مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف،شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی

مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف،شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد ارشد لئیق


''بابائے صحافت‘‘ کا لقب پانے والے مولانا ظفر علی خان کی آج برسی ہے۔27 نومبر 1956ء کو اردو زبان و ادب کی اس نامور شخصیت کی زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔
مولانا ظفر علی خان نے عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد کبھی شاعری اور صحافت کے میدان میں قدم جمائے اور کبھی سیاست کے میدان کے شہسوار بنے۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین احمد 1903ء میں جب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے اپنے آبائی گائوں کرم آباد سے اخبار ''زمیندار‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس کا مقصد زمینداروں اور کسانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ والد کی وفات کے بعد جب ''زمیندار‘‘ مولانا کی زیر ادارت آیا تو اس نے انگریز کے خِرمَن اقتدار میں آگ لگا دی۔ مولانا نے 1908ء میں ''زمیندار‘‘ کی اشاعت لاہور سے شروع کی تو لاہور سے شائع ہونے والے بڑے بڑے اردو اخبارات کے چراغ ٹمٹمانے لگے اور ''زمیندار‘‘ کی شہرت کا ستارہ آسمانِ صحافت پر جگمگانے لگا۔مولانا کی صحافتی زندگی کافی دشوارگزار رہی، مالی وسائل کی کمی کے باعث اشاعت کا کام جاری رکھنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحافت کے انتہائی ناموافق حالات میں زمیندار نے مسلمانوں کی بیداری شعور میں اہم کردار کیا۔ مولانا ظفر علی خاں اپنے زمانے کے چوٹی کے مسلمان صحافیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
انگریز دور میں سیاست کے میدان میں مختلف تحاریک، مزاحمتی سرگرمیوں کے علاوہ قلم کے ذریعے آزادی کی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری تھا۔ مولانا ظفر علی خان بھی اپنے اداریوں اور مضامین کی وجہ سے کئی مشکلات جھیلنا پڑیں اور ان کے اخبار زمیندار کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں تھا بلکہ مولانا نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
مولانا ظفر علی خان ایک بہترین خطیب، باکمال شاعر اور انشا پرداز بھی تھے۔ ان کے اداریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں جن میں نثری اور شعری مجموعے شامل ہیں۔
مولانا ظفر علی خان صحافت، خطابت اور شاعری کے علاوہ ترجمہ میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ حیدرآباد میں قیام کے دوران مولانا نے لارڈ کرزن کے انگریزی سفر نامہ ایران کا ترجمہ ''خیابان فارس‘‘ کے نام سے شائع کیا تو لارڈ کرزن نے سونے کے دستے والی چھڑی تحفہ میں پیش کی۔ اس کے علاوہ مولانا ظفر علی خان کے تراجم میں فسانہ لندن، سیر ظلمات اور معرکہ مذہب و سائنس بہت معروف ہوئے۔ انہوں نے ایک ڈرامہ ''جنگ روس و جاپان‘‘ بھی لکھا جبکہ شہرہ آفاق تخلیقات میں ''جسیات‘‘ اور ''بہارستان‘‘ نظموں کے مجموعے ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں۔
مولانا ظفر علی خان کا اسلوب منفرد تھا، ان کی تحریریں نثری ہوں یا شعری دونوں ہی ملی امنگوں کی ترجمان ہیں۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ مولانا کی شاعری کی مختلف جہات ہیں۔ وہ فی البدیہہ شعر کہنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔اُن کی شاعری میں حمد، نعت گوئی، حالاتِ حاضرہ کے مطابق شعر کہنا، وطن کی محبت میں شعر، اور انقلابی اشعار شامل ہیں۔ اُن کی شاعری کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:
بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نے
دکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نے
تری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستی
سمویا اپنے ہاتھوں سے مزاحِ جسم و جاں تو نے
ایک اور مقام پر عرض گزار ہیں:
اب ہم سمجھے کہ شاہنشاہ مُلکِ لامکاں ہے تو
بنایا اک بشر کو سرورِ کون و مکاں تو نے
محمد مصطفیٰؐ کی رحمۃ اللعالمینی سے!
بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نے
وہ اپنی نعت گوئی کیلئے بھی مشہور ہیں۔ ان کی اس نعت سے کون واقف نہیں ہے۔
وہ شمع اُجالا جس نے کیا
چالیس برس تک غاروں میں
اِک روز جھلکنے والی تھی
سب دنیا کے درباروں میں
1956ء میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں کریم آباد(وزیر آباد )میں دفن کیا گیا،صحافت اورنعت گوئی میں ان کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

