’’Bootes Void‘‘ کائنات کا ایک پرسرار گوشہ

’’Bootes Void‘‘ کائنات کا ایک پرسرار گوشہ

اسپیشل فیچر

تحریر : زابر سعید بدر


کائنات کی وسعتوں میں جھانکنے کا سفر ہمیشہ سے انسان کیلئے حیرت، تجسس اور جستجو کا باعث رہا ہے۔ ستاروں، سیاروں اور کہکشاں سے بھری یہ کائنات بظاہر ایک مسلسل کہانی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے، لیکن اس داستان میں کچھ ایسے گوشے بھی ہیں جو حیرت کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک گوشہ، جسے ہم ''Bootes Void ‘‘کے نام سے جانتے ہیں، سائنس کی دنیا کا ایک عجیب و غریب راز ہے۔ یہ علاقہ جو زمین سے تقریبا سات سو ملین نوری سال کی دوری پر واقع ہے، کہکشاں سے محروم ایک پراسرار خلا ہے۔
کائنات میں ستاروں اور سیاروں کی کوئی کمی نہیں۔ ہر رات آسمان پر چمکتے ستارے اور دور سے جھلملاتی کہکشائیں ہمیں یہ یقین دلاتی ہیں کہ یہ کائنات بے حد آباد اور روشنیوں سے مزین ہے۔ لیکن یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ اس وسیع و عریض خلا میں کچھ ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ ''Bootes Void ‘‘اسی حیرت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ یہ علاقہ جسے ''دی گریٹ وائیڈ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔1981ء میں پہلی بار سائنس دانوں کے مشاہدے میں آیا۔ ناسا کے ماہر فلکیات سر رابرٹ کرشنر نے اس علاقے کو دریافت کیا، جو زمین سے تقریباً 70 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہ خلا اس قدر وسیع ہے کہ اگر ہم ایک ایسے فرضی خلائی جہاز کا تصور کریں جو ایک سیکنڈ میں پاکستان سے امریکہ تک کا فاصلہ طے کر سکے، تو اس جہاز کو ''Bootes Void ‘‘کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کیلئے تقریبا 300 کھرب سال کا وقت لگے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پورے علاقے میں کہکشائیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ کائنات کی ساخت اور اس کے پھیلائو کے موجودہ سائنسی نظریات کے مطابق یہاں کم از کم دس سے بارہ ہزار کہکشائیں ہونی چاہئیں تھیں۔
یہ خالی علاقہ اتنا تاریک ہے کہ روشنی کی کوئی کرن یہاں نظر نہیں آتی۔ روشنی کی موجودگی کیلئے کسی ٹھوس جسم کا ہونا ضروری ہے، لیکن یہاں کوئی ستارہ، سیارہ یا کہکشاں موجود نہیں۔ اس لیے یہ خلا مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم بغیر سینسرز کے پچاس ہزار خلائی گاڑیاں اس علاقے میں چھوڑ دیں، تو وہ کھربوں سال تک سفر کرتی رہیں گی اور کسی چیز سے نہیں ٹکرائیں گی، کیونکہ یہاں کچھ بھی موجود نہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق'' بگ بینگ‘‘ کے بعد کائنات کا پھیلائو یکساں تھا اور مادہ ہر طرف برابر تقسیم ہوا۔ اس تقسیم کی بنیاد پر ستارے، سیارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں لیکن ''Bootes Void ‘‘میں مادے کی اس تقسیم کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ علاقہ سائنس دانوں کیلئے ایک ایسا معمہ ہے جس کا حل ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا۔
ماہرین فلکیات کے مطابق، کائنات میں اور بھی خالی علاقے موجود ہیں لیکن ''Bootes Void‘‘اپنی وسعت اور خالی پن کی وجہ سے سب سے منفرد ہے۔ اس علاقے کو ''بووٹس کنسٹی لیشن‘‘ کے نام پر یہ نام دیا گیا، کیونکہ یہ اس صورت فلکی کے قریب واقع ہے۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ جہاں پوری کائنات کہکشاں سے بھری ہوئی ہے، وہیں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جو مکمل طور پر خالی اور غیر آباد ہے۔ یہ بات نہ صرف فلکیات کے ماہرین بلکہ عام انسانوں کیلئے بھی انتہائی دلچسپ اور حیران کن ہے۔ اس خلا کی موجودگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کائنات کے راز کتنے پیچیدہ اور وسیع ہیں۔''Bootes Void ‘‘کا معمہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ہمارے کائناتی نظریات کو چیلنج کرتا ہے۔ اگر مادہ ہر طرف یکساں تقسیم ہوا تھا، تو پھر یہ خلا کیسے وجود میں آیا؟ کیا یہ ابتدائی کائنات کی کسی غیر معمولی سرگرمی کا نتیجہ ہے، یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟ یہ سوالات نہ صرف سائنس دانوں کیلئے چیلنج ہیں بلکہ انسان کے علم و تجسس کو مزید آگے بڑھانے کا ذریعہ بھی ہیں۔
کائنات کی اس خالی جگہ کو سمجھنا شاید ہمیں بگ بینگ اور کائنات کی ابتدا کے بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکے۔''Bootes Void‘‘کی دریافت نے سائنس دانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا کائنات واقعی اتنی یکساں ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں؟ یا پھر اس میں ایسے اور بھی خالی گوشے موجود ہیں جو ابھی ہماری نظروں سے اوجھل ہیں؟ یہ تمام سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات کے بارے میں ہماری معلومات ابھی نامکمل ہیں، اور ابھی بہت کچھ دریافت ہونا باقی ہے۔
کائنات کا یہ پراسرار خلا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ علم کی جستجو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہر دریافت ایک نئے سوال کو جنم دیتی ہے اور ہر سوال ایک نئی جستجو کا آغاز کرتا ہے۔ ''Bootes Void‘‘ کائنات کی ان گنت داستانوں میں سے ایک ہے، جو ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ یہ کائنات اپنے اندر کتنے راز چھپائے ہوئے ہے۔ شاید یہی راز انسان کو تلاش، تحقیق اور علم کی نئی منزلوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
یہ خلا، جسے دیکھنے کیلئے ہمیں جدید ترین دوربینوں کی ضرورت ہے، ایک یاد دہانی ہے کہ انسان جتنا بھی ترقی کر لے، کائنات کی وسعتوں کو مکمل طور پر سمجھنا اب بھی ممکن نہیں۔ یہ پراسرار گوشہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ شاید کائنات میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ہماری عقل و فہم سے باہر ہیں اور یہی بات کائنات کو اتنا دلکش اور حیران کن بناتی ہے۔
کائنات کا یہ خالی گوشہ''Bootes Void‘‘ ایک ایسا راز ہے جو نہ صرف فلکیات کے ماہرین بلکہ ہر اس شخص کیلئے حیرت اور تجسس کا باعث ہے جو کائنات کی وسعتوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ شاید مستقبل میں ہم اس راز کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں، لیکن فی الحال یہ خلا ہمارے لیے کائنات کے ان گنت عجائبات میں سے ایک ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
2024ء معلوم تاریخ کا گرم ترین سال

