شوکت حسین رضوی… ایک بے مثال ہدایتکار بھارت اور پاکستان میں ان کا یکساں طور پر احترام کیا جاتا تھا

شوکت حسین رضوی… ایک بے مثال ہدایتکار بھارت اور پاکستان میں ان کا یکساں طور پر احترام کیا جاتا تھا

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

دلیپ کمار نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے شوکت حسین رضوی جیسے ہدایتکار نے اپنی فلم ’’جگنو‘‘ میں نور جہاں کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا۔ اس فلم کی شاندار کامیابی کے بعد پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘‘۔دلیپ کمار بالکل درست کہتے ہیں۔ ان کی پہلی تین فلمیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی تھیں لیکن پھر 1947ء میں ’’جگنو‘‘ ریلیز ہوئی جس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس فلم سے نہ صرف دلیپ کمار کے کیریئر کو ایک نئی سمت مل گئی بلکہ اس فلم سے محمد رفیع کو بھی شہرت نصیب ہوئی۔ انہوں نے اس فلم میں اداکاری بھی کی اورپھر گلوکاری کے میدان میںبھی قدم جمالئے۔جی ہاں! یہ وہی شوکت حسین رضوی ہیں جنہوں نے پہلے بھارت اور پھر پاکستان میں بطور ایڈیٹر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور معاون اداکار کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔ انہوں نے پاکستان کی فلمی صنعت کی آبیاری کیلئے بھی جو کاوشیں کیں ان کی تحسین نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ شوکت حسین رضوی 1914ء میں اعظم گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ میں اسسٹنٹ پراجیکشنسٹ کی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا۔ پھر انہوں نے فلم میکنگ سیکھی۔ ہندوستانی فلمی صنعت کی معروف شخصیات نے شوکت حسین رضوی کی قابلیت کو فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اس وقت کے نامور پروڈیوسر سیٹھ دل سکھ پنچولی انہیں کلکتہ سے لاہور لے آئے۔ یہاں انہوں نے کئی فلموں کی ایڈیٹنگ کی۔ جن میںگُل بکائولی (1939ء)، خزانچی (1941ء) وغیرہ شامل ہیں۔ ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کی فلموں ’’یملا جٹ‘‘ اور ’’دوست‘‘ کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد دل سکھ پنچولی نے انہیں اپنی اگلی فلم خاندان (1942ء) کی ہدایات کے فرائض سونپے۔ ’’خاندان‘‘ نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ اس میں نور جہاں اور پران کی اداکارانہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ نورجہاں نے نہ صرف شائقین فلم کے دلوں کو فتح کرلیا بلکہ شوکت حسین رضوی کا دل بھی جیت لیا۔ ’’خاندان‘‘ کی عدیم النظیر کامیابی کے بعد شوکت حسین رضوی اور نور جہاں ممبئی چلے گئے جہاں رضوی صاحب نے اپنی اگلی فلم نوکر (1943ء) کی ہدایات دیں۔ یہ فلم سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے سے ماخوذ تھی۔ رضوی صاحب نے سکرپٹ میں بہت سی تبدیلیاں کردیں جس کی وجہ سے یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہوگئی۔ اسی سال نورجہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ان کے ہاں تین بچے ہوئے۔ اکبر حسین رضوی، اصغر حسین رضوی اور ظل ہما۔ اس کے بعد اس جوڑے نے کئی فلمیں بنائیں۔ شوکت رضوی ان فلموں کے یا تو پروڈیوسر تھے اور یا ڈائریکٹر۔ جب نور جہاں نے ان کی فلموں میں اداکاری بھی کی اور گلوکاری بھی۔ ان فلموں میں ’’زینت‘‘ اور ’’جگنو‘‘ شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1944ء میں بننے والی فلم ’’دوست‘‘ میں شوکت حسین رضوی نے معاون اداکار کے طور پر کام کیا اور اس فلم میں وہ نور جہاں کے بھائی بنے تھے۔ اس فلم کی ہدایات بھی شوکت حسین رضوی نے دی تھیں۔ اس فلم کے گیت شمس لکھنوی نے تحریر کیے تھے جو بہت مشہور ہوئے۔1947ء میں تقسیم ہند کے بعد شوکت حسین رضوی اور نورجہاں اپنے تینوں بچوں سمیت پاکستان چلے آئے۔ آتے وقت شوکت حسین رضوی وہ کیمرہ بھی ساتھ لے آئے جس سے انہوں نے اپنی فلم ’’جگنو‘‘ کی شوٹنگ کی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد نور جہاں اور شوکت رضوی نے تین سال تک کوئی کام نہ کیا۔ اس عرصے کے دوران شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر شاہ نور سٹوڈیو قائم کیا جہاں انہوں نے اپنی پہلی پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ کی شوٹنگ شروع کی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ شوکت حسین رضوی اس فلم کے پروڈیوسر اور معاون ہدایتکار تھے۔ اس فلم نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس کا کریڈٹ بہرحال شوکت رضوی کو نہیں جاتا تھا کیونکہ وہ اس فلم کے معاون ہدایتکار تھے۔ اس کے بعد معروف دانشور اور ڈرامہ نویس امتیاز علی تاج نے شوکت رضوی کی فلم ’’گلنار‘‘ کی ہدایات دیں۔ اس دوران ان کے اپنی اہلیہ نورجہاں سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ نورجہاں کو اپنی بیٹی ظل ہما اپنے پاس رکھنے کیلئے شاہ نور سٹوڈیو کے حصے سے دستبردار ہونا پڑا جس سے شوکت رضوی کے کیریئر کو شدید دھچکا لگا کیونکہ وہ نور جہاں کے شوہر کی حیثیت سے بھی اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اس وقت کی معروف اداکارہ یاسمین سے شادی کرلی جن سے ان کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ شہنشاہ حسین رضوی اور علی مجتبیٰ رضوی۔ یہ شادی کامیاب ثابت ہوئی جس سے شوکت رضوی اور یاسمین دونوں کو فائدہ ہوا۔ نور جہاں سے طلاق کے بعد انہوں نے صرف تین اردو فلمیں بنائیں جن کے نام تھے ’’جان بہار‘‘، ’’عاشق‘‘ اور ’’دلہن رانی‘‘۔ انہوں نے ’’ جان بہار‘‘ کا ایک گیت گوانے کے لئے اپنی سابقہ اہلیہ نو جہاں سے کہا اور انہوں نے حامی بھرلی۔ یہ گیت مسرت نذیر پر پکچرائز ہوا جس نے شائقین فلم کو مسحور کر دیا۔’’دلہن رانی‘‘ کے فلاپ ہونے کے بعد شوکت حسین رضوی کو مایوسیوں نے آن گھیرا۔ انہوں نے فلموں سے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ان کے چاروں بیٹوں نے شاہ نور سٹوڈیو کا انتظام سنبھال لیا۔ افسوس آج وہی شاہ نور سٹوڈیو خستہ حال ہے اور اس تاریخی سٹوڈیو کی یہ حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔شوکت حسین رضوی بڑے وجیہہ اور دلکش نوجوان تھے۔ سعادت حسن منٹو نے ان کے بارے میںکہا تھا کہ وہ ایک دراز قد اور دلکش نوجوان ہے جو انتہائی خوش لباس ہے۔ جوانی میں انہیں کھیلوں سے بھی دلچسپی تھی اور وہ 1930ء کے اوائل میں کلکتہ میں فٹ بال کھیلتے تھے۔ شوکت حسین رضوی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کیا۔شوکت حسین رضوی اپنی خودداری اور وضع داری کیلئے بھی بہت مشہور تھے۔ ان کی انسان دوستی پر بھی کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کی معروف اداکارہ ششی کلا نے ایک مرتبہ اپنے فنی سفر کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہیں سب سے پہلے شوکت حسین رضوی کی فلم ’’زینت‘‘ میں میڈم نور جہاں کی سفارش پر کام ملا تھا۔ اس وقت ان کے گھریلو حالات خراب تھے اور ان کا خاندان غربت و افلاس کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ شوکت رضوی نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنی اس فلم میں عورتوں کی ایک قوالی کے شرکاء میں بٹھا دیا۔ یہ 1940ء کے اوائل کی بات ہے۔ اس زمانے میں ششی کلا کو 25 روپے معاوضہ دیا گیا۔ اسی طرح ’’جگنو‘‘ میں دلیپ کمار کا ہیرو کے طور پر انتخاب بھی ان کی فراست کابین ثبوت تھا۔ انہوںنے ایک ناکام اداکار کو میڈم نورجہاں کے مقابل کاسٹ کیا کیونکہ دلیپ کمار سے پہلے انہوں نے جتنے اداکاروں کو کاسٹ کیا وہ شوکت رضوی کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سب میڈم نورجہاں کے سامنے اداکاری کرتے ہوئے شدید گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے تھے۔ لیکن دلیپ کمار نے پہلے ہی شاٹ میں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا اور مکالموں کی ادائیگی کے خوبصورت انداز سے شوکت رضوی اور سیٹ پر موجود تمام لوگوں کو ششدر کر دیا۔ اس پہلے شاٹ کے موقع پر پرتھوی راج کپور بھی موجود تھے۔ انہوں نے وہیں شوکت رضوی سے کہا تھا کہ یاد رکھنا یہ لڑکاایشیا کا سب سے بڑا اداکار ثابت ہوگا۔1988ء میں جب دلیپ کمار پہلی بار پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو انہوں نے خصوصی طور پر شوکت حسین رضوی سے ملاقات کی تھی۔ دونوں نے اس ملاقات کے دوران اس سنہری دور کی یادوں کو تازہ کیا۔1999ء میں 85 سال کی عمر میں شوکت حسین رضوی کا انتقال ہوگیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت کی تمام قابل ذکر شخصیات نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ان کی خدمات کو سراہا۔ شوکت حسین رضوی کا نام برصغیر کی فلمی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکا ہے۔ ان کا نام اور کام دونوں زندہ رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کی چند خوبصورت مسجدیں