فرض اور قرض

جو مسلم ہے تو جاں ناموس ملت پر فدا کر دے
خدا کا فرض اور اس کے نبی کا قرض ادا کر دے
بھری محفل میں لا سکتا نہ ہو گر کفر تاب اس کی
تو زنداں ہی میں جا کر روشن ایماں کا دیا کر دے
شہادت کی تمنا ہو تو انگریزی حکومت پر
کسی مجلس کے اندر نکتہ چینی برملا کر دے
تمہارا قافلہ کچھ لٹ چکا اور کچھ ہے لٹنے کو
رسول اللہ کو اس کی خبر باد صبا کر دے
ضرورت ہے اب اس ایجاد کی دانائے مغرب کو
جو اہل ہند کے دامن کو چولی سے جدا کر دے
نکل آنے کو ہے سورج کہ مشرق میں اجالا ہو
برس جانے کو ہے بادل کہ گلشن کو ہرا کر دے
قفس کی تیلیوں پر آشیاں کا کاٹ کر چکر
فلک سے گر پڑے بجلی کہ بلبل کو رہا کر دے
یہ ہے پہچان خاصان خدا کی ہر زمانے میں
کہ خوش ہو کر خدا ان کو گرفتار بلا کر دے
ظفر کے قلم میں مصطفی کمال کی تلوار کا بانکپن ہے: اقبالؒ
ان کی خدمات کے اعتراف کے لیے علامہ اقبال جیسی شخصیت کی یہ رائے ہی کافی ہے کہ''ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے‘‘

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مار اے لاگو اور دو کروڑ کا کتا

