قبلہ اول کی پکار
سرزمین فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے یہی وہ وادی مقدس ہے جسے توحید کا مرکز بنانے کیلئے حضرت موسیٰؑ و ہارونؑ و یوشعؑ بن نون نے طویل جدوجہد کی ۔سرزمین فلسطین کی طرف حضرت شعیب ،ؑحضرت لوط،ؑ حضرت یونس اورؑ حضرت عیسیٰ ؑمبعوث کئے گئے۔
ارض فلسطین کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہاں پر حضور اکرم حضرت محمد ﷺ کے جد بزرگوار حضرت ہاشم سمیت چند اصحاب کرامؓ بھی مدفون ہیں ۔سرزمین فلسطین یہود و نصاریٰ کے نزدیک بھی انتہائی قابل احترام ہے حضرت ابراہیم ؑ سامی عرب نسل کے پیغمبر تھے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑسے اسماعیلی عربوں کا سلسلہ چلا جبکہ حضرت اسحاق ؑ سے اسرائیلی عربوں کی نسل چلی تقریباً 1300 برس قبل مسیح بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے اور2 صدیوں کی مکمل کشمکش کے بعد اس پر قابض ہو گئے ۔وہ اس سرزمین کے اصل باشندے نہیں تھے قدیم باشندے دوسرے تھے جن کے نام بائبل میں تفصیل کیساتھ موجود ہیں، بنی اسرائیل نے انکا قتل عام کر کے اس سرزمین پر قبضہ کیا تھا اسلام کی آمد سے قبل یہ پورا علاقہ عربوں سے آباد تھا۔
تاریخ میں فلسطین کا قدیم ترین نام زمین کنعان ہے جبکہ مصری کتابوں میں فلسطین کا نام ’’فلسط‘‘ کے طور پر ملتا ہے غالبا ًے اور ن کا اضافہ زمانہ ما بعد میں ہوا ۔تاریخ کے مطابق فلسطین کی سرحد مسلسل تبدیل ہوتی رہی ہے فلسطین کی سرزمین دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل و دماغ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے اور ہر مسلمان اپنے عقیدہ ایمان و مذہب کے اس گراں قدر سرمایہ کے تحفظ کیلئے ہر قسم کی قربانی کا جذبہ رکھتا ہے جو قدس اور مسجد اقصیٰ سے ایمانی تعلق کا غماز ہے۔
بیت المقدس حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں تعمیر ہواجسے بیت الحرم سے 40منزل دور کہا گیا۔ نبی اکرم ﷺنے16 یا 17مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی ۔معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ حضور اکرم ؐ معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہے : ترجمہ ’’وہ (ذات) پاک ہے جو لے گئی ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجدِ اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔‘‘(سورہ بنی اسرائیل 1)
بیت المقدس کی روحانی خیرات وبرکات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے انبیاء کرامؑ کا مولد ومدفن ہونے کا شرف و اعزاز اس سر زمین کو حاصل ہوا ہے۔ وہ پوری روئے زمین پر اس کے سوا اور کسی بھی قطعۂ ارضی کو حاصل نہیں ہوا۔
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’(مکہ کی) مسجد حرام ۔‘‘میں نے عرض کیا پھر کون سی؟ آپﷺ نے فرمایا’’ (بیت المقدس کی) مسجد اقصیٰ۔‘‘ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 601 ) 17 ہجری یعنی 639 میں خلافت ثانیہ کے دور میں عیسائیوں کے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور پھر پہلی صلیبی جنگ میں یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ بیت المقدس پر قبضہ صیہونیوں و صلیبیوں کا صدیوں پرانا خواب رہا ہے یہودیوں کے بقول 70 عیسوی کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں یہودی زائرین آکر گریہ کرتے تھے اسی لئے اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ صیہونی منصوبہ سازعالم اسلام کی مقدس مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔اسی مقصد کیلئے بیت المقدس اور حرمین کی محافظ سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کیلئے سازشوں کے جال پھیلائے گئے۔بیت المقدس پرتسلط میں صیہونیت کا نمایاں کردارہے ۔
بیت المقدس پر قبضے کا منصوبہ برطانوی سامراج اور صہیونی منصوبہ سازوں نے مشترکہ طور پر تیار کیا ۔پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست نے مکروہ منصوبہ کی تکمیل کی راہ ہموار کردی ۔ دسمبر 1917ء کے دوران برطانیہ نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی کھلی اجازت دیدی ۔ صیہونیت استعماریت کا واحد علاج مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے مسلمانوں کا اتحاد ہی وہ ہتھیار ہے جس سے نہ صرف حرمین شریفین کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ قبلہ اول بیت المقدس کو بھی صیہونی پنجوں سے چھڑایا جا سکتا ہے ۔قبلہ اول کی پکار پر لبیک کہنے میں ہی عالم اسلام کی سرخروئی کا راز مضمر ہے ۔