دنیا کی چند خوبصورت مسجدیں

الصالح مسجد صنعاء یمنالصالح مسجد صنعاء میں رمضان کے مبارک مہینے (ستمبر2008ء میں کھول دی گئی تھی۔ یہ مسجد صنعاء شہر میں اسلامی تعمیرات کا ایک بہت بڑا شاہکار ہے۔ یمن کے سابق صدر عبداللہ صالح نے اپنے ذاتی خرچ سے یہ مسجد تعمیر کروائی۔ یہ مسجد اپنے عالیشان چھ میناروں اور پانچ گنبدوں کی وجہ سے بہت شہرت کی حامل ہے۔ اس مسجد کے دو بڑے مینار328فٹ اور چار چھوٹے مینار67فٹ بلند ہیں۔مرکزی گنبد 130فٹ بلند ہے۔ مسجد کا کل رقبہ 27300مربع میٹر ہے جبکہ بڑے مرکزی ہال کا رقبہ13596مربع میٹر ہے۔ ہال کی چھت 24میٹر بلند ہے۔ مرکزی ہال میں 44 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ خواتین کیلئے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں مقامی یمن کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ڈیزائن کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یمن کے روایتی فن تعمیر اور جدید فن تعمیر کو اس طرح یک جا کردیا گیا ہے کہ مسجد کے حسن میں گرانقدر اضافہ ہو گیا ہے۔سلطان عمر علی سیف الدین مسجد برونائی شاہی مسجد سلطنت برونائی کے دارالحکومت بندرسری بیگوان میں واقع ہے۔ یہ ایشیائی بحرالکاہل کے خطے کی ایک خوبصورت مسجد شمار کی جاتی ہے اور برونائی کے 28ویں حکمران سلطان عمر علی سیف الدین سوم کے نام سے موسوم ہے۔ دنیائے اسلام کی یہ قابل دید مسجد 1958ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں مغل اور اطالوی فن تعمیر کا عکس نمایاں ہے۔یہ مسجد ایک مصنوعی جھیل میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کے مرمریں مینار، نہری گنبد، سرسبز درخت، رنگ برنگ پھولوں سے لدے لان اور ان کے درمیان اٹھیلیاں کرتے ہوئے سینکڑوں فوارے، جنت اراضی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ پاس ہی دریا کے اوپر مسجد میں داخل ہونے کیلئے ایک خوبصورت طویل پل بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ایک طرف جھیل ہی میں ایک خوبصورت پل بحری جہاز کے مشابہ بنایا گیا ہے جس میں قرأت کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ مسجد کے مینار 171 فٹ بلند ہیں۔ لفٹ کے ذریعے ان کے اوپر چڑھ کر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ مسجد کا بڑا گنبد خالص سونے سے مزین ہے۔ اس میں استعمال ہونیوالا سنگ مر مر اٹلی سے، سنگ خارا شنگھائی سے، فانونس برطانیہ سے اور ہال میں بچھانے کیلئے قالین سعودی عرب سے منگوائے گئے تھے۔مسجد الکبیر کویتمسجد الکبیر ملک کی ایک خوبصورت اور سب سے بڑی مسجد ہے اس کو سرکاری مسجد کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ اسلامی فن تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ اس کا کل رقبہ 45ہزار مربع میٹر ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد 1979ء میں رکھا گیا اور یہ 1986ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر پر 14ملین کویتی دینار خرچ ہوئے۔ مسجد کا مرکزی ہال 236میٹر لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہے۔ ہال میں قدرتی روشنی کیلئے 144کھڑکیاں نصب کی گئی ہیں۔21 دروازے ساگوان کی لکڑی کے ہیں۔ مسجد کے گنبد 141فٹ اونچا ہے جس کے اندر اسماء الحسنیٰ نہایت خوبصورتی سے تحریر کئے گئے ہیں۔ مسجد کا واحد مینار243فٹ اونچا ہے۔اس مسجد میں دس ہزار حضرات اور ایک ہزار خواتین بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد سے ملحقہ ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے، نیز صحن کے سامنے چھ سو کاروں کی پارکنگ کا انتظام بھی موجود ہے۔الا مین مسجد، بیروت لبنان یہ مسجد بیروت شہر کے مرکز میں واقع میدان شہداء میں تعمیر کی گئی ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق جریری کے ہاتھوں 2002ء میں رکھا گیا تھا ۔ مسجد کا افتتاح رفیق حریری کے صاحبزادے سعد حریری نے 17اکتوبر 2008ء کو کیا یہ مسجد 2007ء میں مکمل ہو چکی تھی۔ اس کا ڈیزائن استبول کی سلطان احمد مسجد سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا تھا۔ مسجد کے گنبد اور مینار ہو بہو سلطان احمد مسجد کی نقل ہیں۔ اس کا کل رقبہ 115178مربع فٹ ہے۔ یہ مسجد یوں تو استنبول کی نیلی مسجد( سلطان احمد مسجد) کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کی تعمیر میں ڈیزائنر نے لبنانی فن تعمیر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔مسجد کے چاروں مینار 236 فٹ بلند ہیں جو مسجد الحرام کے میناروں کے ڈیزائن سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں جبکہ ان میں استعمال ہونے والا پتھر بھی سعودی عرب سے منگوایا گیا ہے۔مسجد کے مرکزی ہال میں اتنے شاندار فانوس لٹک رہے ہیں کہ جب وہ جلتے ہیں تو ہال بقعۂ نور بن جاتا ہے۔  

