ٹڈی دل عالمی طاعون اور خوراک کی قلت کا خدشہ
ابھی کورونا سے جان نہیں چھوٹی تھی کہ ٹڈی دل کے حملے وبال جان بن گئےاقوامِ متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ ٹڈی دل ریکارڈ توڑ حملہ کرنیوالے ہیں
یہ قدرت کا اظہار ناراضی ہے یا انسان کی بدترین غفلت کا نتیجہ کہ ایک کے بعد ایک آفت آ رہی ہے۔۔۔ ابھی قوم کی جان کورونا سے نہیں چھوٹی کہ ٹڈی دل نے محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 1ہزار ارب کا نقصان کر دیا۔۔۔یہ ٹدی دل کسی ایک ملک کے نہیں بلکہ سب کے دشمن ہیں ۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت ملک کے 50 سے زائد اضلاع میں ٹڈی دل موجود ہیں بلوچستان میں 31، خیبر پختونخوا میں 8، پنجاب میں 9 اور سندھ میں 2 اضلاع متاثر ہیں۔ حملہ زدہ علاقوں کا سروے اور کنٹرول آپریشن جاری ہے۔۔
ٹڈی دل کے حملے صرف کسانوں کیلئے نہیں حکومتوں کیلئے بھی درد سر بن چکے ہیں،یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بیک وقت ہمیں دو دودشمنوں سے خطرات کا سامنا ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ دونوں دشمن سائز میں بہت چھوٹے ہیں لیکن لاکھوں نہیں کروڑوں زندگیوں کیلئے خطرہ بن چکے ہیں اور ان سے کب جان چھوٹے گی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔لگتا ہے دونوں آفتیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حملہ آور ہوئی ہیں اور یہ طے کر کے چلی ہیں کہ زمین پر کورونا خوف پھیلائے گا اور فضاء میں ٹڈی دل۔۔ دونوں مل کر انسانوں کا جینا حرام کریں گے ۔ کورونا اور ٹڈی دل میں ایک اور بات بھی مشترک ہے کہ دونوں وباء ہیں اور کسی ایک کے نہیں سب کے دشمن ہیں۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے ٹڈیوں کی پیش گوئی کے سینئر افسر کیتھ کریسمین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صحرا ئی ٹڈیوں کے حملوں میں حالیہ اضافہ رواں سال کے اختتام تک پوری طرح سے عالمی طاعون میں بدل سکتا ہے اگر یہ مغربی افریقہ میں پھیل جاتا ہے اور کیڑے وہاں افزائش شروع کردیتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ ٹڈی دل کے حالیہ حملوں کے باعث پاکستان میں بڑے پیمانے پر خوراک کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی ایگریکلچر ایجنسی نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان میں ٹڈی دل 25 سال کا ریکارڈ توڑ حملہ کرنے والے ہیں، بلوچستان اور سندھ شدید متاثر ہوسکتے ہیں اور فصلیں برباد ہوسکتی ہیں۔ ٹڈی دل کے حملے سے کورونا کا بحران شدت اختیار کرسکتا ہے۔تقریباً 4ماہ قبل فروری میں اقوام متحدہ نے مشرقی افریقہ اور پاکستان میں ٹڈی دل کے حملے سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر کوششیں کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مشرقی افریقہ میں ٹڈی دل کے حملوں کے باعث 13ملین سے زائد انسانوں کے فاقوں کا شکار ہو جانے کا شدید خطرہ ہے۔خطرناک ٹڈی دل مغربی ایشیاء اور مشرقی افریقہ میں کئی ملین انسانوں کی بقاء خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے صورتحال کو انتہائی تشویش ناک قرار دے رکھا ہے ۔ صحرائی ٹڈیوں نے ایتھوپیا، صومالیہ، کینیا تنزانیہ اور یوگنڈا کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ پاکستان نے بھی جنوری میں قومی ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ماہرین نے مارچ اور اپریل کے مہینوں کے دوران نئے اور بڑے حملے سے خبردار کیا تھا اور ایسا ہی ہوا ، ٹڈی دل نے حملے کئے اور بڑے پیمانے پر فصلوں کو نقصان پہنچایا ۔ ماہرین فصل کی کاشت کے موسم میں نئے حملے سے خوراک کی قلت پیدا ہونے کا خطرہ بھی ظاہر کر رہے ہیں ۔ مشرقی افریقی ممالک کی ڈیویلپمنٹ سے متعلق بین الاحکومتی تنظیم آئی جی اے ڈی کے مطابق ٹڈیاں تیزی سے افرائش نسل کر رہی ہیں اور ان کے انڈوں سے موسم گرما میں ہی مزید صحرائی ٹڈیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔مشرقی افریقی ممالک میں فصلوں کی کاشت انہی مہینوں کے دوران کی جاتی ہے۔ صحرائی ٹڈیوں نے ان ممالک میں پہلے ہی فصلوں کو تباہ کر رکھا ہے اور مزید تباہی کی صورت میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ٹڈیوں نے شمالی سوڈان کو بھی شدید نقصان پہنچایاہے اس جنگ زدہ ملک میں پہلے ہی 6 ملین سے زائد شہریوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ ماہرین نے ٹڈیوں کے حملے سے صورتحال مزید سنگین ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔صحرائی ٹڈیاں پتے، پھول، پھل اور بیجوں کے علاوہ درخت تک چٹ کر جاتی ہیں۔ ایک کلو میٹر کے رقبے میں 40 ملین ٹڈیاں ہو سکتی ہیںجو ایک دن میں 150 کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتی ہیں۔ ٹڈیوں کا دل روزانہ 35 ہزار انسانوں کی خوراک ختم کر سکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے اس ’’خوفناک مسئلے‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مدد کی اپیل بھی کی لیکن کورونا کے باعث اس آفت کو روکنے کیلئے وہ اقدامات نہ کئے جا سکے جن کی فوری اور اشد ضرورت تھی ۔ براعظم افریقہ کے مشرقی حصے میں بڑی تعداد میں ٹڈی دل کے فصلوں اور درختوں پر حملوں کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انکی وجہ سے پیدا ہونیوالے ’’خوفناک مسئلے‘‘ کو بروقت حل کرنا بظاہر مشکل سے مشکل تر نظر آنے لگا ہے۔ یہ ٹڈیاں ان انسانوں کی خوراک یا تو کھا جائیں گی یا اسے بالکل ناکارہ بنا دیں گی۔اقوام متحدہ کے ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کے رابطہ کار مارک لوکاک کی نیو یارک میں گفتگو کے مطابق اگر عالمی برادری نے اس مسئلے کے حل کی طرف فوری توجہ نہ دی، تو پورے مشرقی افریقی خطے میں اس سال کے دوران عام لوگوں کیلئے خوراک کی دستیابی کی صورتحال تشویشناک صورت اختیار کر جائے گی۔اپنے پیچھے کسی قدرتی آفت کی طرح کے اثرات چھوڑ جانے والے ان ٹڈی دلوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں صومالیہ، ایتھوپیا کینیا اور یوگنڈاشامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق ان ٹڈی دلوں سے نمٹنے کیلئے کم از کم بھی 76 ملین ڈالرز کے برابر مالی وسائل درکار ہیں جبکہ اب تک ان رقوم میں سے اس ادارے کو صرف 20 ملین ڈالرز ہی مل سکے ہیں ماہرین کے مطابق صحراؤں میں پرورش پانے والے ٹڈی دل علاقائی سطح پر موسمی حالات کے باعث اس وقت انتہائی تیز رفتاری سے نمو پا رہے ہیں اور حیاتیاتی حوالے سے ان حشرات کی فی کس اوسط عمر بھی کافی زیادہ ہو چکی ہے۔ مزید یہ کہ کسی بھی خطے میں جب ان ٹڈیوں کو اپنی بقا ء خطرے میں محسوس ہونے لگتی ہے،تو وہ کئی کئی لاکھ کے گروہوں کی صورت میں مل کر کسی نہ کسی نئے علاقے کا رخ کر لیتے ہیں۔ یہ ٹڈی دل اتنے بڑے اور اتنے تیز رفتار ہیں کہ ایک دن میں 150 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔ پھر جب یہ کسی علاقے پر حملہ کرتے ہیں تو اپنی شدید بھوک اور افزائش نسل کے شدید حیاتیاتی رویوں کے نتیجے میں اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کے وسیع و مناظر چھوڑ جاتے ہیں۔
