یورپ اور امریکہ نے سموگ پر قابو کیسے پایا؟
ایک وقت تھا جب لاہور اپنے خوبصورت باغات تازہ ہوا اور ادبی ماحول کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا جبکہ آج یہی لاہور اس سیارے کا سب سے گرد آلود شہر بن چکا ہے۔ اس کے حسین اور دلکش فضا گرد و غبار کی ایک دبیز تہہ تلے دبی ہوئی ہے اور زہریلی گیسوں کی ایسی چادر تنی ہے جس نے اس خوبصورت ماحول کو اپنے اندر چھپا لیا ہے۔ کبھی یہ خوبصورتی اور ذہانت کا منبع تھا اور آج یہ خطرناک گیسوں کی آماجگاہ ہے۔ جو انسانی زندگی کیلئے سخت نقصاندہ ہیں۔ اس کے شہریوں کی آنکھوں سے وقت بے وقت آنسو نکالنے کا باعث ہے اور پھیپھڑے ایسا دباؤ محسوس کرتے ہیں جیسے گویا ابھی پھٹ پڑیں گے۔
یہ عظیم مغلوں کا لاہور نہیں ہے جو شاعروں فنکاروں اور خوبصورت لوگوں کا شہر کہلایا جاتا تھا ۔ آج ایک ایسے موسم کا شکار ہے جسے سموگ کہا جاتا ہے۔ جس میں دھواں، گرد و غبار اور زہریلی فضا ہے جو دھیرے دھیرے صرف لاہور کو نہیں بلکہ پورے پنجاب بلکہ خیبر پختون خواہ تک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔دنیا اس سے کئی دہائیاں پہلے ہی بڑی ہمت سے جنگ جیت چکی ہے۔ لندن سمیت دنیا کے مختلف ممالک نے گزشتہ 50، 60 سالوں میں اسی سموگ اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے بہت زیادہ اقدامات کیے ہیں۔
لندن 1952ء میں ایک ایسی ہی صورتحال سے دوچار تھا۔ لندن کوسموگ کا سامنا ہوا جسے ''دی گریٹ سموگ آف لندن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے تقریباً چار ہزار سے 12 ہزار افراد موت کا شکار ہوئے۔ برطانوی حکومت نے فوری طور پر سخت قوانین نافذ کیے جن میں کلین ایئر ایکٹ شامل ہے۔ حکومت برطانیہ نے گرین ٹیکنالوجیز جیسے کم ایندھن کے استعمال اور ٹرانسپورٹیشن کے بہتر انتظامات پر بھی توجہ دی۔جو اقدامات لندن میں اٹھائے گئے اگر ہم لاہور میںیا ایسے تمام شہروں میں نافذکر دیں تو خاطر خواہ نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
اسی طرح امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں بھی 1940ء کی دہائی میں شدید سموگ کا سامنا تھا۔ اس پر قابو پانے کیلئے امریکہ نے 1963ء میں پہلا کلین ایئر ایکٹ منظور کیا۔ 1967ء میں سخت معیارات اور قوانین متعارف کرائے۔
جاپان جب صنعتی ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے تھا تو اس نے شدید فضائی آلودگی کا سامنا کیامگر وہ بھی چند اقدامات کر کے ان حالات سے نکل آیا۔ اسی طرح جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک نے 1970ء کی دہائی میں صنعتی فضلہ، دھواں اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر سخت قوانین بنائے اور سموگ کا خاتمہ کیا۔ چین میں گزشتہ چند دہائیوں میں بیجنگ کو شدید سموگ کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کیلئے انہوں کچھ خاص اقامات اٹھا کر شہر کی فضاء کو صاف کیا۔
اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان اقدامات سے دنیا کے مختلف ممالک سموگ اور فضائی آلودگی پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکے ۔ ابھی تک ہم غور ہی کر رہے ہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کرتے ہیں سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کر دیتے ہیں۔ ہمیں بھی سخت ترین قوانین نافذ کرنے ہوں گے، پھر ان پہ عمل بھی کروانا ہوگا، صنعتی ترقی کے دوران ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں کو اپنانا ہوگا اور اس پر بہت سختی سے عمل کرنا ہوگا۔
ماہرین کے مطابق اگر ہم نے ابھی اس پہ قابو نہ پایا تو آگے اتنے حالات خراب ہو سکتے ہیں جس پر قابو پانے کیلیے شاید ہم کچھ بھی نہ کر سکیں۔ ہمیں ایمرجنسی بنیادوں پر لندن، امریکہ بیجنگ کے ماڈلز کو اپنانا ہوگا تاکہ آئندہ چند برسوں میں اس خوفناک آلودگی کے طوفان سے نبرد ازما ہو سکیں۔ سیاسی معاملات اپنی جگہ پہ لیکن انسانی زندگی بہت اہم ہے۔ سیاست ہوتی رہتی ہے دیگر معاملات بھی چلتے رہتے ہیں لیکن ایک زندگی بھی ختم ہو جائے وہ پھر کبھی واپس نہیں آسکتی۔ حکومتوں کو بہت اخلاص کے ساتھ پالیسیاں بنانا ہوں گی اور ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھی عوام میں سے ایک ہیں۔
''دی گریٹ سموگ آف لندن‘‘
وجہ
٭...صنعتی آلودگی اور گھروں میں کوئلہ جلانے کا رجحان
اقدامات
٭...برطانیہ نے فوری طور پر '' کلین ایئر ایکٹ‘‘ نافذکیا ۔
٭...کوئلے کی بجائے دیگر ایندھن کے استعمال پر زور دیا گیا۔
٭... سموگ پیدا کرنے والے تمام صنعتی پلانٹس کو شہروں سے باہر منتقل کر دیا گیا۔
چین کے اقدامات
٭... چین نے پرانے کوئلے کے پلانٹس کو بند کر دیا اور نئے پلانٹس کیلئے سخت ترین معیارات مقرر کیے۔
٭... الیکٹرک وہیکلز کی حوصلہ افزائی کی اور ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کو محدود کر دیا۔
امریکی اقدامات
وجہ
کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے سموگ پیدا ہوئی۔
اقدامات
٭...1963ء میں ''کلین ایئر ایکٹ‘‘ منظور کیا،گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں پر قابو پانے کیلئے قوانین بنائے گئے۔
٭...کیلیفورنیا ایئر ریسورس بورڈ قائم کیا گیا۔
٭...اور شہریوں کو گاڑیوں کا استعمال کم کرنے کی ترغیب دی گئی۔
جاپان کی کاوشیں
وجہ
جاپان کی صنعتی ترقی کی دوڑنے ٹوکیو اور اوسا کا میں خوفناک سموگ اور فضائی آلودگی نے تباہی پھیلائی۔
اقدامات
٭... 1968ء میں قوانین بنائے اور صنعتی فضلہ کم کرنے کیلئے کارخانوں میں کوئلے اور ایندھن کا استعمال محدود کیا اور گرین توانائی کی طرف توجہ دی۔
یورپی ممالک کے اقدامات
٭...جرمنی، نیدرلینڈ اور دیگر یورپی ممالک نے 1970ء کی دہائی میں صنعتی فضلہ، دھواں اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر سخت قوانین بنائے۔
٭...فیکٹریوں میں فلٹرز اور بہتر ٹیکنالوجیز استعمال کی گئیں۔
٭... گرین انرجی سورسز کا استعمال اس حوالے سے بہت اہم اقدام تھا۔
٭... کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے ہوا پانی اور سورج کی توانائی کے ذرائع کو اپنایا گیا۔