باقر خانی

باقر خانی

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور گلزار


آپ نے باقر خانی کھائی ہو گی ؟نام تو سنا ہی ہو گا۔ اور میری طرح ہو سکتا ہے آپ بھی اس خستہ اور لذیذ کھانے کی چیز کے سے نام پر حیران ہوئے ہوں۔ باقر خانی کے بارے یہ حیرانی کوئی نئی بات نہیں۔آئیں آج باقر خانی کے راز سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں لکھنو میں خانی بیگم نام کی ایک طوئف رہتی تھی اور نہ صرف اپنی خوبصورتی بلکہ نشست و برخاست کے آداب سے بھی یکتائے روزگار مانی جاتی تھی۔ اُس زمانے میں طوائف ثقافتی سرگرمیوں کا ایک اہم جزو ہوتی تھیں اور کہتے ہیں کہ شرفا بھی اپنے بچوں کوسماجی آداب سکھانے کے لیے طوائفوں کے ہاں بھیجتے تھے۔خانی بیگم بھی اسی مرتبے کی گانے والی تھی۔
اس کے کئی چاہنے والے تھے جو نہ صرف ان کی حسن کے دیوانے تھے بلکہ اس سے شادی کے خواہشمند بھی تھے۔ کئی نوابین اسے اپنے حرم میں جگہ دیناچاہتے تھے۔ انہی میں ایک مرزا باقر علی خان تھے۔خانی بیگم سے شدید محبت کا دعویٰ کرتے تھے، جبکہ انہی کے ایک ہم عصر نواب جمن خان بھی خانی بیگم کے اسیر تھے۔ دونوں نوابوں میں مقابلہ تھا کہ خانی بیگم اس کے حق میں فیصلہ دے۔ادھر رقابت کا یہ عالم تھا کہ اُدھرکسی نے خانی بیگم کوقتل کردیا مگر قتل کی تفتیش یہ کہہ کر جلد ہی بند کردی گئی کہ یہ کسی ناکام عاشق کا کام ہے یہ جرم کر کے فرار ہوگیا،مگر جمن اور باقر علی خان کی تودنیا اندھیر ہو گئی۔
نواب جمن نے تو پھر بھی جلد ہی خود کو سنبھال لیا ،دوسری مصروفیات میں الجھا لیا لیکن باقر علی خان اپنی حویلی تک محدود ہو کر رہ گئے۔ نہ کہیں آتے تھے نہ ہی کسی سے ملتے تھے۔ سارا سارا دن صرف خانی بیگم کی یاد میں گھلتے تھے۔ بالآخر ایک روز ان کے ایک منہ چڑھے دوست ان سے ملنے حویلی آئے اور ان کی یہ حالت دیکھ کر خاصے برہم ہوئے اور انھیں اپنی دوستی کی قسم دے کر بازارلے گئے۔اودھ کے اس سنہرے دور میں جہاں نوابین کے دیگر مشغلوں کے رواجوں اور فرمائشوں کا خیال رکھا جاتا تھا وہیں آئے روز کھانے کو بھی کچھ نہ کچھ نیا ضرور بنتا۔ اگر تو وہ خوان نوابوں کو پسند آ جاتا تو پھر اسے ہر باورچی ہی بنانے لگتا اور اگر پسند نہ آتا تو اسے ترک کردیا جاتا۔
الغرض نواب باقر علی خان کے دوست انھیں اودھ کے ایک مشہور نانبائی کے ہاں لے آئے اور اسے کچھ خاص لانے کی فرمائش کی۔ نانبائی بھی شاید جانتا تھا کہ باقر علی خان جیسے نواب کو کوئی عام ذائقہ کہاں بھائے گا ؛چنانچہ اس نے جلد ہی اپنی ایک نئی تخلیق ان کے سامنے پیش کردی۔ باقرعلی خان نے بڑی بے دلی سے ایک لقمہ توڑا اور منہ میں رکھا۔ ایک لحظے کیلئے انھیں ایسا لگاکہ اس لقمے کا مزا کچھ مختلف ہے۔ انھوں نے نانبائی کو طلب کیا۔ نانبائی بیچارہ ہانپتا کانپتا آیا کہ وہ روٹی جو اس نے خود بھی پہلی بار ہی بنائی تھی اوراس کا ذائقہ خود اسے بھی معلوم نہیں تھا، نجانے نواب کو کیسا لگا۔ وہ ڈرتے ڈرتے باقر علی خان کے سامنے حاضر ہو گیا۔ نواب نے پوچھا کہ یہ روٹی تم نے بنائی ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ باقر علی خان نے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟
اب تو نانبائی اور گھبرایا کہ ضرور روٹی میں کوئی نقص تھا جب ہی اس کا نام پوچھ رہے ہیں۔ اس نے ہاتھ جوڑے۔۔ حضورمیں نے یہ روٹی کچھ نئے طریقے سے بنائی ہے اور ابھی اس کا کوئی سوجھانہیں تھا کہ حضور کے سامنے حاضر کردی۔ حضور کہیں گے تو آئندہ کبھی اسے نہیں بنائیں گے۔ تب باقر علی خان نے نانبائی سے کہا کہ انھیں یہ روٹی اتنی پسند آئی تھی کہ وہ اس کا نام جاننا چاہتے تھے۔ نانبائی یہ سن کر خوش ہوا اور نواب صاحب سے ہی اس روٹی کو کوئی نام دینے کی درخواست کر دی۔ نواب باقر علی خان نے اپنے دوست اور اُس نانبائی سے کہا کہ ہم جن سے محبت کرتے تھے ان کا نام خانی تھا اور ہمارا باقر ہے۔ زندگی میں تو ہم مل نہ سکے تو کیوں نہ اس روٹی کا نام ہی ''باقر خانی‘‘ رکھ دیں۔ دنیا میں جب بھی اور جہاں بھی یہ روٹی کھائی جائے گی لوگ ہمارا نام ایک ساتھ لیں گے۔ نواب باقر علی خان کے منہ سے نکلی بات فوراً ہی قبول کرلی گئی۔بے نام روٹی کو باقر خانی کا نام دے دیا گیا۔
اس باقر خانی کا نام پڑا، جو آج بھی کئی تغیر اور مختلف اشکال کے ساتھ پاک و ہند میں کھائی جاتی ہے ۔ہوسکتا ہے باقر خانی کے ساتھ اس کہانی کا حقیقتاً کوئی تعلق نہ ہو ، اور یہ محض ایک داستان ہو، مگر ایک معروف داستان ہے اور ہمارے پاس اس کے رد میں دوسری کوئی کہانی نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
باکمال ہدایتکار:انور کمال پاشا