مار اے لاگو اور دو کروڑ کا کتا

دنیا بھر کے سربراہان مملکت سمیت نامور شخصیات کی رہائش گاہوں کو مخصوص ناموں سے تاریخ میں ہمیشہ بڑی اہمیت رہی ہے۔جیسے فرانسیسی صدر کی رہائش گاہ '' ایلیسی محل‘‘ ،چین کے صدارتی محل کو ''ژونگ نان ہائے‘‘، برطانوی ملکہ کی رہائش گاہ ''بکنگھم پیلس‘‘ جبکہ برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ ''ٹن ڈائوننگ سٹریٹ‘‘ ، کراچی کا مہٹہ پیلس جو محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ کے باعث ''فاطمہ پیلس‘‘کہلایا جانے لگا۔ امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کو '' وائٹ ہاوس‘‘کی شہرت حاصل ہے۔دنیا کی بعض نامور شخصیات ایسی بھی ہیں جن کی ذاتی رہائش گاہوں کو بھی تاریخی شہرت حاصل ہوئی، جیسے علامہ اقبالؒ کی ذاتی رہائش گاہ کو ''جاوید منزل‘‘ ، امریکی صدر ڈونلڈ جان ٹرمپ کی ذاتی پرتعیش رہائش گاہ کو ''مار اے لاگو ‘‘ کہا جاتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس لحاظ سے شاید خوش قسمت تصور ہوں گے کہ امریکی تاریخ میں وہ دوسرے صدر ہیں جو ایک سو بیس(120) سال قبل گروور کلیولینڈ کے بعد دو بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے صدر ہی نہیں بلکہ ذاتی زندگی میں ایک سیاست دان ، میڈیا پرسن اور پراپرٹی ٹائیکون بھی ہیں۔دولت مند ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت جہاں ان کی جارحانہ طبیعت کی شہرت رکھتی ہے، وہیں ان کا شاہانہ طرز زندگی بھی اکثر موضوع بحث بنا رہتا ہے۔ فلوریڈا کے '' پام بیچ‘‘پر واقع ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ وسیع و عریض گھر '' مار اے لاگو‘‘ جو ایک کلب پر بھی مشتمل ہے ، ہر اس سہولت سے آراستہ ہے جس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ قلعہ نما یہ ریزورٹ ڈونلڈ ٹرمپ نے 1980ء میں اس وقت خریدا تھا جب یہ ایک گمنام مالدار شخصیت تھے لیکن اتنے بھی مالدار نہ تھے جتنے اب ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد فلوریڈا میں واقع ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ رہائش گاہ سیاسی طور پر عالمی طاقت کا ایک نیا مرکز بن چکی ہے۔امریکی صدارتی انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ دو بار قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ان پر پہلا حملہ رواں سال جولائی میں امریکی ریاست پینسلونیا میں ان کی انتخابی مہم کی ریلی کے دوران ہوا تھا جبکہ تقریباً دو ماہ بعد ان پر دوسرا حملہ مارا ے لاگو کے گولف کورس میں ہوا تھا۔واضح رہے کہ ان قاتلانہ حملوں کے بعد سے امریکی حکومت نے انہیں خصوصی سکیورٹی دینا شروع کر دی ہے اور وہ ہمیشہ ہائی الرٹ رہتے ہیں۔ جنوری 2005ء کے بعد اقتدار سنبھالنے کے بعد یقینی طور پر ان کی سکیورٹی میں ممکنہ حد تک مزید اضافہ بھی کر دیا جائے گا۔ حال ہی میں دنیا بھر کے میڈیا ہاوسز سمیت معروف برطانوی اور امریکی نشریاتی ادارے جہاں ''مار اے لاگو‘‘ کے سیاسی اجتماعات کی دلچسپ انداز میں لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کرتے نظر آتے ہیں، وہیں وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ٹرمپ کی فتح کے بعد نئی انتظامیہ کا حصہ بننے کے خواہشمندوں سمیت امریکہ کی بااثر ترین شخصیات اس وقت مار اے لاگو کے گرد منڈلاتی نظر آتی ہیں۔ اسی کے ساتھ مبصرین اور محققین اپنے ناظرین اور سامعین کو یہ یاد کراتے بھی نظر آتے ہیں کہ یہ وہی پررونق مقام ہے جہاں ٹھیک دوسال پہلے امریکی ایف بی آئی نے چھاپہ مارا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اسے یہاں سے جوہری ہتھیاروں سمیت جاسوسی سیٹلائٹ سے متعلق حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات ملی ہیں۔ سکیورٹی انتظامات اور روبوٹ کتا مار اے لاگو کے سکیورٹی انتظامات اگرچہ ایک قلعہ کی مانند ہیں تاہم امریکی انتظامیہ اس مرتبہ مستقبل قریب کے اپنے ایک صدر کی سکیورٹی پر کسی قسم کی کوتاہی پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خاندانی ذرائع کے بقول ''صدر ٹرمپ مسند صدارت سنبھالنے کے بعد طاقت کا مرکز مار اے لاگو نہیں چھوڑیں گے بلکہ وہ دوسرے دور صدارت میں زیادہ وقت فلوریڈا کے اس ریزورٹ میں گزارنا پسند کریں گے‘‘۔ اس دفعہ امریکی سیکرٹ سروس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے سکیورٹی کے انتظامات کو ترجیح دیتے ہوئے روبوٹ کتے بنانے والی کمپنی ''بوسٹن ڈائنامکس‘‘کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس کمپنی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سکیورٹی کیلئے '' سپوٹ‘‘ نامی ایک خصوصی روبوٹ کتا تیار کیا ہے۔اس سلسلے میں سکیورٹی اینڈ رسک مینجمنٹ کمپنی ''ٹیلون کمپنیز ‘‘ کے سی ای او رون ولیمز کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے خلاف قاتلانہ حملوں کے بعد سیکرٹ سروس ایجنسی کو محسوس ہوا کہ اسے ٹیکنالوجی کو مزید جدید اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ہونے والے حملوں بارے پتہ لگایا جا سکے اور بروقت ان پر قابو بھی پایا جا سکے۔رون ولیمز نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ انسانوں کے مقابلے میں یہ روبورٹ کتے ایک وسیع رقبے پر بہتر انداز میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ مستقبل قریب میں یہ کتے بیشتر اہم مقامات پر سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالے نظر آئیں گے۔ رون ولیمز نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ روبوٹ کتے پہلے ہی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ افواج میں بھی کامیابی سے سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی سال گزشتہ سے ان کتوں کو اپنی فورس میں شامل کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا کے پام بیچ میں، مار اے لاگو ریزورٹ کے آس پاس گشت کرتا یہ منفرد کتا اور کشتیوں پر گشت کرتے چاق و چوبند مسلح محافظ پچھلے کچھ عرصہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔75 ہزار ڈالر یعنی 2 کروڑ روپے مالیت کا ''سپوٹ‘‘ نامی یہ روبوٹ کتا متعدد کیمروں اور تھرمل سینسرز سے آراستہ ہے۔یہ روبوٹ کتا سیڑھیاں چڑھ سکتا ہے، اتر بھی سکتا ہے، تنگ جگہوں سے گزرنے کی صلاحیت کے علاوہ یہ بند دروازوں کو کھول بھی سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ عام انسانوں کی مانند رسپانس بھی دیتا ہے۔ یہ کتا عام کتوں سے زیادہ تیز رفتار ، پھرتیلا اور چوکس ہے۔اس کتے کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سکیورٹی کیمروں سے لیس یہ کتا اپنے ارد گرد کے تھری ڈی نقشے بھی بنا سکتا ہے۔ اس منفرد اور قلعہ بند سکیورٹی انتظامات کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ عالمی طاقت کے اس نئے مرکز میں ان دنوں دنیا کی بڑی بڑی شخصیات بھی قیام پذیر ہیں، جن میں دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹیسلا سمیت ''ایکس‘‘ کے مالک ایلون مسک ،امریکہ کے ایک بڑے سیاسی خاندان کی شخصیت رابرٹ کینیڈی، بل گیٹس اور ایل گور سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کے متعدد دوست بھی مار اے لاگو میں یا تو رہائش پذیر ہیں یا ان کا طاقت کے اس مرکز میں آنا جانا لگا ہوا ہے۔ یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ سکیورٹی جیسے حساس مسئلے کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی ، انسانی روائتی طریقوں سے کس حد تک بہتر ہے۔

