آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


امریکی پیٹنٹ آفس میں آتشزدگی
1836ء میں آج کے دن واشنگٹن، ڈی سی میں امریکی پیٹنٹ آفس کی عمارت تقریباً جل کر خاکستر ہو گئی، جس میں حکومت کی جانب سے اس وقت تک جاری کیے گئے تمام 9957 پیٹنٹ اور 7ہزار متعلقہ ماڈلز تباہ ہو گئے۔ امریکی پیٹنٹ آفس ایک وفاقی ایجنسی ہے جو اختراعات، ایجادات اور ٹریڈ مارکس کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ یہ آفس امریکہ کے محکمہ تجارت کے تحت کام کرتا ہے۔امریکی کانگریس نے پیٹنٹ سسٹم 1790ء میں قائم کیا اور پہلا امریکی پیٹنٹ 31 جولائی 1790ء کو جاری ہوا۔
پیسا ٹاور 11سال بعد دوبارہ کھولا گیا
15دسمبر 2001ء کو پیسا ٹاور کو مرمت کے بعد 11 سال بعد دوبارہ عوام کیلئے کھولا گیا۔ مینار کو مستحکم کرنے پر 2 کروڑ 70لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے، لیکن اس کے جھکاؤ کو درست نہیں کیا جا سکا۔ پیسا ٹاور، جسے ''لیننگ ٹاور آف پیسا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اٹلی میں واقع ایک تاریخی مینار ہے۔ یہ اپنی منفرد جھکی ہوئی ساخت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کی تعمیر 1173ء میں شروع ہوئی تھی۔ یہ اصل میں ایک گرجا گھر کے گھنٹی ٹاور کے طور پر بنایا گیا تھا۔
یو اے ای فضائی حادثہ
1997ء میں آج کے دن تاجکستان ایئرلائنز کی پرواز 3183 متحدہ عرب امارات میں شارجہ کے قریب صحرا میں گر کر تباہ ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں 85 افراد جاں بحق ہو گئے۔ معجزاتی طور پر مسافروں میں سے صرف ایک شخص زندہ بچ گیا۔ تفتیش کاروں نے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ کو قرار دیا، جس کی معمولی سی غلطی کے نتیجے میں طیارہ کنٹرول سے باہر ہو گیا اور زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔
خلائی مشن ''ونیرہ 7‘‘ کی زہرہ پر لینڈنگ
1970ء میں آج کے روز سوویت خلائی مشن ''ونیرہ 7‘‘ نے سیارہ زہرہ پر کامیابی کے ساتھ لینڈنگ کی۔ یہ کسی دوسرے سیارے پر پہلی کامیاب لینڈنگ تھی۔ یہ مشن سوویت خلائی ایجنسی کے ''ونیرہ پروگرام کا حصہ تھا، جو زہرہ کی خصوصیات کو سمجھنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ ''ونیرہ 7‘‘ کا مقصد سیارہ زہرہ کی فضائی خصوصیات، سطح کی بناوٹ اور موسمی حالات کا مطالعہ کرنا تھا۔ اس کی بھیجی گئی معلومات کے مطابق زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 475 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
15دسمبر :چائے کا عالمی دن