عظیم مسلم سائنسدان علم ہندسہ کے ماہرحجاج بن یوسف مطر

عظیم مسلم سائنسدان علم ہندسہ کے ماہرحجاج بن یوسف مطر

حجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ میں کمال رکھتے تھے، انہوں نے دوبڑے کام کئے۔ ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے ایک جامع کتاب علم ریاضی میں مرتب کی۔ دوسرا کام اس کا قدیم دور کی مشہور کتاب ''المجسطی‘‘ کو اصلاح اور نظرثانی کے بعد (ایڈٹ کر کے) مرتب کیا۔ابتدائی زندگیحجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ کے ماہر تھے۔ اس فن میں انہوں نے کمال پیدا کیا۔ حجاج بن یوسف دیہات کے باشندہ تھے، والدین تو کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن حجاج نے اپنے شوق اور اپنی محنت سے اچھی تعلیم حاصل کی، پھر دیہات کے تنگ دائرے سے نکل کر786ء میں بغداد آ گئے اور یہیں بس گئے۔حجاج نے بغداد کے علمی ماحول سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بغداد کی علمی صحبتوں سے مستفید ہو کر اپنی قابلیت اور استعداد میں اچھا اضافہ کر لیا۔ حجاج نے ہارون الرشید اور مامون الرشید دونوں کا روشن دور دیکھا تھا، مگر وہ خاموش علمی کام کرتا رہا۔علمی خدمات اور کارنامےحجاج ایک بلند پایہ ریاضی دان تھے۔ اس نے دو بنیادی کام کئے، ایک تو علم ہندسہ یعنی جیومیٹری کا کام تھا اور دوسرا علم ہیئت سے متعلق تھا۔ انہوں نے ان دونوں علوم کو نئے ڈھنگ سے فروغ دیا۔ جیومیٹری میں انہوں نے نئے نئے انکشاف کئے اور اپنا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس وقت علم ہندسہ میں اس کا کوئی ہمسر نہ تھا۔علم ہندسہ میں ایک جامع کتاب ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے اس ریاضی دان نے مرتب کی۔ یہ ریاضی دانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔دوسرا کارنامہ اس کا علم ہیئت سے متعلق ہے۔ قدیم زمانے کی مشہور کتاب ''المحسبعیٰ‘‘ کو اصلاح اور تصحیح کے ساتھ نئی ترتیب سے اس نے مرتب کیا اور اس علم کو نئے انداز سے فروغ دیا۔ اہل یورپ نے حجاج کی دونوں کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔ ''مقدمات اقلیدس‘‘ کا ترجمہ ملک ڈنمارک سے 1893ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کی کتابیں بیسویں صدی تک مدارس کی زینت بنی رہیں۔ حجاج نے اور بھی بہت سی کتابیں ریاضی پر لکھی ہیں۔ 

رمضان کے پکوان:ہمت میلو

رمضان کے پکوان:ہمت میلو

اجزاء:بکری کا گوشت ،بغیرہڈی کاڈیڑھ کلو ،کالی مرچ کٹی ہوئی آدھا کھانے کا چمچ،نمک حسب ذائقہ،برائون سرکہ آدھی پیالی،سویا ساس دوکھانے کے چمچ،ادرک کچلی ہوئی ایک چائے کا چمچ،چینی ایک کھانے کا چمچ،کارن فلور ایک کھانے کا چمچ،لیموں دوعدد،سویٹ کارن ایک ٹن، اخروٹ باریک کٹے ہوئے ایک کھانے کا چمچ،کشمش ایک کھانے کا چمچ،بادام باریک کٹے ہوئے ڈھائی کھانے کے چمچ، کوکنگ آئل دوکھانے کے چمچ،مارجرین ایک کھانے کا چمچ ترکیب :سب سے پہلے گوشت میں نمک، کالی مرچ ادرک سویا سا، سرکہ، چینی، لیموں اچھی طرح لگاکر کانٹے کے ساتھ گودلیں تاکہ مصالحہ اندر تک چلا جائے۔ چارپانچ گھنٹے کیلئے مصالحہ لگاکر رکھ لیں۔ ایک بڑی دیگچی میں اتنا پانی ڈالیں کہ گوشت گل جائے، پھر ہلکی آنچ میں پکنے کیلئے رکھ دیں، جب پانی سوکھ جائے تو پھر کوکنگ آئل اور ایک پیالی پانی میں کارن فلور ملاکر دیگچی میں ڈال دیں تاکہ گاڑھی گاڑھی ساس بن جائے۔ سارا میوہ اور کارن ایک فرائنگ پین میں بلوبینڈ مارجرین کے ساتھ ہلکا ہلکا تل لیں۔ دیگچی میں ڈال کر ہلکی آنچ میں دم پر رکھ دیں۔ مقدار:یہ ڈش چھ افراد کے لیے کافی ہے۔  