2024ء معلوم تاریخ کا گرم ترین سال

عالمی موسمیاتی ادارے (WMO) نے تصدیق کی ہے کہ 2024ء معلوم تاریخ کا گرم ترین سال تھا جس دوران عالمی حدت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.55 ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ رہی۔''WMO‘‘ کے مطابق گزشتہ سال خشکی اور سطح سمندر کے درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ سمندر کی غیرمعمولی حدت اور نہایت گرم موسم نے دنیا بھر میں بہت سے ممالک میں زندگیوں، روزگار، امیدوں اور خوابوں کو بری طرح متاثر کیا۔ بہت سی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سمندری برف کے گلیشیئر تیزرفتار سے پگھلتے رہے۔ اس طرح یہ عالمی حدت میں اضافے کے اعتبار سے ایک غیرمعمولی سال تھا۔ادارے کی جانب سے گزشتہ سال عالمی حدت میں اضافے کے حوالے سے چھ مختلف مجموعہ ہائے معلومات کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے چار کے ذریعے یہ تصدیق ہوئی کہ عالمی حدت میں 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ کی حد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ WMO نے عالمی حدت میں 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ اضافے کے حوالے سے معلومات درمیانی مدت کیلئے موسمی پیشگوئی کے یورپی مرکز (ECMWF) جاپان کے موسمیاتی ادارے، ناسا، امریکہ کی قومی سمندری و ماحولیاتی انتظامیہ (NOAA) اور برطانیہ کے محکمہ موسمیات سے لی ہیں۔ اس کوشش میں اسے برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا میں موسمیاتی تحقیقی یونٹ اور برکلے ارتھ کا تعاون بھی حاصل رہا۔2024ء گرم ترین سال تھا اور اس کے زمین پر بہت سے سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم اثرات درج ذیل ہیں۔درجہ حرارت میں اضافہ 2024ء میں عالمی سطح پر درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ یہ اضافہ صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں تقریباً 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔ اس کی وجہ سے دنیا کے کئی حصوں میں شدید گرمی کی لہریں آئیں، جس سے انسانی صحت اور زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔موسمیاتی تبدیلیاںگرمی میں اضافے کی وجہ سے موسمیاتی نظام میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ کئی علاقوں میں شدید بارشیں اور سیلاب آئے، جبکہ کچھ علاقے خشک سالی کا شکار رہے۔ ان تبدیلیوں نے قدرتی آفات میں اضافہ کیا اور لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔جنگلات کی آگ گرم اور خشک موسم کی وجہ سے دنیا بھر کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ان آگوں سے نہ صرف جنگلات کا قیمتی حصہ تباہ ہوا بلکہ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا۔سمندری اثرات گرمی کی وجہ سے سمندروں کا درجہ حرارت بھی بڑھا، جس سے سمندری حیات اور مرجان کی چٹانیں متاثر ہوئیں۔WMO نے بڑھتی ہوئی سمندری حدت پر ایک جائزے میں بتایا ہے کہ سطح سمندر کی گرمی میں اضافے کا گزشہ سال عالمی حدت بڑھنے میں اہم کردار تھا۔ اس وقت نہ صرف سمندر کی بالائی سطح بلکہ زیرآب دو ہزار میٹر کی گہرائی پر حدت بھی معلوم تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ 2023ء سے 2024ء کے عرصہ میں سمندر کی سطح کے نیچے دو ہزار میٹر گہرائی تک درجہ حرارت 16 زیٹاجولیس رہا جو کہ دنیا میں پیدا ہونے والی مجموعی بجلی سے 140 گنا بڑی مقدار ہے۔ انسانی صحت پر اثراتگرمی کی شدت سے انسانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ہیٹ اسٹروک اور دیگر گرمی سے متعلق بیماریوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ مجموعی طور پر، 2024ء کی گرمی نے زمین پر وسیع پیمانے پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کی ایک واضح مثال ہے اور اس بات کی ضرورت پر زور دیتا ہے کہ ہم ان تبدیلیوں کو کم کرنے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ WMO کی سیکرٹری جنرل Celeste Saulo نے کہا ہے کہ پیرس معاہدہ کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ دنیا میں گرم ترین برسوں کے ایک یا دو ریکارڈ ہی نہیں ٹوٹے بلکہ انسان نے گرم ترین دہائی برداشت کی ہے اور 2024ء ریکارڈ توڑ حدت کے غیرمعمولی سلسلے کی انتہا تھا۔ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ عالمی حدت میں معمولی سا اضافہ بھی بہت خطرناک ہوتا ہے اور اس سے انسانوں کی زندگیوں، روزگار اور کرہ ارض پر انتہائی منفی اثرات ہوتے ہیں۔2015 ء میں منظور ہونے والے پیرس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ عالمی حدت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ ہونے نہیں دیا جائے گا۔WMOنے واضح کیا ہے کہ امریکہ کی ریاست لاس اینجلس میں لگنے والی جنگل کی آگ کو موسمیاتی تبدیلی نے کہیں زیادہ شدید بنا دیا ہے کیونکہ اس تبدیلی کے نتیجے میں خشک و گرم ایام اور تیزرفتار ہواؤں کا دورانیہ طویل ہو گیا ہے۔ ایسا موسم اور طوفانی رفتار سے چلنے والی خشک ہوائیں جنگلوں کی آگ اور اس کے پھیلاؤ کا اہم سبب ہیں۔ماہرین ماحولیات اور موسمیات کے مطابق لاس اینجلس کے جنگلات میں لگنے والی آگ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا اہم کردار ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی شدت اور خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے لاس اینجلس کے جنگلات میں آگ لگنے کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے جنگلات میں نمی کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے آگ لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خشک سالی کی وجہ سے جنگلات کے درخت اور پودے خشک ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیلتی ہے۔ بارش کے انداز میں تبدیلی کی وجہ سے بعض علاقوں میں بارش کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے خشک سالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ان تمام عوامل کی وجہ سے لاس اینجلس کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل میں ان واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔  