15دسمبر :چائے کا عالمی دن

ہر سال 15 دسمبر کو عالمی سطح پر چائے کا دن منایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کی توجہ چائے اگانے والے اور چائے کے کھیتوں میں کام کرنے والے کارکنان پر چائے کی تجارت سے ہونے والے اثرات پر مرکوز کرنا ہے۔ یہ دن زیادہ تر چائے کی پیداوار کرنے والے ممالک مثلاً بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، ویتنام، انڈونیشیا، کینیا، مالاوی، ملائیشیا، یوگنڈا، انڈیا اور تنزانیہ میں منایا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ زمانۂ قبل مسیح کا ایک چینی بادشاہ شین ننگ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اس کا ملازم اس کیلئے پینے کا پانی گرم کر کے لایا اور اچانک اس درخت سے کچھ پتّیاں اس کھولتے ہوئے پانی میں گریں اور پانی کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ بادشاہ جو ماہرِنباتات بھی تھا بہت حیران ہوا۔ اس نے وہ پانی پیا تو اسے فرحت اور تازگی محسوس ہوئی اور اس کے منہ سے ''چھا‘‘نکلا غالباًوہ حیران ہو گیا تھا کہ یہ کیا ہے؟ اور اس نے اس درخت کا نام ہی ''چھا‘‘ رکھ دیا جو بگڑ کر چاء ہو گیا اور اب چائے کہلاتا ہے۔ چائے اور اس کی انگریزی ''ٹی‘‘ (Tea) دونوں چینی زبان کے الفاظ ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چاء فارسی زبان کا لفظ ہے۔ پاکستان میں چائے کا استعمال جہاں اسے چائے کہا جاتا ہے، یہ نام اردو میں ہے۔ برِصغیر میں چائے کا استعمال ایک دوائی کے طور پر کیا جاتا تھا۔ پانی میں چائے کی پتیاں ابال کر قہوہ بنا کر اسے پیا جاتا تھا۔ یہ چائے کے پودے کی پتیوں کو چند منٹ گرم پانی میں ابالنے سے تیار ہوتی ہے۔ پھر اس میں ضرورت اور خواہش کے مطابق چینی اور دودھ ملاتے گئے۔ چائے میں کیفین کی موجودگی پینے والے کو تروتازہ کر دیتی ہے۔ چائے کے پودے کا اصل وطن مشرقی چین، جنوب مشرقی چین ، میانمار اور آسام ہیں۔ پاکستانی ثقافت میں اسے مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مشرق سے ہر قسم کی اجناس کی تجارت کی ذمہ دار تھی۔ اسے چائے کی پتی مہنگے داموں چین سے خریدنا پڑتی تھی اور وہاں سے لمبے سمندری راستے سے دنیا کے باقی حصوں کی ترسیل چائے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز شدت سے چاہتے تھے کہ خود اپنی نو آبادی ہندوستان میں چائے اگانا شروع کر دیں۔ اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب کمپنی نے رابرٹ فارچیون کو اس پرخطر جاسوسی مہم پر بھیجا تھا۔ اس مقصد کیلے اسے چین کے ان علاقوں تک جانا تھا جہاں شاید مارکوپولو کے بعد کسی یورپی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ فوجیان صوبے کے پہاڑوں میں سب سے عمدہ کالی چائے اگتی ہے۔ اس لیے اس نے اپنے گائیڈ کو وہیں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ سر منڈوانے، بالوں میں نقلی مینڈھی گوندھنے اور چینی تاجروں جیسا روپ دھارنے کے علاوہ فارچیون نے اپنا ایک چینی نام بھی رکھ لیا، سِنگ ہُوا یعنی شوخ پھول۔ فارچیون تربیت یافتہ ماہرِ نباتیات تھا۔ اور اس کے تجربے نے اسے بتا دیا تھا کہ چند پودوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ پودے اور ان کے بیج بڑے پیمانے پر سمگل کر کے ہندوستان لانا پڑیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اسے چینی مزدوروں کی بھی ضرورت تھی تاکہ وہ ہندوستان میں چائے کی صنعتی بنیادوں پر کاشت اور پیداوار میں مدد دے سکیں۔ فارچیون کی محنت رنگ لائی اور بالآخر وہ حکام سے آنکھ بچا کر چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھی ہندوستان سمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی نگرانی میں آسام کے علاقے میں یہ پودے اگانا شروع کر دیے۔چین سے سمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے۔ جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے خاصا پسند کرنا شروع کر دیا۔ چینی تو ہزاروں برس سے کھولتے پانی میں پتی ڈال کر پیا کرتے تھے مگر انگریزوں نے اس مشروب میں پہلے چینی اور بعد میں دودھ ڈالنا شروع کر دیا۔پاکستان میں چائے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مشروب ہے۔ پاکستان میں چائے کی پیداوار نہیں ہے لیکن یہ دنیا میں چائے کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے۔ بلا شبہ چائے پینے کا بھی اپنا ایک مزہ ہے۔کہتے ہیں کہ عام لوگ چائے نوش کرتے ہیں۔ مگر چائے کا راز جس کے روبرو کھل چکا ہے وہ چائے نوش نہیں کرتا بلکہ محسوس کرتا ہے۔ چائے کے کپ کو ہونٹوں سے پی کر معدے کی زینت بنانے والے لوگ اور ہوتے ہیں اور چائے کے کپ کو جذبات کے ہاتھ سے تھام کر ہونٹوں سے لگا کر چسکیاں لے لے کر روح میں اتارنے والے اور ہوتے ہیں۔ چائے پہ شاعریسگرٹیں چائے دھواں رات گئے تک بحثیںاور کوئی پھول سا آنچل کہیں نم ہوتا ہے(والی آسی)چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھییوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے(شاہین عباس)تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھیدل کا رنج تو دل میں رہا تھا(ناصر کاظمی)سویرے اْٹھ کے میں پہلے تو چائے لیتا ہوںپھر اْس کے بعد پرندوں سے رائے لیتا ہوں(شہزادقیس)عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جانِ جاناںٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائۓ٭٭٭

