فلپائن کی مشہور مساجد

اسپیشل فیچر
مغربی بحرالکاہل میں واقع 7100جزائر کا مجموعہ فلپائن کہلاتا ہے۔ فلپائن ملائی قوم نے آباد کیا تھا۔ اسلام یہاں ساتویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی) میں انڈونیشیا کے راستے وارد ہوا۔ ہسپانوی بادشاہ فلپ کے نام پر فلپائن کا نام دیا۔1571ء میں انہوں نے منیلا شہر کی بنیاد رکھی اور یہاں کیتھولک مسیحیت کو فروغ دیا۔
جنوبی فلپائن کے مسلمان نصف صدی سے علیحدگی کی جدوجہد کر رہے تھے، ان کی مسلح تحریک مورو لبریشن فرنٹ کے نام سے شروع ہوئی جس کے قائد نور مسواری تھے۔ اس دوران نور مسواری کو مسلم صوبے کا گورنر بنا دیا گیا، تاہم کچھ عرصہ بعد معاہدہ امن کی سرکاری خلاف ورزی کی بنا پر نور مسواری نے حکومت سے علیحدہ ہو کر پھر گوریلا تحریک کی قیادت سنبھال لی جواب تک جاری ہے۔ اب کورازون کا بیٹا نوئی اکینو برسر اقتدار ہے۔
فلپائن میں اسلام وارد ہونے کے ساتھ ہی نور مسوری کی رعایا کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہو گئے۔فلپائن میں کئی دینی مدارس ہیں۔ فلپائن میں کئی مساجد ہیں۔یہاں صرف 2 بڑی مساجد قابل ذکر ہیں۔
سنہری مسجد( منیلا)
منیلا شہر کے قوایا پو (Quiapo) ڈسٹرکٹ میں مسلمانوں کی کثیر تعداد اور رہائش پذیر ہے، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہیں مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد واقع ہے، جس کا نام سنہری مسجد ہے۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کا گنبد سنہری رنگ کا ہے۔ اس وقت منیلا کی تمام مساجد میں یہ سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس میں 3ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے ۔یہ مسجد 1976ء میں صدر مارکوس کے دور میں خاتونِ اوّل امیلڈا مارکوس کی نگرانی میں تعمیر ہوئی۔نماز جمعہ اور عید کی نماز کے اوقات میں سنہری مسجد مسلمانوں سے بھر جاتی ہے اور یہ دنیا کی چند خوبصورت مساجد میں شمار ہوتی ہے۔
گرینڈ مسجد( کوتاباتو)
یہ مسجد فلپائن کی سب سے بڑی مسجد ہے جو برونائی کے سلطان حاجی حسن البولکیہ نے فلپائن کے جنوبی صوبے منڈا نائو کے شہر کو تاباتو (Cotabato) میں پانچ ایکڑ کے رقبے پر تعمیر کروائی۔ یہ پلاٹ وہاں کے ایک مسلمان قبیلے نے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر 2009ء میں شروع ہوئی۔ اس برس برونائی کے سلطان تین روزہ سرکاری دورے پر فلپائن آئے تو انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
گرینڈ مسجد اتنی خوبصورت اور عالمی شان ہے کہ سارے فلپائن کے مسلمان فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کی انتہائی خوبصورت اور سب سے بڑی مسجد ہے۔ دیکھنے میں یہ مسجد اسلامی طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔
مسجد کو گولڈن مسجد اور حاجی سلطان حسن البولکیہ مسجد کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 141فٹ ہے۔ مسجد میں 40ہزارنمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یوں تو یہ مسجد 2011ء کے رمضان المبارک میں استعمال کیلئے کھول دی گئی تھی لیکن اس کا باقاعدہ افتتاح اگلے سال عیدالفطر کے دن 2012ء میں ہوا۔
اس کے مینار اوپر سے سنہری ہیں جن پر ہلال نصب کئے گئے ہیں۔ مسجد کی تعمیر پر بیس کروڑ روپے خرچ ہوئے جو سارے کے سارے سلطان حسن البولکیہ نے برداشت کئے۔ مسجد کے مرکزی ہال کے درمیان ایک دیدہ زیب فانونس لٹک رہا ہے۔ حفاظتی انتظامات کے پیش نظر کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ اس مسجد کی پچھلی جانب جزیرہ بونگ ہے جو خلیج مورو میں گھرا ہوا ہے۔