ثابت بن قرہ حرانی علم ہیئت کا ماہر،فلسفی اور طبیب

ثابت بن قرہ حرانی علم ہیئت کا ماہر،فلسفی اور طبیب

تعارف: ثابت بن قرہ حرانی ہیئت کا ماہر اور فن طب میں علم تشریح الابدان میں باکمال فلسفی اور طبیب تھا۔ علم الاعداد میں موافق عددوں کے درمیان استخراج کے اہم کلیہ دریافت کئے اور موافق عددوں کے جوڑے معلوم کرنے کے لئے ایک کلیہ اور اصول قائم کیا۔ اجزائے ضربی اور اجزائے مرکبہ کے فرق کو بتایا۔اس ماہر ہیئت داں نے رصد گاہ بھی تعمیر کر لیا تھا۔ بیت الحکمۃ کے طرز پر علمی ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ حکومت وقت نے علم ہیئت سے متعلق اداروں کا اسے نگراں مقرر کیا تھا۔ اپنی زندگی میں اس نے بہت سے اچھے اچھے کام کئے اور علوم و فنون کو ترقی دی۔ ابتدائی زندگی‘ تعلیم و تربیت ثابت بن قرہ حرانی اچھا طبیب اور علم تشریح الابدان کا ماہر تھا۔ علم ریاضی میں اس نے کئی نئے کلیے (قاعدہ، اصول) دریافت کئے۔ثابت حران کا باشندہ تھا۔ حران شمالی عراق میں ایک مردم خیزعلاقہ تھا۔ یہاں کے باشندوں میں بعض بہت مشہور اور قابل لوگ گزرے ہیں۔ ثابت کا خاندان بھی علمی خاندان تھا۔ ثابت عرب خاندان سے تھا۔ اس کا آبائی پیشہ صرانی تھا۔ ثابت نے تعلیم اپنے ہی وطن میں حاصل کی اور مطالعے کے ذریعے اپنی قابلیت میں اضافہ کیا۔محمد بن موسیٰ شاکر جب کسی جنگ سے واپس آ رہا تھا تو مقام حران میں فوج نے پڑائو کیا۔ یہاں اس کی ملاقات نوجوان ثابت بن قرہ سے ہوئی۔ محمد سمجھ گیا کہ یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ محمد نے ثابت کو اپنے ساتھ بغداد چلنے پر آمادہ کیا اور ساتھ لایا۔ بغداد میں محمد نے ثابت کی بڑی قدرومنزلت کی، ثابت میں علمی تحقیق کی بڑی لگن تھی۔ چنانچہ محمد بن موسیٰ اور ثابت دونوں نے مل کر ایک علمی ادارہ قائم کیا۔ اس علمی ادارہ میں بہت سے قابل لوگ شریک ہوئے اور کام شروع ہو گیا۔ یہ علمی ادارہ بیت الحکمۃ کے طرز پر تھا۔ اس نئے ادارے نے بہت سے علمی کام کئے۔ یہ 855ء کے بعد کے واقعات ہیں۔ ثابت نے علمی کاموں کی وجہ سے خاصی عزت پیدا کرلی۔علمی خدمات اور کارنامے ثابت علم ہیئت کا ماہر تھا۔ حکومت نے اسے علم ہیئت کے شعبے میں نگران مقرر کیا۔ اس نے کئی نئے نئے انکشافات کئے۔ رصد گاہ (Observatory) کے انتظامات کی اس نے اصلاح کی۔ علم تشریح الابدان میں وہ کمال رکھتا تھا اور اس نے فن یعنی علم تشریح الابدان میں نئی نئی تحقیقات کر کے اس حصے میں اہم اضافے کئے۔ اس نے اس موضوع پر ایک اچھی کتاب بھی تصنیف کی۔علم ہندسہ (جیومیٹری) میں بھی اس نے بعض شکلوں سے متعلق ایسے مسائل اور کلیات دریافت کئے جو اس سے پہلے معلوم نہ تھے۔ علم الاعداد میں ثابت نے موافق عددوں (Amicable Number) کے ایک ایسے اہم کلیے کا استخراج کیا جس کے ذریعہ کوئی مرکب عدد ان چھوٹے عددوں پر باری باری سے پورا پورا تقسیم ہو جاتا ہے اوروہ چھوٹے عدد اس مرکب عدد کے ''اجزائے مرکبہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ مثلاً 20 ایک مرکب عدد ہے جسے باری باری سے 1,2,4,5 اور 10 پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ سب عدد (20) کے اجزائے مرکب ہیں۔ یاد رکھئے! اجزائے مرکب اور اجزائے ضربی میں فرق ہے۔ اجزائے ضربی مفرد ہوتے ہیں۔ مثلاً 1,2 اور 5 مفرد ہیں مگر 4 اور 10 مرکب عدد ہیں۔ثابت نے موافق عدد کے بارے میں بتایا کہ دو مرکب عدد ایسے ہوں کہ پہلے عدد اجزائے مرکبہ کا مجموعہ دوسرے عدد کے برابر ہو جائے اوردوسرے عدد کے اجزائے مرکبہ کا مجموعہ پہلے عدد کے برابر ہو جائے تو یہ دونوں عدد آپس میں موافق عدد کہلاتے ہیں۔ ثابت نے موافق عددوں کے جوڑے کیلئے ایک کلیہ اور اصول معلوم کیا۔