پاکستان میں ٹڈی دل کے حملوں کاجائزہ لیں تو ملک بھر میں ٹڈی دل کے حملوں سے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا ہے اور ملک کو فوڈ سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہے جو پہلے ہی کورونا سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے اورجس سے 1300 سے زائد قیمتی جانیں موت کے منہ میں جاچکی ہیں۔افریقہ میں پیدا ہوانے والی صحرائی ٹڈیاں،جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹڈیوں کی سب سے تباہ کن نسل ہے نے گذشتہ ماہ سے وطن عزیز میں فصلو ں کو نقصان پہنچانا شروع کیا تھا اس کے بعد صورتحال تیزی سے خراب ہوتی گئی کیڑے مار دوا ئوں کا سپرے کرنے کیلئے جہاز اور گاڑیاں متاثرہ علاقوں تک پہنچانا شروع کر دی گئیں۔ انگشت برابر لمبی یہ ٹڈیاں ہے لاکھوں کی تعداد میں ایک ساتھ حملہ آور ہوتی ہیں اورانہوں نے مشرقی پنجاب ، جنوبی سندھ اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں کھیتوں کو تباہ کردیا ہے۔حکومت نے رواں سال کے آغازمیں ٹڈی دل کے تدارک کو نیشنل ایمرجنسی ڈکلیئر کیا تھا، یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں ہوا تھا، اجلاس میں ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان اور وفاقی سطح پر اقدامات کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کی بھی منظوری دی گئی تھی جس کی سربراہی سیکریٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے سپرد کی گئی تھی جبکہ چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) کو فوکل پرسن تعینات کیا گیا تھا۔جنوری میںقومی اسمبلی میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پہلی بار خیبر پختونخوا میں بھی ٹڈی دل داخل ہو گیا ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے خسرو بختیار نے کہا تھاکہ ٹڈی دل کے معاملے پر ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ناگزیر ہے، فصلوں پر سپرے کیلئے محکمہ کے پاس 20 جہاز تھے لیکن اب 3 رہ گئے ہیں۔ تمام وسائل لگانے سے خریف اور کپاس کی فصل کافی حد تک بچائی اور 20 ہزار ایکڑ کے رقبے پر سپرے کرایا گیا، اِس پروگرام میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، ضلعی انتظامیہ اور افواج پاکستان کی معاونت کی گئی۔مزید تباہی سے بچنے کیلئے 7 ارب 30 کروڑ روپے چاہیے ہوں گے، موسمی تبدیلی کی وجہ سے ٹڈی دل کے پاکستان سے انخلاء میں تاخیر ہوئی۔وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدرات اجلاس کو خصوصی بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ اپریل میں ٹڈیاں گھوٹکی اور کشمور میں داخل ہوئیں ، صوبائی حکومت نے اپنے طور پر 43 ہزار935 ایکڑ پر سپرے کیا اور عالمی بینک سے مدد طلب کی یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں 25 اگست سے 20 اکتوبر تک ٹڈی دل کے حملوں کا خطرہ ہے۔
