امان اللہ بھی چلے گئے...

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


’’کامیڈی کنگ ‘‘کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا

پاکستان فلمی صنعت میں جن مزاحیہ اداکاروں نے اپنے نام کا سکّہ جمایا ان میں ظریف، اے شاہ شکارپوری، آصف جاہ، نذرمنور ظریف، خلیفہ نذیر، ننّھا، رنگیلا، لہری اور علی اعجاز کے نام سرِفہرست ہیں۔ منور ظریف نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ رنگیلا وہ اداکار تھے جنہوں نے زندگی کے آخری برسوں میں سٹیج پر بھی کام کیا۔پنجابی سٹیج ڈراموں سے بھی بہت سے مزاحیہ اداکاروں نے نام کمایا۔ ان میں سہیل احمد، ببو برال، شوکی خان، طارق جاوید، مستانہ، عابد خان کو کوئی بھول نہیں سکتا۔ لیکن امان اللہ ان سب کے شہنشاہ تھے۔ اور یہ بات ان کے ساتھی اداکار بھی تسلیم کرتے ہیں۔
امان اللہ کا پورا نام امان اللہ خان تھا۔ وہ 1950ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ انہوں نے فلم اور ٹیلی ویژن پر بھی کام کیا لیکن ان کی اصل شہرت سٹیج تھا۔ انہوں نے تقریباً 860 سٹیج ڈراموں میں کام کیا جو کہ عالمی ریکارڈ ہے۔ امان اللہ نے صرف دو فلموں میں کام کیا جن میں ''ون ٹو کا ون‘‘ (2006) اور ''نامعلوم افراد‘‘ (2014) شامل ہیں۔ اس حقیقت سے انکار بہر حال مشکل ہے کہ امان اللہ کو فلموں سے شہرت نہ مل سکی۔ شاید فلم ان کا میڈیم نہیں تھا۔ لیکن پنجابی سٹیج اور ٹی وی سے انہیں جو شہرت نصیب ہوئی وہ بہت لوگوں کے حصّے میں آئی۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ تک فن کی خدمت کی اور بے شمار دیگر اداکاروں کو متاثر کیا۔ ان کو قدرت نے جن صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ کم انسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ ان کے فن کی سب سے بڑی بات طنز اور بے ساختگی تھی۔ دوسرے مزاحیہ اداکار بھی ان خوبیوں کے مالک تھے لیکن ان کی بات کچھ اور ہی تھی۔ وہ بات سے بات نکالنے کے ڈھنگ سے پوری طرح واقف تھے۔ ایک اور خوبی جس کی وجہ سے ان کو باقی اداکاروں پر فوقیت حاصل تھی، وہ تھا ان کا زبردست مشاہدہ۔
امان اللہ نے اپنے مشاہدے کی قوت کو اپنی بے ساختگی کا لباس پہنایا اور لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا۔ ان میں یہ خوبی بھی تھی کہ وہ اپنے اوپر طنز کو بھی برداشت کرتے تھے اور پھر اس کے جواب میں اپنے طنز کے تیر بھی چلاتے تھے۔ سٹیج ڈرامے کو کیسے کامیاب بنانا ہے، امان اللہ کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا۔ انہوں نے ایسے ایسے کردار ادا کیے کہ لوگوں نے کبھی ان سے ایسی توقع ہی نہیں کی۔ کردار جتنا بھی مشکل کیوں نہ ہو، امان اللہ اس میں جان ڈال دیتے تھے۔ بعض اوقات وہ سٹیج ڈراموں کے شائقین سے براہِ راست بھی مخاطب ہو جاتے تھے اور پورا ہال ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ شائقین نے انہیں ہوٹنگ بھی کی لیکن امان اللہ نے کمال تدبر سے کام لیا اور ہُوٹ کرنے والوں کو شرمندہ کر دیا۔سٹیج پر ان کی اداکار البیلا سے جوڑی بن گئی جو طویل عرصہ تک قائم رہی۔ 
امان اللہ کے مداحین صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی ہیں۔ بھارت کے ایک مشہور ٹی وی شو کے میزبان کپل شرما نے کئی دفعہ یہ برملا کہا کہ امان اللہ ان کے استاد ہیں۔ انہیں کئی دفعہ بھارت بلوایا گیا اور انہوں نے وہاں پرفارم کیا۔ ایک زمانے میں امان اللہ سٹیج کے مہنگے ترین اداکار تھے۔ یہاں کئی ایسے سٹیج اداکار ہیں جن کی مقبولیت میں امان اللہ کا اہم کردار رہا۔ وہ ایک مخلص اور ہمدرد شخص تھے اور انہوں نے جونیئر فنکاروں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ سٹیج اداکار طارق جاویدمرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ ''امان اللہ وہ درخت ہے جس کی چھائوں میں ہم پلے بڑھے...‘‘ بھارت کے سٹیج اداکار چندن پربھاکر کا کہنا تھا کہ امان اللہ ان کے استاد تھے اور وہ ان سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ تقریباً تمام سٹیج اداکاروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جتنی حِسِّ مزاح (Sense of humour) امان اللہ میں تھی، وہ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ پاکستان کے ایک اور نامور مزاحیہ اداکار شکیل صدیقی بھی امان اللہ کے بہت بڑے مداح ہیں۔ امان اللہ کی طرح شکیل صدیقی بھی بھارت کئی بار گئے اور انہوں نے وہاں لوگوں کو بے حد محظوظ کیا۔ یوں تو امان اللہ کے یادگار سٹیج ڈراموں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ذیل میں ان کے چند شاہکار ڈراموں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
-:1 بیگم ڈِش اینٹینا
-:2 لُڈی ہے جمالو
-:3 ڈسکو دیوانے
-:4 کھڑکی کے پیچھے
-:5 محبت سی این جی
-:6 یو پی ایس
-:7 شرطیہ مٹھّے
-:8 سوہنی چن ورگی
-:9 بڑا مزا آئے گا
-:10 کیچپ
امان اللہ نے 2010ء میں ایک ٹی وی نیوز چینل میں شمولیت اختیار کی۔ اس چینل کے مزاحیہ پروگرام میں انہوں نے ایک سادہ لوح اور اندھے دیہاتی حکیم صاحب کا کردار ادا کیا۔ 2013ء کو انہوں نے اس شو سے علیٰحدگی اختیار کر لی۔
انہوں نے ''دنیا‘‘ ٹی وی کے مشہور پروگرام ''مذاق رات‘‘ میں چاچا بشیر کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس پروگرام کو چارچاند لگائے۔ بعد میں وہ ایک اور چینل میں کام کرتے رہے۔ 
2018ء کو امان اللہ کو صدرِ پاکستان کی طرف سے ''تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔ ایک دو سال سے ان کی صحت اچھی نہ تھی۔ جنوری 2018ء کو انہیں ہسپتال داخل کرا دیا گیا۔ انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ر کھا گیا اور بعد میں انہیں ہسپتال سے چھٹی مل گئی۔ 6 مارچ 2020ء کو وہ لاہور کے ایک مقامی ہسپتال میں گردوں اور پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں مگر کچھ لوگ جانے کے بعد بھی ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ یقینا امان اللہ کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