کافی موسم سرما کا  فرحت انگیز  مشروب

کافی موسم سرما کا فرحت انگیز مشروب

ہماری دنیا اور آج کے اس جدید میں زیادہ تر لوگوں کیلئے کافی ایک پسندیدہ ترین چیز ہے۔ آپ کے جاننے والے تقریباً سبھی لوگ تھوڑی مقدار میں یا زیادہ مقدار میں کافی پیتے ہوں گے، لیکن ہم سب کو اس فرحت انگیز مشروب کے بارے میں کتنا پتہ ہے؟ اس تحریر میں ایسی دلچسپ باتیں شامل ہیں جو آپ کو شاید پہلے معلوم نہیں ہوں گی۔کافی کی دانے دار پھلیاں اصل میں کافی کے بیج: کافی کی پھلیاں درحقیقت پھلیاں نہیں ہیں بلکہ یہ کافی کے بیج ہی ہیں جن سے کافی کے نئے پودے اگائے جا سکتے ہیں۔کافی کی پھلیوں کی الگ الگ شکل کی وجہ سے انہیں کافی بینز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کافی کے بیجوں کیلئے یہی نام مشہور ہے۔ کافی کی تاریخ:لاکھوں لوگوں کے اس پسندیدہ مشروب یعنی کافی کی ابتداء سے متعلق بہت ساری کہانیاں مشہور ہیں، لیکن سب سے مشہور کہانی نویں صدی میں ایتھوپیا کے ایک بکریوں کے چرواہے کے بارے میں ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نوجوان چرواہے نے کئی بار مشاہدہ کیا کہ مقامی پودوں کو لگنے والی ان پھلیوں کو کھانے کے بعد اس کی بکریاں کتنی زیادہ متحرک اور فعال ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ان چیری نما پھلیوں کو گھر لے آیا اور خود انہیں آزمایا۔ جس کے بعد کافی کو مشروب کی طرح پینے کی ابتدا ہوئی۔ ایسپریسو کافی: دنیا میں کافی کا شوقین شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جسے یہ نہ پتہ ہو کہ ایسپریسو کافی دنیا بھر میں بہترین مانی جاتی ہے، مگر یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ ایسپریسو مشینوں کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اصطلاح دراصل اطالوی ہے اور اس سے کسی چیز پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی سے مراد لی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسپریو مشین نیچے موجود کافی بینز کو پانی سے دباتی ہے اور اس سے کافی کی تھوڑی تھوڑی مقدار لیتی رہتی ہے تاکہ کافی کے باریک ذرات کے ذریعے زیادہ گاڑھا اور مزیدار مشروب تیار کیا جاسکے۔کافی طویل زندگی کی ضامن:کافی کے بارے میں آپ نے جو بھی سنا ہو، مگر حقیقت میں کافی پینے کیلئے صحت بخش مشروبات میں سے ایک ہے جس میں بڑی مقدار میں اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں۔جب آپ اپنے روز مرہ معمولات میں صحتمند غذا کو شامل رکھتے ہیں اور ساتھ میں کافی سے بھی لطف اندوز ہوں تو اس بات کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے کہ کافی آپ کو ایک طویل عرصہ تک زندہ رہنے میں مدد دے سکتی ہے۔کافی کی اقسام:کافی کے کاشت کار دو طرح کی کافی عربیبا اور روبستا اگاتے ہیں۔ اس میں پہلی قسم جو کہ عربیہ کافی ہے دنیا بھر میں پائی جانے والی کافی کی دیگر اقسام سے بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہے اور اسے کافی کے شوقین خواتین و حضرات بہت پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ حقیقت میں روبستا کافی کاشتکاروں میں کم مقبول ہے۔ سب سے زیادہ کافی پیدا کرنے والا ملک:برازیل میں دنیا کو فراہم کی جانے والی کافی کا ایک تہائی حصہ تیار ہوتا ہے اور اس طرح برازیل دنیا کو کافی فراہم کرنے والے ممالک سے دگنی مقدار میں کافی پروڈیوس کرتا ہے۔

وقت کابا مقصد استعمال!