باکمال ہدایتکار:انور کمال پاشا

گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے علمی و ادبی حلقوں میں جب یہ موضوع زیر بحث آتا تھا کہ آخر پاکستانی فلمی صنعت کے انحطاط اور زوال کے اسباب کیا ہیں تو پہلی وجہ یہ بیان کی جاتی تھی کہ فلمی صنعت پر شروع سے ہی غیر مہذب ، ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کا غلبہ رہا ہے، جس کی وجہ سے فلمی صنعت اس انجام سے دوچار ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس صنعت کی زوال پذیری میں کئی عشرے لگ گئے، یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ پاکستانی فلمی صنعت میں ان گنت افراد ایسے بھی تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی کہ پچاس کی دہائی میں بھارتی فلموں کا مقابلہ آخر کن فلموں نے کیا؟ یقینا وہ پاکستانی فلمیں ہی تھیں جنہوں نے اس دور میں نہ صرف پاکستانی فنکاروں کو شہرت اور عظمت سے سرفراز کیا بلکہ اس زمانے کے فلمسازوں پر بھی دولت کی بارش کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کا باری سٹوڈیو ایک پنجابی فلم ''یکے والی ‘‘کی زبردست کامیابی کی وجہ سے تعمیر ہوا تھا۔ یہ فلم باکس آفس پر اتنی کامیاب ہوئی کہ اس کے فلمساز باری ملک نے سٹوڈیو تعمیر کر لیا۔ بات ہو رہی تھی کہ پاکستانی فلمی صنعت کوئی جہلاکا گڑھ نہیں تھا ،یہاں بہت قابل افراد بھی تھے۔ مسعود پرویز، وحید مراد، سنتوش کمار، خواجہ خورشید انور، مصطفی قریشی، مسعود اختر اور کئی دوسرے فنکار ایسے تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اسی طرح ہدایتکار بھی بڑے شاندار تھے۔ ان میں سب سے بڑا نام انور کمال پاشا کا ہے، جو پاکستانی فلمی صنعت کے معمار تھے۔ انہوں نے اپنے علم و فن کے وہ چراغ روشن کیے جن کی روشنی سے بعد میں آنے والی کئی نسلوں نے فیض حاصل کیا۔ الطاف حسین، ایم اکرم، جعفر ملک اور آغا حسینی جیسے ہدایتکار بھی انور کمال پاشا کے شاگردوں میں شامل ہیں۔انور کمال پاشا 23 فروری 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ باکمال شاعر اور مشہور ادیب حکیم احمد شجاع کے بیٹے تھے۔ انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے گریجویشن کی اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کیا۔ انہوں نے شروع میں فلم ''شاہدہ‘‘ میں ہدایتکار لقمان کے ساتھ معاون ہدایتکار کے طور پر کام کیا۔ بعد میں انہوں نے سکرپٹ رائٹر، فلمساز اور ہدایتکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ہر طرف ان کے نام کا طوطی بولتا تھا۔ ان کا طرئہ امتیاز یہ تھا کہ انہوں نے سماجی موضوعات پر فلمیں بنائیں جن میں اصلاحی پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ افلاس، محبت، اخلاقی انحطاط، سماجی رویے اور عورت ان کی فلموں کے موضوعات تھے۔ انہوں نے کئی اداکاروں کی تربیت کی اور بہت سے نئے چہرے متعارف کرائے۔ ان فنکاروں میں صبیحہ خانم، مسرت نذیر، اسلم پرویز، نیئر سلطانہ اور بہار بیگم شامل ہیں۔ بہار بیگم کہتی ہیں کہ ان کی پہلی فلم ''چن ماہی‘‘ 1956ء میں ریلیز ہوئی، جس میں ان کے ساتھ اسلم پرویز نے ہیرو کا کردار ادا کیا یہ فلم انور کمال پاشا کی فنی صلاحیتوں کی وجہ سے گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ انور کمال پاشا نے موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور ماسٹر عبداللہ کو بھی فلمی صنعت میں متعارف کرایا۔ ان کی فلموں کے سکرپٹ ان کے والد حکیم احمد شجاع کے زور قلم کا نتیجہ ہوتے تھے۔ حکیم احمد شجاع اندرون بھاٹی گیٹ کے بازار حکیماں کے رہنے والے تھے۔ ان کی کتاب ''لاہور کا چیلسی‘‘ پڑھ کر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس دور میں اس علاقے میں کتنے صاحب علم لوگ آباد تھے اور سب اپنے اپنے فن میں یکتائے روزگار تھے۔انور کمال پاشا نے مجموعی طور پر 24 فلمیں بنائیں۔ جن فلموں نے زیادہ شہرت حاصل کی ان میں ''شاہدہ، دو آنسو، گمنام، انتقام، دلُاّ بھٹی، چن ماہی، سرفروش، انارکلی، گمراہ، عشق پر زور نہیں‘‘ شامل ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ''عشق پر زور نہیں‘‘ کی ہدایات شریف نیئر نے دی تھیں لیکن نگرانی انور کمال پاشا نے کی تھی۔ ان کی فلم ''دو آنسو‘‘ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم تھی جو 7 اپریل 1950ء کو ریلیز ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش کمار کی جوڑی کو شہرت سے ہمکنار کرانے میں انور کمال پاشا کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی فلموں کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ ان کی موسیقی نغمات اور مکالمے بہت جاندار ہوتے تھے۔ہم اپنے قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ انور کمال پاشا نے دو شادیاں کی تھیں۔ ان کی دوسری اہلیہ اپنے وقت کی معروف اداکارہ شمیم بانو تھیں جنہوں نے شمیم کے فلمی نام سے شہرت حاصل کی تھی۔ شمیم بانو نے سب سے پہلے 1944ء میں ''جوار بھاٹا‘‘ میں کام کیا۔ یہ دلیپ کمار کی بھی پہلی فلم تھی۔ وہ لیجنڈری فلم آرٹسٹ اور گلوکارہ خورشید بانو بیگم کی رشتے دار تھیں اور کہا جاتا ہے کہ مشہور اداکارہ میناکماری سے بھی ان کی دور کی رشتے داری تھی۔شمیم بانو کی سب سے بڑی فلم ''سنیدور‘‘ تھی جسے کشور ساہو نے بنایا تھا۔ یہ فلم 1947ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کا موضوع ہندو بیوہ عورتوں کی دوسری شادی تھا۔ اس فلم کی ریلیز کے دوران تنازع پیدا ہو گیا۔ انہوں نے انور کمال پاشا کی بھی چند فلموں میں کام کیا جن میں ''شاہدہ، دو آنسو، گبرو اور دلبر‘‘ شامل ہیں۔ ایک اور بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ کامیڈین کے طور پر ان کی فلموں میں آصف جاہ ہی اپنے فن کے جوہر دکھاتے تھے۔ پاشا صاحب کی فلموں میں مستقل کام کرنے والوں کو ''پاشا کیمپ‘‘ کے لوگوں کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انہوں نے قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور تنویر نقوی جیسے بے مثل گیت نگاروں سے اپنی فلموں کے نغمات لکھوائے اور ان کی فلموں کے نغمات بھی ہر طرف دھوم مچا دیتے تھے۔ بہترین نغمات کو جب ماسٹر عنایت حسین اور رشید عطرے جیسے سنگیت کار اپنی دھنوں کا لباس پہناتے تھے تو شاہکار گیتوں کا وجود میں آنا فطری امر تھا۔انور کمال پاشا کے صاحبزادے محمد کمال پاشا نے بھی سکرپٹ رائٹر اور مکالمہ نگار کی حیثیت سے اپنے فن کی دھاک جمائی۔ اسلم ایرانی کی مشہور زمانہ پنجابی فلم ''لائسنس‘‘ ان کے قلم کی شاندار تخلیق ہے۔ 1985ء میں شمیم بانو کا انتقال ہو گیا اور اس کے دو برس بعد یعنی 1987ء میں انور کمال پاشا بھی 62 برس کی عمر میں عالم جاوداں کو سدھار گئے۔ پاشا صاحب کی خدمات پاکستانی فلمی تاریخ کی کتاب کا اہم ترین باب ہے۔جسے کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ حقیقی معنوں میں پاکستانی فلمی صنعت کے محسنِ اعظم تھے۔

