ذہنی بوجھ
کچھ ہی دیر ہوئی تھی مجھے وہاں پہنچے۔ افطاری کی تیاریاں ہو رہی تھیں میں کچن میں ہی چلی گئی۔ ’’کوئی کام ہے تو بتائیں، مَیں کر دیتی ہوں۔‘‘ ’’نہیں میں کر لوں گی‘‘، انہوں نے ذرا سی پلکیں اٹھا کر مجھے جواب دیا اور پھر سے ٹرے میں رکھے فروٹ کاٹنے لگیں۔آپ رو رہی ہیں؟ میں نے ان کے کچھ قریب جا کر انھیں کاندھے سے پکڑ کر اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔ اب ان کا رخ میری طرف تھا اور آنسو ٹم ٹم ان کی آنکھوں سے بہہ کر رخسار پر اداسی کی لکیریں کھینچ رہے تھے۔ مجھے بتائیں ،کیا ہوا ہے، کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟ میرے پوچھتے ہی انھوں نے اپنی آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے مجھے دیکھا تو مجھے لگا جیسے ان کے سارے آنسو میرے دل پر گر رہے ہوں۔ کتنی اداسی تھی ان آنکھوں میں، کتنا کرب تھا ،کتنی بے بسی تھی۔ ’’ہم بیٹیوں کا کوئی گھر بھی ہوتا ہے کیا؟ جب تک ابا زندہ تھے کسی کی مجال نہ تھی میرے سسرال میں مجھے ایک بات بھی کہے۔ جانتی ہو کیوں؟ کیونکہ وہ آتے تھے یہاں، میرا پوچھتے تھے اور جب بھی آتے تھے کچھ نہ کچھ ضرور لاتے تھے، کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے تھے۔ میرے سسرال والوں کے ذہن میں بھی یہ بات ہوتی تھی کہ اس کے ولی، وارث ہیں اگر اسے کچھ کہا تو ضرور پوچھیں گے۔‘‘ ’’ابا کے جانے کی دیر تھی، سب بدل گیا، سب کچھ بدل گیا انعم‘‘، اور پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔باہر سے اپنا نام پکارے جانے پر وہ فوراً ہٹیں اور منہ دھو کر کچن سے نکل گئیں۔ میں بھی پیچھے پیچھے وہیں جا پہنچی ۔کمرے سے ذرا دور کھڑی میں اندر سے آتی آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ تم رو کر آئی ہو؟ ’’نہیں امی وہ میں پیاز کاٹ رہی تھی‘‘۔کیا پتا رو ئی ہو، ویسے بھی جب سے تمھارے ابا گئے ہیں تمھارا رونا ختم نہیں ہوتا۔ خیر میں کہہ رہی تھی کہ بلال (داماد) کو تروایح پڑھنے جانا ہے وہ جلدی جائے گا، افطار کے فوراً بعد اسے کھانا دینا ہے، اس لیے کھانا بھی تیار رکھنا۔ جواب میں کوئی آواز نہ سنائی دی۔‘‘’’سنو تم کبھی شادی مت کرنا، اپنے گھر کی زندگی بہت اچھی ہوتی ہے۔ ماں باپ کا پیار پھر نصیب نہیں ہوتا۔ سب بدل جاتے ہیں، احمد بھی اب وہ نہیں رہے۔ شادی سے پہلے اور تھے اب اور ہیں۔ تم کہتی ہو نا، حکومت نے عورت کو بہت مقام دیا ہے۔ کہاں ہے میرا مقام؟ کہاں ہیں میرے حقوق؟ تم مرد کی فیور میں بہت لکھتی ہو، اب لکھو میری بھی داستان، اور ہر اس لڑکی کی جو کبھی کچن میں تو کبھی واش روم میں چھپ کر روتی ہے۔‘‘میں نے بھی درمیان میں بول کر انہیں نہیں روکا کیونکہ میں چاہتی تھی وہ اپنا سارا غبار نکال لیں۔ ’’وہ کون سی نظم لکھی تھی تم نے مرد پر؟‘‘ ذرا رک کر انھوں نے سوال کیا تو میں بھی اچانک اس سوال پر سوچ میں پڑگئی۔