پیکر شجاعت اور مراد رسول ؐ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ ؓ کا یوم شہادت پوری دنیا میں اہل ایمان عقیدت و احترام سے مناتے ہیں
آپؓ کے اسلام لانے کا دور بڑا پر آشوب تھا ، مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے تھے’’اے عمرؓ ! جس راستے پر چلتے ہو، شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے‘‘: فرمان نبی ﷺ آپؓ نے ملک کو صوبوں میں تقسیم کرنے کے بعد مثالی نظام حکومت قائم کیا
امیر المومنین، امام عادل، مراد رسول ﷺ دعائے پیغمبر حضرت عمرؓ ابن خطاب قریش کے مشہور خانوادہ بنو عدی کی آٹھویں پشت سے ہیں یوں آپؓ کا سلسلہ نویں پشت پرسرکار دوعالمﷺ سے جا ملتا ہے ۔آپ ؓ کا اسم گرامی عمرؓ کنیت ابوحفص (آپؓ کی ایک بیٹی کانام حفصہ ؓ تھا۔ حضرت عمرؓ کی کنیت ابوحفص تھی ،چونکہ اللہ نے حضرت عمرؓ کو نیک و بد ،خیر و شر ،اور حق و باطل میں امتیاز کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اس لئے حضور اکرم ﷺ نے آپؓ کو فاروق اعظمؓ کے عظیم لقب سے سرفراز فرمایا۔ آپؓ کے والد کا نام خطاب اور والدہ کانام ختمہ ہے۔ آپؓ کے سن ولادت کے بارے میں اکثر نے واقعہ فیل کے13 سال بعد لکھا جبکہ واقعہ فیل جس برس ہوا آقاکریمﷺ کی ولادت باسعادت اسی سال ہوئی، اس حساب سے حضور اکرم ﷺ حضرت عمرؓ سے 13 سال بڑے تھے اور حضرت عمرؓ نے حضور پاکﷺ کے وصال کے 13 برس بعد انتقال فرمایا ،دونوں نے 63 برس کی عمر پائی ۔
اسلام کی تبلیغ کے وقت محسن انسانیت ﷺ کی غیب داں نگاہیں باربار حضرت عمرؓ کے قلب میں چھپی ہوئی بے پناہ صلاحیتوں کا مشاہدہ فرما رہی تھیں۔ آخر پیغمبر اسلام ﷺکی یہ خواہش الفاظ کے سانچے میں ڈھلی، شبنم سے پاکیزہ تر ہونٹوں میں جنبش ہوئی اور حضرت عمرؓ کی تقدیر بدل گئی۔ میرے آقا ،اپنے پروردگار حقیقی سے طلب فرمارہے ہیں ۔اے اللہ !اسلام کو عمرؓ سے عزت عطا فرما۔محبوب کونین کی زبان وحی ترجمان سے نکلی ہوئی دعا نے شرف قبولیت کا تاج پہنا۔ آپؓ کے قبول اسلام کا واقعہ متعدد روایات میں ہے ۔ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی بہن کے گھر سے دار ارقم آئے، دروازہ پر دستک دی، ایک صحابیؓ نے جھانکا ،اورحضرت عمرؓ کو تلوار بلند کئے کھڑا پایا۔ فوراََ حضور پاکﷺ کو اطلاع دی۔ حضرت امیر حمزہ ؓ (حضور کے چچا جان) نے کہا، دروازہ کھول دو اگر حضرت عمرؓ نیک ارادہ سے آئے تو ہم خوش آمدید کہیں گے اور اگر برے ارادے سے آئے ہیں تو انہی کی تلوار سے کام تمام کر دیں گے۔
دروازہ کھول دیا گیا ،آپؓ اندر داخل ہو گئے۔ حضورپاک ﷺ نے ان کے اندر داخل ہوتے ہی یہ دعا فرمائی کہ ’’ یا اللہ!یہ عمرؓ ابن خطاب ہے۔ اسلام کی عمرؓ کے ذریعے مدد و عزت فرما‘‘ ۔آپؓ کی دعا کا یہ اثر تھا کہ حضرت عمرؓ فوراََ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ آپؓ کے اسلام قبول کرنے پر سب کو بہت خوشی ہوئی او رصحابہ کرامؓ نے تو اس زور سے نعرہ تکبیر و رسالت ﷺبلند کیا کہ مکہ کی وادی گونج اٹھی ۔آپؓ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی خوشی کی حد نہ رہی اور کفار کی کمر ٹوٹ گئی، کفار مکہ میں کہرام برپا ہو گیا ۔