آج کا دن

آج کا دن

چلی: محصور 33 کان کن 69 روز بعد ریسکیو2010ء میں آج کے روز چلی کی ایک کان میں محصور 33 کان کن 69 روز بعد زندہ سلامت باہر نکالے گئے۔ کان کنی کا یہ حادثہ ''چلی کی کان کنی کا حادثہ‘‘ کہلاتا ہے۔ سونے کی کان میں یہ حادثہ 5اگست کو پیش آیا تھا۔ جس میں 33 کان کن کان کے داخلی راستے سے زیر زمین 5 کلومیٹر (3 میل) کے فاصلے پر پھنسے ہوئے تھے۔ انہیں 69 دنوں کے بعد بچا لیا گیا۔سوویت فضائی حادثہ13 اکتوبر 1972ء کو سوویت فضائی کمپنی کا ایک طیارہ ماسکو کے قریب گر کر تباہ ہوگیا ،حادثے میں 176 افراد ہلاک ہو گئے۔ ''ایروفلوٹ فلائٹ 217‘‘ پیرس کے اورلی ہوائی اڈے سے ماسکو کے شیریمیٹیوو بین الاقوامی ہوائی اڈے کیلئے ایک بین الاقوامی مسافر پرواز تھی جو ماسکو کے قریب حادثے کا شکار ہوئی۔ یہ روسی سرزمین پر پیش آنے والا دوسرا سب سے مہلک حادثہ ہے جبکہ 2023ء تک یہ دنیا کا سب سے مہلک فضائی حادثہ تھا۔ لبنان خانہ جنگی کا خاتمہ13 اکتوبر 1990ء کو 15 سال سے جاری لبنان کی خانہ جنگی ختم ہوئی۔ جس میں 2 لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک،ساڑھے 3 لاکھ زخمی ہوئے جبکہ 10 لاکھ لبنانی پناہ گزین بنے۔1989ء کا طائف معاہدہ جنگ کے خاتمے کا آغاز تھا۔ جنوری 1989ء میں عرب لیگ کی طرف سے مقرر کردہ ایک کمیٹی نے تنازعات کے حل کی تشکیل شروع کی۔ مارچ 1991ء میں لبنانی پارلیمنٹ نے ایک عام معافی کا قانون منظور کیا جس کے نفاذ سے پہلے تمام سیاسی جرائم کو معاف کر دیا گیا۔ مئی 1991ء میں لبنان میں سوائے حزب اللہ کے تمام ملیشیا کو تحلیل کر دیا گیا۔ بنگلہ دیشی محمد یونس کیلئے نوبیل کا امن انعام2006ء میں آج کے روز نوبیل کا امن انعام بنگلہ دیشی محمد یونس اور گرامین بین کے درمیان تقسیم ہوا۔انعامات کے بارے میں فیصلہ کرنے والی نوبیل کمیٹی کے مطابق محمد یونس اور ان کے قائم کردہ ادارے کو یہ انعام غربت کے خاتمے کیلئے کام پر دیا گیا۔گرامین بینک غریب لوگوں کو چھوٹے قرضے دینے کیلئے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ غربت سے نکل سکیں۔ یہ بینک محمد یونس نے 1976ء میں بنگلہ دیش میں قائم کیا تھا۔ چھوٹے قرضے دینے کا یہ نظام پھر 'مائیکرو کریڈٹ‘ کے نام سے جانا گیا۔آج گرامین بینک سے ساٹھ لاکھ سے زیادہ افراد قرض لیتے ہیں اور 1997ء سے قائم گرامین فاؤنڈیشن دنیا بھر میں امدادی کام کرتی ہے۔