لندن کی  آتشزدگی خوفناک

لندن کی آتشزدگی خوفناک

جوہن فرائزر شاہی باورچی تھا، وہ پانچ سال سے لندن میں کنگ چارلس دوم کیلئے خدمات انجام دے رہا تھا۔ اپنے کام میں وہ خاصی مہارت رکھتا تھا اور دور و نزدیک اس کی شہرت تھی۔ 1666ء کی ایک شام سارے دن کے تھکا دینے والے کام کے بعد فرائزر سونے کیلئے چلا گیا۔ یہ علاقہ'' پڈنگ لین‘‘ کہلاتا تھا۔ اس کی خواب گاہ باورچی خانے کے اوپر واقع تھی۔ اس نے خواب گاہ میں جا کر موم بتی بجھائی اور ٹانگیں پسار کر خراٹے لینے لگا ۔وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ نیچے بیکری میں ایک تنور کے اندر ابھی تک ایک شعلہ بھڑک رہا تھا۔ شعلہ بھڑکتا گیا اور 2ستمبر1666ء کو صبح دو بجے اس خوفناک آتشزدگی کا آغاز ہو گیا جو بعدازاں تاریخ کے اوراق میں ''لندن کی عظیم آتشزدگی‘‘ کے نام سے یاد کی گئی۔ بیکری میں بھڑکنے والے شعلے باورچی خانے تک پھیل گئے جہاں خشک گھاس کا بڑا ذخیرہ پڑا ہوا تھا۔ فوراً ہی اس ذخیرے نے آگ پکڑ لی اور شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔پڈنگ لین کا علاقہ لندن کے ایک گنجان آباد حصے میں واقع تھا۔ ذرا سی دیر میں آگ کی خبر ہر طرف پھیل گئی اور لوگ سیکڑوں کی تعداد میں آگ کا نظارہ کرنے کیلئے گلیوں میں نکل آئے۔ اس دور میں لندن کے زیادہ تر مکانات کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں آئے دن آتشزدگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ بڑے اطمینان سے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو دیکھ رہے تھے۔ ان کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔آگ کے روز افزوں واقعات کے پیش نظر ایک سال پہلے ہی کنگ چارلس نے شہر کے '' لارڈ میئر‘‘ کو آتشزدگی کے ذمہ دار افراد کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا حکم دیا تھا۔ پڈنگ لین چونکہ اس سڑک کے قریب تھی جو لندن برج کی طرف جاتی تھی اس لئے شہر کے میئر تک یہ خبر صبح ہی صبح پہنچ گئی۔ جب وہ موقع پر پہنچا تو اس نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی خاص تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے خیال میں یہ آتشزدگی کا ایک معمولی واقعہ تھا اور اس پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا تھا۔ ایک سرکاری افسر سیمول پی پائز نے اپنی 2ستمبر کی ڈائری میں لکھا '' صبح سویرے تین بجے کے قریب مجھے ملازمہ نے جگا دیا۔ اس نے مجھے آگ کے بارے میں اطلاع دی۔ میں نے نائٹ گائون پہنا اور گھر کے پچھلی طرف کھلنے والی کھڑکی پر پہنچا، وہاں سے میں نے دیکھا کہ تقریباً چار فرلانگ کے فاصلے پر آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ آگ ''ٹارک لین‘‘ کے قریب و جوار میں کہیں لگی ہوئی ہے۔ میں واپس آیا اور دوبارہ بے فکری سے سو گیا۔ دوپہر سے ذرا پہلے پی پائز بیدار ہوا۔ اس نے دیکھا کہ آگ پہلے سے زیادہ پھیل چکی ہے۔ وہ ''وائٹ ہال‘‘ پہنچا اور وہاں سے متعلقہ افسروں کے ذریعے آگ کی خبر بادشاہ تک پہنچی۔ دوپہر تک بادشاہ کوآگ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھاکیونکہ اس روز اتوار تھا اور اتوار کے روز بادشاہ سلامت آرام فرمایا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے اگر یہ خبر بروقت بادشاہ تک پہنچ جاتی تو فوری اقدام کے ذریعے حکام آگ پر قابو پا لیتے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کا یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ آگ پر باآسانی قابو پایا جا سکے گا۔ اتوار کی شام تک آگ کے شعلے تیزی سے پھیلتے ہوئے دریائے ٹیمز تک پہنچ چکے تھے اس علاقے میں مکانوں کے اندر عمارتی لکڑی، برانڈی اور کوئلے کے بڑے بڑے ذخائر موجود تھے۔ اب یہ مکان یکے بعد دیگرے دھماکوں کے ساتھ آگ پکڑ رہے تھے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خشک اور تیز ہوا مشرق سے مغرب کی طرف چلنی شروع ہو گئی۔ اس ہوا کی وجہ سے آگ پر قابو پانے کی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہو گئیں اور آگ تیزی سے مغربی علاقوں کی طرف بڑھنے لگی۔