وقت کابا مقصد استعمال!

اگر آپ سے یہ معلوم کیا جائے کہ ایک سال کے کل آٹھ ہزار سات سو ساٹھ (8760)گھنٹوں کو آپ نے کہاں کہاں صَرف کیا ہے تو امکان ہے کہ اس میں تقریباً 70 فیصد وقت کا آپ حساب بتا دیں گے جیسے دفتر، کاروبار، نیند، آمد و رفت وغیرہ۔ باقی گھنٹوں کے حساب کیلئے آپ کو ذہن پر زور دینا ہو گا۔اگر آپ سے کہا جائے کہ اس سال کے کل گھنٹوں میں سے آپ نے کتنا وقت بامقصد استعمال کیا اور کتنا بے مقصد اور فضول و لغو باتوں میں، تو اس کا جواب یقینا مشکل ہے۔ اس کی وجہ پہلی تو یہ کہ ہم نے اپنا نصب العین اور متعلقہ مقاصد متعین نہیں کیے۔ دوسرے ان مقاصد کیلئے طریقہ کار اور راہیں متعین نہیں کیں۔ تیسرے یہ کہ ان کیلئے ہم نے عزم نہیں کیا۔ چوتھے یہ کہ باریک بینی سے منصوبہ بندی نہیں کی اور پانچویں یہ کہ اس سلسلے میں نہ تو ہم نے وقت مقرر کیا ہے، نہ اس وقت کا حساب لکھا اور نہ ہی اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ مقاصد کے حصول کیلئے ہم نے کتنا وقت استعمال کیا اور باقی کتنا ضائع ہوا۔ ہم اپنی زندگی بس اسی انداز سے 24 گھنٹہ یومیہ گزار رہے ہیں۔ ہم بے منزل کے مسافر ہیں کہ چلے جا رہے ہیں، جہاں کہیں تماشا نظر آیا تالیاں بجا دیتے ہیں۔ ہم گزرے ہوئے وقت کا احساس نہیں رکھتے نہ آئندہ کیلئے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور نہ ہی آج کیلئے عزم و ہمت اور لائحہ عمل یا ایکشن پلان پیش نظر رکھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہم انفرادی طور پر کوئی کام نہیں کر سکیں گے اور نہ اپنی ذات اور خاندان کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے اور نہ ہی اجتماعی طور پر قوم و ملک کیلئے کوئی کارنامہ انجام دے سکیں گے۔ نتیجتاً ملکی معیشت اور قومی پیداوار میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکیں گے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے کہ وقت کہاں کہاں ضائع ہو رہا ہے تو اس سلسلے میں سب سے پہلے اپنی ذات کا جائزہ لینا ہو گا۔ دوسرے اپنی معیشت کے ذرائع کا جائزہ کہ حصول رزق کے سلسلے میں جو وقت ہم دے رہے ہیں اس میں کتنا وقت مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کا باعث ہے اور کتنا وقت محض شخصیات، سیاسیات اور معاملات کی خرابیوں کے باعث ضائع ہوتا ہے۔ تیسرے، ہم جائزہ لیں کہ معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں ہم حقیقتاً کتنا وقت دے رہے ہیں جن کا معاشرہ تقاضا کر رہا ہے یا اس معاملہ میں عدم توجہی کا شکار ہیں۔ چوتھے اس بات کا جائزہ لیں کہ واقعی ہم اپنے گھر میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو ہماری حیثیت یا ذمہ داریوں کے مطابق ہے یا پھر محض پیسے کمانے کی مشین ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے گھر کو سرائے بنارکھا ہے اور صرف آرام کیلئے گھر پہنچتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم اپنی خامیوں، عادتوں اور معاملات کا پتا لگائیں جو کہ عموماً تضیع اوقات کا باعث ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے نصب العین کا تعین کر لیا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں، پھر اس کے قلیل المیعاد اورطویل المیعاد مقاصد متعین کر لیے ہیں؟ جیسے یہ کہ اس نصب العین کے حصول کیلئے آئندہ دو سال میں یہ اور اس کے بعد کے سالوں میں یہ کام کرنے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی زندگی کیلئے ترجیحات کا تعین کر لیا ہے؟ نصب العین اور مقاصد کے تعین کے بعد اہم کام یہ ہے کہ ان کے حصول کیلئے جن ذرائع اور وسائل، معلومات اور لوازمات کی ضرورت ہے۔ اس پر توجہ دیں اور بہتر منصوبہ بندی کریں۔ اس کیلئے یہ بھی جائزہ لینا ہو گا کہ وہ کیا مصروفیات ہیں جو مقصد سے قریب پہنچانے میں دیگر مصروفیات سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اسے ہم ترجیحات کا تعین کہیں گے۔ ہم اپنی عادتوں کا جائزہ لیں، جن کے باعث وقت ضائع ہوتا ہے، جیسے صبح آنکھ کھولنے کے بعد خاصی دیر انگڑائیاں لیتے رہنا۔ فجر کی نماز کے بعد گھنٹہ دو گھنٹہ کیلئے نیند کا آ جانا۔ دوستوں کے ساتھ گھنٹوں خوش گپیوں میں مشغول رہنا وغیرہ۔ شخصیت کا غیر منظم ہونا بھی معاملات میں الجھاؤ اور فیصلوں میں تاخیر کا باعث ہوتا ہے۔ نتیجتاً اس غیر منظم شخصیت کے باعث ذاتی، اجتماعی اور قومی وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔  