کوئٹہ کی ہنہ جھیل   جہاں مرغابیوں کی افزائش نسل ہوتی ہے

کوئٹہ کی ہنہ جھیل جہاں مرغابیوں کی افزائش نسل ہوتی ہے

موت کی کوکھ سے زندگی جنم لے سکتی ہے تو سنگلاخ چٹانوں میں جھیلیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ایسی جھیلیں جن میں لاکھوں زندگیاں جنم لیتی ہوں اور پھر ان سانسیں لیتے جسموں سے ہم اپنی توانائی کشید کریں۔ کوئٹہ ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ، جب ایک بورنگ سفر ختم ہونے کا اعلان ہوا تو جہاز کی کھڑکی سے مجھے وہ جھیل نظر آئی ، نیلے آسمان جیسے رنگ کا نگینہ ہو چکی جھیل۔ میں نے اسی وقت وادیٔ غذر کی خلطی جھیل جیسی ہنہ لیک پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جس منیر نامی ڈرائیور نے ہمیں ایئرپورٹ سے لیا تھا، میں نے اسی سے پوچھ لیا کہ ہنہ جھیل کیسے جایا جا سکتا ہے۔'' صرف تیس منٹ ‘‘ منیر نے بس اتنا ہی بتایا اور ہم ہوٹل پہنچنے کے بعد پہلی آوارگی کیلئے نکل گئے۔ سطح سمندر سے سترہ سو میٹر سے زائد بلندی والے کوئٹہ شہر کا تعارف جھیلوں ، چشموں اور برف زاروں کے حوالے سے کبھی نہیں ہوا ۔ یہ شہر صوبائی تعصب اور بم دھماکوں کے حوالے سے بدنام کر دیا گیاہے۔ پنجاب دشمنی ایک سازش کے تحت کوئٹہ سے جوڑی گئی مگر یہ شہر اپنے اطراف میں زندگی تقسیم کرتے منظر بھی رکھتا ہے ، اس کا یہ چہرہ پوشیدہ رکھا گیا۔ ہم ہوٹل سے نکلے اور شمال جانب دس کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے پہاڑی راہداریوں کی غلام گردشوں میں چکر کاٹتے ہنہ جھیل پر پہنچ گئے۔ اوڑک وادی میں موجود زرغون رینج کی یہ جھیل برطانوی راج کے دوران 1894ء میں سیرو تفریح کیلئے بنائی گئی تھی۔ 1818 ایکڑ رقبہ پر پھیلی اس جھیل کی گہرائی 43 فٹ ہے، جس میں بتیس کروڑ بیس لاکھ گیلن پانی کے ذخیرے کی گنجائش ہے۔ یہ جھیل قدرتی نہ سہی مگر 1894ء سے لے کر 1997ء تک یہ جھیل پانی سے یوں آباد رہی کہ مرغابیوں نے یہاں اپنے مسکن بنائے اور افزائش بھی کی۔ سائبیریا سے آنے والے پرندے موسم سرما میں یہاں آتے اور بہار کی آمد تک یہیں رہتے۔ اوڑک کے چشموں اور برف پگھلنے سے رواں ہونے والے پانی کو جھیل ہنہ تک لانے کیلئے برطانوی راج نے لوہے کے پانچ دروازوں اور پلوں پر مشتمل پل تعمیر کیا۔ ہنہ جھیل دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سال دو ہزار سے دو ہزار چار تک خشک رہی۔ اب بھی ٹکٹوں کی مد میں وصولی کے باوجود ہنہ جھیل مناسب دیکھ بھال سے محروم ہے۔جھیل کم ہوتی پانی کی سطح کی وجہ سے اپنا حسن کھو رہی ہے اور طرفین میں لگے باغ بھی اپنی فطری کشش کھو چکے ہیں۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہم جنوری کے آغاز میں وہاں تھے جب پت جھڑ نے ہریالی نوچ لی تھی مگر اس کے باوجود یہاں انتظامی غفلت بھی نظر آتی۔ کیا ہی اچھا تھا کہ جہاز پر بیٹھے ہوئے ہم نے جس جھیل کو دیکھا تھا اسے یوں روبرو نہ دیکھتے ، مگر جستجو نے جھیل کا وہ تاثر زائل کر دیا جو دوران پرواز بنا تھا۔ ہنہ جھیل میں کشتی رانی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ چند سال قبل کشتی الٹ جانے سے ہونے والا حادثہ پندرہ سے زائد افراد کی جان لے گیا تھا۔ اب چئیر لفٹ بھی فعال نہیں تھی۔ ہم نے چنار ، پائن اور ایش کے درختوں کو چھوڑا اور جھیل کی سطح تک جانے کیلئے زینے استعمال کئے اور نیچے اترتے چلے گئے۔ جھیل جو بلندی سے ایک دائرہ لگتی تھی ہم پانی کی سطح کے قریب آئے تو اب یہی جھیل وسیع ہو کر پھیلتی گئی۔ کوئٹہ کے باسیوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہفتہ وار چھٹی تفریحی مقام پر مناتے ہیں اور قریب ترین سیرگاہ ہنہ جھیل ہی ہے۔ اس لئے شام ہونے سے پہلے یہاں لوگوں کی بڑی تعداد بچوں اور خواتین سمیت موجود تھی۔ پاک فوج کے زیر انتظام آ چکی یہ جھیل سیاحوں کیلئے احساس تحفظ بھی برقرار رکھتی ہے۔ ہم جو جھیلوں کی تلاش میں کوچہ کوچہ گھومتے ہیں اور گلگت و سکردو کی کتنی بلندیاں سر کرتے ہیں، ہمیں ہنہ جھیل بیٹھے بٹھائے دستیاب ہو گئی۔ کوئٹہ جیسے کاروباری اور خوشحال شہر میں ایسی سیرگاہ پر توجہ دی جائے تو یہ جھیل بھی شمالی پاکستان کی جھیلوں جیسی توجہ حاصل کر سکتی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

برٹش میوزیم کا افتتاح 1759ء میں آج کے روز لندن میں ''برٹش میوزیم‘‘ کا افتتاح کیا گیا۔ جس میں دنیا بھر سے لائے گئے نادر نمونے نمائش کیلئے رکھے گئے۔ ''برٹش میوزیم‘‘ جسے تاریخ کے موضوع پر دنیا کا سب سے بڑا میوزیم مانا جاتا ہے، اپنے پاس بے شمار ایسے نوادرات رکھتا ہے جو دیگر ممالک سے چھینے گئے ہیں۔ مشہورِ زمانہ برٹش میوزیم عالمی تاریخ کے موضوع پر دنیا کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے، ہر سال لاکھوں افراد اس میں موجود 80 لاکھ سے زائد ثقافتی و تاریخی نوادرات اور فن پارے دیکھنے کیلئے آتے ہیں جو انسان کی 20 لاکھ سال کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں۔''آپریشن ڈیزرٹ سٹارم‘‘15جنوری 1991ء کو مقبوضہ کویت سے عراقی افواج کے انخلا کیلئے اقوام متحدہ کی ڈیڈ لائن ختم ہوئی اور ''آپریشن ڈیزرٹ سٹارم‘‘ کی راہ ہموار ہوئی۔ ''آپریشن ڈیزرٹ سٹارم‘‘ یا خلیجی جنگ عراق اور امریکہ کی قیادت میں 42 ممالک کے اتحاد کے درمیان مسلح تصادم تھی۔ عراق کے خلاف اتحاد کی کوششیں دو اہم مراحل میں کی گئیں، ''آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ‘‘ جس میں اگست 1990ء سے جنوری1991ء تک فوجیوں کی تعمیر کا نشان لگایا گیا تھا۔ اور آپریشن ڈیزرٹ سٹارم، جس کا آغاز 17 جنوری 1991 کو عراق کے خلاف فضائی بمباری کی مہم سے ہوا اور 28 فروری 1991 ء کو امریکی قیادت میں کویت کی آزادی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔''سویوز 5‘‘ کی لانچنگ1969ء میں آج کے روز سوویت یونین نے ''سویوز 5‘‘ کو لانچ کیا۔ اس مش کیلئے ''سویوز 7 کے، او کے خلائی جہاز‘‘ کو استعمال کیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مشن تھا جس میں دو خلائی جہاز خلاء میں جا کر ایک ہو گئے۔ یہ کسی بھی ملک کی دو خلائی جہازوں کے عملے کی پہلی ڈاکنگ تھی اور کسی بھی قوم کی ایک خلائی گاڑی سے دوسری خلائی گاڑی میں عملے کی پہلی منتقلی تھی۔ یہ واحد موقع تھا جب خلائی چہل قدمی کے ذریعے منتقلی مکمل کی گئی تھی۔ ریاستہائے متحدہ کے ''اپالو 9 مشن‘‘ سے دو ماہ قبل خلاء بازوں نے منتقلی کا مظاہرہ کیا۔لندن: ریجنٹ پارک سکیٹنگ کی تباہیریجنٹ پارک سکیٹنگ کی تباہی 15 جنوری 1867ء کو پیش آئی جب لندن کے ریجنٹ پارک میں جھیل پر برف ٹوٹنے سے 40 افراد ہلاک ہو گئے۔ تقریباً 200 لوگ 12 فٹ (3.7 میٹر) گہرے برفیلے پانی میں ڈوب گئے۔ زیادہ تر کو راہگیروں نے بچایا۔ اس واقعہ کو برطانیہ میں موسم سے متعلق بدترین حادثہ قرار دیا جا رہا تھا۔ اس واقعے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ جھیل کی تہہ بلند ہو گئی اور جھیل کی مجموعی گہرائی 4 فٹ (1.2 میٹر) تک کم ہو گئی، تاکہ مستقبل میں لوگوں کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔   

