لندن کی آتشزدگی خوفناک
جوہن فرائزر شاہی باورچی تھا، وہ پانچ سال سے لندن میں کنگ چارلس دوم کیلئے خدمات انجام دے رہا تھا۔ اپنے کام میں وہ خاصی مہارت رکھتا تھا اور دور و نزدیک اس کی شہرت تھی۔ 1666ء کی ایک شام سارے دن کے تھکا دینے والے کام کے بعد فرائزر سونے کیلئے چلا گیا۔ یہ علاقہ'' پڈنگ لین‘‘ کہلاتا تھا۔ اس کی خواب گاہ باورچی خانے کے اوپر واقع تھی۔ اس نے خواب گاہ میں جا کر موم بتی بجھائی اور ٹانگیں پسار کر خراٹے لینے لگا ۔وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ نیچے بیکری میں ایک تنور کے اندر ابھی تک ایک شعلہ بھڑک رہا تھا۔ شعلہ بھڑکتا گیا اور 2ستمبر1666ء کو صبح دو بجے اس خوفناک آتشزدگی کا آغاز ہو گیا جو بعدازاں تاریخ کے اوراق میں ''لندن کی عظیم آتشزدگی‘‘ کے نام سے یاد کی گئی۔ بیکری میں بھڑکنے والے شعلے باورچی خانے تک پھیل گئے جہاں خشک گھاس کا بڑا ذخیرہ پڑا ہوا تھا۔ فوراً ہی اس ذخیرے نے آگ پکڑ لی اور شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔
پڈنگ لین کا علاقہ لندن کے ایک گنجان آباد حصے میں واقع تھا۔ ذرا سی دیر میں آگ کی خبر ہر طرف پھیل گئی اور لوگ سیکڑوں کی تعداد میں آگ کا نظارہ کرنے کیلئے گلیوں میں نکل آئے۔ اس دور میں لندن کے زیادہ تر مکانات کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں آئے دن آتشزدگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ بڑے اطمینان سے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو دیکھ رہے تھے۔ ان کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔
آگ کے روز افزوں واقعات کے پیش نظر ایک سال پہلے ہی کنگ چارلس نے شہر کے '' لارڈ میئر‘‘ کو آتشزدگی کے ذمہ دار افراد کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا حکم دیا تھا۔ پڈنگ لین چونکہ اس سڑک کے قریب تھی جو لندن برج کی طرف جاتی تھی اس لئے شہر کے میئر تک یہ خبر صبح ہی صبح پہنچ گئی۔ جب وہ موقع پر پہنچا تو اس نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی خاص تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے خیال میں یہ آتشزدگی کا ایک معمولی واقعہ تھا اور اس پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا تھا۔ ایک سرکاری افسر سیمول پی پائز نے اپنی 2ستمبر کی ڈائری میں لکھا '' صبح سویرے تین بجے کے قریب مجھے ملازمہ نے جگا دیا۔ اس نے مجھے آگ کے بارے میں اطلاع دی۔ میں نے نائٹ گائون پہنا اور گھر کے پچھلی طرف کھلنے والی کھڑکی پر پہنچا، وہاں سے میں نے دیکھا کہ تقریباً چار فرلانگ کے فاصلے پر آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ آگ ''ٹارک لین‘‘ کے قریب و جوار میں کہیں لگی ہوئی ہے۔ میں واپس آیا اور دوبارہ بے فکری سے سو گیا۔ دوپہر سے ذرا پہلے پی پائز بیدار ہوا۔ اس نے دیکھا کہ آگ پہلے سے زیادہ پھیل چکی ہے۔ وہ ''وائٹ ہال‘‘ پہنچا اور وہاں سے متعلقہ افسروں کے ذریعے آگ کی خبر بادشاہ تک پہنچی۔ دوپہر تک بادشاہ کوآگ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھاکیونکہ اس روز اتوار تھا اور اتوار کے روز بادشاہ سلامت آرام فرمایا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے اگر یہ خبر بروقت بادشاہ تک پہنچ جاتی تو فوری اقدام کے ذریعے حکام آگ پر قابو پا لیتے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کا یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ آگ پر باآسانی قابو پایا جا سکے گا۔ اتوار کی شام تک آگ کے شعلے تیزی سے پھیلتے ہوئے دریائے ٹیمز تک پہنچ چکے تھے اس علاقے میں مکانوں کے اندر عمارتی لکڑی، برانڈی اور کوئلے کے بڑے بڑے ذخائر موجود تھے۔ اب یہ مکان یکے بعد دیگرے دھماکوں کے ساتھ آگ پکڑ رہے تھے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خشک اور تیز ہوا مشرق سے مغرب کی طرف چلنی شروع ہو گئی۔ اس ہوا کی وجہ سے آگ پر قابو پانے کی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہو گئیں اور آگ تیزی سے مغربی علاقوں کی طرف بڑھنے لگی۔