اتوار کے روز ایک موقع ایسا تھا جب آگ پر قابو پایا جا سکتا تھا لیکن اس قیمتی موقع کو فائر بریگیڈ کے عملے کی بدنیتی نے ضائع کر دیا۔ کچھ لالچی اہلکار شہریوں کے جلتے ہوئے مکانوں میں سے قیمتی اثاثے چوری کرنے میں مصروف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ آگ کا سلسلہ کچھ دیر اور جاری رہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اورآگ کو جان بوجھ کر پھیلنے کا موقع دیا۔آگ لمحہ بہ لمحہ پھیلتی چلی گئی۔ اتوار سے سوموار، سوموار سے منگل تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ خوفناک آگ لندن کے طول و عرض میں بدھ کے دن تک تباہی و بربادی پھیلاتی رہی۔ جب بدھ کی شام آگ کے شعلے سرد ہوئے تو اس وقت تک 13000مکانات جل کر خاکستر ہو چکے تھے۔ 80گرجا گھر راکھ کا ڈھیر بن چکے تھے اور 300ایکڑ سے زائد علاقہ جھلس کر سیاہ ہو گیا تھا۔ لندن برج پر واقع دکانوں نے بھی آگ پکڑ لی تھی۔ شعلے دریائے ٹیمز کے شمالی کنارے تک جا پہنچے تھے اور وہاں بھی جگہ جگہ آگ کی تباہ کاریوں کے آثار نظر آ رہے تھے۔''گلڈہال رائل ایکسچینج اور فنانشل سینٹر کی عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئی تھیں۔ پال کیتھڈرال کی عمارت میںآگ نے بہت زیادہ تباہی مچائی تھی۔عجائب گھر کے اندر پتھر کے نادر نمونے آگ کی حدت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ پرانے مقبروں کی چھتیں دھماکوں کے ساتھ اڑ گئیں اور ان کے اندر رکھی ہوئی مصری ممیاں نظر آنے لگیں۔ عمارت کی چھت جو سکے کی بنی ہوئی تھی، پگھل گئی اور پگھلا ہوا سکہ نواحی گلیوں میں بہہ نکلا۔اس خوفناک آتشزدگی میں حیرت انگیز طور پر کوئی خاص جانی نقصان نہیں ہوا۔ صرف آٹھ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو سکی۔ شہریوں کے پاس اپنی جانیں بچا کر بھاگنے کیلئے کافی وقت تھا اور انہوں نے اس وقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا، شہر کی سڑکیں ٹریفک کے اژدھام سے جام ہو گئیں اور شہر کا مضافاتی علاقہ پناہ گزینوں کے ایک بہت بڑے کیمپ کی صورت اختیار کر گیا۔''پی پائز‘‘ بھی شہر چھوڑنے والے لوگوں میں شامل تھا۔ اس کا گھر بھی جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی ڈائری میں آگے جا کر لکھا ہے کہ شہر کے اندر تپش اس قدر زیادہ تھی کہ ہوا کا جھونکا بھی آگ کا شعلہ معلوم ہوتا تھا۔ چاروں طرف سے ظالم اور خونی شعلوں کی زبانیں بھاگتے ہوئے لوگوں کو چاٹنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ آسمان پر دھوئیں کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اگر کسی وقت سورج ان بادلوں کی اوٹ میں سے جھانکتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے اس نے اپنے چہرے پر خون مل رکھا ہو۔بدھ کی رات تک آگ پر تقریباً قابو پا لیا گیا تھا۔ اس کامیابی میں بادشاہ کی کوششوں کا بھی کافی ہاتھ تھا۔ بادشاہ نے اس معاملے میں پوری سنجیدگی سے ذاتی توجہ دی۔ اس نے آگ بجھانے والے گروپوں کو حکم دیا کہ آگ کے پھیلائو کو روکنے کیلئے ارد گرد کی عمارتوں کو گرا دیا جائے۔ اس حکم پر آناً فاناً عمل کیا گیا اور یوں متاثرہ علاقے اور شہر کے باقی حصے کے درمیان ایک خلیج بنا دی گئی۔ اس راست اقدام کی وجہ سے آگ رک گئی اور لندن کے سہمے ہوئے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ آگ پر قابو پائے جانے کے بعد بھی کئی ہفتوں تک ملبہ سلگتا رہا اور لندن کی تنگ و تاریک جگہوں پر مہینوں بعد تک آگ بھڑکتی رہی۔آگ بنی باعث رحمت... مگر کیسے! فرائزر کی بیکری میں بھڑکنے والے اس شعلے نے کچھ بہتر نتائج بھی فراہم کئے۔٭...وسط لندن کا بے ترتیب اور گنجان تعمیرات سے اٹا ہوا علاقہ ایک ہفتہ میں ہی چٹیل میدان بن گیا اور بعد میں اس کو منصوبہ بندی کے تحت بہتر انداز میں تعمیر کیا گیا۔٭... آگ اور اس سے پیدا شدہ دھوئیں نے ایک جراثیم کش دوا کا کام کیا۔ شہر کے گھٹے ہوئے ماحول سے ان جراثیموں کا خاتمہ ہو گیا، جنہوں نے صرف ایک سال پہلے یعنی 1665ء میں لندن شہر کے اندر طاعون کی وباء پھیلا دی تھی اور چند دنوں میں ایک لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

