حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویریؒ تلاش حق کے لئے آپؒ کی زندگی کا بڑا حصہ سفر میں گزرا

تحریر : ڈاکٹر غافر شہزاد


عظیم صوفی شیخ علی بن عثمان الحجویری ؒ نے جنوبی ایشیاء میں اسلامی تصوف کی روایت کا آغاز کیا ۔آپ ؒ کا پورانام شیخ سید ابولاحسن الہجویریؒ ہے۔ کنیت ابوالحسن ہے لیکن آپؒ زمانے بھر میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے نام سے معروف و مقبول ہیں

 داراشکوہ ’’سفینتہ الاولیاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’ شہر غزنی میں جلاب اور ہجویر دو محلے تھے حضرت کی والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں ،آپؒ کی پیدائش بھی اسی محلہ کی ہے آپؒ کے والد ماجد محلہ جلاب کے سکونتی تھے لیکن بعد میں آپؒ نے ہجویر ہی میں سکونت اختیار کی، اسی وجہ سے آپ ہجویریؒ اور جلابی مشہور ہوئے۔‘‘۔ آپ ؒ 40برس سفر میں رہے ،رب کی خوشنودی کے لئے ہر نماز باجماعت ادا کی۔ اور نماز کی ادائیگی کے لئے ہمیشہ کسی قصبہ میں پڑائو ڈالا،تاکہ دین کی روشنی سے اس گائوں یا قصبے کو منور کر سکیں اسی لئے آپ ؒ کے ہاتھ پر لاتعداد افراد نے اسلام قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؒکی تعلیمات برصغیر کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں۔

 آپؒ کا تمام خاندان زہد و تقویٰ کے لیے مشہور تھا۔ڈاکٹر محمد شفیع نے لکھا ہے :’’زبیری صاحب کمشنر بہاولپور نے 26 اکتوبر 1959 ء کو مجھے بتایا کہ یہ قبریں اب بھی موجود ہیں وہ غزنی گئے تھے اور انہوں نے ان قبروں کو موجود پایا۔‘‘آپؒ سید الطائف جنید بغدادی کے پیرو ہیں۔

آپ ؒکا لاہور میں قیام 34 سال تک رہا۔ اس کے ساتھ اگر تیس سال ان کی غزنوی زندگی کے شامل کر لیے جائیں (جو ممکن ہے زیادہ ہوں) تو آپؒ کی کل عمر چونسٹھ سال بنتی ہے اس حساب سے ان کی پیدائش کا فخر 400 ھ یا 401 ھ کو ہونا چاہیے۔‘‘

مختلف کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے محمد دین فوق لکھتے ہیں: ’’کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ وفات 465 ھ ہے۔ آپؒ کی لاہور آمد 431 ھ میں ہوئی؟‘‘۔آپ ؒ کے والد بزرگوارکا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویری ہے۔جلاب بھی غزنی سے متصل ایک بستی کا نام ہے ۔ 

ڈاکٹر مولوی محمد شفیع آپؒ کی ولادت کے مسئلے کو حل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :’’اندازے سے کہا جاتا ہے کہ ان کی ولادت پانچویں صدی ہجری کے شروع میں ہوئی ہو گی۔‘‘ڈاکٹر نکلسن نے بھی خاصی تحقیق کے بعد سنہ پیدائش کے بارے میں اندازہ ہی لگایا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ان کی پیدائش دسویں صدی کے آخری عشرے یا گیارہویں صدی کے ابتدائی عشرے میں متعین کی جا سکتی ہے جب محمود غزنوی کی وفات 421 ھ میں ہوئی تو حضرت ہجویریؒ عنفوان شباب کے دور میں رہے ہوں گے۔‘‘

سید علی ہجویریؒ کشف اللمحجوب کی تصنیف کا سبب بتاتے ہیں کہ ان کے ایک رفیق ابوسعید ہجویریؒ نے عرض کی کہ : ’’مجھ سے طریق تصوف کی حقیقت اور مقامات صوفیہ کی کیفیت اور ان کے مذاہب اور مقالات کا حال بیان فرمایئے اور مجھ پر ان کے رموز و اشارات اور خدائے عزوجل کی محبت کی نوعیت اور دلوں میں اس کے ظاہر ہونے کی کیفیت اور اس کی ماہیت کے ادراک سے قبل کے حجاب اور اس کی حقیقت سے نفس کی نفرت اور اس کی برگزیدگی و پاکیزگی سے روح کی تسکین اور دوسر ے متعلقہ تصور کا اظہار فرمائیے۔‘‘