لوبان جس کا ہر ہر قطرہ بیش قیمت

لوبان جس کا ہر ہر قطرہ بیش قیمت

تاریخ گواہ ہے قدرت نے ہر دور میں ہر خطے اور ہر ملک کو متعدد قدرتی وسائل اور نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہوتا ہے۔ یہ ذرائع عمومی طور پر نباتات، معدنیات یا آبی وسائل کی شکل میں ہوتے ہیں۔ان وسائل کا حصول اور انحصار انسانی پہنچ پر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان کی مثال دی جا سکتی ہے جو بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق لیتھیئم کے قدرتی خزانوں سے مالا مال خطہ ہے لیکن ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کے باعث وہ ابھی تک اس خزانے کو کھودنے میں ناکام رہا ہے۔ گئے زمانوں میں نباتات کی دنیا میں خطہ عرب میں لوبان سب سے قیمتی جنس کے طور پر جانا جاتا تھا جو سونے سے مہنگا ہوا کرتا تھا ، لیکن پھر معدنیات کی دنیا میں تیل کی دریافت نے اس خطے کو دولت سے مالا مال کیا تو لوبان ایک ثانوی جنس کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس خطے میں لوبان کا استعمال اب محض ادویات اور خوشبویات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔قدیم روم کے ایک عالم پلینی دی ایلڈر سن 79 عیسوی میں اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں ''لوبان کی تجارت نے جنوبی عرب کے باسیوں کو اس روئے زمین کے امیر ترین لوگ بنا دیا تھا‘‘۔ جدید سائنس نے لوبان کو مہلک اور جان لیوا امراض کے علاج کیلئے ایک حیرت انگیز عنصر قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ مسیحی برادری میں ایک روایت مشہور ہے کہ''تین دانا لوگ حضرت عیسیٰ ؑکیلئے تین تحائف لے کر آئے۔ ان میں سونا، لوبان اور مر (ایک پودے کا خوشبودار عرق ) شامل تھے۔ قدیم دور کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوبان کو خوشبو اور علاج کیلئے 3500 قبل مسیح سے استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔مصر میں اسے مقدس پودے کی حیثیت حاصل تھی شاید اسی لئے مصری اسے '' خداؤں کا پسینہ‘‘ کہا کرتے تھے۔ جب 1922ء میں مصر کے بادشاہ توت عن خامون کی قبر کشائی کی گئی تو اس میں لوبان سے بنا کپاس کا ایک گچھا پایا گیا تھا جو ممکنہ طور پر خوشبو اور میت کو زیادہ عرصہ محفوظ رکھنے کے خیال سے رکھا گیا ہو گا۔ قدیم دور میں مصر ہی نہیں بلکہ بیشتر ممالک میں اسے پاکیزگی اور روحانی علامت کے طور پر جلایا جاتا تھا، کیونکہ اس دور کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ لوبان سے نکلنے والا دھواں براہ راست جنت میں جاتا ہے۔ ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ لوبان کا دھواں یا اس کی خوشبو الہویت سے رابطے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اسی لئے اس دور کے مندروں میں اس کی دھونی روحانیت کی علامت تصور ہوتی تھی۔ لوبان کیا ہے اور کیسے حاصل ہوتا ہے لوبان بنیادی طور پر ''بوسو یلیا جینس‘‘ نامی ایک درخت سے حاصل کی گئی خوشبو دار گوند ہے۔ بوسویلیا جینس درخت عمومی طور پر حبس شدہ آب و ہوا والے علاقوں میں ہوتے ہیں ۔دنیا میں زیادہ تر لوبان عمان، ارٹیریا ، صومالیہ، سوڈان ، یمن ، آسام ، ایتھوپیا اور جزیرہ مڈغاسکر میں پایا جاتا ہے۔ عمان کے علاقے ظفار میں پایا جانے والا لوبان ''ہوجاری‘‘ اس وقت دنیا کا مہنگا ترین لوبان ہے۔ اس کے جوہر کی فی کلو قیمت 600 پاؤنڈ (دولاکھ پاکستانی روپے)سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔لوبان کے خالص گوند کی قیمت جو گرامز کے حساب سے بکتی ہے وہ لاکھوں روپے تک جاتی ہے۔ لوبان حاصل کرنے کیلئے اوائل موسم گرما ہی سے اس کے درختوں کو جا بجا کلہاڑی سے کٹ لگائے جاتے ہیں جس سے سفید یا ہلکے بھورے رنگ کے قطرے نیچے رکھے برتنوں میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں جب رس آنا بند ہو جاتا ہے تو اس رس کو اکٹھا کر کے سوکھنے کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں جو دس سے بارہ دنوں میں گوند کی ڈلیوں کی شکل میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔اس گوند کو لوبان کہا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر کچھ دن کے وقفے سے جاڑے کی آمد تک جاری رہتا ہے حتیٰ کہ اس درخت سے رس نکلنا بند ہوجاتا ہے۔ اس پودے کا پانچ سال تک رس کشید کیا جاتا ہے جبکہ اگلے پانچ سال تک اسیچھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر صحت مند درخت سے اوسطاً آٹھ سے دس کلو گرام تک گوند نکالی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے مطابق عمان چوتھی صدی قبل مسیح سے لوبان کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا جہاں سے ہزاروں اونٹ قافلوں کی شکل میں لوبان لے کر صحرائے عرب کے پار دوہزار کلومیٹر کا طویل سفر طے کر کے مصر ، بابل ، قدیم یونان اور سلطنت روم پہنچتے تھے۔اس کے علاوہ خوشبودار گوند سے لدے بحری جہاز چین اور دیگر ممالک روانہ کرنے کے شواہد بھی ملتے ہیں۔قدیم دور میں لوبان کا استعمال گئے زمانوں میں گھروں کو معطر اور خوشبودار رکھنے کیلئے لوبان کا بخور ( لوبان جلا کر خوشبودار دھواں)کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ گھروں میں مکھی مچھر اور کیڑے مکوڑوں کو بھگانے کیلئے اس کی دھونی دی جاتی تھی۔ اگرچہ شروع شروع میں لوبان سے کشیدہ تیل ، پٹھوں کی مضبوطی اور زخموں کے علاج کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس سے موسمی بخار سے لے کر رسولی تک کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔یہ نہ صرف اپنے دور کی ''اسپرین‘‘ اور ''پنسیلین‘‘ تھی بلکہ یہ اپنے دور کا واحد'' اینٹی بائیوٹک‘‘ تھا جس میں بے شمار بیماریوں کا علاج پنہاں تھا۔ گویا لوبان کی گوند اپنے دور میں ہر مرض کا علاج تھی۔ لوبان اور جدید تحقیق ماضی کے طبی نتائج کو دیکھ کر عالمی سطح پر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لوبان کی گوند سے گٹھیا، دمہ، ذہنی اور جلدی امراض کے ساتھ ساتھ کینسر سمیت متعدد بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی کے سکول آف بایو سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر احمد علی کینسر سے لے کر چہرے کی جھریوں تک کیلئے لوبان سے ادویات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈاکٹر احمد کی اس تحقیق کے شریک پروفیسر رچرڈ کلارکسن کہتے ہیں وہ پر امید ہیں کہ وہ لوبان سے کینسر جیسے مہلک مرض کی ادویات بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔پروفیسر رچرڈ کا کہنا ہے کہ اس وقت لیبارٹریوں میں سب سے زیادہ کام ایسی چیزوں کی تلاش پر ہو رہا ہے جو صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے خلیوں کو نشانہ بنا کر انہیں تلف کریں۔ اس کیلئے ان کی نظریں لوبان اور ''مر‘‘ نامی پودے پر ہیں کیونکہ ان کی ابتدائی تحقیق کے مطابق ''مر‘‘ کا عرق صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے خلیات کو نشانہ بنانے کی اور لوبان کا عرق کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ ابیرسٹویتھ یونیورسٹی میں طبی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر ریچل کا کہنا ہے کہ لوبان کا استعمال ماضی میں کسی ایک چیز کیلئے نہیں بلکہ اسے متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔ یونانی فوج کے ایک معالج پیڈینئیس نے لوبان کو ایک عجیب و غریب دوا قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ گوند السر کے کھوکھلے پن کو بھر سکتی ہے حتیٰ کہ زخموں کو آپس میں جوڑ بھی سکتی ہے۔طبی علم کے بارے میں قدیم مصر کی سب سے اہم دستاویز '' ایبیرز پی پیرس‘‘ میں لوبان کو دیگر امراض مثلاً دمہ ، خون بہنے،گلے کے انفیکشن اور الٹی سمیت متعدد بیماریوں کا علاج قرار دیا گیا تھا۔  

سیاحت وسیلہ زر!

سیاحت وسیلہ زر!

