فتح اعظم جب کعبہ میں بتوں کو توڑ دیا گیا
رسول خدا ﷺنے فتح مکہ میں کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا، جو مسلمان ہوئے اپنی مرضی سے ہوئے
غزوہ فتح مکہ، جس کو فتح اعظم اور فتح مکہ بھی کہا گیا ہے ۔ 20 رمضان 8 ہجری (10 جنوری 630 ء) کو انجام پایا۔ مسلمانوں نے اس مہم کے نتیجے میں مکہ کو فتح کرکے اسلامی حکومت کے قلمرو میں شامل کیا۔ اس غزوے کا سبب یہ تھا کہ قبیلۂ قریش نے اس جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جو صلح حدیبیہ کے تحت مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان قائم تھی۔قریش کی اس گستاخی کے جواب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے 10000 افراد پر مشتمل سپاہ کو مسلح کیا۔ سپاہ اسلام نے مدینہ سے مکہ کی جانب عزیمت کی، مکہ پہنچی اور پرامن انداز سے شہر میں داخل ہوئی گو کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو عکرمہ بن جہل کی سرکردگی میں کچھ قریشی افراد کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جھڑپ میں 25 مشرکین ہلاک اور باقی فرار ہوئے جبکہ 2 مسلمان شہید ہوئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مکہ میں اترے اور لوگ مطمئن ہوئے تو آپ ؐکعبہ پہنچے ، طواف کیا اور اپنی کمان سے وہاں موجود بتوں کو نشانہ بنانے لگے اور آیات کریمہ بھی پڑھ رہے تھے ۔ ترجمہ: ’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے ۔‘‘ کعبہ میں بتوں اور مجسموں کو دیکھا اور ان کے توڑنے کا حکم دیا۔
صلح حدیبیہ کے 22 مہینے بعد قریش نے معاہدے کی خلاف ورزی کی چنانچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ پر شرک کی حاکمیت کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔قریش کی عہد شکنی تھی کہ انہوں نے بنو بکر کے بعض خاندانوں خزاعہ کے ایک گروہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور بعض قریشیوں نے بنو بکر کو ہتھیار دیئے اور بعض نقاب پوش قریشی افراد نے خفیہ طور پر رات کے وقت جنگ میں شرکت کی۔خزاعہ کے افراد پر بنو بکر نے حملہ کیا تو خزاعہ کو اس کی خبر نہیں تھی۔ خزاعہ کے افراد نے حملے کے بعد حرم کا رخ کیا لیکن بنو بکر نے حرم کی حرمت کا پاس نہیں رکھا اور ان کا تعاقب کیا،اس جنگ میں خزاعہ کے 23 افراد قتل ہوئے ۔
ابو سفیان کے مدینہ پہنچنے سے قبل عمرو بن سالم خزاعی خزاعہ کے 40 رکنی وفد کے ہمراہ مدینہ پہنچے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے حضور قریش کی جارحیت کی شکایت کی۔ عمرو مسجد میں مسلمانوں کے درمیان اٹھ کھڑے ہوئے اور رسول خداؐ کی اجازت سے اشعار پڑھے جن کا مضمون پرانے حلیف سے استغاثے اور طلب امداد اور قریش پر بنو بکر کے شبخون سے عبارت تھا:
ان اشعار کا ترجمہ یہ ہے ۔’’قریش نے آپؐ کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی۔اور آپ ؐکے ساتھ کی ہوئی میثاق کو توڑ دیا۔انہوں نے پانی کے کنارے ہم پر حملہ کیا۔اور ہمیں رکوع اور سجود کی حالت میں قتل کردیا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے غضب کی حالت میں فرمایا ’’اگر میں بنو کعب (جو خزاعی تھے) اور خزاعہ کی مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے ۔‘‘ یوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے قریش کے ساتھ آخری جنگ کا فیصلہ کیا۔
ادھرابو سفیان کئی صحابیوں کے پاس گیا اور ان سے وساطت کی درخواست کی لیکن کسی نے مثبت اشارہ نہیں دیا یہاں تک کہ حضرت علیؓ کے پاس پہنچا جبکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا بھی موجود تھیں۔ اس نے سیدہ ؓسے درخواست کہ اس کو پناہ دیں تو بی بیؓ نے فرمایا: ’’اس کا اختیار صرف رسولؐ اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔‘‘ ابو سفیان نے کہا: اپنے ایک بچے سے کہہ دیں کہ مجھے اپنی پناہ میں لیں۔ سیدہ ؓنے فرمایا ’’ یہ کام نہیں کرسکتے ۔‘‘ بعد ازاں ابو سفیان نے حضرت علیؓ سے درخواست کی کہ آپ ؓمیری حمایت کریں اور رسول خداؐ سے کہہ دیں کہ معاہدے کی مدت میں توسیع کریں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا’’ جب رسولؐ اللہ کوئی فیصلہ کرتے ہیں کوئی بھی اس کے بارے میں بات نہیں کرسکتا۔ تمہارے لئے چارہ کار یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع میں اٹھ کر حمایت کی درخواست کرو اور پھر مکہ پلٹ جاؤ؛ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ کام بھی زیادہ مفید واقع نہیں ہوسکے گا۔‘‘
ابو سفیان لوگوں کے درمیان اٹھا اور کہا: میں حمایت کی درخواست کررہا ہوں اور میں تصور نہیں کرتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ذلیل کریں گے ۔ لیکن وہاں سے بھی اسے خالی ہاتھ نکلنا پڑا۔ ابوسفیان خالی ہاتھ مکہ واپس چلا گیا اور قریش جو کسی قسم کا فیصلہ کرنے سے قاصر تھے ’’سپاہ اسلام کے حملے ‘‘کے سوا کسی بھی نئی خبر کے انتظار میں بیٹھ گئے ۔
کسی وقت قریش 10000 افراد جنگ احزاب کیلئے مدینہ لے کر آئے تھے اور پیغمبر خدا ؐ نے حضرت علیؓ کے ہاتھوں عمرو بن عبدود کے مارے جانے کے بعد، یا مشرکین کی ہزیمت کے دو یا تین دن کے بعد فرمایا تھا:’’ آج کے بعد ہم ان سے لڑیں گے اور وہ ہمارے ساتھ لڑیں گے ‘‘ اور ایسا ہی ہوا یہاں تک کہ خداوند متعال نے رسولؐ اللہ کے ہاتھوں فتح مکہ کے اسباب فراہم کردیئے ۔ فتح مکہ میں سپاہ اسلام کی تعداد اتنی ہی تھی ۔مکہ میں کسی کی مزاحمت کی قوت نہیں تھی۔ رسول خدا ؐنے کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا، جو مسلمان ہوئے اپنی مرضی سے ہوئے۔