بُری صحبت کا اثر
نومی اپنے ماں ،باپ کا بے حد لاڈلا اور اکلوتا بیٹا تھا۔اس کے ابو کا اپنا جنرل سٹو ر تھا جہاں وہ صبح سے شام تک اپنا وقت گزارتے تھے۔گھر میںنومی اس کی امی اور ابو رہتے تھے۔
نومی اپنے ماں ،باپ کا بے حد لاڈلا اور اکلوتا بیٹا تھا۔اس کے ابو کا اپنا جنرل سٹو ر تھا جہاں وہ صبح سے شام تک اپنا وقت گزارتے تھے۔گھر میںنومی اس کی امی اور ابو رہتے تھے۔ان کے خرچے کم تھے اور اس کی نسبت آمدن کافی اچھی ہو جاتی تھی۔اس کے باوجود نومی کے ابو اسے روزانہ خرچ کرنے کے لیے محدود رقم دیتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ نومی محنت کرنے کا عادی بنے اور کبھی اس کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ وہ باپ کے پیسے پر تمام عمر فارغ بیٹھ کر بھی کھا سکتا ہے۔نومی بڑا ہوا تو اس کے ابو سٹور پر اسے بھی ساتھ لے کر جانے لگے۔وہ اب دسویں جماعت کا طالب علم تھا ۔ سکول سے فارغ ہونے کے بعد وہ چند گھنٹے اپنے ابو کے ساتھ سٹور پر گزارتا اور پھر شام کو اپنے دو دوستوں کے ہمراہ کچھ دیر گھومنے نکل جاتا۔اکثر وہ باہر کھانے پینے جایا کرتے تھے،اور نومی ہمیشہ دیکھتا کہ اس کے مقابلے میں اس کے دوست کئی گنا زیادہ پیسے لاپرواہی سے خرچ کر دیتے ہیں۔کبھی کبھار نومی کے دل میں احساسِ کمتری پیدا ہونے لگتا کہ وہ اپنے دوستوں کی طرح محدود خرچ ملنے کی وجہ سے زیادہ پیسے خرچ نہیں کر پاتا۔
نومی کے دوست اس کی سوچ سے واقف تھے۔ایک روز وہ باتیں کرتے ہوئے نومی سے کہنے لگے ''یار!تم سوچتے تو ہو گے کہ ہم تینوں کے والد اپنے اپنے کام سے تقریباً ایک جتنا ہی کماتے ہیں،پھر ہم دونوں اتنے زیادہ پیسے کیسے خرچ کر لیتے ہیں۔‘‘
دوست کی بات سن کر پہلے تو نومی چونکا کہ اس نے بھلا کیسے اس کے خیالات جانے،پھر خاموشی سے اثبات میں سر ہلادیا۔جواب میں نومی کا دوست ہنستے ہوئے کہنے لگا''میرے بھائی!پیسے ہمیں بھی ایک حد تک ہی ملتے ہیں،لیکن خواہشات پوری کرنے کے لیے بہادر بننا پڑتا ہے۔‘‘
نومی نہ سمجھنے والے انداز میں دوست کی جانب دیکھنے لگا تو وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کرتے ہوئے بولا''اب ہم بڑے ہو گئے ہیں اور ہمارے لیے ضروری نہیں کہ ہر بار گھر سے مانگ کر ہی پیسے حاصل کریں۔کبھی کبھار بغیر بتائے پیسے نکا ل لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔اپنے گھر کے پیسے استعمال کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
دوست کی بات سن کر نومی سوچنے لگا کہ یہ خیال پہلے تو اس کے دل میں کبھی نہیں آیا،لیکن اس کا دوست یقینا ٹھیک کہہ رہا ہے۔بھلا اپنے گھر کے پیسے بغیر بتائے اٹھانا چوری تھوڑی نا ہے ۔ یہ سوچ کر نومی نے اگلے دن والد کو کام میں مصروف دیکھ کر خاموشی سے سٹورسے پیسے اٹھا لیے۔پہلی بار ایسا کرتے ہوئے نومی اندر سے قدرے ڈرا ہوا تھا،لیکن شام گھر آنے کے بعد جب اس نے والد صاحب کو مسکراتے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ انہیں پیسے نکلنے کا علم نہیں ہوا۔اب نومی کی ہمت بڑھی اور اس نے معمول بنا لیا ہر چند دن بعد وہ نظر بچا کر دراز میں سے پیسے نکال لیتا۔نومی اس بات سے ناواقف تھا کہ سٹور میں موجود کیمرے کی ویڈیو اس کے ابو حفاظت کے لیے ہر کچھ عرصے بعد دیکھتے ہیں۔
ایک دن معمول کے مطابق نومی گھر واپس لوٹا تو اس کے ابو کھانے کی میز پر موجود تھے۔کھانے کے بعد انہوں نے نومی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا''بیٹا!میری ساری کمائی آپ کے لیے ہے ، آج کے بعد جتنے پیسے ضرورت ہوں مجھ سے مانگ کر لے لینا۔‘‘ابو کی بات سن کر جیسے نومی پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔وہ نہیں جانتا تھا یہ کیسے ہوالیکن اس کے ابو کو نومی کی حرکت کا علم ہو چکا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اسے ابو نے تو نہیں ڈانٹا لیکن دوست کے ایک غلط مشورے نے اسے اپنے باپ کی نظروں میں کس قدر شر مندہ کر دیا تھا،اور شاید وہ اعتبار دوبارہ حاصل کرنے میں اسے بہت سا وقت لگے گا۔