تک رس کشید کیا جاتا ہے جبکہ اگلے پانچ سال تک اسیچھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر صحت مند درخت سے اوسطاً آٹھ سے دس کلو گرام تک گوند نکالی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے مطابق عمان چوتھی صدی قبل مسیح سے لوبان کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا جہاں سے ہزاروں اونٹ قافلوں کی شکل میں لوبان لے کر صحرائے عرب کے پار دوہزار کلومیٹر کا طویل سفر طے کر کے مصر ، بابل ، قدیم یونان اور سلطنت روم پہنچتے تھے۔اس کے علاوہ خوشبودار گوند سے لدے بحری جہاز چین اور دیگر ممالک روانہ کرنے کے شواہد بھی ملتے ہیں۔
قدیم دور میں لوبان کا استعمال
گئے زمانوں میں گھروں کو معطر اور خوشبودار رکھنے کیلئے لوبان کا بخور ( لوبان جلا کر خوشبودار دھواں)کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ گھروں میں مکھی مچھر اور کیڑے مکوڑوں کو بھگانے کیلئے اس کی دھونی دی جاتی تھی۔ اگرچہ شروع شروع میں لوبان سے کشیدہ تیل ، پٹھوں کی مضبوطی اور زخموں کے علاج کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس سے موسمی بخار سے لے کر رسولی تک کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔یہ نہ صرف اپنے دور کی ''اسپرین‘‘ اور ''پنسیلین‘‘ تھی بلکہ یہ اپنے دور کا واحد'' اینٹی بائیوٹک‘‘ تھا جس میں بے شمار بیماریوں کا علاج پنہاں تھا۔ گویا لوبان کی گوند اپنے دور میں ہر مرض کا علاج تھی۔
لوبان اور جدید تحقیق
ماضی کے طبی نتائج کو دیکھ کر عالمی سطح پر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لوبان کی گوند سے گٹھیا، دمہ، ذہنی اور جلدی امراض کے ساتھ ساتھ کینسر سمیت متعدد بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔
برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی کے سکول آف بایو سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر احمد علی کینسر سے لے کر چہرے کی جھریوں تک کیلئے لوبان سے ادویات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈاکٹر احمد کی اس تحقیق کے شریک پروفیسر رچرڈ کلارکسن کہتے ہیں وہ پر امید ہیں کہ وہ لوبان سے کینسر جیسے مہلک مرض کی ادویات بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔پروفیسر رچرڈ کا کہنا ہے کہ اس وقت لیبارٹریوں میں سب سے زیادہ کام ایسی چیزوں کی تلاش پر ہو رہا ہے جو صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے خلیوں کو نشانہ بنا کر انہیں تلف کریں۔ اس کیلئے ان کی نظریں لوبان اور ''مر‘‘ نامی پودے پر ہیں کیونکہ ان کی ابتدائی تحقیق کے مطابق ''مر‘‘ کا عرق صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے خلیات کو نشانہ بنانے کی اور لوبان کا عرق کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔
ابیرسٹویتھ یونیورسٹی میں طبی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر ریچل کا کہنا ہے کہ لوبان کا استعمال ماضی میں کسی ایک چیز کیلئے نہیں بلکہ اسے متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔
یونانی فوج کے ایک معالج پیڈینئیس نے لوبان کو ایک عجیب و غریب دوا قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ گوند السر کے کھوکھلے پن کو بھر سکتی ہے حتیٰ کہ زخموں کو آپس میں جوڑ بھی سکتی ہے۔
طبی علم کے بارے میں قدیم مصر کی سب سے اہم دستاویز '' ایبیرز پی پیرس‘‘ میں لوبان کو دیگر امراض مثلاً دمہ ، خون بہنے،گلے کے انفیکشن اور الٹی سمیت متعدد بیماریوں کا علاج قرار دیا گیا تھا۔