اتوار کے روز ایک موقع ایسا تھا جب آگ پر قابو پایا جا سکتا تھا لیکن اس قیمتی موقع کو فائر بریگیڈ کے عملے کی بدنیتی نے ضائع کر دیا۔ کچھ لالچی اہلکار شہریوں کے جلتے ہوئے مکانوں میں سے قیمتی اثاثے چوری کرنے میں مصروف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ آگ کا سلسلہ کچھ دیر اور جاری رہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اورآگ کو جان بوجھ کر پھیلنے کا موقع دیا۔آگ لمحہ بہ لمحہ پھیلتی چلی گئی۔ اتوار سے سوموار، سوموار سے منگل تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ خوفناک آگ لندن کے طول و عرض میں بدھ کے دن تک تباہی و بربادی پھیلاتی رہی۔ جب بدھ کی شام آگ کے شعلے سرد ہوئے تو اس وقت تک 13000مکانات جل کر خاکستر ہو چکے تھے۔ 80گرجا گھر راکھ کا ڈھیر بن چکے تھے اور 300ایکڑ سے زائد علاقہ جھلس کر سیاہ ہو گیا تھا۔ لندن برج پر واقع دکانوں نے بھی آگ پکڑ لی تھی۔ شعلے دریائے ٹیمز کے شمالی کنارے تک جا پہنچے تھے اور وہاں بھی جگہ جگہ آگ کی تباہ کاریوں کے آثار نظر آ رہے تھے۔''گلڈہال رائل ایکسچینج اور فنانشل سینٹر کی عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئی تھیں۔ پال کیتھڈرال کی عمارت میںآگ نے بہت زیادہ تباہی مچائی تھی۔عجائب گھر کے اندر پتھر کے نادر نمونے آگ کی حدت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ پرانے مقبروں کی چھتیں دھماکوں کے ساتھ اڑ گئیں اور ان کے اندر رکھی ہوئی مصری ممیاں نظر آنے لگیں۔ عمارت کی چھت جو سکے کی بنی ہوئی تھی، پگھل گئی اور پگھلا ہوا سکہ نواحی گلیوں میں بہہ نکلا۔
اس خوفناک آتشزدگی میں حیرت انگیز طور پر کوئی خاص جانی نقصان نہیں ہوا۔ صرف آٹھ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو سکی۔ شہریوں کے پاس اپنی جانیں بچا کر بھاگنے کیلئے کافی وقت تھا اور انہوں نے اس وقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا، شہر کی سڑکیں ٹریفک کے اژدھام سے جام ہو گئیں اور شہر کا مضافاتی علاقہ پناہ گزینوں کے ایک بہت بڑے کیمپ کی صورت اختیار کر گیا۔''پی پائز‘‘ بھی شہر چھوڑنے والے لوگوں میں شامل تھا۔ اس کا گھر بھی جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی ڈائری میں آگے جا کر لکھا ہے کہ شہر کے اندر تپش اس قدر زیادہ تھی کہ ہوا کا جھونکا بھی آگ کا شعلہ معلوم ہوتا تھا۔ چاروں طرف سے ظالم اور خونی شعلوں کی زبانیں بھاگتے ہوئے لوگوں کو چاٹنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ آسمان پر دھوئیں کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اگر کسی وقت سورج ان بادلوں کی اوٹ میں سے جھانکتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے اس نے اپنے چہرے پر خون مل رکھا ہو۔
بدھ کی رات تک آگ پر تقریباً قابو پا لیا گیا تھا۔ اس کامیابی میں بادشاہ کی کوششوں کا بھی کافی ہاتھ تھا۔ بادشاہ نے اس معاملے میں پوری سنجیدگی سے ذاتی توجہ دی۔ اس نے آگ بجھانے والے گروپوں کو حکم دیا کہ آگ کے پھیلائو کو روکنے کیلئے ارد گرد کی عمارتوں کو گرا دیا جائے۔ اس حکم پر آناً فاناً عمل کیا گیا اور یوں متاثرہ علاقے اور شہر کے باقی حصے کے درمیان ایک خلیج بنا دی گئی۔ اس راست اقدام کی وجہ سے آگ رک گئی اور لندن کے سہمے ہوئے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ آگ پر قابو پائے جانے کے بعد بھی کئی ہفتوں تک ملبہ سلگتا رہا اور لندن کی تنگ و تاریک جگہوں پر مہینوں بعد تک آگ بھڑکتی رہی۔
آگ بنی باعث رحمت... مگر کیسے!
فرائزر کی بیکری میں بھڑکنے والے اس شعلے نے کچھ بہتر نتائج بھی فراہم کئے۔
٭...وسط لندن کا بے ترتیب اور گنجان تعمیرات سے اٹا ہوا علاقہ ایک ہفتہ میں ہی چٹیل میدان بن گیا اور بعد میں اس کو منصوبہ بندی کے تحت بہتر انداز میں تعمیر کیا گیا۔
٭... آگ اور اس سے پیدا شدہ دھوئیں نے ایک جراثیم کش دوا کا کام کیا۔ شہر کے گھٹے ہوئے ماحول سے ان جراثیموں کا خاتمہ ہو گیا، جنہوں نے صرف ایک سال پہلے یعنی 1665ء میں لندن شہر کے اندر طاعون کی وباء پھیلا دی تھی اور چند دنوں میں ایک لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