اس سے پہلے کہ میں جواب دیتی، وہ خود بول پڑیں ’’مرد سب ایک سے ہوتے ہیں۔‘‘ اسی بات کے خلاف لکھی ہے نا، غلط لکھی ہے، بالکل ایک سے ہوتے ہیں۔ کوئی کہے گا میرے تین بھائی ہیں؟ کسی سے اتنا نہیں ہوسکا افطاری پر بلا لیں۔ بلائیں گے بھی نہیں۔ عید آرہی ہے اور دیکھنا ،عیدی بھی نہیں آنی میری۔۔۔اور ایک بار پھر ان کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ ان کے سوالوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، وہ ایسی تو نہ تھیں۔ کس طرح کے سوال ان کے ذہن میں دیمک کی طرح آ چپکے تھے۔ اگر کوئی اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نہیں نبھاتا تو اس میں اس شخص کی اپنی کوتاہی ہے جو اپنے فرائض نہیں نبھا رہا۔ اگر حالات پھر بھی نہ بدلیں تو پھر ضرور کہیں نہ کہیں ہماری کوشش ناکام ہے یا پھر ہماری آزمائش کا وقت ہے۔ آپ کے تین بیٹے ہیں نا؟ اللہ نے اگر ایک مرد کی خدمت میں آپ کو جنت کی بشارت دی ہے تو تین مردوں کی جنت آپ کے قدموں میں بھی تو رکھی ہے۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ آپ کو اس نے اعلیٰ مقام والوں میں چنا؟ وہ آپ کو اولاد نہ دیتا تو آپ کیا کرلیتیں؟ آپ شکر کریں، اللہ نے اس نعمت سے نوازا آپ کو۔ میرے خاموش ہونے پر وہ کچھ دیر سوچ میں گم مجھے دیکھتی رہیں اور پھر مخاطب ہو کر کہنے لگیں ’’جب بہت تکلیف پہنچتی ہے تو میں کچھ بھی کہہ دیتی ہوں‘‘ دھیمی آواز میں نظریں جھکائے وہ بولی۔بولیں کچھ بھی۔۔۔۔ مگر کچھ ایسا نہ بولیں کہ جس سے ناامیدی اور ناشکری جھلکے۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ سے زیادتی ہوجاتی ہے کبھی کبھی مگر ذرا اپنے شوہر کی ان باتوں کے بارے میں بھی سوچیں جو بہت سے شوہروں میں نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کبھی آپ پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ آپ کو برا بھلا نہیں کہا۔ بقول آپ کے جب آپ سارے گھر کے کاموں کا غصہ ان پر نکالتی ہیں تو وہ تحمل سے سنتے ہیں اور آپ کو سمجھاتے ہیں نہ کہ گھر والوں کو یہی بتایاتھا نا آپ نے مجھے؟ میں نے تصدیق چاہی تو انہوں نے اثبات میں سر ہلادیا۔آپ کو کیا پتا کہ وہ گھر والوں کو نہیں سمجھاتے؟ ہوسکتا ہے سمجھاتے ہوں وہ سمجھتے نہ ہوں؟ آپ اچھا گمان بھی تو کرسکتی ہیں؟ آپ دعا کیا کریں اللہ تقدیر بدلنے پر قادر ہے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا آپ کا وقت بھی بدلے گا۔۔۔ میری بات سمجھ رہی ہیں نا آپ؟ ’’باتوں میں تم سے واقعی کوئی نہیں جیت سکتا‘‘ انہوں نے اپنا پرانا جملہ کسا اور کڑاہی میں کچھ دیر ڈالے پکوڑے الٹنے لگیں۔ ہوسکتا ہے کوئی ہرانے والا آجائے۔ کھلی کھڑکی کے درمیان جگہ بناتے ہوئے بیٹھ کر میں نے ماحول بدلنے کو شرارتی لہجے میں کہا تو وہ بھی ہنس پڑیں۔