وزیر خارجہ نے سندھ پر چڑھائی کرکے ایک نیا محاذ کھول دیا
تجزیے
شاہ محمود کی تنقید سے لگتا تحریک انصاف سندھ حکومت کے الزامات سے کافی تنگ گورنر سندھ کو تبدیل کرنے کی افواہیں ، ایک ریٹائرڈ جنرل کا نام گردش کر رہا ہے
(تجزیہ:سلمان غنی)کورونا صورتحال پر بلائے جانے والے پارلیمنٹ کے اجلاس کے حوالے سے توقع تو یہ تھی کہ یہاں کورونا اس کے اثرات اور اس کے سدباب کیلئے اقدامات پر اتفاق رائے ہوگا اور اس بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں کے آگے بند باندھا جا سکے گا لیکن صورتحال میں بہتری اور سنجیدگی آنے کی بجائے الٹا یہ ابتری انتشار اور خلفشار سے دوچار ہوتی نظر آ رہی ہے اور اس پر جلتی پر تیل وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سینیٹ میں یہ کہہ کر ڈال دیا کہ اٹھارویں ترمیم ختم کرنا ہماری پالیسی نہیں لیکن سندھ ایسا آرڈیننس لا رہا ہے جو اس کا اختیار نہیں،شاہ محمود قریشی کا لہجہ اور تنقید بتا رہی تھی کہ تحریک انصاف سندھ حکومت اور اس کے ذمہ داران کے بیانات اور الزامات سے کافی تنگ ہے ، جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ شاہ محمود قریشی نے سندھ جانے کی جو دھمکی دی ہے وہ کارگر ہو پائے گی، زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو کورونا وائرس کی آمد پر پہلا وار سندھ پر ہوا تھا اور سندھ نے وائرس اور اس کے اثرات سے نمٹنے کیلئے بہت حد تک اقدامات بھی کئے اور ان اقدامات کی بنیاد پر سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی تعریف بھی ملک بھر میں ہوتی نظر آئی لیکن جوں جوں کورونا وائرس سندھ کے بعد اندرون ملک کی طرف رخ کرتا گیا تو وفاق سمیت تمام حکومتوں کے ہاتھ پاؤں پھولے نظر آئے اور انہوں نے بھی اپنے طور پر اقدامات شروع کئے اس دوران سیاسی سطح پر سندھ حکومت کا خصوصی طور پر ذکر ہوتا نظر آیا تو یقینا ً ان کی مخالف جماعت تحریک انصاف بھی الرٹ ہو گئی اور ان کے وزراور ذمہ داران نے بھی سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھانا شروع کر دئیے ، بعدازاں کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ مرکز اور سندھ کے درمیان الزامات کی گولہ باری نہ ہوتی ہو جس سے مرکز اور سندھ کے درمیان ایک محاذ آرائی اور تناؤ کی صورتحال طاری ہوئی البتہ خوش آئند امر یہ ہے کہ خود وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ آپس میں الجھتے نظر نہ آئے ، موجودہ پید اشدہ تلخ صورتحال کی وجہ سے وہ آرڈیننس بنا جس کے ذریعے سندھ حکومت متاثرین کیلئے بجلی اور گیس کے بلوں میں ریلیف دینا چاہتی تھی اور گورنر عمران اسماعیل نے تکنیکی بنیادوں پر آرڈیننس کو مسترد کیا، وفاق سے سہولتیں نہ ملنے کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں اور مرکز کو ہدف تنقید بناتے ہیں جس کا جواب وفاق کے بعض حکومتی ترجمان بھی اسی طرح کے شدید بیانات سے کرتے ہیں، پیپلز پارٹی کو ملکی سیاست میں ایک بڑا فائدہ سندھ حکومت کا ہے او رسندھ خصوصاً شہری علاقوں میں تحریک ا نصاف کے اراکین اسمبلی بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتے ، سندھ سے تعلق رکھنے والے بعض وفاقی وزرا، اراکین اسمبلی اور پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی بھی سندھ حکومت کے بارے میں تحفظات ظاہر کرتے نظر آتے ہیں مگر اسلام آباد میں انکی بوجوہ شنوائی نہیں ہوتی لہٰذا اگر 18ویں ترمیم کو دیکھا جائے تو صوبوں کو بہت حد تک اس میں بااختیار بنا دیا گیا اور صوبوں کے پاس وسائل پر خود وفاق تحفظات کا اظہار کرتا نظر آتا ہے لیکن کورونا پر پیدا شدہ صورتحال میں سندھ حکومت جب وفاق پر سندھ سے عدم تعاون کا الزام لگاتی ہے اور یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ وفاق کو ملنے والی امداد سے بھی انہیں ان کا حصہ دیا جائے تو پی ٹی آئی کو اس پر آگ لگتی ہے او روہ یہ کہتے ہیں کہ سندھ کی جانب سے آنے والے اعدادوشمار جھوٹ کا پلندا ہیں لہٰذا امداد کے حصول کیلئے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہوں گے اور حکومتی ترجمان نے تو کچھ روز پہلے کہا تھا کہ سندھ حکومت تو چاہتی ہے کہ امداد ہمارے ہاتھ میں پکڑائی جائے تاکہ یہ کھا جائیں کیونکہ ان کی کرپشن پر دو آرا نہیں اور اب وزیر خارجہ نے سندھ پر چڑھائی کی بات کرکے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے اور دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ سندھ میں اپنا لوہا منوا سکے ، ہاں البتہ کچھ حلقوں میں پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت کو کہنے کیلئے سندھ کے گورنر کی تبدیلی کی افواہیں ضرور ہیں اور اس حوالے سے ایک ریٹائرڈ جرنیل کا نام گردش میں ہے جس کے تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان سے خصوصی مراسم اپوزیشن کیلئے مسئلہ رہے ہیں کیونکہ گورنر کی نامزدگی خالصتاً وفاقی حکومت کا استحقاق ہے ،لہٰذا گورنر کی تبدیلی کے ذریعے کسی حد تک پیپلز پارٹی کی حکومت کو جارحانہ طرزعمل سے دفاعی محاذ پر ضرور لایا جا سکے گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ ایک بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے بھی حکو متوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق نہیں ہو پا رہا اور جہاں تک قومی اسمبلی کے اجلاس کو بلانے کا مقصد تھا کیا وہ مقصد بھی پورا ہوا یا نہیں، یہ منتخب ایوان ملک میں سیاسی استحکام لانے کی بجائے انتشآر اور تناؤ پھیلانے کا ذریعہ ہی بنیں گے ، یہی وجہ ہے کہ منتخب ایوان جنہیں عوام کے جذبات و احساسات کا ترجمان اور بڑے فیصلوں کا ذریعہ بننا چاہئے تھا خود پارلیمنٹیرینز کی وجہ سے اپنی اہمیت کھوتے چلے جا رہے ہیں جو سیاستدانوں کیلئے چیلنج اور 20کروڑعوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