چینی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی قومی ہفتہ تعطیل ''گولڈن ویک‘‘ میں یکم تاسات اکتوبر کے دوران ساڑھے اکیس ملین لوگ بیجنگ کی سیر کو آئے۔ اس طرح اندازاً پونے چار بلین امریکی ڈالر کمائی ہوئی۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ ساڑھے چار ملین سیاح دیہی علاقے دیکھنے گئے۔اس طرح کی خبریں پڑھ کر دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ افسردگی اس بات کی ہم وہ لوگ ہیں جو کسی طور روزی روٹی کمانے کا ڈھنگ نہیں جانتے۔ حالانکہ دنیا میں عجیب کام ہوا ہے۔ ہر وقت کماتے رہنے والوں کو چھٹی اور فراغت دے کر بھی کمائی کی جاتی ہے۔ سیاحتی صنعت اسی فراغت کے سہارے کھڑی ہے۔ لیکن سہارا دینے یا لینے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ سیاحت کی صنعت کا سادہ سا اصول ہے کہ ملک ''قابلِ مشاہدہ‘‘ ہونا چاہیے۔ ہم لوگ تو شاید''قابلِ توجہ‘‘ بھی نہیں رہے۔ ہم چین سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ چینی محنت اور عزم کی تعریف کر کر کے تھک جاتے ہیں مگر خود محنت کے قریب بھی نہیں جاتے۔ اگر کسی طالب علم سے پاکستان کے سیاحتی مقامات اور دل فریب نظاروں پر مضمون لکھنے کو کہا جائے تو ایسے ایسے مقامات اور علاقے فہرست میں شامل ہوں گے کہ لگے گا جس نے وطن عزیز نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ثقافتی تنوع اور دلکش مقامات کی بہتات کے باوجود پاکستان میں ملکی اور غیرملکی سیاحت کا فروغ کیوں نہیں ہو سکا۔ آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اگر ہم چینی سیاحتی صنعت کی ترقی کا تجزیہ کریں تو کچھ اہم اسباب سامنے آتے ہیں، جن کی مدد سے ہم اپنی ناکامی کے اسباب کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ چین کے عالمی اثر و رسوخ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس سے چینی کلچر کے بارے میں تجسس اور دلچسپی پیدا ہونا فطری بات ہے۔ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد چینی روایات، معاشرت، بود و باش، کھانوں اور فکر و نظریات سے آگہی کیلئے چین کا رخ کر رہی ہے۔ ہمیں ترقی اور اثر و رسوخ میں اضافہ تو مستقبل قریب میں کہیں نظر نہیں آتا البتہ ہم پسماندگی کی نمایاں مثال ضرور پیش کر سکتے ہیں۔ شاید کہ دوسرے لوگ ہمیں عبرت حاصل کرنے کیلئے دیکھا کریں۔دوسری چیز چین میں وسیع پیمانے پر مڈل کلاس کا ظہور ہے۔ مڈل کلاس نے مقامی اور بین الاقوامی سفر و سیاحت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ خریداری اور خرچ میں مڈل کلاس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مڈل کلاس کی موجودگی سے صارفانہ اور تفریحی رجحانات پیدا ہوتے ہیں اور سیر و سیاحت، آرام و سکون اور فراغت بلند معیار زندگی کے اشاریے بن جاتے ہیں۔ ہماری معاشی پالیسیاں ایسی ہیں کہ مڈل کلاس بے چاری سفید پوش سے کفن پوش ہونے کو ہے۔ اس لیے ملکی سیاحت سکول اور کالج کے مری ٹرپس تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی۔ کسان اور کاشت کار بھی اسی مڈل کلاس کا ایک حصہ ہیں۔ نقد آور فصلوں کے نرخ ایسے غیر منصفانہ ہو گئے ہیں کہ پہلے جو کسان گندم اور کپاس بیچ کر لبرٹی مارکیٹ اور مکی مارکیٹ کا رخ کیا کرتے تھے اب وہ اپنی اپنی فصلیں محفوظ کرنے میں مصروف ہیں اور امید یہ ہے کہ شاید فصلوں کا ریٹ بڑھ جائے اور کچھ ہاتھ آ جائے۔تیسری بات یہ ہے کہ محض مڈل کلاس کے موجود ہونے سے بھی کچھ نہیں ہوتا جب تک انفراسٹرکچر ہی نہ ہو۔ اس میں ٹرانسپورٹ، رہائش، مواصلات اور دیگر ''دلکشیاں‘‘ شامل ہیں۔ سیاحت اب کوئی عام صنعت نہیں رہی بلکہ سٹریٹجک انڈسٹری بن چکی ہے۔ یہ ترقی کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں، کاروباری ادارے اور عوام سبھی کا حصہ ڈالنا ضروری ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ چین میں سیاحتی صنعت انتہائی ترقی یافتہ ہے اس لیے وہاں لاکھوں سیاح اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ بلکہ وہاں بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مثلاً اگرچہ چین میں سیاحتی مقامات کے تنوع میں اضافہ ہونا ابھی باقی ہے اور کچھ علاقوں میں جدید سفری سہولتوں کی فراہمی پر بھی کام ہو رہا ہے تاہم ان کمزوریوں کے باوجود چینی حکومت کا عزم اور سیاحت کے فروغ کی حکمت عملی قابل تعریف ہے۔ کیونکہ حکومت سیاحتی صنعت اور ہوٹل انڈسٹری کو نئے اور جدید انداز میں فروغ دے رہی ہے، جہاں مستقبل میں مزید دلچسپ تفریحی سرگرمیوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ حکومت کی جانب سے سیاحتی صنعت کی پروموشن اور مارکیٹنگ ہی ہے کہ جس کے باعث ہر سال لاکھوں مقامی اور غیر ملکی سیاح چین کی خوبصورتی اور رنگینی سے لطف کشید کرنے چلے آ تے ہیں۔ سیاحتی صنعت دراصل سیاحتی وسائل، سیاحتی سہولیات اور سیاحتی خدمات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جب سیاحتی مقامات تک رسائی کیلئے سہولیات ہی موجود نہ ہوں اور سیاحوں کے اطمینان کیلئے سروسز کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو تو پھر ایسے ملک میں مہم جوئی ہی ہو سکتی ہے سیاحت ممکن نہیں۔ پرانے وقتوں میں کہتے تھے کہ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ وہ تو ہے لیکن آج سیاحت وسیلہ زر بھی ہے۔ تو کیا ہمیں ''زر‘‘ نہیں چاہیے؟ 

