شوکت حسین رضوی… ایک بے مثال ہدایتکار بھارت اور پاکستان میں ان کا یکساں طور پر احترام کیا جاتا تھا

اسپیشل فیچر
دلیپ کمار نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے شوکت حسین رضوی جیسے ہدایتکار نے اپنی فلم ’’جگنو‘‘ میں نور جہاں کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا۔ اس فلم کی شاندار کامیابی کے بعد پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘‘۔دلیپ کمار بالکل درست کہتے ہیں۔ ان کی پہلی تین فلمیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی تھیں لیکن پھر 1947ء میں ’’جگنو‘‘ ریلیز ہوئی جس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس فلم سے نہ صرف دلیپ کمار کے کیریئر کو ایک نئی سمت مل گئی بلکہ اس فلم سے محمد رفیع کو بھی شہرت نصیب ہوئی۔ انہوں نے اس فلم میں اداکاری بھی کی اورپھر گلوکاری کے میدان میںبھی قدم جمالئے۔جی ہاں! یہ وہی شوکت حسین رضوی ہیں جنہوں نے پہلے بھارت اور پھر پاکستان میں بطور ایڈیٹر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور معاون اداکار کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔ انہوں نے پاکستان کی فلمی صنعت کی آبیاری کیلئے بھی جو کاوشیں کیں ان کی تحسین نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ شوکت حسین رضوی 1914ء میں اعظم گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ میں اسسٹنٹ پراجیکشنسٹ کی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا۔ پھر انہوں نے فلم میکنگ سیکھی۔ ہندوستانی فلمی صنعت کی معروف شخصیات نے شوکت حسین رضوی کی قابلیت کو فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اس وقت کے نامور پروڈیوسر سیٹھ دل سکھ پنچولی انہیں کلکتہ سے لاہور لے آئے۔ یہاں انہوں نے کئی فلموں کی ایڈیٹنگ کی۔ جن میںگُل بکائولی (1939ء)، خزانچی (1941ء) وغیرہ شامل ہیں۔ ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کی فلموں ’’یملا جٹ‘‘ اور ’’دوست‘‘ کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد دل سکھ پنچولی نے انہیں اپنی اگلی فلم خاندان (1942ء) کی ہدایات کے فرائض سونپے۔ ’’خاندان‘‘ نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ اس میں نور جہاں اور پران کی اداکارانہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ نورجہاں نے نہ صرف شائقین فلم کے دلوں کو فتح کرلیا بلکہ شوکت حسین رضوی کا دل بھی جیت لیا۔ ’’خاندان‘‘ کی عدیم النظیر کامیابی کے بعد شوکت حسین رضوی اور نور جہاں ممبئی چلے گئے جہاں رضوی صاحب نے اپنی اگلی فلم نوکر (1943ء) کی ہدایات دیں۔ یہ فلم سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے سے ماخوذ تھی۔ رضوی صاحب نے سکرپٹ میں بہت سی تبدیلیاں کردیں جس کی وجہ سے یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہوگئی۔ اسی سال نورجہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ان کے ہاں تین بچے ہوئے۔ اکبر حسین رضوی، اصغر حسین رضوی اور ظل ہما۔ اس کے بعد اس جوڑے نے کئی فلمیں بنائیں۔ شوکت رضوی ان فلموں کے یا تو پروڈیوسر تھے اور یا ڈائریکٹر۔ جب نور جہاں نے ان کی فلموں میں اداکاری بھی کی اور گلوکاری بھی۔ ان فلموں میں ’’زینت‘‘ اور ’’جگنو‘‘ شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1944ء میں بننے والی فلم ’’دوست‘‘ میں شوکت حسین رضوی نے معاون اداکار کے طور پر کام کیا اور اس فلم میں وہ نور جہاں کے بھائی بنے تھے۔ اس فلم کی ہدایات بھی شوکت حسین رضوی نے دی تھیں۔ اس فلم کے گیت شمس لکھنوی نے تحریر کیے تھے جو بہت مشہور ہوئے۔1947ء میں تقسیم ہند کے بعد شوکت حسین رضوی اور نورجہاں اپنے تینوں بچوں سمیت پاکستان چلے آئے۔ آتے وقت شوکت حسین رضوی وہ کیمرہ بھی ساتھ لے آئے جس سے انہوں نے اپنی فلم ’’جگنو‘‘ کی شوٹنگ کی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد نور جہاں اور شوکت رضوی نے تین سال تک کوئی کام نہ کیا۔ اس عرصے کے دوران شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر شاہ نور سٹوڈیو قائم کیا جہاں انہوں نے اپنی پہلی پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ کی شوٹنگ شروع کی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ شوکت حسین رضوی اس فلم کے پروڈیوسر اور معاون ہدایتکار تھے۔ اس فلم نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس کا کریڈٹ بہرحال شوکت رضوی کو نہیں جاتا تھا کیونکہ وہ اس فلم کے معاون ہدایتکار تھے۔ اس کے بعد معروف دانشور اور ڈرامہ نویس امتیاز علی تاج نے شوکت رضوی کی فلم ’’گلنار‘‘ کی ہدایات دیں۔ اس دوران ان کے اپنی اہلیہ نورجہاں سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ نورجہاں کو اپنی بیٹی ظل ہما اپنے پاس رکھنے کیلئے شاہ نور سٹوڈیو کے حصے سے دستبردار ہونا پڑا جس سے شوکت رضوی کے کیریئر کو شدید دھچکا لگا کیونکہ وہ نور جہاں کے شوہر کی حیثیت سے بھی اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اس وقت کی معروف اداکارہ یاسمین سے شادی کرلی جن سے ان کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ شہنشاہ حسین رضوی اور علی مجتبیٰ رضوی۔ یہ شادی کامیاب ثابت ہوئی جس سے شوکت رضوی اور یاسمین دونوں کو فائدہ ہوا۔ نور جہاں سے طلاق کے بعد انہوں نے صرف تین اردو فلمیں بنائیں جن کے نام تھے ’’جان بہار‘‘، ’’عاشق‘‘ اور ’’دلہن رانی‘‘۔ انہوں نے ’’ جان بہار‘‘ کا ایک گیت گوانے کے لئے اپنی سابقہ اہلیہ نو جہاں سے کہا اور انہوں نے حامی بھرلی۔ یہ گیت مسرت نذیر پر پکچرائز ہوا جس نے شائقین فلم کو مسحور کر دیا۔’’دلہن رانی‘‘ کے فلاپ ہونے کے بعد شوکت حسین رضوی کو مایوسیوں نے آن گھیرا۔ انہوں نے فلموں سے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ان کے چاروں بیٹوں نے شاہ نور سٹوڈیو کا انتظام سنبھال لیا۔ افسوس آج وہی شاہ نور سٹوڈیو خستہ حال ہے اور اس تاریخی سٹوڈیو کی یہ حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔شوکت حسین رضوی بڑے وجیہہ اور دلکش نوجوان تھے۔ سعادت حسن منٹو نے ان کے بارے میںکہا تھا کہ وہ ایک دراز قد اور دلکش نوجوان ہے جو انتہائی خوش لباس ہے۔ جوانی میں انہیں کھیلوں سے بھی دلچسپی تھی اور وہ 1930ء کے اوائل میں کلکتہ میں فٹ بال کھیلتے تھے۔ شوکت حسین رضوی کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کیا۔شوکت حسین رضوی اپنی خودداری اور وضع داری کیلئے بھی بہت مشہور تھے۔ ان کی انسان دوستی پر بھی کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کی معروف اداکارہ ششی کلا نے ایک مرتبہ اپنے فنی سفر کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہیں سب سے پہلے شوکت حسین رضوی کی فلم ’’زینت‘‘ میں میڈم نور جہاں کی سفارش پر کام ملا تھا۔ اس وقت ان کے گھریلو حالات خراب تھے اور ان کا خاندان غربت و افلاس کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ شوکت رضوی نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنی اس فلم میں عورتوں کی ایک قوالی کے شرکاء میں بٹھا دیا۔ یہ 1940ء کے اوائل کی بات ہے۔ اس زمانے میں ششی کلا کو 25 روپے معاوضہ دیا گیا۔ اسی طرح ’’جگنو‘‘ میں دلیپ کمار کا ہیرو کے طور پر انتخاب بھی ان کی فراست کابین ثبوت تھا۔ انہوںنے ایک ناکام اداکار کو میڈم نورجہاں کے مقابل کاسٹ کیا کیونکہ دلیپ کمار سے پہلے انہوں نے جتنے اداکاروں کو کاسٹ کیا وہ شوکت رضوی کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سب میڈم نورجہاں کے سامنے اداکاری کرتے ہوئے شدید گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے تھے۔ لیکن دلیپ کمار نے پہلے ہی شاٹ میں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا اور مکالموں کی ادائیگی کے خوبصورت انداز سے شوکت رضوی اور سیٹ پر موجود تمام لوگوں کو ششدر کر دیا۔ اس پہلے شاٹ کے موقع پر پرتھوی راج کپور بھی موجود تھے۔ انہوں نے وہیں شوکت رضوی سے کہا تھا کہ یاد رکھنا یہ لڑکاایشیا کا سب سے بڑا اداکار ثابت ہوگا۔1988ء میں جب دلیپ کمار پہلی بار پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو انہوں نے خصوصی طور پر شوکت حسین رضوی سے ملاقات کی تھی۔ دونوں نے اس ملاقات کے دوران اس سنہری دور کی یادوں کو تازہ کیا۔1999ء میں 85 سال کی عمر میں شوکت حسین رضوی کا انتقال ہوگیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت کی تمام قابل ذکر شخصیات نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ان کی خدمات کو سراہا۔ شوکت حسین رضوی کا نام برصغیر کی فلمی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکا ہے۔ ان کا نام اور کام دونوں زندہ رہیں گے۔