پستہ قد افراد

پستہ قد افراد

اوسط قد سے چھوٹا قد رکھنے والے افراد کو پستہ قد یا '' بونا‘‘ کہتے ہیں۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق چھوٹے قد کا تعلق کسی علاقے یا خطے کی آب و ہوا یا ماحول، خوراک اور موروثیت (جینز ) سے ہوتا ہے۔ لیکن ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ کچھ علاقوں میں '' کونڈرو پلاسیہ ‘‘ نامی ایک مخصوص بیماری کے باعث بھی لوگوں کے اعضاء اور قد چھوٹے رہ جاتے ہیں۔میڈیکل سائنس کے مطابق ''بونا پن‘‘ کی ایک سو سے زائد وجوہات سامنے آئی ہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق 4 فٹ 10 انچ سے چھوٹے قد کے تمام بالغ افراد کو معذور تصور کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں انہیں باقاعدہ ایک سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جاتا ہے۔پوری دنیا میں سب سے زیادہ پستہ قد افراد جنوب مشرقی ایشیاء کے جزیرہ نما ملک مشرقی تیمور میں بستے ہیں۔ یہ جزیرہ نما ملک جو 11883 مربع میل رقبے پر مشتمل ہے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔تیموری مردوں کا اوسط قد 5 فٹ 2.9انچ جبکہ وہاں کی خواتین کا اوسط قد 4 فٹ 11.5انچ ہوتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیاء کے کئی اور ممالک بھی پستہ قد رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جن میں فلپائن اور لاوس شامل ہیں۔2010ء کی ایک تحقیق کے مطابق مشرقی تیمور میں بسنے والے افراد دنیا میں سب سے زیادہ پستہ قد افراد ہیں۔1886ء میں یہاں کے باشندوں کا قد 5 فٹ سے زیادہ کبھی نہیں بڑھا تھا۔پھر 20 ویں صدی کے دوران پرتگال اور انڈونیشیاء کے آباد کار اس علاقے میں آئے تو رفتہ رفتہ اس علاقے کے افراد کی شکل و صورت اور قد و قامت میں تبدیلی کے واضح آثار نمودار ہونے لگے۔ یہاں تک کہ 1970ء کی دہائی میں تیموری باشندوں کے اوسط قد 5 فٹ 3 انچ تک دیکھے جانے لگے۔لیکن یہ عرصہ بہت دیر تک قائم نہ رہا۔یہاں خانہ جنگی کی وجہ سے ان کے ارتقا پر ان کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے تو ان کے اوسط قد 5 فٹ سے بھی کم ہونا شروع ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جزیرے کے اندر ان کی نقل و حرکت محدود ہو کر رہ گئی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے تعلقات مختلف نسل کے لوگوں کے ساتھ قائم ہو گئے تھے۔پستہ قد اور بونے کتنے قدیمقدیم مصری ثقافت میں مزاروں اور درو دیوار پر بونوں اور پستہ قد افراد کی کنندہ تصاویر سے ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں اہل مصر ''بونے خداوں‘‘ کی پوجا بھی کیا کرتے تھے۔ قدیم مصر میں 4500 قبل مسیح میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ ادب اور فلسفہ اخلاق میں بونوں اور دیگر معذور افراد کا احترام موجود تھا۔ آج سے کچھ سال پہلے معروف میگزین جنرل نیچر نے انکشاف کیا تھا کہ ، 2004ء میں آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ولونگو نگز کے پروفیسر ون ڈین برگ جو کہ شعبہ آثار قدیمہ سے وابستہ ہیں نے انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں فلوریس نامی ایک غار سے کچھ بونوں کی باقیات دریافت کی تھیں جن کے بارے خیال کیا جا رہا ہے کہ بونوں کی یہ باقیات جو ایک بالغ اور دو بچوں کے جبڑوں پر مشتمل تھیں لگ بھگ سات لاکھ سال قدیم ہیں۔ان شواہد سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ بونے یا پستہ قد افراد انسانی ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ موجود رہے ہیں۔ پستہ قد افراد کو درپیش سماجی مسائل ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ معاشرتی المیہ ہے کہ پورے معاشرے میں اخلاقیات اور عزت و تکریم کے معیارات بدل چکے ہیں۔ ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ کسی فرد میں نشوؤنما کی معمولی سی کمی کی وجہ سے معاشرے میں ان کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ قد چھوٹا رہ جانے والے بچے یا اس کے والدین کا اس عمل میں کوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ یہ سب مشیت ایزدی ہے۔نتیجتاً معمولی سے جسمانی نقص کی وجہ سے ایسے لوگوں کو تحقیر آمیز القابات سے مخاطب کیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ایسے متاثرہ شخص یا اشخاص کا معاشرے میں رہنا محال کر دیا جاتا ہے۔ جس کے سبب بیشتر افراد کو نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے دیکھا گیا ہے۔ حالانکہ ایسے افراد تو معاشرے میں زیادہ توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔ '' ہائیٹ ازم‘‘ کا بڑھتا رجحان چھوٹے قد کے باعث معاشرتی طعنہ زنی ، ناروا سلوک اور پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مشکلات نے ''ہائیٹ ازم‘‘(یعنی قد بڑھانے کے جدید طریقے ) کی اصطلاح کو جنم دیا جس میں آپریشن کے ذریعے قد لمبا کرانے والوں کی دلچسپی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اب دنیا کے ایک درجن سے زیادہ ممالک میں ٹانگوں کو لمبا کرنے کی سرجری دستیاب ہے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ، مہنگا اور لمبا طریقہ علاج ہے جس پر امریکہ میں 75 ہزار سے لے کر 2 لاکھ 80 ہزار ڈالر تک خرچ آتا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہر سال دنیا بھر میں سینکڑوں افراد چند انچ قد لمبا بنانے کیلئے اس تکلیف دہ اور لمبے طریقہ علاج کے عمل سے گزرتے ہیں۔اس طریقہ علاج کی شروعات سب سے پہلے ایک سوویت ڈاکٹر گیورل الیزا روف نے کی تھی۔اس آپریشن کے ذریعے پانچ انچ تک قد میں اضافہ ممکن ہے۔امریکہ ،جرمنی، جنوبی کوریا، برطانیہ، ترکی، سپین ، انڈیا، اٹلی اس علاج کیلئیئقابل ذکر ہیں۔دنیا کی پستہ ترین خاتون بھارت کے شہر ناگپور میں پیدا ہونے والی تیس سالہ جیوتی امیگی کو 2 فٹ 0.7انچ قد کے ساتھ دنیا کی پستہ ترین قد والی خاتون تصور کیا گیا ہے۔ جیوتی امیگی کو ہڈیوں کی نشوونما کا عارضہ لاحق ہے جو بازوں اور ٹانگوں کو متاثر کرتا ہے۔یاد رہے 16 دسمبر2011ء سے جیوتی امیگی نے دنیا کی سب سے پست قد خاتون کا ''گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ ‘‘ میں درج کروا رکھاہے۔اپنے چھوٹے قد کے باوجود جیوتی سوشل میڈیا کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔ وہ امریکی ٹیلی وژن سیریز ''امریکن ہارر سٹوری : فریک شو‘‘ اور اطالوی ٹی وی شو '' لو شو ڈی ریکارڈ‘‘ میں بھی پرفارم کر چکی ہیں۔ دنیا کا پستہ ترین مرد ایران سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ افشین اسماعیل اس وقت تک 2 فٹ 1.6انچ قد کے ساتھ دنیا کے سب سے چھوٹے قد کے حامل شخص ہیں جو اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔اس ے پہلے یہ اعزاز کولمبیا کے ایڈورڈ نینو کے پاس تھاجن کا قد 2 فٹ 7 انچ تھا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ پیدائش کے وقت افشین کا وزن صرف 700 گرام تھا جبکہ اب ان کا وزن 6کلو گرام کے لگ بھگ ہے۔  

