فضائل مکہ
’’بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ مکہ میں ہے‘‘حدیث پاک میں ہے: ’’کعبہ معظمہ دیکھنا عبادت، قرآنِ عظیم کو دیکھنا عبادت اور عالم کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرآن کریم کے پارہ 4 سورہ آل عمران کی آیت 96 میں فرمانِ عالیشان ہے، ترجمہ کنزالایمان: ’’بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ مکے میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کا رہنما‘‘۔
مفتی احمدیار خان ؒ اس آیت کریمہ کے تحت تحریر کرتے ہیں: اے مسلمانو! یا اے انسانو! یقین سے جان لو کہ ساری روئے زمین پر سب سے پہلے اور سب سے افضل گھر جو لوگوں کے دینی اور دُنیوی فائدوں کیلئے پیدا کیا گیا اور بنایا گیا وہی ہے جوکہ مکہ شریف میں واقع ہے، نہ بیت المقدس جو درجے میں بھی کعبے کے بعد ہے اور فضیلت میں بھی۔ حدیث پاک میں ہے: ’’کعبہ معظمہ دیکھنا عبادت، قرآنِ عظیم کو دیکھنا عبادت ہے اور عالم کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے‘‘۔ (فردوس الاخبار، حدیث 2791، ج1 ص376)۔
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب کعبہ شریف میں داخل ہوئے تو اُس کے گوشوں (کونوں) میں دُعا مانگی اور نماز نہ پڑھی حتیٰ کہ وہاں سے تشریف لے آئے جب نکلے تو دو رکعتیں کعبے کے سامنے پڑھیں اور فرمایا: ’’یہ ہے قبلہ۔‘‘ (بخاری، ج1، ص 156، حدیث 398)
مفتی احمدیار خان ؒ ’’یہ ہے قبلہ‘‘ کی وضاحت میں لکھتے ہیں: یعنی تاقیامت کعبہ تمام مسلمانوں کا قبلہ ہو چکا، کبھی منسوخ نہ ہو گا، اس میں لطیف (باریک) اشارہ اس طرف بھی ہو رہا ہے کہ کعبے کا ہر حصہ قبلہ ہے، سارا کعبہ نمازی کے سامنے ہونا ضروری نہیں۔ (مراۃ المناجیح، ج1، ص429)
بہار شریعت جلداول صفحہ 487 پر مسئلہ نمبر 50 ہے: کعبہ معظمہ کے اندر نماز پڑھی، تو جس رُخ چاہے پڑھے، کعبے کی چھت پر بھی نماز ہو جائے گی مگر اس کی چھت پر چڑھنا ممنوع ہے۔ (غنیہ ص616، وغیرہا)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ 3 مسجدوں کے سوا اور کسی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں (یعنی سفر نہ کیا جائے)۔ مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ‘‘۔ (بخاری، ج1، ص401، حدیث 1189)
قرآن پاک میں رب عزوجل فرماتا ہے، ترجمہ کنزالایمان: ’’تم فرما دو، زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا‘‘۔ (پ7، سورۃ الانعام:11)
’’مرقاۃ‘‘ نے اسی جگہ اور ’’شامی‘‘ نے (باب) ’’زیارتِ قبور‘‘ میں فرمایا کہ ’’چونکہ ان3 مساجد کے سوا تمام مسجدیں ثواب میں برابر ہیں اس لیے اور مسجدوں کی طرف (زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے) سفر ممنوع ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو خانہ کعبہ کے قصد سے آیا اور اونٹ پر سوار ہوا تو اُونٹ جو قدم اٹھاتا اور رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اسکے بدلے اس کیلئے نیکی لکھتا ہے اور خطا مٹاتا ہے اور درجہ بلند فرماتا ہے ، یہاں تک کہ جب کعبہ معظمہ کے پاس پہنچا اور طواف کیا اور صفاو مروہ کے درمیان سعی کی، پھر سر منڈایا یا بال کتروائے تو گناہوں سے ایسا نکل گیا جیسے اُس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا‘‘۔ (شعب الایمان، ج3، ص 478، حدیث 4115)
حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے اس دُنیا میں تشریف لائے تو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں وحشت و تنہائی کی فریاد کی، پس اللہ عزوجل نے آپ ؑکو کعبے کی تعمیر اور اسکے طواف کا حکم دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک یہی کعبہ برقرار رہا۔ (تفسیر کبیر، ج3، ص296)