حکایت سعدیؒ :شکر

حکایت سعدیؒ :شکر

بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش سمندر کے کنارے اس حالت میں زندگی گزار رہا تھا کہ اس کے جسم پر چیتے کے ناخنوں کا لگا ہوا ایک زخم ناسور بن چکا تھا۔ اس ناسور کی وجہ سے درویش بہت تکلیف میں مبتلا تھا مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔اس سے سوال کیا گیا کہ اے مرد خدا! یہ شکر کرنے کا کون سا موقع ہے؟ درویش نے جواب دیا، میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مصیبت میں مبتلا ہوں معصیت میں نہیں۔ تو نے سنا نہیں کہ اللہ والے گناہ کے مقابلے میں مصائب کو پسند کرتے ہیں۔ جب عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے میں ڈلوا دینے کی دھمکی دی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اے اللہ، مجھے قید کی مصیبت اس گناہ کے مقابلے میں قبول ہے جس کی طرف مجھے بلایا جا رہا ہے۔ درویش نے مزید کہ اللہ والوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کو راضی رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔مجھے قتل کرنے کا دیں حکم اگرنہ ہو گا مجھے اپنی جاں کا ملالمیں سوچوں گا کیوں مجھ سے ناراض ہیں ستائے گا ہر وقت بس یہ خیالاس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے انسان کے اس بلند مرتبے کا حال بیان کیا ہے جب وہ ہر بات کو من جانب اللہ خیال کرتا ہے اور ہر وقت اس خیال میں رہتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے کس طرح راضی ہو گا۔ یہی وہ روحانی منزل ہے جب انسان کو سچا اطمینان اور سچی راحت حاصل ہوتی ہے اور وہ خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے۔٭...٭...٭

آج کا دن

آج کا دن

''ایکسپلورر3‘‘لانچ کیا گیا1958ء میں امریکہ نے''ایکسپلورر3‘‘ سیٹلائٹ لانچ کیاتھا۔یہ ''ایکسپلورر‘‘ پروگرام کا دوسرا کامیاب لانچ تھا۔''ایکسپلورر 3‘‘کی ساخت اس سے پہلے خلا میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹ ''ایکسپلورر1‘‘سے بہت زیادہ مشابہ تھی۔''ایکسپلورر 3‘‘کا مقصد فوجی آپریشن یا جنگ کے دوران فوجی ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جا سکے۔اس سیٹلائٹ کو امریکی بحریہ کیلئے بھی استعمال کیا گیا تاکہ سمندر میں موجود جہازوں کے ساتھ زمینی رابطہ برقرار رکھا جا سکے۔ وینزویلا میں شدیدزلزلہ 1812ء میں وینز ویلا میں26مارچ کو 4 بج کر37منٹ پر 7.7شدت کا زلزلہ آیا۔اس کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ جس جگہ یہ زلزلہ آیا وہا ں ایک نئی جھیل وجود میں آ گئی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں تقریباً 20ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔اس حادثے کے فوراً بعد امریکہ کی جانب سے وینزویلا کیلئے امدادی سامان سے لیس جہاز پہنچے، جن میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ امریکہ کی جانب سے 50ہزار امریکی ڈالر کی مالی امداد بھی کی گئی۔ سکاٹ لینڈ:سگریٹ نوشی پر پابندی 2006ء کو آج کے دن سکاٹ لینڈ میں عوامی مقامات اور ریسٹورنٹس میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ اس نئے قانون اور پابندی کے مطابق کوئی بھی شخص کسی عوامی مقام، ہوٹل یا پارک میں سگریٹ نہیں پی سکے گا۔ اپنے گھر میں یا خصوصاً تمباکو نوشی کیلئے بنائے گئے سموکنگ ایریا میں سگریٹ پینے کی کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ نیوزی لینڈ: بدترین حادثہ نیوزی لینڈ کے جنوبی آئی لینڈ کے علاقے گرے ماؤتھ میں موجود کوئلے کی کان میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں کان میں کام کرنے والے65مزدور لقمہ اجل بنے۔ یہ واقعہ1896ء میں آج کے دن پیش آیا۔ نیوزی لینڈ ایک پر امن ترقی یافتہ ملک ہے اور وہاں اس طرح کے حادثا ت معمول کی بات نہیں۔ اس حادثے کو نیوزی لینڈ کا بدترین انڈسٹریل سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔ 

ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

کائنات جس قدر خوبصورت ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور حیران کن بھی ہے۔ اگر بات اس کائنات کی مخلوق کی، کی جائے تو اس کا صحیح شمار انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اس روئے زمین پر رینگنے والے کیڑوں سے لے کر ، چرند پرند ، آسمانوں پر اڑتے پرندوں سے لے کر سمندر کی تہوں میں حرکت کرتی مخلوق کا صحیح شمار انسان کے بس سے باہر ہے۔ عقل، انسان کیلئے اگرچہ رب کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو اسے دیگر تمام مخلوقات سے افضل کرتی ہے لیکن دور جدید میں انسان ''ستاروں پہ کمند‘‘ ڈالنے کے باوجود بھی ابھی رب کی بنائی کائنات کے لاتعداد رازوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ ابابیل کے بارے تو سوچتے ہوئے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ دس ماہ تک باآسانی لگاتار پرواز کر سکتا ہے۔یہ اور ایسے ہی لاکھوں اور محیر العقول جانداروں بارے سائنس دان کھوج لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنس دان اس عجیب و غریب پرندے ''ابابیل‘‘ پراب تک کیا تحقیق کر سکے ہیں جس کا تذکرہ قرآن شریف میں بھی ملتا ہے۔ ابابیل ، چڑیا کی طرح کا ایک چھوٹی جسامت کا نازک سا پرندہ ہے لیکن چڑیا اور اس قبیل کے دیگر جانوروں کے برعکس اس کے پر زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ شاید ان پروں کے پیچھے قدرت کا یہ راز پوشیدہ ہے کہ یہ دیگر پرندوں کی نسبت طویل اور انتہائی بلندی پر سفر کرنے والا پرندہ ہے۔ قدرت نے اس پرندے کے پروں کی ساخت کچھ اس طرز پر بنائی ہے کہ ہلکی سی ہوابھی اسے خودبخود آگے دھکیلتی رہتی ہے۔اس پرندے کی عمومی لمبائی 18 سے 20 سنٹی میٹر کے قریب ہوتی ہے۔ اس کے پر سیاہ اور سینے کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے پنجے نہایت نازک اور کمزور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ زمین پر زیادہ آسانی سے نہیں بھاگ سکتا لیکن اس کے پس پردہ بھی شاید قدرت کی یہ مصلحت کارفرما ہے کہ یہ درختوں کی ٹہنیوں اور بجلی کی تاروں پر زیادہ آسانی سے بیٹھ سکتا ہے۔ابابیل فطرتاً پرانے گنبدوں ، کھنڈرات، پہاڑوں کی چٹانوں ، درختوں کے تنوں کے اندر اور اکثر ویران جگہوں پر اپنا مٹی کا گھونسلا بنا کر رہنے کی عادی ہے۔ یہ زیادہ تر اپنے گھونسلے گیلی مٹی اور گھاس کو باقاعدہ لیپ دے کر بناتے ہیں۔ ان کے بارے مشہور ہے کہ یہ ستر اسی سال تک اپنا گھونسلا نہیں چھوڑتے اور یہ جہاں بھی ہوں ہر دفعہ اپنے ہی گھونسلے میں آکر انڈے دیتے ہیں۔ابابیل کو باقی پرندوں کے مقابلے میں جو انفرادیت حاصل ہے وہ یہ کہ ابابیل شاید واحد پرندہ ہے جو متواتر اپنی اڑان جاری رکھنے کے سبب دوران پرواز نہ صرف اپنی نیند پوری کر لیتا ہے بلکہ دوران پرواز ہی اپنی خوراک بھی کھاتا رہتا ہے۔ چونکہ دوران پروازیہ اپنی چونچ کو کھلا رکھتا ہے جس کی وجہ سے فضا میں اڑتے کیڑے مکوڑے خود بخود اس کے منہ کے اندر اس کی خوراک کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ اس کی عمومی غذا کیڑے مکوڑے ہی ہوتے ہیں۔یہ پرندہ بھی نر اور مادہ دونوں شکلوں میں پایا جاتا ہے۔عمومی طور پر یہ دونوں (نراور مادہ )ایک ساتھ اپنی پرواز جاری رکھتے ہیں۔ شاذ ہی یہ اکیلے پرواز کرتے ہیں ۔ لیکن یہ پرندہ زیادہ تر جھنڈ کی شکل میں پرواز کرتا ہے۔ عربی میں ابابیل کو '' خطاف‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عربی زبان میں ابابیل کے معنی جھنڈ یا گروہ کے ہی ہیں۔ یہ پرندہ سب سے زیادہ ہجرت کرنے والا پرندہ ہے۔ یہ لیبیا، شام اور ایران کے علاقوں سے پورپی ممالک، سوڈان سے جنوبی افریقہ اور عراق کے شہر موصل میں ہجرت کرتے ہیں۔ گئے زمانوں میں تو جس علاقے کے اوپر سے آواز نکالتا یہ پرندہ گزر جاتا اسے بارش کی پیش گوئی سے تعبیر کیا جاتا۔ اکثر واقفان حال اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ ایسا اکثر و بیشتر صحیح ہی ہوا کرتا تھا۔ ابابیل اور جدید تحقیق ابابیل کو سوئفٹ بھی کہتے ہیں ، جبکہ اس کی ایک نسل کو ''الپائن سوئفٹ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عام ابابیل کو '' ایپس ایپس‘‘ کہا جاتا ہے۔ سوئفٹ اور الپائن نسل کے ابابیلوں کی اوسط عمر بیس سال بتائی جاتی ہے۔آج سے چند سال پہلے سویڈن یونیورسٹی نے اپنی ایک طویل تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ ابابیل مسلسل حالت سفر میں رہتا ہے ماسوائے اپنے انڈے دینے کے عرصے کے۔ ابابیل گلائیڈنگ کرتے وقت اکثر اپنی نیند پوری کر لیتے ہیں یہ زمین سے اتنی بلندی پر چلے جاتے ہیں کہ سوتے وقت اچانک زمین سے ٹکرانے کا خطرہ انہیں نہیں رہتا۔ ابابیل پرواز کرتے وقت اپنی توانائی بچانے کے لئے گلائیڈنگ کرتا ہے یعنی کچھ دیر پر ہلانے کے بعد انہیں کھلا چھوڑ دیتا ہے اور یوں ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے۔یونیورسٹی آف لندن کی ایک تحقیق کے مطابق ابابیل دس ماہ سے بھی زیادہ عرصہ بغیر زمین پر اترے ہوا میں مسلسل پرواز کر سکتا ہے۔ ایک اور جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ابابیل بغیر رکے 14 ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔عمومی طور پر اس پرندہ کی عمر بیس برس تک ہوتی ہے۔ابابیل سے جڑی قدیم اور دلچسپ روایات یوں تو زمانۂ قدیم میں لاتعداد روایات سننے کو ملتی تھیں لیکن سب سے زیادہ روایات کا تعلق خطۂ عرب سے ملتا ہے۔روایات میں آیا ہے کہ ابابیل اپنے گھونسلوں میں سرخ اور سفید دو طرح کے پتھر رکھتے ہیں۔جنہیں ''حجرالصنوبر‘‘ کہتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اکثر سنیاسی ان ہر دو پتھروں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ جبکہ بیشتر طبیب ان پتھروں کے لاتعداد طبی فوائد بھی بتاتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ قدیم دور میں اکثر بوڑھے سنیاسی کہا کرتے تھے کہ ابابیل کے گھونسلے کا سفید پتھر مرگی کے مریض کے گلے میں لٹکانے سے شفا ملتی ہے ، چشم بد کو دور کرتا ہے، اکثر بچے جو سوتے میں ڈر جاتے ہیں ان کے سرہانے سرخ پتھر رکھنے سے بچے سکوں کی نیند سوئے ہیں (واللہ اعلم )۔ایک اور روایت ہے کہ ہر ابابیل کے گھونسلے میں پتھر نہیں ہوتا بلکہ یہ پتھر حاصل کرنے کیلئے ابابیل کے بچے کو زرد رنگ میں رنگ کر کے گھونسلے میں چپکے سے رکھ دیا جاتا ہے۔مادہ ابابیل بچے کو بیمار سمجھ کر خدا جانے کہاں سے پتھر ڈھونڈ لاتی ہے تاکہ اس کے بچوں کا پیلیا (یرقان) جاتا رہے۔( واللہ اعلم)۔کچھ پرانے سنیاسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ پتھر دراصل ابابیلوں کے پوٹے میں پایا جاتا ہے ، ابابیل کو مار کر اس کے پوٹے کو کاٹا جائے تو یہ پتھر وہاں سے نکلتا ہے۔ ( واللہ اعلم)۔اب دور جدید میں لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ گئے زمانوں میں یرقان ، مرگی اور ایسی ہی دیگر متعدد بیماریوں کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا تھا اس لئے اکثر ضعیف العقیدہ لوگ ان ٹوٹکوں پر یقین کر لیا کرتے تھے جبکہ دور جدید میں ہر مرض کا علاج دریافت ہو چکا ہے اس لئے اب ایسی تمام روایات مضحکہ خیز لگتی ہیں۔