امپریل کالج:ایک عظیم درسگاہ

امپریل کالج:ایک عظیم درسگاہ

لندن ان شہروں میں سے ایک ہے، جو آج زمانے کے جدید علوم و فنون سے مرصع ہے۔ علم کے پروانے وہاں اپنی پیاس بجھانے کو ترجیح دیتے ہیں، وہ اس لئے کہ اس شہر میں ادب، ثقافت کے لحاظ سے مستقبل کو تابکار بنانے کے وسیع مواقع میسر ہیں۔عالمی رینکنگ کے مطابق چالیس جامعات، سکول و کالجز ایسے ہیں جو شہرت کی انتہائی بلندی پر ہیں۔ان میں سے ایک امپیریل کالج ہے۔امپیریل کالج ایک ریسرچ یونیورسٹی ہے۔ یہ ادارہ ملکہ وکٹوریہ کے خاوند پرنس البرٹ کی کاوشوں سے 8جولائی 1907ء کو معرض وجود میں آیا۔ اس وقت رینکنگ کے لحاظ سے یہ دنیا کے تمام تعلیمی اداروں میں چھٹی، یو کے میں آکسفورڈ اور کیمبرج کے بعد تیسری اور لندن میں پہلی پوزیشن پر ہے۔ اس عظیم درس گاہ میں اس وقت مجموعی طور پر طلباء کی تعداد 22800ہے جن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے طلباء اور سکالرز کی تعداد 4800ہے۔ اساتذہ کی تعداد 4500اور انتظامی سٹاف کی تعداد 4100سے زائد ہے۔59فیصد طلباء کی تعداد بیرونی ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔امپیریل کالج یونیورسٹی میں سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیسن اور بزنس کے شعبہ جات میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کا بڑا کیمپس جو کہ شاندار عمارت پر مشتمل ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلباء ملازمت کے فیلڈ میں دوسرے اداروں کے فارغ التحصیل سکالرز کی نسبت ملازمت کے مواقع نہ صرف زیادہ بلکہ تنخواہ بھی زیادہ وصول کر رہے ہیں۔دنیا کے عظیم سائنسدان، نوبل انعام حاصل کرنے والے اور کئی ممالک کے سربراہان کی اچھی خاصی تعداد اس کالج سے فارغ التحصیل ہے۔ ان میں پنسلین کے موجد سرالیگزینڈر فلیمنگ، پاکستان کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام، اانڈیا کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی، معروف رائیٹر ایچ جی ویلز، فائیزر کے چیف Ian Read کے نام نمایاں ہیں۔ اس طرح کے کئی عالمی شہرت کے حامل سکالرز کی فہرست بہت طویل ہے، جنہوں نے اس مایہ ناز عالمی درس گاہ سے کسب فیض حاصل کیا۔  

