پاکستان کا نیا نقشہ اور مسئلہ کشمیر
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے عالمی افق پر چھکا لگاتے ہوئے پاکستان کا نیا نقشہ جاری کر دیا ہے، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور دوسری عسکری قیادت کی مکمل تائید و حمایت اور تعاون کے بعد جاری ہونے والے نقشے میں مقبوضہ کشمیر اور سیاچن سمیت چند وہ حصے بھی شامل ہیں جو تقسیم ہند کے وقت بھارت نے زبردستی ہتھیا لئے تھے۔
پاک فوج پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ بھارت کو سرپرائز دے گی۔ ایک بڑا سرپرائز 27 فروری 2019ء کو بھارتی طیارہ گرانے اور اس کا پائلٹ گرفتار کرنے کی صورت میں بھارت کو مل گیا تھا، نیا نقشہ دوسرا بڑا سرپرائز ہے۔ نقشے کے اجراء تک بھارتی قیادت پاکستان کی حکمت عملی سے ناواقف تھی، یہ اس کے لئے بہت بڑا سرپرائز ہے۔ نئے نقشے کا درد دہلی سرکارنے پوری شدت سے محسوس کیا ہے۔ بھارتی دفتر خارجہ سمیت کئی اہم سیاسی رہنمائوں نے پاکستان کے اس اقدام پر اپنا تبصرہ بھی جاری کیا ہے اور ہماری اطلاعات کے مطابق راء جیسے خفیہ ادارے متحرک ہو گئے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ نقشے کو جلد ہی اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو بھی پیش کر دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کے فیصلے کی خوبصورتی یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بھی اس مسئلے پر آن بورڈ ہیں۔ بلاول بھٹو، شہباز شریف اور فضل الرحمن سمیت سب کی حمایت حاصل ہے۔ ملک کے 20 کروڑ عوام ایک بار پھر پوری طرح متحد ہیں۔ سیاسی نوک جھونک اپنی جگہ لیکن جب ملک اور قوم کی سلامتی کے معاملات درپیش ہوں تو ہم سب ایک ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ایسی صورتحال سے گزر رہا ہے جس کا اختتام آزادی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا مایوس کبھی نہیں ہونا چاہیے، مودی گزشتہ سال 5 اگست کو بہت بڑی غلطی کر بیٹھا ہے، بھارت کو بار بار کہا آپ ایک قدم اٹھائیں ہم 2 قدم بڑھائیں گے، بی جے پی حکومت آنے پر مودی کا کشمیریوں پر ظلم بڑھ گیا۔ عمران خان نے کہا ــ بھارت غلط فہمی میں تھا کہ وہ8 لاکھ فوج بھیج کر کشمیریوں کو دبالے گا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی عمارت کی سب سے اہم بات کیا ہے؟ اس عمارت کی چھت نامکمل ہے، خوبصورت ڈیزائن کے باوجود نامکمل رکھتے ہوئے قوموں کو یہ پیغام دیا گیا ہے جب تک دنیا بھر میں امن قائم نہیں ہوتا، تمام اقوام کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے، غلام قوموں کے لئے آزادی کے چراغ روشن نہیں ہو جاتے، اس وقت تک اقوام متحدہ کی عمارت کو اسی طرح نامکمل رکھا جائے گا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے منگل کو پاکستان کا نیا نقشہ جاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو پوری طاقت سے یاد کرایا کہ مسئلہ کشمیر 1948ء سے ان کے ایجنڈے پر ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کو باور کرایا کہ مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد تک اقوام متحدہ کا قیام امن کا مشن بھی نامکمل رہے گا! لہٰذا یہ فرض ادا کیجئے۔ بھارت نے عالمی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے 5 اگست 2019ء کو ایک غیر قانونی اقدا م کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک میں شامل کر تے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ بھارتی پارلیمنٹ کا ہے لہٰذا اقوام عالم اسے مان جائیں۔
لیکن بھارتی آئین کے مطابق کشمیر اسمبلی کی تائید و حمایت کے بغیر معمولی سے معمولی فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا، کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ لازمی شرط پوری نہیں کی گئی، مزید برآں بھارتی قائدین نے کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہروں کے جو خواب دکھائے تھے ، وہ سال بھر سے جاری لاک ڈائون میں چکنا چور ہو گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے یہ ثابت ہو گیا کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں جس سے پاکستان کا کیس مضبوط