کورونا کے ہاتھوں اموات میں اضافہ کا رجحان ‘حکومت پریشان
تجزیے
وائرس اپنی قوت اور شدت کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں سرایت کر رہا قرنطینہ سنٹرز میں حکومتی نااہلی اور غفلت کے خلاف ردعمل سامنے آ رہا ہے
(تجزیہ: سلمان غنی)مئی کے آغاز پر ہی کورونا کے ہاتھوں اموات میں اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ وائرس اپنی قوت اور شدت کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں سرایت کررہا ہے ۔ وائرس کے آگے بند باندھنے کیلئے حکومت کی جانب سے کئے جانے والے حفاظتی اقدامات اور کمزور فیصلے اس وائرس میں کوئی خاطر خواہ کمی لانے میں معاون نہیں بن رہے ۔ حکومت او راس کے تمام عہدے داران ہر سطح پر میڈیا بریفنگز تو کرتے نظر آ رہے ہیں مگر حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ کورونا وائرس کو روکنے کیلئے حکومتی رٹ کمزور پڑ چکی ہے ۔کورونا کے ہاتھوں اموات میں اضافہ کے رجحان سے حکومت پریشان ہے ۔ ایک جانب حکمرانوں کے متضاد اور کنفیوژ فیصلے ہیں تو دوسری جانب فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور وہ اپنی صوبائی حکومتوں سے باہم دست و گریباں نظر آ رہے ہیں اور تیسری جانب بیچارے عوام ہیں جنہیں وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں تن تنہا خود بھی وائرس سے لڑنا ہے اور معاشی صورتحال کا مقابلہ بھی کرنا ہے ۔ حکومت خود بتاتی رہی ہے کہ مئی سے اموات اور تعداد بڑھنا شروع ہوگی تو اس کے روکنے کے اقدامات اب تک کیوں نظر نہ آ سکے ۔اگلے محاذ پر کورونا کے خلاف جنگ لڑنے والے ڈاکٹروں کے تحفظات پر کان کیوں نہیں دھرے جا رہے ۔ اس تمام صورتحال میں کیا عوام کو حکومت نے سوشل ذمہ داری اور خود خیال رکھنے کا کہہ کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟ اب تک کی صورتحال اور زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو حکومت نے اپنے فیصلوں کے ذریعہ کورونا کے خلاف جنگ کو آگے بڑھ کر چیلنج نہیں کیا۔ کورونا کے خلاف جنگ لڑی بھی جا رہی ہے اور نہیں بھی۔ پوری قوم وزیراعظم کی دی ہوئی لائن کے مطابق خیرات اور چندوں کی طرف ہاتھ پھیلائے شب و روز گزار رہی ہے ۔ زبردست اور موثر حکمت عملی کے بغیر صنعتی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں۔ گڈ گورننس کیلئے افرادی قوت سرکاری دفتروں سے چھٹیاں لے کر آرام کر رہی ہے اور پورا ملک عملاً کمزور اور کنفیوژ فیصلوں کے رحم و کرم پر ہے اور یہ ان فیصلوں کا کیا دھراہے کہ مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہی کورونا وائرس اپنی تمام تر شدت کے ساتھ سرگرم نظر آ رہا ہے اور مئی کے پہلے دن پاکستان اس لڑائی میں سب سے زیادہ ایک دن میں 56شہریوں کی لاشیں اٹھانے پر مجبور ہوا ہے ۔ ملک میں اس غربت اور جہالت کے عالم میں کوئی حکومت سماجی دوری ، فاصلوں اور روزگار کیلئے باہر نہ نکلنے کا مشورہ تو عوام کو دے مگر اپنی ذمہ داریاں لے کر ادا کرنا بھول جائے تو نتائج یہی ہوں گے جو مئی کا مہینہ شروع ہونے کے ساتھ شروع ہو گئے ہیں۔ عملاً ہسپتالوں میں کورونا کے ہاتھوں ایمرجنسی نافذ ہے کسی اور مریض کا کوئی علاج نہیں ہو رہا۔ ڈاکٹر اور دیگر عملہ اپنی جگہ پر خوفزدہ ہے مگر حکومت کے لاتعداد ترجمان اور چاروں صوبوں کے صوبائی وزرا صحت ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس پر تابڑ توڑ حملے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ہسپتالوں کے باہر جو مختلف جگہوں اور مقامات پر قائم قرنطینہ سنٹرز کا احوال ہے اس میں بھی حکومتی نااہلی’ بے حسی اور غفلت اپنے عروج پر ہے ۔ حکومت جن سنٹرز کے قیام کا فخریہ کریڈٹ لیتی تھی عملاً اب وہاں پر حالات شرمناک ہو چکے ہیں اور قرنطینہ سنٹرز کے اندر متاثرہ شہری احتجاج کرتے حکومت کو کوستے اور سہولیات کی عدم دستیابی پر چلاتے نظر آتے ہیں۔ عملاً منظر نامہ یہ ہے کہ حکومت عقل سے عاری کنفیوژ فیصلے کر رہی ہے ۔ خود ڈاکٹرز اس کیخلاف سراپا احتجاج ہیں اور عوام جنہیں اس مرض سے بچانا ہے وہ قرنطینہ سنٹرز میں بھی بے حال اور پریشان ہیں اور اب بڑھتی ہوئی اموات اور مرض میں ہوشربا اضافہ بتا رہا ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے کیا کرنا ہے اور حکومت کو کیا کرنا ہے ۔ اب وفاقی سطح پر اور صوبوں میں قوم کا درد رکھنے والے کچھ بہتر دماغ اگر موجود ہیں تووہ مل بیٹھیں۔ اپوزیشن بھی محض بیانات تک محدود ہے اور حکومت جس نے کھل کر بحران کاسامنا کرنا تھا وہ بھی سارا سارا دن ٹی وی سکرین کے خلاف نام نہاد جنگ لڑرہی ہے ۔ حکومت کے ان گنت ترجمانوں کا ایک ہی کام اور اصل مقصد ہے کہ حکومت کے تمام مخالفین کی اس مرحلہ پر بھی کردار کشی اور پگڑی اچھالی جائے ۔کورونا سے پہلے بھی شدید معاشی بحران سے دوچار تھے پھر کورونا کے طوفان نے صورتحال کو اور گھمبیر بنا دیا اور اب ہم جس صورتحال اور کیفیت سے دوچار ہیں اس سے نکلنے کا واحد ذریعہ موثر سیاسی عزم اور عوام کی قوت ارادی کو بروئے کار لانا ہوگا۔