آج کا دن

آج کا دن

ہوائی جہاز میں دھماکہ12 اکتوبر 1967ء کوسائپرس ائیرویز کی پرواز نمبر284 کونکوسیا بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایک خوفناک حادثہ پیش آیا۔دوران پرواز جہاز کے کیبن میں دھماکے سے جہاز میں آگ لگ گئی اورطیارہ بحرہ روم میں گر کر تباہ ہو گیا اور اس میں سوار تمام66مسافر اور عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے۔جہاز کا ملبہ اور ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو سمندر سے تلاش کرنے کے بعد باہر نکال لیا گیا۔ تحقیقا ت میں یہ ایک تھیوری پیش کی گئی کہ ہو سکتا ہے جہاز دوران پرواز کسی فوجی جہاز سے ٹکرایا ہو لیکن کئی عوامل کا جائزہ لینے کے بعد اس تھیوری کو رد کر دیا گیا۔ہیرا کلیون زلزلہ12اکتوبر1856ء کو ہیرا کلیون کا زلزلہ جسے کریٹ کا زلزلہ بھی کہا جاتا ہے ایک تباہ کن زلزلہ تھا۔ اس کی گہرائی کا اندازہ 61 سے 100کلومیٹر لگایا گیا جبکہ اس کی شدت 7.7سے8.3ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے کے جھٹکے بہت وسیع علاقے میں محسوس کئے گئے جس میں سسلی،اٹلی اور شمالی افریقہ بھی شامل ہے۔یونانی جزیرے کریٹ میں اس کے تباہ کن اثرات سامنے آئے اور ہیراکلیون شہر سے 500سے زائد لاشیں نکالی گئیں۔شدید جھٹکوں کی وجہ سے مالٹا میں گجن حدید ٹاور گر کر تباہ ہو گیاجو1638ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔کولمبس ڈے12اکتوبرکو امریکہ کے بیشتر حصوں میں ''کولمبس ڈے ‘‘جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور اس دن ریاستہائے متحدہ امریکہ میں وفاقی تعطیل بھی ہوتی ہے۔یہ دن سرکاری طور پر12اکتوبر1492ء کو کرسٹو فر کولمبس کی امریکہ آمد کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ کرسٹوفر کولمبس جینوویس میں پیدا ہونے والا ایکسپلورر تھا۔ کولمبس کا ہسپانوی بحری جہاز سانتا ماریا، نینا اور لا پنٹا پر نئی دنیا کا پہلا سفر تقریباً تین ماہ کا تھا۔ کولمبس اور اس کے عملے کی نئی دنیا میں آمد نے اسپین کے ذریعے امریکہ کی نوآبادیات کا آغاز کیا، اس کے بعد آنے والی صدیوں میں دیگر یورپی طاقتوں نے اسے آباد کیا۔پیروٹرک حادثہپیرو میں ایک کارگو ٹرک جس میں 14بچے سمیت51افراد سوار تھے ،200میٹر اونچی چٹان سے گر گیااور اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے۔یہ حادثہ 12 اکتوبر 2013ء کو پیش آیا اور اسے پیرو کی تاریخ میں مہلک ترین حادثوں میںشما ر کیا جاتا ہے۔حکام کے مطابق ٹرک جسے عارضی بس کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، سانتا ٹریسا ضلع میں ایک جشن کیلئے جا رہا تھا، اسی دوران ڈرائیور کا اس پر کنٹرول نہیں رہا اور ٹرک بے قابو ہوتے ہوئے چٹان سے دریائے چوپیمایو میں جا گرا۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک تقابل ادیان کے ماہر عظیم اسلامی سکالر