ملک سے ٹڈی دل کا خاتمہ کرنے کیلئے نیشنل لوکسٹ کنٹرول سنٹر (NLCC) قائم کر دیا گیا ہے اور عوامی آگاہی مہم بھی شروع کی جا چکی ہے ۔ حکومت ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے مؤثر اقدامات کر رہی ہے وزارت ِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق ، تمام صوبائی محکمہ زراعت ، پاک فوج اور کمیونٹی کی مشترکہ ٹیمیں ملک کے مختلف اضلاع میں ٹڈی دل کیخلاف بھرپور سروے اور کنٹرول آپریشن کر رہی ہیں ۔ اب تک 234904سکوائر کلو میٹر (تقریباً 234904کروڑ ہیکٹر ) رقبے پر سروے کیا جا چکا ہے جبکہ 4920مربع کلومیٹر(تقریباً 492000ہیکٹر ) رقبے پر آپریشن کیا جا چکا ہے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے اطلاعات و شکایات کے اندراج اور ازالے کیلئے ہاٹ لائن کا آغاز کر دیا ہے۔ہاٹ لائن کے یونیورسل نمبر پر کسان 24 گھنٹے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ملک بھر سے ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔ اس وقت ٹڈیاں ملک کے 154میں سے 61 اضلاع میں حملہ آور ہیں، آپریشن جاری ہے بلوچستان میں 31، خیبر پختونخوا میں 11 ، پنجاب میں12 اور سندھ میں 7 اضلاع متاثر ہیں ۔ ملک بھر میں 1150 ٹیمیں لوکسٹ کنڑول آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ پنجاب میںہنگامی حالت نافذکرکے 1ارب روپے کی خطیر رقم جاری کردی گئی ہے،7 لاکھ 56 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر سپرے کیا جاچکا ہے، تمام ڈویژنز اور اضلاع میں کنٹرول رومز قائم کئے جا چکے ہیں، مؤثر نگرانی کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا سرکاری ہیلی کاپٹر وقف کردیا ہے۔ صوبائی وزیر زراعت ملک نعمان احمد لنگڑیال کے مطابق گذشتہ جولائی سے لیکر اب تک ٹڈی دل کے حملوںسے پنجاب کے متاثرہ 24 اضلاع میں رقبے کی مؤثر نگرانی کی جاچکی ہے اور اینٹی ٹڈی دل سکواڈ کی جانب سے جدید ترین آلات و مشینری کے ذریعے سپرے کیا جاچکا ہے۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ ٹڈی دل کے حملے جس قدر شدید ہیں اور جتنی بڑی تعداد میں وہ ملک کے مختلف اضلاع میں موجود ہیں انکے خاتمے کیلئے وسیع تر بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کیلئے کثیر تعداد میں فوری طور پر فنڈز درکار ہونگے جبکہ پنجاب نے جوفنڈز جاری کئے گئے ہیں وہ فوری ریلیف کیلئے تو شائد کافی ہوں لیکن اس آفت سے مستقل اور دیرپا نمٹنے کیلئے مزید فنڈز اور اجتماعی کاوشوں اور پالیسیوں کی ضرورت ہو گی اور بجٹ میں بھی خصوصی طور پر رقم مختص کرنا ہو گی۔
وبائوں سے نمٹنے کیلئے نیا عالمی ادارہ
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا اور دیگر ممکنہ عالمگیر وبائوں سے نمٹنے اور سرمائے کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ایک نیا ادارہ ڈبلیو ایچ او فائونڈیشن تشکیل دیدیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹینڈروس اڈہانوم گیبریس کے مطابق عالمی ادارے کے اخراجات کا 80 فیصد سے زائد حصہ رکن ممالک اور دیگر افراد کے عطیات سے پورا ہوتا ہے۔ عطیات کے ذریعے فراہم کیا جانیوالا سرمایہ عموماً مخصوص منصوبوں کے ساتھ منسلک ہوتا ہے اور رقوم خرچ کرنے کیلئے ادارے کا صوابدیدی اختیار بہت کم ہوتا ہے۔ بالکل اسی نوعیت کے ادارے کی مستقبل میںپاکستان کو بھی ضرورت ہو گی تاکہ ملک کو وبائوں سے سے محفوظ رکھا جاسکے ۔ ایسی صورت میں جب یہ کہا جا رہا ہو کہ کورونا ایسی وباء ہے جس کے خاتمے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی جاسکتی ہمیں مہینوں نہیں سالوں بلکہ ہو سکتا ہے زندگی بھر اس کیساتھ گزارا کرنا پڑے ، کچھ ایسی ہی صورتحال ٹڈی دل کیساتھ بھی ہے اسے بھی وباء قرار دیا جا چکا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹڈی دل کے باعث مختلف وبائیں جنم لے سکتی ہیں تو اس وباء کے سد باب کیلئے بھی مستقل بنیادوں پر ادارے قائم کرنے کی ضرورت پڑنے والی ہے ۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ امریکی تعلقات ختم کر دئیے ہیں۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیریس نے اپیل کی ہے کہ کورونا کی وبا ء سے لڑ رہے غریب ممالک کو قرضوں میں رعایت دی جانی چاہیے بہت سے ترقی پذیر اور متوسط آمدنی والے ممالک انتہائی غیر محفوظ ہیں اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں یا پھر عالمی معاشی بحران کی وجہ سے دب جائیں گے۔ ان تمام حالات میں ٹڈی دل کیا قہر ڈھائیں گے کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔
ٹڈی دل 30 سال بعد دوبارہ متحرک، کئی ممالک نشانہ بنے
ٹڈی دل اچانک نمودار نہیں ہوئے نہ ہی یہ اچانک پھیلنے والی کوئی وباء ہے انکی تاریخ کافی پرانی ہے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انکے بھیانک حملوں میں 3دہائیوں کے بعد تیزی آئی ہے ۔ زراعت کا ہمارے ملک کی جی ڈی پی میں20 فی صد سے زیادہ حصہ ہے اور تقریباً 50 فیصد سے زیادہ مزدور طبقہ اس شعبے سے منسلک ہے۔ اس شعبے کی اچھی کارکردگی ہماری فوڈ سیکیورٹی اور خوشحالی کی ضامن ہے لیکن تحقیق و توجہ کی کمی، حکومتوں کی اولین ترجیحات میں نہ ہونے اور کسانوں کے استحصال نے ہمیں بدحالی ، مہنگائی ، قرضوں اور ناجانے کن کن مسائل میں جکڑا ہوا ہے ۔ رواں سال کے ابتداء میں ہی وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان لنگڑیال نے کہا تھا کہ ٹڈی دل 30 سال بعد دوبار ہ متحرک ہو گئی ہے جس سے پاکستان سمیت دنیا کے 52 ممالک متاثر ہیں۔ٹڈی دل نے سندھ اور بلوچستان کے بعد پنجاب کے مختلف شہروں میں فصلوں پر حملے شروع کئے جس سے سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی کاشت فصلیں متاثر ہو گئیں کسانوں کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے حملے سے گندم،چنا ، سرسوں، آلو ، مرچ ، کپاس اور آم کی فصل اور باغات کو نقصان پہنچا، محنت سے کاشت کی گئی فصلوں کے نقصان پر کسان شدید پریشان ہیں اور انہیں کھیتوں سے بھگانے کیلئے نت نئے طریقے اپنانے پو مجبور ہے ، کوئی دوائی یا ڈیزل کا سپرے کروا رہا ہے ،کہیں ڈھول بجائے جا رہے ہیں تو کہیں بندوقوں سے فائر کئے جا رہے ہیں ۔ غریب کسان اپنی فصل بچانے کیلئے دھوپ میں کھیتوں میں بھاگتے پھرتے ہیں محکمہ زراعت کی جانب سے بھی کسانوں کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جا رہا ہے ۔
وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کورونا سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا اور اس سے ملک قحط کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ٹڈی دل کی وجہ سے سندھ کی فصلیں تباہ ہورہی ہیں، کورونا کی طرح ٹڈی دل کو بھی ہلکا لیا جا رہا ہے، سندھ سمیت پورے ملک کی زراعت کو ٹڈی دل سے شدید خطرات لاحق ہیںاس کا خاتمہ فضائی سپرے سے ہی ممکن ہے۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ پہلے ہی وزیراعظم کو اس بارے میں خط لکھ چکے تھے۔ملک کے 61 اضلاع میں ٹڈی دل نے حملے کرکے فصلوں کو شدید نصان پہنچایا ہے جبکہ صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ناکافی اقدامات کے سبب کسان شدید گرمی کے باوجود ہاتھوں میں تھال اور پلاسٹک کی بوتلیں لیے اپنی مدد آپ کے تحت ٹڈیاں بھگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔پنجاب اور سندھ میں ٹڈیاں بے قابو ہوگئی ہیں، دنیا پور، کوٹ مٹھن، کہروڑ پکا اور میلسی میں گندم اور کپاس کی فصلیں شدید متاثر ہوئیں۔ترجمان نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ٹڈیوں کے خاتمے کیلئے مختلف اضلاع کے 3 ہزار 600 ہیکٹر رقبے پر سپرے کیا گیا ہے۔پنجاب کے مختلف شہروں میں ٹڈیوں کے حملے سے کسان سخت پریشان ہیں، مظفر گڑھ میں ٹڈیوں کے بار بار حملے کے بعد کسانوں کو بھاری مالی نقصان کاسامناہے جبکہ کاشت کار اپنی نئی فصل کوبچانے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔رحیم یارخان کے متاثرہ علاقوں میں سپرے جاری ہے لیکن کسانوں کا شکوہ ہے کہ اگر ٹڈیوں کو تلف کرنے کے اقدامات پہلے کرلیے جاتے تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا۔بھکر بھی ٹڈیوں کے حملے سے شدید متاثر ہو ا ہے۔پنجاب کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں بھی ٹڈی دل کے حملوں نے کسانوں کو پریشان کررکھا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ افزائش نسل کے بعد ٹڈیوں کی ہزاروں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔'ملک بھر میں 4لاکھ 92 ہزار ہیکٹر رقبہ پر سپرے کیا جاچکا ہے۔
شہروں میں کورونا
دیہات میں ٹڈی دل
ایک طرف ملک کے شہری علاقے کورونا کا مقابلہ کر رہے ہیں تو دیہات میں ٹڈی دل کے حملے جاری ہیںفصلوںکو نا قابل تلافی مالی نقصان ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر فخر امام نے دنیا ٹی وی کے پروگرام ’’دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ٹڈی دل سے زراعت پر حملوں اور نقصان کے حوالے سے صوبے سروے کر رہے ہیں دیہات میں لوگ اجتماعی طریقے سے مقابلہ کر رہے ہیں، 90 ء کی دہائی میںیہ واپس چلی گئی تھی، اس بار ادھر ہی رک گئی۔ ٹڈی دل نے صحرائی علاقوں میں بچے دیدیئے ہیں، ایک ٹڈی دل سے 1200 بچے جنم لیتے ہیں۔ 5 سے 6 ادارے اس وقت اس پر کام کر رہے ہیں8 سے 9 ہزار فوجی جوان اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کے مطابق 3 سے 4 ہفتوں میں ایران، مسقط اور افریقہ سے حملے کا خطرہ ہے، پاک فوج کے 5ہیلی کاپٹر مختص کر دیئے گئے ہیں، ایک جہاز ترکی سے کرائے پر منگوایا ہے، جلد 10 جہاز سپرے کریں گے، دوا بھی وافر مقدار میں منگوا لی ہے، کچھ دوا صوبوں کو دیدی ہے، کٹائی کے علاقے میں چین سے ملنے والی امداد استعمال کی جاچکی ہے، اس حوالے سے صوبوں نے اچھا کام کیا خصوصاً پنجاب تھریٹ کم کرنے میں کامیاب رہا ۔
پاکستان اور بھارت نشانے پر