یہ دور بڑا پر آشوب تھا ، مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم کئے، مسلمان ان کے مظالم سے تنگ آکر حضور پاک ﷺ کی اجازت سے ہجرت کر گئے۔ آپؓ نے حبشہ ہجرت نہ کی بلکہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور اپنے آقا سرکار ﷺکی حفاظت فرمائی پھر جب اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے انصار مدینہ کے قلوب دین متین کی خدمت کے لئے کھول دئیے تو انہوں نے حضور پاک ﷺ کو مدینہ منورہ کی دعوت دی تو آپؓ نے تمام صحابہ کرامؓ کو ہجرت کی اجازت عطا فرمائی۔ فرمان الہٰی کا انتظار کرنے لگے۔ حضرت عمرؓ نے بھی مدینہ کی طرف رخت سفر باندھا۔ آپؓ کی ہجرت کی شان منفرد اور نرالی تھی، دوسرے لوگ مشرکین مکہ خوف سے چھپ کر نکلتے تھے ،آپؓ سب سے مل کر طواف کعبہ کر کے مدینہ روانہ ہوئے، مدینہ شریف جاکر آپؓ نے تمام صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر میں حصہ لیا ، جب مسجد نبوی ﷺکی تعمیر مکمل ہو گئی تو آپؓ نے مجلس مشاورت میں یہ تجویز دی کہ نماز کے وقت کوئی شخص بلند آواز سے اذان دے۔
نظام مواخات میں ہر ایک مہاجر صحابیؓ کے لئے ایک انصار کو بھائی قرار دیا گیا تو آپؓ کو حضرت عتبان بن مالک جو قبیلہ بنی سالم کے سردار تھے ،کا بھائی بنایا گیا ۔حضرت عمرؓ کے واقعات دراصل سیرت مصطفوی ﷺکے اجزاء ہیں کیونکہ حضور پاک ﷺکے وصال تک کم و بیش ہر اہم واقعہ میں آپؓ شریک رہے ۔غزوہ بدر،غزوہ احد اور تبوک میں بھی آپؓ کی خدمات گراں قدر ہیں۔سرکار دوعالمﷺ کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابو بکرؓ جانشین رسول ﷺ بنے اور سوا دس سال وہ اس عظیم منصب پرفائز رہے ۔ حضرت عمرؓ ان تمام بڑے بڑے کارناموں اور فیصلوں میں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھی رہے ۔ آپؓ نے بحیثیت قانون دان (فقیہ)بطور وزیر سلطنت ،بطور مشیر اعلیٰ،دربار خلافت اور بطور قاضی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں کام کیا ۔
آپؓ کے بہت سے اوصاف ہیں ۔نبی پاک ﷺ نے فرمایا ’’اے عمر،ؓ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جس راستے پر چلتے ہو شیطان وہ راستہ چھوڑ جاتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا، اللہ نے عمرؓ کی زبان اور دل پر حق کو جاری کر دیا ۔
حضور پاکﷺنے فرمایا، تم سے پہلے جو امتیں گزریں ان میں محدث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کو بارگاہ نبوت سے بے شمار نعمتیں عطا ہوئیں اور ان کا دامن نور علم و عرفان سے پر کر دیا گیا ان کے پاکیزہ دل میں عالم قدس سے تجلیات کی بارش ہوتی تھی ۔اللہ کے پاک رسول ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت عمرؓ کو جنت کی بشارت سے نوازا ۔آپؓ کا شمار عشرہ مبشرہ کے دس اصحاب میں ہوتا ہے۔آپؓ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے ایک ایسی ہستی جو صدیوں بعد قیامت تک نہیں آسکتی ایسی شخصیت جس کے خلق کی کرنیں گھٹا ٹوپ اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کر دیا کرتی ہیں،ایسی عظیم ہستی کی زندگی سادگی کا مجسمہ تھی ہر لحاظ اور ہر پہلو سے سادہ رہائش، خوراک، لباس،عادات و اطوار، سب سادہ تھے، گویا آپؓ سادگی کا ایک مرقع بھی تھے ۔تصویر کا ایک رخ تو یہ تھا صبح و شام قیصر و کسریٰ کے درباروں سے سفیر چلے آتے تھے نصف دنیا پر ان کی بھیجی ہوئی افواج حملہ کر رہی تھیں بڑے بڑے فاتح آپؓ کے زیر کمان سرگرم عمل تھے اور دوسرارخ یہ تھا کہ بدن پر کئی کئی پیوند لگا کر تہ پہنا ہے سر پر معمولی عمامہ اور ہاتھ میں کوڑا تھامے جنگل میں بیت المال کے گم شدہ اونٹ کی تلاش میں سرگرداں ہیں کبھی کا ندھے پر مشک لٹکائے تیزی سے بیوہ کے گھر کی طرف جارہے ہیں ۔
