آئن سٹائن کے شاہانہ ٹھاٹھ!
امریکا سے لَوٹتے ہوئے آئن سٹائن کو کنگس کالج، آکسفرڈ میں لیکچر دینے کے لیے کچھ دن انگلستان میں قیام کرنا تھا۔ اس کے میزبان بہت بڑے رئیس لارڈ ہالڈین تھے۔ ایک شاندار موٹر انہیں اسٹیشن سے ایک خوبصورت محل میں لائی۔چاروں طرف سے کئی باوردی ملازم دوڑ پڑے۔ ایک نے کار کا دروازہ کھولا۔ آئن سٹائن نے اپنی وائلن اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ایک دوسرے ملازم نے لپک کر اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ افتاں و خیزاں دونوں میاں بیوی محل میں داخل ہوئے۔ اب وہ جس سامان کو ہاتھ لگاتے ہیں، کوئی نہ کوئی ملازم ’’مجھے حکم دیجیے‘‘ کہہ کر اٹھا لیتا۔ ایسے تکلفات سے نہ تو آئن سٹائن آشنا تھا، نہ اس کی بیوی۔ دونوں سخت پریشان ہوئے۔ آخر آئن سٹائن نے ان ملازموں سے مخاطب ہو کر کہا ’’آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔ اب آپ تشریف لے جائیں۔ کوئی ضرورت ہو گی، تو ہم خود ہی بلا لیں گے۔‘‘سب نے سلام کیا، رخصت ہوتے وقت گھنٹی کی سنہری رسّی دکھا کر بولے ’’بس اسے بجا دیجیے، ہم حاضر ہو جائیں گے۔‘‘ملازمین رخصت ہوئے تو آئن سٹائن نے دروازہ بند کر لیا۔ چند لمحے سکوت کے گزرے۔ پھر میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف پُرمعنی انداز سے دیکھا اور پھر جو ہنسنا شروع کیا تو لوٹ پوٹ ہو گئے۔ اُف رے تکلفات!رات کو لارڈ ہالڈین نے جو ڈنر دیا، اس کی شان کا کیا پوچھنا! رائل سوسائٹی کے صدر مشہور برطانوی سائنسدان ایڈنگٹن، جارج برناڈ شا، برطانوی چرچ کے سب سے بڑے پادری، یہ سب شریک تھے۔ دورانِ گفتگو میں لاٹ پادری صاحب نے پوچھا ’’مسٹر آئن سٹائن، یہ تو بتایئے نظریۂ اضافیت اور مذہب میں کیا تعلق ہے؟‘‘’’کچھ بھی نہیں‘‘ آئن سٹائن نے جواب دیا۔’’شکر ہے‘‘ لاٹ پادری صاحب کے منہ سے نکلا۔ آئن سٹائن اور دوسرے مہمان ان کا منہ دیکھنے لگے۔ لاٹ پادری صاحب اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بولے’’قصہ یہ ہے کہ پادری ہونے کی حیثیت سے یہ میرے فرائض میں داخل ہے کہ میں ان تمام جدید نظریوں اور خیالات سے باخبر رہوں، جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے مذہب سے ہوتا ہو۔ چنانچہ آپ کے نظریۂ اضافیت کا ذکر اخباروں میں چھڑا،تو اس موضوع پر جو کتابیں بازار میں مل سکتی تھیں، ان کا میں مطالعہ کرنے لگا۔ بار بار سر مارنے کے باوجود میرے پلّے کچھ بھی نہ پڑا۔ اب جو آپ نے فرمایا کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں ، تو میرے سینے پر سے نافہمی کا بوجھ اُتر گیا۔‘‘(سید شہاب الدین دِسنوی کی کتاب ’’آئن سٹائن:داستانِ زندگی‘‘ سے اقتباس)٭…٭…٭