یادرفتگاں :ارفع کریم رندھاوا

یادرفتگاں :ارفع کریم رندھاوا

پاکستان کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہرفخر پاکستان9 برس کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ کا اعزازحاصل کیاکم عمری میں ہی اپنی محنت، ذہانت اور خداداد صلاحیتوں سے ایک ہی جست میں محبت، شہرت اور عزت حاصل کرنے والی ارفع کریم پاکستان کا فخر ہیں۔ نو سال کی عمر میں کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کرکے ''سائبر پرنسز ‘‘بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ان کی اس کامیابی نے انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت بخشی۔ مائیکرو سافٹ ہیڈکوارٹر، امریکہ میں بل گیٹس کے ساتھ یادگار تصویر ارفع کریم کے کارنامے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنی ذہانت کے باعث وہ ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ''پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ کی حق دار بھی بنیں۔ ارفع کے باعث جو عزت اس ملک وقوم کو ملی، وہ ناقابل فراموش ہے۔ ارفع کی زندگی صرف سائنس و ٹیکنالوجی تک ہی محدود نہ تھی، وہ الفاظ کو خوبصورت شعروں میں پرونا بھی خوب جانتی تھیں۔ارفع کریم پاکستان کی ایک غیر معمولی شخصیت تھیں، جنہوں نے کم عمری میں اپنی ذہانت اور قابلیت سے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ وہ 2 فروری 1995ء کو فیصل آباد کے ایک گاؤں، چک جھمرہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام امجد کریم رندھاوا اور والدہ کا نام ثمینہ کریم رندھاوا ہے۔وہ دو بھائیوںسرمد کریم اور داؤد کریم کی اکلوتی اور بڑی بہن تھیں۔ والد کے آرمی آفیسرہونے کے باعث ان کا بچپن مختلف شہروں میں گزرا اور انہوں نے تعلیم ملتان پبلک اسکول، مردان سٹی اسکول اورلاہور گرائمرا سکول سے حاصل کی۔ وہ بچپن میں اپنے والد کی لاڈلی ،بہت شرارتی اور بہت ذہین تھیں۔ تین سال کی عمر میں پہلی کلاس میں داخلہ ملا، کیونکہ بنیادی کورسزاردو اور انگریزی حروفِ تہجی اور گنتی تو گھر پر ہی مکمل کر لیے تھے۔ گھر میں رسالے، کتابیں اور اخبارات آتے تھے۔ گھر کے بڑوں کو کتابیں پڑھتے دیکھا تو انہیں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ جب ایک بار کتاب پڑھنا شروع کر دیتیں تو اسے مکمل پڑھ کر ہی رکھتیں۔ تین چار سال کی عمر میں ہی سکول میں ہونے والے امقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا، کہیں ملی نغمیں پڑھتیں کہیں نظمیں، کہیں تقریری مقابلوں میں حصہ لیتیں۔ نعت خوانی کے مقابلوں میں اوّل پوزیشن لیتی رہیں۔ صرف 4سال کی عمر میں وہ ایک بہت اچھی گلوکارہ بھی تھیں۔ مشکل سے مشکل گیت بھی وہ اس مہارت سے گاتیں کہ استاتذہ کرام بھی حیرت زدہ ہو جاتے۔ کمپیوٹر سے تعلق کب بنا؟اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے خود اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ میں نے اپنے سکول میں او لیول کے بچوں کو کمپیوٹر لیب میں کام کرتے دیکھا کہ وہ بٹن دباتے ہیں اور مانیٹر پر منظر ہی بدل جاتا ہے،کبھی کچھ لکھا آ جاتا ہے اور کبھی کوئی تصویر نمودار ہو جاتی ہے۔ اسی تجسس میں، میں نے بابا سے کہا کہ مجھے کمپیوٹر لے دیں۔میں تب چوتھی جماعت کی طالبہ تھی۔ میرے والدین کیلئے میری یہ خواہش حیران کن تھی،پھر میرے بابا نے مجھے کمپیوٹر خرید کر دیا۔جہاں سے خریدا انھوں نے استعمال کا تھوڑا بہت طریقہ سمجھا دیا تھا۔اگلے چند ہی روز میں نے کمپیوٹر چلانا اور کمانڈ دینا سیکھ لیا۔ گھر کے قریب ہی کمپیوٹر کی تربیت کا ادارہ تھا۔ میرے بابا مجھے وہاں لے گئے۔مجھے دیکھ کر وہاں موجودسبھی لوگ ہنس پڑے۔ بقول ان کے بڑی عمر کی بچیوں کو کمپیوٹر سکھایاجاتا ہے۔ میرے بابا کے پرزور اصرار پر انھوں نے مجھ سے بات کی، پھر مجھے کمپیوٹر سکھانے کیلئے ہامی بھر لی۔ سر خرم حنیف اور سر سہیل احمد نے مجھے کمپیوٹر کی تربیت دی۔ مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحاننو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تو مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کر لوں گی مگر میرے استاتذہ بہت پُر امید تھے۔ میں نے دو سال کا کورس چار ماہ میں مکمل کر لیا تھا۔ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ اگر میں نے مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کر لیا تو یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو گا۔ جب میں مائیکرو سافٹ سرٹیفیکیشن کا امتحان دے رہی تھیں تو میری ایک ہی دعا تھی کہ ''اللہ تعالیٰ اگر آپ کو میری کوئی بھی بات اچھی لگتی ہے تو بس میرا پرچہ اچھا کروا دیں‘‘، تو پھر بس ہو گیا میرا پرچہ اچھا۔ارفع کریم کو اردو، انگریزی، پنجابی، پشتو اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔اپنے ایک انٹرویو میں ارفع کریم کا کہنا تھا کہ میں نے انگریزی زبان کتابیں پڑھ کر اور کارٹونزدیکھ کر سیکھی تھی۔ جس لہجے میں آپ بولنا شروع کرتے ہیں وہ آپ کا لہجہ بن جاتا ہے، تو کارٹونز کی وجہ سے زیادہ بہتری آئی۔ فرانسیسی زبان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بس یہ چاہتی تھی کہ یہ بھی آنی چاہیے، بہت اچھی زبان ہے، اس لئے اسے سیکھا۔ارفع کا انتقالارفع کریم 22 دسمبر 2011ء کو اچانک بیماری کا شکار ہوئیں اور انہیں لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ کئی دن تک زیر علاج رہنے کے بعد، وہ 14 جنوری 2012ء کو 16 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ ان کی وفات پاکستان اور دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ایک گہرا صدمہ تھی۔ارفع ایک ذہین اور پرعزم لڑکی تھیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ سیکھنے اور دوسروں کو متاثر کرنے میں گزارا۔ وہ آئی ٹی کے میدان میں نوجوانوں کیلئے ایک رول ماڈل تھیں اور اپنے ملک کیلئے کچھ خاص کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ ارفع کریم رندھاوا ایک پھول تھا جو مرجھا گیا مگر اس کی خوشبو آج بھی دل و دماغ میںمہک رہی ہے۔ارفع کریم کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر عزم، محنت، اور لگن ہو تو کوئی بھی خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔ارفع کریم کے اعزازت٭... جولائی 2005 میں مائیکروسافٹ کارپوریشن کی دعوت پراپنے والد کے ہمراہ امریکہ گئیں۔ جہاں انہیں دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کی سند دی گئی۔ جب وہ بل گیٹس سے ملیں تو اس کے بارے میں کہا گیا کہ ''پاکستان کا دوسرا رخ‘‘۔ بل گیٹس نے ارفع سے دس منٹ ملاقات کی۔٭... دبئی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہرین نے دو ہفتوں کیلئے انھیں مد عو کیااورانھیں مختلف تمغے اور اعزازات د ئیے ۔٭...ارفع کریم نے دبئی کے فلائنگ کلب میں صرف دس سال کی عمر میں ایک طیارہ اڑایا اور طیارہ اڑانے کا سرٹیفیکٹ بھی حاصل کیا۔٭...2005ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ'' پرائیڈ آف پرفارمنس'' دیا گیا۔٭...''مادرملت جناح طلائی تمغہ '' بھی عطا کیا گیا۔٭...'' سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔٭...مائیکرو سافٹ نے بار سلونا میں منعقدہ 2006ء کی تکنیکی ڈویلپرز کانفرنس میں پوری دنیا سے پانچ ہزار سے زیادہ مندوبین میں سے پاکستان سے صرف ارفع کریم کو مد عو کیا۔٭... بعد از مرگ لاہور کا آئی ٹی سینٹر ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں ان کے گاؤ ں کو بھی ارفع کریم کا نام دے دیا گیا۔

مزاح پارے : جب سردی میں جاڑے سے پالا پڑا!

مزاح پارے : جب سردی میں جاڑے سے پالا پڑا!