آپؓ کی شخصیت میں غرور و تکبر کا نام و نشان تک نہ تھا وہ شخص بھلا کس طرح متکبر ہو سکتا ہے جس کی قباء پر ایک نہیں ۱۹ پیوند لگے ہوں، آپؓ بہت بڑے شجاع تھے، جب اسلام لائے تو قریش سے لڑے یہاں تک کہ کعبہ میں نماز پڑھی آپؓ کی شجاعت نے یہ گوارہ نہ کیا کہ چھپ کر بیٹھا جائے آپؓ نے اعلانیہ اسلام ظاہر کیا اور کفار سے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر آپؓ کا یہ وصف بہت بڑا تھا کہ آپؓ نے اپنے دامن شجاعت میں کمزور مسلمانوں کو پناہ دی اس طرح دبستان عشق مدینہ کے ہو نہار اور دلفگار تلامذہ میں حضرت عمرؓ کو بہت بلند مقام حاصل تھا وہ اس نورانی مکتب عشق کے قابل فخر ارادت مند تھے۔ آپؓ کی عشق رسول ﷺ کے بے شمار واقعات ہیں ،آپؓ کو اتباع رسول ﷺ کا اس قدر خیال تھا کہ جس منافق نے حضور پاک ﷺ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا ، آپؓاس کو معاف نہیں کرتے تھے ۔
حضرت عمر فاروق ؓنے 23 جمادی الثانی 13 ھ کو منصب خلافت سنبھالا اس وقت آپؓ کی عمر تقریباََ ۵۲ برس تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے انتقال سے قبل ان کا نام خلافت کے لئے تجویز کر دیا تھا اور بعض صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا تو انہوں نے اس تجویز کو بے حد پسند کیا البتہ بعض صحابہ کرام ؓ نے حضرت عمرؓ کی سخت طبیعت کی طرف اشارہ کیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا کہ ’’جب خلافت کا بوجھ آئے گا تو وہ خود نرم ہو جائیں گے‘‘ ۔
حضرت عمرؓ نے1309501مربع میل علاقہ اپنے دور خلافت میں فتح کیا، مدت خلافت چونکہ تقریبا ساڑھے دس برس تھی اس مدت پر رقبہ کو جب تقسیم کیا گیا تو حیرت کی انتہاء نہ رہی، ایک روز کا مفتوحہ علاقہ تقریباََ351 مربع میل نکلا۔3600 علاقے فتح ہوئے، 900 جامع مسجدیں اور4000عام مساجد تعمیر کی گئیں ،آپؓ نے ملک کو8 صوبوں میں تقسیم کیا بعض مورخین نے 7صوبے بھی لکھے ہیں ،آپؓ کی سلطنت کی وسعتوں کا اندازہ اس طور بھی کیا جا سکتا ہے کہ صرف مفتوحہ علاقے سینکڑوں اضلاع پر مشتمل تھے ،صرف مصر میں43 اور فارس میں ۴۵ اضلاع تھے ۔
مسجد نبویﷺ میں ۲۳ ھجری ۲۶ ذوالحجہ بدھ کے روز حسب معمول نماز ادا کرنے کے لئے روانہ ہوئے، نماز کی نیت کی اچانک مغیرہ بن شعبہ کا ایرانی غلام فیروز نامی جسے ابو لولو کہا جاتا تھا دودھاری خنجر سے آپؓ پر حملہ آو رہوا حالت نماز میں یہ حملہ اتنی سرعت سے ہوا کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا اس نے یکے بعد دیگرے وار کئے جن میں سے ایک وار ناف کے نیچے لگا آپؓ گر پڑے جب نمازیوں کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا تو وہ آدمی ابو لولو کی طرف بڑھے اس نے نہایت تیزی سے خنجر چلانا شروع کر دیا جس سے ۱۳ آدمی زخمی ہو گئے ایک آدمی نے ایک ترکیب سے ابو لولو پر قابو پایا تیزی سے خنجر لہراتے ہوئے کمبل ڈالا وہ بد بخت جب بے بس ہو گیا اور سمجھ گیا کہ وہ اب نہیں بچ سکتا تو اس نے اسی خنجر سے خودکشی کر لی، حضرت عمرؓ کے مقدس لہو سے مسجد نبوی کا فرش سرخ ہو چکا تھا لوگوں نے مرہم پٹی کا ارادہ کیا آپؓ نے روک دیا حضرت عبدالرحمن بن عقف کو بلایا اور فرمایا کہ آگے بڑھو اور نماز پڑھائو آپؓ نے اشارہ سے باقی نماز مکمل فرمائی لوگ گھر لے گئے۔ آپؓ یکم محرم الحرام ۲۴ ھجری کو اپنے خالق لم یزل سے جا ملے ۔