تر ہو گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سال بھر سے جاری لاک ڈائون ہی درحقیقت استصواب رائے کی ایک شکل ہے جس میں کشمیریوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔منگل کے روز وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے نیا نقشہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جانب ایک اور اہم قدم ہے ان کی اس بات میں کافی وزن ہے کیونکہ پاکستان نے اپنا دیرینہ مؤقف دُہرایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کیا جائے گا، نئے نقشے سے بھارتی اقدام کی تردید ہو گئی ہے اور اس کا جاری کردہ نقشہ اب اقوام عالم کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔ نقشے کے اجراء سے مقبوضہ کشمیر ایک بار پھر عالمی ایجنڈے پر پوری شدت سے ابھرا ہے۔ وزیر اعظم، پاک فوج اور اپوزیشن لیڈروں نے نئے نقشے کے اجراء سے سارا وزن استصواب رائے کے حق میں ڈال دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں 85 لاکھ مسلمانوں کی قید کو آج ایک سال سے بھی اوپر ہو جائے گا۔ دنیا پریشان ہے کہ انٹرنیٹ بند ہے، یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ لاکھوں انسان ایک برس سے ہندوستانی فوج کی قید میں ہیں، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35اے کی تنسیخ کو ایک برس بیت گیا، لیکن کشمیری آج بھی کرفیو جیسی صورتحال بھگت رہے ہیں۔ کہاں ہیں نریندر مودی اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ، بھارتی لوک سبھا میں مقبوضہ کشمیر میں سہانے سپنے دکھانے والے یہ رہنما کہاں ہیں؟ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو توکورونا نے قابو کر لیا ہے، وہ ان دنوں ایک مہنگے نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ہسپتال کم اور فائیو سٹار ہوٹل زیادہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی دہلی میں ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنا سکی جہاں مقبوضہ کشمیر میں ترقی کا خواب دکھانے والے ہندوتوا کے رہنما اپنا علاج کرا سکیں، جو لوگ اپنے لئے ہسپتال نہیں بنا سکے وہ کشمیریوں کے لئے کیا بنائیں گے، اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں۔ لیکن امن کی باتیں کرنے والے، مقبوضہ کشمیر کی سہانی دھرتی کو فوجی بوٹوں تلے کچلنے والے یہ رہنما اب کیوں نہیں بولتے اور بتاتے کہ ان کے پاس مقبوضہ کشمیر کے لئے کیا پروگرام ہے؟
مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق استصواب رائے کا حق کب ملے گا، بتاتے کیوں نہیں؟ ہندوتوا کو ماننے اور مسلمانوں پر مسلط کرنے والے ہندوستانی رہنمائوں نے ایک سال کے اندر اندر کشمیریوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کیا ہے۔ یہ اہم کارڈ ایک ایسے وقت میں کھیلا گیا ہے جب بھارت کے تنازعات نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان کے ساتھ بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے ڈھاکہ میں بھارتی سفیر کو ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ بھارتی سفیر ریوا گنگولی داس مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد حسینہ واجد سے ملاقات کے خواہش مند تھے لیکن چار مہینوں کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ یوں وہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم سے الوداعی ملاقات بھی نہ کر سکے جبکہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان ان سے پہلے ہی فون پر بات کر چکے ہیں جسے بھارتی اخبارات میں بھارت کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا رہا ہے۔ بھوٹان نے بھارت کا پانی بند کر دیا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ دریا میں کچرا آ گیا ہے جسے صاف کیا جا رہا ہے۔ نیپال نے تو بھارت پر اپنے تین علاقے ہتھیانے کا الزام لگاتے ہوئے نیا نقشہ جاری کر دیا ہے۔ نیپالی حکومت نے سات بھارتی چینلز پر پابندی لگاتے ہوئے صرف دور درشن کو اپنے ملک میں دکھانے کی اجازت دی ہے۔ میڈیا کا ناطقہ بند کرنا نیپالی حکومت نے بھارت سے ہی سیکھا، اب نیپال میں دور درشن کے سوا تمام چینلز کی نشریات بند ہیں۔