یقیناً سرد ناک سردی نے عام لوگوں کو چھَٹی تو کیا،گیارہویں کا دودھ بھی یاد دلا دیا ہوگا اور شعراء کو سردی کی بابت اپنے شعری نَظریات سے یوٹرن لینے پر ضرور مجبور کیا ہو گا۔ ماضی میںآتشیں حسد و عشق میں جلے بھُنے شعراء سرد اور برفاب موسم کو باعثِ راحت مانتے تھے۔ کبھی سرد ہوا یار کو یاد کرنے کا موجب بنتی تو کبھی سردی کی آمد پر محبوب سے ملاقات کی بِنتی کی جاتی جبکہ گرمیوں کو کسی نے بھی لائقِ تحسین نہ جانا ۔ دسمبر کے تو اتنے گُن گائے گئے کہ وہ ناز سے اِترانے لگا اور کچھ مدت کیلئے ٹھنڈا ہونا بھی چھوڑ دیا۔نا معلوم جنوری کی شان میں کیوں نہ لکھا گیا۔غالباً نحیف و ناتواں شعراء کے دسمبر کے اندر ہی کام'' بَن‘‘ یا پھر''تمام‘‘ ہوجاتے ہوںگے ۔ایسے میں جب جاڑے میں سردی سے پالا پڑتا ہے تو خورشید کا نور ظہور بھی عید کا چاند ٹھہرتا ہے۔اندھا دھند دھند، دھند میں تارے دکھا دیتی ہے۔ٹمپریچر وہ کم ظرفی دکھاتا ہے کہ اپنی اوقات سے بھی زیادہ گِر کے دکھا دیتا ہے ۔یو ں مزید درجہ حرارت گرنے کے خوف سے عُشاق بے چارے سرد آہیں بھرنے سے بھی معذور رہتے ہیں ۔عشق کو تپتے ہوئے صحرا سے تشبیہ دینے والے عشاق بھی جاڑے سے دانت بجانے لگتے ہیں۔ کپکپاہٹ ، دندناہٹ اور یخ یخاہٹ کا دور دورہ ہوتا ہے۔ کھانسنا، چھینکنا اور کھنگھارنا تو اوڑھنا بچھوناہوجاتا ہے جبکہ ناک کی نم ناک روانی اس قدر خطر ناک ہوجاتی ہے کہ عاشق ومعشوق سبھی '' ناک‘‘ چھپائے پھرتے ہیں ۔ نزلے کی مُغلظ ریشہ دوانیاں اچھے بھلے انسان کوپانی پانی کیے رکھتی ہیں۔ انگاروں اور چائے کے سوا کوئی چارہ نہیں جبکہ انڈا اور لنڈا فروشوں کی تو چاندی ہوئی رہتی ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ ان سرد ناکیوں میں خطے کی روایات میں ٹرانسجینڈرانہ بدلاو آئے ہیں۔ حدتِ جذبات کے پیکروںکے ہاں جذبات کی یخ بستگی نے عاشقی و مردانگی کو ہی مشکوک بنایا ہے۔ اس حال میں کتا ب تنہائی کی ساتھی ہے نہ وصل ہجر کا درماں، بلکہ صرف رضائی مقصود اور اٹیچ باتھ مطلوب ہے۔ ایسی شبِ یلدائی ٹھنڈ توسب کوایک دوسرے کا ''رضائی بہن بھائی‘‘ بناکے رکھ چھوڑتی ہے ۔ یہ عُقدہ بھی عیاں ہوا کہ کمبل کو چھوڑنے کے باجود کمبل کیوں نہیں چھوڑا کرتا، گویا شب ِ زفاف کی جگہ ''شب ِ لحاف‘‘ نے لے لی ہے۔ البتہ جلنے والوں کو سردی کا احساس ضرورکم ہوتا ہوگا اور سردیوں میں گرمی کی اذیت سے بھی جاں چھوٹ جاتی ہے ۔اصل میں منطقہ معتدلہ میں واقع ہونے کے موجب وطن عزیز میں سارے موسم ہی اپنے اپنے رنگ جماتے ہیں۔ ان دنوں شمالی نصف کرہ میں سردی تو جنوبی نصف کرہ میں گرمی ہے۔ سرما میں اس خطے میں سورج دیوتا کی بے رخی کے باعث دھرتی ماتا سے فاصلے کافی بڑھ جاتے ہیں اور وہ شدید سرد مہری پر اتر آتا ہے ۔ دن چھوٹے اور راتیں اتنی لمبی ہو جاتی ہیں کہ علم ریاضی کے دعویدار بھی ''طولِ شبِ فراق‘‘ ناپنے سے قاصر دِکھتے ہیں۔ سردی کا سب سے زیادہ احساس نونہالان و معمارانِ قوم پر پڑتا ہے لہٰذاانھیں گرمیوں کی طرح سردیوں میں بھی ڈھیرساری تعطیلات دی جاتی ہیں ۔یوں اب محکمہ تعلیم کو ''محکمہ تعطیلات ‘‘کہنا غلط نہ ہوگا۔ مغربی اور شمالی یخ بستہ ہوائیں بیرونی سازشوں کا عندیہ بھی دیتی ہیں اور ادھر سرکارِ بے سروکار نے مہنگائی کو چار چاند لگا کر غریبوں کیلئے '' کئی چاند سر آسماں‘‘چڑھا رکھے ہیں جبکہ سابق سرکار نے تو قبر میں سکون کی وعیدانہ نوید سنا رکھی تھی ۔کوئی انہیں بتلائو کہ بعد از مرگ بھی ''زم حریر‘‘ کا عذاب منتظر ہے ۔ جانے اب اس دلگداز اور سرد ناک زمستاں میں ابوالکلام آزاد اور عرش صدیقی ایسے '' ثناء خوانِ تقدیسِ سرما‘‘ کہاں ہیں ؟اور بہادر شاہ ظفر ہوتے تو کچھ یوںکہہ اٹھتے: ان سردیوں سے کہہ دو کہیں دور جا بسیں اتنی سکت کہاں ہے طبعِ ناتوان میں 