پاکستان اور بھارت 30 سال کے ریکارڈ بدترین ٹڈی دل کے حملے کے نشانے پر ہیں۔ کسان بلبلا اٹھے ہیں اگر یہ حملے اسی طرح ہوتے رہے اور فصلیں یونہی برباد ہوتی رہیں تو قحط سالی بھی ہو سکتی ہے۔ کسان کہہ رہے ہیں کہ ایران، پنجاب، سندھ ، بلوچستان کے اطراف سے ٹڈی دل حملے کر رہے ہیں اور پھل کے تیار درخت کو بالکل گنجا کر دیتے ہیں۔ ٹڈیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ کپاس کی فصل کو بھی چٹ کرنے پر تلی ہیں۔ ٹڈی دل کورونا سے100 گنا زیادہ خطرناک ہیںکیونکہ زرعی اجناس کے بغیر ہم کسی وبا ء کا سامنا نہیں کر سکتے۔ اجناس کی موجودگی میں ہم گھروں میں بیٹھ کر گندم، چاول اورسبزیاں کھا کر گزارا کر رہے تھے مگر ایف او کی رپورٹ کے مطابق ایسی صورتحال میں جب ٹڈیاں فصلیں کھا جائیں گی تو پھر قحط سالی شروع ہوجائے گی۔ بھارت کے ایک علاقے سے ویڈیو سامنے آئی جہاں ٹڈی دل کو بھگانے کیلئے رکشے پر سپیکر کی مدد سے شور پیدا کرکے ٹڈیوں کو بھگایا جا رہاہے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی جشن کا سماں ہے مگر یہ ایک بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ بھارت کے مغربی اور وسطی علاقوں میں ٹڈی دل نے فصلیں تباہ کرنا شروع کردی ہیں ڈرون طیاروں، ٹریکٹروں اور گاڑیوں کے ذریعے کیڑے مار ادویات سپرے کی جارہی ہیں۔ ٹڈی دل کے ہاتھوں اب تک ایک لاکھ 25ہزار ایکڑ اراضی پر مشتمل فصلیں تباہ ہوچکی ہیں اور یہ بھارت میں 1993 ء کے بعد ٹڈیوں کا شدید ترین حملہ ہے۔ ماہرین کے مطابق راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ہر سکوائر کلومیٹر کے رقبے پر ٹڈیوں کے 8سے 10جھنڈ حملہ کر رہے ہیں۔دونوں ریاستوں میں ٹڈی دل نے فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا، جبکہ کورونا کے پیش نظر لاک ڈاؤن کی وجہ سے پہلے سے پریشان کسان شدید مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل بھی راجستھان میں ٹڈی دل کے حملے ہوئے لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اس کا دائرہ بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرف بھی بڑھا ہو۔ دوسری جانب بھارتی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان سے بھارت میں داخل ہونے والے ٹڈیوں کے دل ہجوم فصلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ٹڈی دل ایک ماہ سے پاکستانی علاقوں سے راجستھان میں ہر دوسرے تیسرے روز داخل ہورہے ہیں حال ہی میں جے پور میں بھی ٹڈیوں کے 4جھنڈ داخل ہوئے ہیں۔ٹڈیوں نے راجستھان اور مدھیہ پردیش کی فصل کے بڑے حصے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس سے پیداوار میں واضح کمی کا امکان ہے۔ فصلوں کی تباہی کا سبب بننے والا ٹڈی دَل اب جنوبی کینرا تک پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سے کورونا اور لاک ڈاؤن سے پریشان حال کسانوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔
دوسری جانب بھارتی اینکر ارناب گوسوامی کو اس بات پر کہ ’’پاکستان ٹڈیوں کو دہشتگرد بنا کر بھارت بھیج رہا ہے‘‘ سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا گیا ۔ارناب گوسوامی پاکستان دشمنی میں وہ کس حد تک جاسکتے ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔ پاکستان سے تو انہیں کیا جواب آتاخود بھارت کے اندر سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ایک بھارتی شہری بسوا لہون نے لکھا’’یہ شخص تو شرمندگی ہے۔۔ آسام میں سیلاب آیا ہوا ہے لیکن یہ شخص پرائم وقت میں ٹڈی پر پروگرام کر رہا ہے جہاں وہ پاکستان سے اسے جوڑ سکے۔ اسے شرم آنی چاہیے۔‘‘