خصوصی بچے اور ان کے مسائل
کہیں پڑھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایمان کے بعد سب سے بڑی جو نعمت انسان کو عطا کی ہے، وہ صحت ہے، لیکن ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور جب قدر آتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی صحت ہمارے پاس ایک بہت بڑی نعمت ہے، جس کی ہمیں بھرپور قدر کرنی چاہیے۔ یہ حقیقت اس وقت مزید واضح ہوتی ہے جب ہم اپنے ارد گرد ان بچوں کو دیکھتے ہیں جو کسی پیدائشی نقص یا حادثے کی بنا پر ذہنی یا جسمانی طور پر محدود ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے اپنی محرومیوں کی وجہ سے معاشرے میں باآسانی گھل مل نہیں پاتے اور ان کے والدین بھی انہیں عام بچوں کے ساتھ باہر لے جانے یا ان کے سامنے پیش کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ بچے ''سپیشل‘‘ کہلاتے ہیں، کیونکہ ان کی صلاحیتیں دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں معاشرے میں ایک خاص توجہ اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کے حوالے سے آگاہی بہت محدود ہے، حتیٰ کہ اکثر والدین کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ان بچوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کس طرح کرنی ہے۔
پاکستان میں جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار افراد کی تعداد قابلِ ذکر ہے، جن میں بچے اور بڑے دونوں شامل ہیں۔ وہ بچے جو پیدائشی طور پر یا کسی حادثے کے نتیجے میں اپنی جسمانی یا ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہو گئے ہوں، انہیں ''ڈسیبل‘‘ کہنے کی بجائے ''سپیشل‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ یہ بچے اللہ تعالیٰ کی خاص تخلیق ہیں اور ان میں ایسی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جو انہیں معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں، اگر ہم انہیں مناسب توجہ اور تربیت فراہم کریں۔ یہ بچے اللہ کی نعمت ہیں، اور ہماری ذمہ داری ہے کہ انہیں معاشرتی سطح پر قبولیت اور شمولیت کا حق دیا جائے۔
معذوری کے شکار بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے ملک میں کچھ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے موجود ہیں، مگر ان کی تعداد ناکافی ہے۔ سرکاری سطح پر کچھ اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے خصوصی تعلیمی ادارے اور تربیتی مراکز، جہاں معذور بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ کچھ سکولوں میں انکلوسیو کلاس رومز بھی متعارف کروائے گئے ہیں، جہاں سپیشل اور عام بچے مل کر تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ یہ بچے معاشرتی تنہائی سے بچ سکیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ نجی سطح پر بھی کچھ اچھے ادارے موجود ہیں، جو ان بچوں کی بحالی کیلئے خدمات فراہم کر رہے ہیں، لیکن اس بارے میں آگاہی کا فقدان ان اقدامات کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ ہے۔
بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کے حوالے سے آگاہی کی کمی ہے۔ ان کے والدین اور ارد گرد کے لوگ انہیں قبول نہیں کرتے اور اکثر انہیں معاشرے سے دور رکھتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں ''پاگل‘‘ سمجھا جاتا ہے اور ان کے باقی بہن بھائیوں سے بھی علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ والدین ان بچوں کو باہر لے جانے سے گریز کرتے ہیں، انہیں بوجھ اور خدا کی طرف سے سزا تصور کرتے ہیں، جس کے باعث یہ بچے معاشرتی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی محرومی کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں اور ان کے والدین کو نہ صرف ہمدردی کی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی سطح پر قبولیت اور شمولیت کا بھی حق دیا جانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ ایسے بچے کسی ''بوجھ‘‘ یا ''سزا‘‘ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کی ایک خصوصی تخلیق ہیں جنہیں ہماری مدد اور حمایت کی ضرورت ہے۔ ایسے بچوں کے والدین کو بھی چاہیے کہ وہ انہیں معاشرے سے الگ نہ کریں بلکہ ان کی طاقت اور صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں بھرپور توجہ دے کر اس قابل بنائیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔
حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سپیشل افراد کے لیے ''ہمت کارڈ‘‘ منصوبے کا افتتاح کیا اور پاکستان کے پہلے سرکاری آٹزم سکول کا سنگ بنیاد رکھا، جو خصوصی بچوں کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔ اس حوالے سے میرا مشاہدہ یہ ہے کہ خواتین کے لیے خواتین سٹاف کا ہونا ضروری ہے۔ ایسے مقامات جہاں فیمیل اسپیشل چلڈرن موجود ہوں، وہاں سٹاف بھی فیمیل ہونا چاہیے تاکہ ان بچوں کو مناسب توجہ اور اعتماد فراہم کیا جا سکے۔