آج کا دن

آج کا دن

پانی پت کی تیسری لڑائی14 جنوری 1761ء کواحمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے مابین پانی پت کی تیسری لڑائی لڑی گئی۔ مرہٹہ فوج کی قیادت چھترپتی کے تیسرے پیشوا اور وزیر اعظم سداشو راؤ بھاؤ نے کی۔ یہ جنگ 18ویں صدی کی سب سے بڑی جنگ مانی جاتی ہے اور ایک دن میں اموات کے اعتبار سے بھی یہ سب سے بڑی جنگ تھی۔ مورخین جانبین سے نقصان اور اموات کو لے کر اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق 60 ہزار سے 70ہزار جانیں گئیں۔ جنگ کے واحد معتبر چشم دید، شجاع الدولہ کے دیوان کاشی راج کے مطابق جنگ ختم ہونے کے اگلے دن مرہٹہ سلطنت کے 40 ہزار فوجیوں کو آسان موت دے دی گئی۔ معاہدہ کریملن14 جنوری 1994ء کو امریکی صدر کلنٹن اور روسی صدر بورس یلسن نے میزائل عدم پھیلاؤ کے معاہدہ کریملن پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت یوکرین کے جوہری ہتھیاروں کو ختم کیا گیا، جو اس وقت دنیا کا تیسرا بڑا جوہری اسلحہ خانہ رکھتاتھا۔یلسن نے کہا کہ ہم جوہری تخفیف اسلحہ کے مقصد کو بہت زیادہ فروغ دے رہے ہیں۔اس معاہدے کے اعلامیہ میں صدر کلنٹن اور یلسن نے کہا کہ جوہری دور کے آغاز کے بعد سے پہلی بار امریکہ اور روس جوہری ہتھیاورں کو اس انداز میں نہیں چلائیں گے کہ وہ مخالف ہیں۔جی میل پر سائبر حملہ14جنوری 2010ء کو چین میں ''جی میل‘‘ استعمال کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کے اکاؤنٹس پر سائبر حملہ کیا گیا۔یہ سائبر حملوں کی ایک سیریز تھی۔اس واقعہ میں سائبر حملوں سمیت اور بہت سی وجوہات شامل تھیں۔ ہیکرز کی تلاش کے بعدگوگل کو حاصل ہونے والے نتائج کو سنسر کرنے کیلئے بھی کہا گیا۔اس سائبر حملے کے بعد امریکہ کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں گوگل استعمال کرنے والی دیگر کمپنیوں کیلئے ایک محفوظ ماحول موجود ہونا چاہئے۔اس واقعہ کے ٹھیک دو ماہ بعد گوگل نے google.cnکو بند کر دیا۔امریکی خلائی تحقیقی پروگرامریاستہائے متحدہ امریکہ نے 14 جنوری 2005ء کو ''ویژن فار سپیس ایکسپلوریشن‘‘ (Vision for Space Exploration) کے نام سے ایک خلائی تحقیقاتی پروگرام کا آغاز کیا۔ اس پروگرام کا اعلان امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی جانب سے سپیس شٹل کولمبیا کے حادثے کے بعد کیا گیا۔ خلائی جہاز کے حادثے کے متعلق اور تحقیقاتی پروگرام کے افتتاح کا اعلان امریکی عوام کے سامنے ایک ساتھ کیا گیا۔حادثے کا شکار ہونے والا خلائی جہاز امریکی ریاست کولمبیا میں ہوا میں پھٹ گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق ویژن فارسپیس ایکسپلوریشن پروگرام کا مقصدریاستہائے متحدہ امریکہ میں خلائی سفر کومقبولیت دینا تھا۔کنگسٹن کا زلزلہکنگسٹن کا زلزلہ جس نے جمیکا کے جزیرے کے دارالحکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا 14جنوری 1907ء کو آیا۔ اس زلزلے شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی۔اس کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے جیولوجیکل سروے نے تاریخ میں ریکارڈ کئے گئے دنیا کے مہلک ترین زلزلوں میں سے ایک قرار دیا۔کنگسٹن میں موجود ہر عمار ت کو زلزلے اور اس کے نتیجے میں لگنے والی آگ نے نقصان پہنچایا۔یہ آگ تین گھنٹے تک جاری رہی۔ زلزلے کے نتیجے میں ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ30ملین(موجودہ تقریباً 872 ملین) ڈالرز کا نقصان ہوا۔زلزلے کے کچھ دیر بعد جمیکا کے شمال ساحل ہر سونامی بھی آیا جس کی لہرویں 2میٹر تک بلند تھیں۔