’’Bootes Void‘‘ کائنات کا ایک پرسرار گوشہ

’’Bootes Void‘‘ کائنات کا ایک پرسرار گوشہ

کائنات کی وسعتوں میں جھانکنے کا سفر ہمیشہ سے انسان کیلئے حیرت، تجسس اور جستجو کا باعث رہا ہے۔ ستاروں، سیاروں اور کہکشاں سے بھری یہ کائنات بظاہر ایک مسلسل کہانی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے، لیکن اس داستان میں کچھ ایسے گوشے بھی ہیں جو حیرت کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک گوشہ، جسے ہم ''Bootes Void ‘‘کے نام سے جانتے ہیں، سائنس کی دنیا کا ایک عجیب و غریب راز ہے۔ یہ علاقہ جو زمین سے تقریبا سات سو ملین نوری سال کی دوری پر واقع ہے، کہکشاں سے محروم ایک پراسرار خلا ہے۔کائنات میں ستاروں اور سیاروں کی کوئی کمی نہیں۔ ہر رات آسمان پر چمکتے ستارے اور دور سے جھلملاتی کہکشائیں ہمیں یہ یقین دلاتی ہیں کہ یہ کائنات بے حد آباد اور روشنیوں سے مزین ہے۔ لیکن یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ اس وسیع و عریض خلا میں کچھ ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ ''Bootes Void ‘‘اسی حیرت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ یہ علاقہ جسے ''دی گریٹ وائیڈ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔1981ء میں پہلی بار سائنس دانوں کے مشاہدے میں آیا۔ ناسا کے ماہر فلکیات سر رابرٹ کرشنر نے اس علاقے کو دریافت کیا، جو زمین سے تقریباً 70 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ خلا اس قدر وسیع ہے کہ اگر ہم ایک ایسے فرضی خلائی جہاز کا تصور کریں جو ایک سیکنڈ میں پاکستان سے امریکہ تک کا فاصلہ طے کر سکے، تو اس جہاز کو ''Bootes Void ‘‘کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کیلئے تقریبا 300 کھرب سال کا وقت لگے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پورے علاقے میں کہکشائیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ کائنات کی ساخت اور اس کے پھیلائو کے موجودہ سائنسی نظریات کے مطابق یہاں کم از کم دس سے بارہ ہزار کہکشائیں ہونی چاہئیں تھیں۔یہ خالی علاقہ اتنا تاریک ہے کہ روشنی کی کوئی کرن یہاں نظر نہیں آتی۔ روشنی کی موجودگی کیلئے کسی ٹھوس جسم کا ہونا ضروری ہے، لیکن یہاں کوئی ستارہ، سیارہ یا کہکشاں موجود نہیں۔ اس لیے یہ خلا مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم بغیر سینسرز کے پچاس ہزار خلائی گاڑیاں اس علاقے میں چھوڑ دیں، تو وہ کھربوں سال تک سفر کرتی رہیں گی اور کسی چیز سے نہیں ٹکرائیں گی، کیونکہ یہاں کچھ بھی موجود نہیں۔سائنس دانوں کے مطابق'' بگ بینگ‘‘ کے بعد کائنات کا پھیلائو یکساں تھا اور مادہ ہر طرف برابر تقسیم ہوا۔ اس تقسیم کی بنیاد پر ستارے، سیارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں لیکن ''Bootes Void ‘‘میں مادے کی اس تقسیم کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ علاقہ سائنس دانوں کیلئے ایک ایسا معمہ ہے جس کا حل ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا۔ماہرین فلکیات کے مطابق، کائنات میں اور بھی خالی علاقے موجود ہیں لیکن ''Bootes Void‘‘اپنی وسعت اور خالی پن کی وجہ سے سب سے منفرد ہے۔ اس علاقے کو ''بووٹس کنسٹی لیشن‘‘ کے نام پر یہ نام دیا گیا، کیونکہ یہ اس صورت فلکی کے قریب واقع ہے۔یہ حیرت کی بات ہے کہ جہاں پوری کائنات کہکشاں سے بھری ہوئی ہے، وہیں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جو مکمل طور پر خالی اور غیر آباد ہے۔ یہ بات نہ صرف فلکیات کے ماہرین بلکہ عام انسانوں کیلئے بھی انتہائی دلچسپ اور حیران کن ہے۔ اس خلا کی موجودگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کائنات کے راز کتنے پیچیدہ اور وسیع ہیں۔''Bootes Void ‘‘کا معمہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ہمارے کائناتی نظریات کو چیلنج کرتا ہے۔ اگر مادہ ہر طرف یکساں تقسیم ہوا تھا، تو پھر یہ خلا کیسے وجود میں آیا؟ کیا یہ ابتدائی کائنات کی کسی غیر معمولی سرگرمی کا نتیجہ ہے، یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟ یہ سوالات نہ صرف سائنس دانوں کیلئے چیلنج ہیں بلکہ انسان کے علم و تجسس کو مزید آگے بڑھانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ کائنات کی اس خالی جگہ کو سمجھنا شاید ہمیں بگ بینگ اور کائنات کی ابتدا کے بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکے۔''Bootes Void‘‘کی دریافت نے سائنس دانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا کائنات واقعی اتنی یکساں ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں؟ یا پھر اس میں ایسے اور بھی خالی گوشے موجود ہیں جو ابھی ہماری نظروں سے اوجھل ہیں؟ یہ تمام سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات کے بارے میں ہماری معلومات ابھی نامکمل ہیں، اور ابھی بہت کچھ دریافت ہونا باقی ہے۔کائنات کا یہ پراسرار خلا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ علم کی جستجو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہر دریافت ایک نئے سوال کو جنم دیتی ہے اور ہر سوال ایک نئی جستجو کا آغاز کرتا ہے۔ ''Bootes Void‘‘ کائنات کی ان گنت داستانوں میں سے ایک ہے، جو ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ یہ کائنات اپنے اندر کتنے راز چھپائے ہوئے ہے۔ شاید یہی راز انسان کو تلاش، تحقیق اور علم کی نئی منزلوں کی طرف لے جاتے ہیں۔یہ خلا، جسے دیکھنے کیلئے ہمیں جدید ترین دوربینوں کی ضرورت ہے، ایک یاد دہانی ہے کہ انسان جتنا بھی ترقی کر لے، کائنات کی وسعتوں کو مکمل طور پر سمجھنا اب بھی ممکن نہیں۔ یہ پراسرار گوشہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ شاید کائنات میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ہماری عقل و فہم سے باہر ہیں اور یہی بات کائنات کو اتنا دلکش اور حیران کن بناتی ہے۔ کائنات کا یہ خالی گوشہ''Bootes Void‘‘ ایک ایسا راز ہے جو نہ صرف فلکیات کے ماہرین بلکہ ہر اس شخص کیلئے حیرت اور تجسس کا باعث ہے جو کائنات کی وسعتوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ شاید مستقبل میں ہم اس راز کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں، لیکن فی الحال یہ خلا ہمارے لیے کائنات کے ان گنت عجائبات میں سے ایک ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہپاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف پر متعدد مرتبہ قاتلانہ حملے کئے گئے۔ 14 دسمبر 2003ء پرویز مشرف ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ان پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ اپنے سکیورٹی قافلے کے ہمراہ راولپنڈی کا ایک پل عبور کر رہے تھے۔ پرویز مشرف کا قافلہ گزرنے کے کچھ ہی دیر بعد پل پر ایک زور دار بم دھماکہ ہوا۔ان کے چار سالہ دور میں یہ ان پر تیسرا قاتلانہ حملہ تھا۔ 25 دسمبر 2003ء کو بھی سابق صدر کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔ اس حملے میں ان کی گاڑی کو شدید نقصان پہنچا لیکن ان کا محافظ قافلہ انہیں بچانے میں کامیاب رہا۔بوسنیا اور ہرزیگوینا میں امن معاہدہبوسنیا اور ہرزیگوینا میں امن کیلئے جنرل فریم ورک معاہدہ کیا گیا، جسے ''ڈیٹن معاہدہ‘‘ یا ''ڈیٹن ایکارڈ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ امن معاہدہ تھا جو 14دسمبر 1995ء کو طے پایا۔ اس معاہدے نے ساڑھے تین سالہ طویل بوسنیا کی جنگ کا خاتمہ کیا۔ 21دسمبر1995ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اوہائیو ڈیٹن کے قریب رائٹ پیٹرسن ائیر فورس بیس پر طے شدہ اس معاہدے پر دستخط کئے گئے۔معاہدے کے مطابق دونو ں فریقین نے امن پر اتفاق کیا اور جنگ کو فوری طور پر روک دیا گیا۔تاریخ میں اس معاہد ے کو اہمیت اس لئے بھی حاصل ہے کہ اس نے ایک طویل جنگ کا اختتام کیا۔چاند پر آخری انسان14دسمبر1972ء کو یوجین اینڈریو نامی امریکی خلاباز نے چاند پر قدم رکھا۔ یوجین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ چاند پر قدم رکھنے والے آخری انسان تھے۔ ان کے بعد کسی انسان نے آج تک دوبارہ چاند پر قدم نہیں رکھا۔''اپالو17‘‘مشن کے دوران یوجین چاند پر چلنے والے گیارہویں انسان تھے۔انہیں ''The Last Man on Moon‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یوجین نے تین مرتبہ چاند کا سفر کیا،پہلی مرتبہ جون 1966ء کو جیمنی 9Aمیں بطور پائلٹ،دوسری مرتبہ1969ء کو اپالو10کے ماڈیول پائلٹ کے طو ر پر اور تیسری مرتبہ1972ء کو اپالو17 میں بطور کمانڈر۔سینڈی ہک ایلیمنٹری سکول فائرنگ14دسمبر2012ء کو نیو ٹاؤن، کنیکٹیکٹ، ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سینڈی ہک سکول میں انتہائی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔20سالہ ایڈم لانزانے فائرنگ کر کے 26افرا د کو ہلاک کر دیا۔ہلاک ہونے والوں میں 20 بچے شامل تھے جن کی عمریں 6 سے 7 سال کے درمیان تھیں۔حملے کے دن سکول جانے سے قبل لانزا نے نیو ٹاؤن میں اپنی ماں کو گولی مار کر ہلاک کردیاتھا۔26افراد کو ہلاک کرنے کے بعد جیسے ہی پولیس سکول پہنچی لانزا نے سر میں گولی مار کر خودکشی کر لی۔کنیکٹیکٹ سٹیٹ اٹارنی کے دفتر کی طرف سے نومبر 2013ء کی جاری کردہ ایک رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لانزا نے یہ حملہ اکیلے ہی کیا لیکن رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ لانزا کے ایسا کرنے کی اصل وجہ کیا تھی۔