ڈاکٹر ذاکر نائیک تقابل ادیان کے ماہر عظیم اسلامی سکالر

ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مبلغ ، اسلامی سکالر تو ہیں ہی لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ادیان کے تقابلی جائزے کے ماہر کی حیثیت سے بھی مسلمہ مانی جاتی ہے۔ بنیادی طور پران کے خاندان کے بیشتر افراد ایلوپیتھی ڈاکٹر ہیں۔ ذاکر نائیک 1965ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1991ء تک شعبہ طب سے وابستہ رہے۔ ٹرننگ پوائنٹ: طب سے تبلیغ تک بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ذاکر نائیک کی زندگی میں مذہبی تبدیلی کے سفر کا ''ٹرننگ پوائنٹ‘‘ 1991ء میں پاکستان کے دورے کے بعد آیا۔ وہ روحانی طور پر پاکستانی مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد سے حد درجہ متاثر تھے اور اکثر کہا کرتے تھے ''ڈاکٹر اسرار احمد اردو بولنے والے مذہبی داعیوں میں سب سے اعلیٰ مقام پر ہیں‘‘۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی کی جدو جہد کو سمجھنے کیلئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر اپنی زندگی پر مبنی وڈیوز کی ایک سیریز ''ذاکر نائیک بائیو گرافی:میری زندگی میری کہانی‘‘ کے نام سے بنا رکھی ہے۔ ایسی ہی ایک وڈیو میں وہ کہتے ہیں، ''1991ء میں، میں جب پاکستان گیا تو وہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو ملنے گیا تو دوران گفتگو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میرا ایم بی بی ایس ختم ہو گیا ہے، اب میں میڈیکل پریکٹس کے ساتھ دعوت اسلامی پر بھی کام کروں گا‘‘۔ بقول ذاکر نائیک ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے کہا، آپ کو میڈیکل اور داعی بننے میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کرنا ہو گا کیونکہ اس طرح آپ بیک وقت دونوں شعبوں کے ساتھ صحیح انصاف نہیں کر سکیں گے۔ ڈاکٹر اسرار خود بھی میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ بقول ذاکر نائیک، انڈیا واپسی پر میں سارا راستہ اپنے مستقبل بارے سوچتا آیا، گھر پہنچ کر والد صاحب سے مشورہ کیا کہ میں دو گھنٹے دعوت اسلامی کیلئے وقف کرنا چاہتا ہوں،باقی وقت میں میڈیکل پریکٹس کروں گا، والد صاحب نے بخوشی اجازت دے دی۔ اگلے ہی روز میں نے والد صاحب سے پانچ ہزار روپے لے کر ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے کر وہاں سے ''اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد میں نے والد صاحب کو کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اب نصف یوم میڈیکل کو اور باقی وقت دعوت اسلامی کو دینا چاہیے، جس پر والد صاحب نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اب رفتہ رفتہ مجھے ڈاکٹر اسرار احمد کی بات یاد آنے لگی کہ ایک وقت میں ایک کام کے ساتھ ہی انصاف کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جب میں نے والد صاحب کو اپنا مکمل وقت دعوت اسلامی کو دینے کے ارادے سے مطلع کیا تو انہوں نے مجھے بخوشی اس کی اجازت دے دی ‘‘۔تعلیمات اور اعزازاتذاکر نائیک کہتے ہیں وہ دعوت اسلامی کی تبلیغ کیلئے عظیم اسلامی مبلغ و محقق احمد دیدات سے بہت متاثر ہیں۔ جن سے ان کی پہلی ملاقات 1987ء میں ہوئی تھی۔ 2006ء میں احمد دیدات نے ''دیدات پلس‘‘ کے لقب سے نوازا۔ ذاکر نائیک اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ بارے کہتے ہیں، یکم اپریل 2000ء کو ان کا معروف امریکی مسیحی سکالر ولیم کیمبل کے ساتھ کئی گھنٹے طویل مناظرہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ جس کا عنوان ''قرآن اور بائبل سائنس کی روشنی میں‘‘ تھا۔ یہ مناظرہ براہ راست ایک امریکی ٹیلی وژن پر دکھایا گیا، جس کے اختتام پر دنیا بھر سے فوری طور پر 34 ہزار لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس مناظرے کے بعد انہیں عالمی طور پر تقابل ادیان کا ماہر سمجھا جانے لگا اور دنیا بھر کی حکومتوں اور تنظیموں نے انہیں اپنے اپنے ملکوں میں خطاب کی دعوت دینا شروع کر دی۔یہی وہ دور تھا جب بھارتی انتہا پسند ہندوئوں نے انہیں نشانے پر لینا شروع کردیا کیونکہ بڑی تیزی سے ہندو مشرف با اسلام ہونا شروع ہو چکے تھے۔21 جنوری 2006ء بھارت کے سب سے بڑے ہندی عالم روی شنکر کے ساتھ ان کا مناظرہ ''اسلام میں تصورء خدا اور ہندو مذہب‘‘ کے عنوان سے ہوا، جسے انہوں نے تھوڑی ہی دیر میں خاموش کرا دیا۔اس مناظرے کے بعد متعدد ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔2007ء میں انہوں نے بمبئی میں 10 روزہ ''امن کانفرنس‘‘کا اہتمام کیا جس کے اختتام پر انگنت ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔جس نے انتہا پسند ہندو سماج کو ہلا کر رکھ دیا۔ہندو ذہنیت نے ذاکر نائیک کے اجتماعات پر پابندی لگوائی تو انہوں نے دعوت اسلامی کیلئے ''پیس‘‘ ٹی وی چینل کا آغاز کیا اور اپنے خطابات کو پیس ٹی وی،انٹرنیٹ ، تحریروں اور غیر ملکی دوروں کے ذریعے جاری رکھا۔2011ء سے 2014ء تک امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے انہیں دنیا کی 500 بااثر ترین شخصیات میں مسلسل شامل رکھا۔ 2013ء کو متحدہ عرب امارات کی حکومت نے انہیں ''بین الاقوامی قرآن ایوارڈ‘‘ اور ساڑھے سات لاکھ درہم انعام سے نوازا۔ اسی سال ملائشیا کے بادشاہ نے بھی انہیں ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا۔ 2014ء کو شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے انہیں ''شارجہ ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔ 2014ء میںگیمبیا کی حکومت نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ اس سے پہلے دعوت دین کی خدمات کے صلے میں مصر یونیورسٹی بھی انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نواز چکی تھی۔ 25 مارچ 2015ء سعودی فرماں روا شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے انہیں مسلم دنیا کا سب سے بڑا تمغہ ''شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ بمع ساڑھے سات لاکھ ریا ل سے نوازا۔ ہجرت کے اسباب انتہا پسندہندوئوں نے ان پر منی لانڈرنگ سے لے کر نوجوانوں کو ''شدت پسندی‘‘ پر اکسانا جیسے الزامات عائد کرکے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرا دیئے۔ ان حالات کے پیش نظر 2016ء میں ذاکر نائیک کو 20 ممالک نے اپنے ہاں رہائش کی دعوت دی لیکن ذاکر نائیک نے اسلام پسندی اور ملائشیا کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر ملائشیا میں منتقل ہونے کو ترجیح دی۔ بھارت نے متعدد بار انٹرپول کے ذریعے ذاکر نائیک کی حوالگی کی درخواستیں بھی دی ہیں لیکن انٹرپول ہر مرتبہ ان ثبوتوں کو بے بنیاد قرار دے کر ان درخواستوں کو مسترد کر دیتا ہے۔