پرسکون نیند پانے کے عمل

پرسکون نیند پانے کے عمل

نیند کو جلد آنا چاہیے، بالخصوص ان افراد کو تیزی سے سونے کی تراکیب کا علم ہونا چاہیے جنہیں نیند دیر سے آتی ہے۔ نیند ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ اس دوران جسم اپنے آپ کو مندمل کرتا ہے۔ اگر آپ اپنی نیند پوری نہیں کریں گے تو آپ کو اعصابی نظام کے خلل، دل کے امراض، ذیابیطس، تشویش اور بلند فشار خون لاحق ہو سکتے ہیں۔ زیادہ تر افراد کو سونے کیلئے 10 سے 20 منٹ چاہیے ہوتے ہیں۔ لیکن بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑے رہنے کے باوجود گھنٹوں نیند نہیں آتی اور وہ ضروری آرام نہیں کر پاتے۔ فوری اور پُرسکون نیند کیلئے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔ گرم شاور: بستر میں جانے سے پہلے گرم پانی کا شاور عضلات کو ڈھیلا اور ذہن کو شفاف کرتا ہے جو سونے کیلئے بہت اچھی حالت ہوتی ہے۔ ٹھنڈا کمرہ: نسبتاً ٹھنڈے کمرے میں کمبل اور تکیے میں گھسنے کو جی کرتا ہے جس سے راحت کا احساس ہوتا ہے اور نیند جلد آتی ہے۔ لونڈر کا تیل: لونڈر کا تیل اعصاب کو سکون پہنچاتا ہے اور فشار خون کو کم کرتا ہے جس کی وجہ سے نیند اچھی آتی ہے۔ اس تیل کے علاوہ دیگر نباتی تیل بھی مالش کیلئے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ پسندیدہ مقام کا تصور: نیند میں جانے سے پہلے اپنے پسندیدہ مقام کو تصور میں لائیں۔ اس سے آپ پُرسکون ہوں گے، تشویش کم ہو گی، نیند جلد اور اچھی آئے گی۔ چہرہ ٹھنڈے پانی میں: اپنے چہرے کو 30 سیکنڈ تک ٹھنڈے پانی میں ڈالے رکھیں۔ اس سے وہ عمل ہوتا ہے جسے ''ممالیائی ڈائیور فلکس‘‘ کا نام دیا جاتا ہے جو دل کی رفتار اور فشار خون کو متوازن کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سے نیند جلد آتی ہے۔ محدود کیفین: دن ڈھلنا شروع ہو تو کافی اور چائے پینے سے گریز کریں، کیونکہ کیفین نیند میں خلل ڈالتی ہے۔ الیکٹرونک آلات سے دوری: سمارٹ فون، کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن دماغ کو متحرک اور سرگرم کرتے ہیں۔ تیز روشنی سے دماغ یہ دھوکا کھا سکتا ہے کہ ابھی دن ہے۔ سونے کی حالت: اگر آپ کو سونے میں روزانہ دشواری ہو رہی ہے، تو اپنے سونے کی حالت یا پوزیشن کو تبدیل کرتے رہیں تاوقتیکہ آپ مکمل آرام دہ پوزیشن میں آ جائیں۔ بستر میں جانے کا وقت: اس وقت تک جاگتے رہیں اور بستر میں نہ جائیں جب تک تھک کر نیند نہ آنے لگے۔ اس سے آپ کے جسم کو عادت پڑے گی کہ بستر میں اس وقت جانا ہے جب سونا ہے۔ موسیقی سننا: دھیمی موسیقی ذہن کو بیرونی خیالات سے چھٹکارا دلانے، شفاف کرنے اور نیند کی طرف راغب کرنے کا اچھا ذریعہ ہے۔ گھڑی چھپانا: نیند میں تاخیر پر گھڑی پر نظریں جمائے رکھنے سے پریشانی بڑھتی ہے اور نیند مزید دور چلی جاتی ہے۔ ریلیکس کرنا: اپنے پورے جسم کو دھیرے دھیرے ریلیکس کیجیے۔ پاؤں کی انگلیوں اور گھٹنوں سے ابتدا کیجیے اور پھر کمر تک آئیے۔ سر تک پہنچتے امید ہے نیند قریب آ جائے گی۔ ورزش میں عقلمندی: سونے کے وقت سے ذرا پہلے سخت ورزش نہ کریں۔ اس سے دوران خون تیز ہوتا ہے اور جلد نیند نہیں آتی۔ مراقبہ: اگر آپ کو گھنٹوں نیند نہیں آتی تو مراقبہ آزمائیں، اس سے سونے سے قبل ذہن شفاف ہو جاتا ہے اور خیالات سے نجات ملتی ہے۔ دن کے وقت سونا:اگر دن کے وقت سو لیا جائے تو رات کو سونا مشکل ہوتا ہے، اگر دن کے وقت سونا ہو تو تھوڑا سا سوئیں۔ یوگا کرنا: باقاعدگی سے یوگا عضلات کی لچک اور ذہنی سکون کا سبب بنتا ہے جس سے اچھی نیند آتی ہے۔ تھوڑی روشنی: رات کا کھانا دھیمی روشنی میں کھائیں، اس سے ذہن پُرسکون ہوجاتا ہے۔