پہاڑوں کو خراج تحسین

پہاڑوں کو خراج تحسین

ہمارے سیارے کے ماحولیاتی نظام اور انسانی معاشرت میں پہاڑوں کے اہمیت بارے آگاہی بڑھانے کے لیے ہر سال 11 دسمبر کو پہاڑوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003ء میں اس دن کو پہاڑوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، پہاڑوں کی بہتری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اجاگر کرنے اوردنیا بھر میں پہاڑی ماحولیات میں مثبت تبدیلی کی کوششوں سے منسوب کیا تھا۔ یہ دن ہر سال ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے:Mountain solutions for a sustainable future یعنی پہاڑ پائیدار مستقبل کا حل ہیں۔ پہاڑ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑ زمین کی سطح کے ایک چوتھائی سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا کی آبادی کے 12 فیصد کا مسکن ہیں جبکہ بنی نوح انسان کے لیے تازہ پانی کا نصف سے زائد پہاڑوں ہی سے ملتا ہے، اور دنیا کی خوراک کا 80 فیصد فراہم کرنے والے پودوں کی 20 انواع میں سے چھ پہاڑوں سے آتی ہیں۔پہاڑ حیاتیاتی تنوع کا بیش قیمت خزانہ ہیں۔اگرچہ دنیا کے صرف 27 فیصد حصے پر پہاڑ ہیں لیکن اپنے حجم کے مقابلے میں یہ حیاتیاتی تنوع میں کہیں زیادہ کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم بین الحکومتی ماحولیاتی تبدیلی کے پینل (IPCC) کے مطابق پہاڑوں میں پائی جانے والے منفرد پودوں اور جانوروں کی اقسام میں سے 84 فیصد معدوم ہونے کے خطرے سے دوچارہیں۔پہاڑ دنیا کی قدرتی خوبصورتی کا اہم حصہ ہیں اور ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہوا کے بہاؤ کو متاثر کرتے ہیں، بارش کے پیٹرن کو منظم کرتے ہیں اور جانوروں اور پودوں کی انواع کا مسکن فراہم کرتے ہیں۔ پہاڑ مختلف اقتصادی سرگرمیوں جیسا کہ سیاحت، کان کنی، زراعت اور پانی کی فراہمی میں بھی خصوصی طور پر مددگار ہیں ۔آج کے دور میں بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی آلودگی اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پہاڑوں کے ایکو سسٹم خطرے میں ہیں۔ ان کی حفاظت اور تحفظ ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کی خوبصورتی اور فوائد سے مستفید ہو سکیں۔پاکستان کیلئے یہ امر قابلِ فخر ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور 9ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ عالمی سطح پر ہر سال پانچ کروڑ سیاح پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جس سے 90 ارب ڈالر تک کا ریونیو حاصل ہوتا ہے تاہم اس کی قیمت پہاڑی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ پیسفک (UNESCP) کی رپورٹ ''پاکستان میں پہاڑی سیاحت کے ماحولیاتی اثرات‘‘ کے مطابق کوہ ہندو کش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں آلودگی کی سطح درمیانی جبکہ ہمالیہ میں بلند ہے۔دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو جانے و الے تین راستو ں میں سے کنشوفر رُوٹ پرکوہ پیماؤں کے استعمال میں رہنے والی اشیا، پلاسٹک بیگز، پیک فوڈ کی باقیات اور شیٹس وغیرہ کی سطح بہت بلند جبکہ روپال روٹ پر یہ آلودگی مزید زیاد ہ ہے۔ گلوبل وارمنگ بھی پہاڑی سیاحت کی صنعت کو متاثر کررہی ہے۔ جنگلات کا کٹاؤ بھی پہاڑوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو جنگلات کی کٹائی میں آنے والی تیزی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض پہاڑی علاقوں میں جنگلات کا اوسط فاصلہ دو کلومیٹر تک بڑھ چکا ہے جو 10سال پہلے ڈیڑھ کلومیٹر تھا۔ انٹرنیشنل جرنل آف ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی کی ایک تحقیق کے مطابق خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ پہاڑی جنگلات والے دو اضلاع (نوشہرہ اور سوات) کے دیہاتوں میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اوسطاً آٹھ میں سے چھ دیہات میں بجلی اور ایل پی جی ہونے کے باوجود ان کے مہنگا ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کیلئے ان کا کم استعمال کرتی ہے اور 73 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ علاقے میں گھروں کی تعمیر اور مرمت میں جنگلات کی لکڑی کا استعمال بہت زیادہ ہے۔40فیصد افراد کا خیال ہے کہ مقامی آبادی کی جانب سے لکڑی کے غیر قانو نی کٹاؤ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ 79 فیصد افراد جنگلات کے غیر قانونی کٹاؤکا ذمہ دار محکمہ جنگلات کو تصور کرتے ہیں۔جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے گلیشیئر پگھلنے کی شرح میں اضافہ ہورہاہے جو نیچے کی جانب پانی کے بہاؤ اور مقدار کو متاثر کر رہا ہے۔پاکستان میں مجموعی طور پر سات ہزار کے قریب گلشیئرز ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں برف کے ان تودوں کے پگھلنے کا عمل تیز تر ہو رہا ہے۔ پگھلتے گلیشئرز اچانک ٹوٹ جائیں تو پہاڑوں سے نیچے آتے پانی کا بہاؤ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ جو کچھ راستے میں آتا ہے بہہ جاتا ہے۔گلگت بلتستان کے علاقے میں درجنوں گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے ہزاروں جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں اور ان میں سے بہت سی جھیلیں ایسی ہیں جو سیلاب کا باعث بنتی رہتی ہیں۔اہم معلومات٭اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003ء میں پہاڑوں کی اہمیت پر اس دن کو منسوب کیا تھا۔٭پہاڑ زمین کی ایک چوتھائی سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔٭بنی نوح انسان کیلئے تازہ پانی کا نصف سے زائد پہاڑوں سے ملتا ہے۔٭پہاڑ دنیا کے 27 فیصد حصہ پر ہیں۔٭دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K-2 اور نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے زائد بلند5 چوٹیاں پاکستان میں ہیں۔