اندرونی طاقت
آپ جانتے ہیں کہ انسانی دماغ ایک حیرت انگیز اور لاجواب شاہکار ہے۔ اس میں یادداشت کی صلاحیت بلاشبہ حیران کن ہے۔ یہ کسی بھی کمپیوٹر کے مقابلے میں کسی گزرے واقعے کو بڑی تیزی سے بلکہ چشم زدن میں یاد کر سکتا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہمارے اس دماغ کی یاد رکھنے کی صلاحیت اتنی ہی ہے جتنی منہدم شدہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دو عمارتوں میں فائلیں سما سکتی تھیں۔ کمپیوٹر اب ایک گھریلو شے بن چکا ہے لہٰذا ہر کوئی جانتا ہے کہ کمپیوٹر میں موجود معلومات حاصل کرنے کے لیے خاص کمانڈز کا استعمال کرنا پڑتا ہے تب ہی ہمیں درست معلومات اور ڈیٹا دے پاتا ہے۔ غلط کمانڈز سے اس کی یہ صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور ہم اس سے کام نہیں لے پاتے۔ یہی اصول دماغ پر لاگو ہوتا ہے ۔ اس کو درست کمانڈز ملتی رہیں تو یہ بہترین کام کرے گا، غلط کمانڈز یا غلط استعمال آپ کے دماغ کو کند بناسکتا ہے۔ اس سے آپ اچھے سوالات پوچھیں آپ کو اچھے جواب ملیں گے۔ اس میں حوصلہ افزا باتیں، عقائد اور مثبت نظریات بھر کر دیکھ لیں یہ مثبت راستے پر چلے گا۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ شخصیات میں فرق کا انحصار سوچ میں فرق پر ہے تو دراصل ہمارا اشارہ سوالات کی جانب ہوتا ہے جو اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ آپ اگر دماغ سے یہ پوچھیں کہ میں ناکام کیوں ہوں اور ساتھ ہی آپ یہ بھی کہیں کہ میرا مقدر ہی ایسا ہے، آپ مایوسی کا شکار ہوں تو جواب بڑا حوصلہ شکن آئے گا۔ یہ جواب ہو سکتا ہے کہ واقعی تم ایک بدقسمت آدمی ہو، بے وقوف ہو وغیرہ۔ لیکن اگر آپ ٹھنڈے مزاج سے اور مثبت پہلو سامنے رکھتے ہوئے یہ دریافت کریں گے تو یقین جانیے آپ کو حوصلہ افزا جواب ملیں گے۔ ایک بار ایک حادثے میں میرے دوست ڈبلیو مشل کا ایک تہائی جسم جل گیا تھا۔ مگر وہ کاروباری زندگی میں بھرپور حصہ لیتا رہا تھا۔ چند سال بعد اسے ایک اور ہولناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاز کے حادثے میں وہ معذور ہو گیا۔ حادثے کے بعد اسے ہوش آیا تو پتا چلا کہ وہ وہیل چیئر پر ہے اور اس کی باقی زندگی اسی پر گزرے گی۔ اس کے اردگرد لوگ تقدیر کا رونا رو رہے تھے۔ مشل نے ان کے برعکس اپنے آپ سے سوال کیا، جو ہونا تھا وہ تو گیا ہو، وقت واپس نہیں جا سکتا، کیا یہ ممکن نہیں کہ اس حالت میں میں کچھ کر دکھاؤں، دنیا کے لیے کچھ کروں اور زندگی سے لطف اٹھاؤں۔ اسے مثبت جواب ملا۔ اسے آگے بڑھنے کے طریقے نظر آنے لگے۔ مشل نے اپنے اندر کی آواز پر لبیک کہا اور بھرپور طریقے سے زندگی کا لطف اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ مشل کا چہرہ جلا ہوا تھا اور اب وہ معذور تھا لیکن وہ ہسپتال میں خوش رہتا۔ اس نے ایک نرس کو شادی کی تجویز پیش کی۔ ساتھیوں نے کہا کہ تم پاگل ہو، مگر ڈیڑھ برس بعد وہ اس کی بیوی تھی۔