حضرت نے ساری کتاب اسی سوال کے جواب میں تحریر فرمائی اور اس میں تصوف کی اصل تاریخ، مختلف اکابر صوفیہ کے حالات ، سلوک و طریقت کے مصطلحات ، تصوف کے عملی مسائل ا ور راہ سلوک میں حجابات کی تشریح کی ہے۔کشف اللمحجوب کے مطالعہ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اس کا مصنف علوم ظاہری و باطنی میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔ داراشکوہ کے بقول ، ’’اس کتاب کی شہرت و عظمت میں کسی کو کلام نہیں یہ ایک مرشد کامل کی حیثیت رکھتی ہے اور فارسی میں تصوف کے موضوع پر اس پائے کی کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔‘‘

حضرت داتا گنج بخشؒ نے لاہورمیں تشریف لا کر سب سے پہلے اپنی گرہ سے ایک مسجد تعمیر کرائی۔ شہزادہ داراشکوہ سفینتہ الاولیاء میں لکھتا ہے: ’’جب حضرت نے یہ مسجد بنائی تو اور مسجدوں کی نسبت اس کے قبلہ کا رخ ذرا سا جنوبی سمت میں تھا، علماء لاہور نے اس پر اعتراض کیا۔ حضرت اعتراض سن کر خاموش ہو رہے۔ جب تعمیر مسجد سے فراغت پائی تو آپؒ نے کل علماء و فضلاء کو بلایا اور خود امام بن کر نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد تمام حضرات سے فرمایا کہ تم لوگ اس مسجد کے قبلہ پر اعتراض کرتے تھے ا ب دیکھو قبلہ کس طرف ہے؟ جب انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو یکبارگی قبلہ بالمشافہ بچشم ظاہر نظر آیا۔ حضرت نے فرمایا بتائو قبلہ کدھر ہے؟ قبلہ کو سیدھے رخ دیکھ کر سب معترضین نادم ہوئے اور آپ ؒسے معذرت چاہی ،یہ پہلی کرامت تھی جو لاہور میں آپ ؒسے ظاہر ہوئی اور جس نے سارے شہر میں آپؒ کو مشہور کر دیا اور رفتہ رفتہ تمام ہندوستان میں حضرت ’’قطب الاقطاب‘‘ مشہور ہو گئے۔‘‘

مزار حضرت علی ہجویریؒ کی تعمیر کے بارے میں تحقیقات چشتی کا مصنف لکھتا ہے کہ آپ ؒکا مزار سلطان محمود غزنوی کے برادر زادہ ظہیر الدولہ سلطان ابراہیم بن سلطان مسعود غزنوی نے تعمیر کرایا۔ چبوترہ اور نواح مزار اسی کا تعمیر کردہ ہے اور اب 1278 ھ میں مسمی نور محمد سادھو نے ایک گنبد بالائے پنجرہ چوبی تعمیر کرایا ہے۔آپؒ کے احاطہ مزار کے اندر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا حجرہ اعتکاف اور شیخ ہندیؒ کی قبر نمایاں ہے۔ حضرت کی زندگی میں لوگوں نے آپؒ کوگنج بخش کہنا شروع کر دیا تھا البتہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے شعر پڑھنے سے اس لفظ کی زیادہ شہرت ہوئی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے حضرت کی پائنتی کی طرف دست بستہ کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا۔

گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا

ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہنما

 تلاش حق کے لئے آپ ؒ کی زندگی کا بڑا حصہ سفرمیں گزرا۔ عراق ، شام ، بغداد ، فارس ،قہستان ، آذر بائیجان، طبرستان ،خوزستان ،کرمان ، طوس، ماورالنہر، ترکستان اور حجاز کا سفر کیا، خراسان میں سینکڑوں مشائخ سے ملاقات کی ، سخت مجاہدے اور ریاضت کی ۔حضرت علی ہجویریؒ جب لاہور تشریف لائے تو شہر قدیم سے باہر راوی کے کنارے قیام فرمایا۔

داتا دربار کمپلیکس کی نوتعمیر شدہ مسجد سے پہلے قدیمی مسجد اسی جگہ آباد تھی جہاں حضرت داتا گنج بخشؒ نے خود مسجد تعمیر کی تھی۔ تعمیر در تعمیر کے سلسلہ کی وجہ سے اگرچہ اس کی شکل پہلے جیسی نہ رہی تھی مگر پھر بھی قدیمی مسجد کو بہت اہمیت حاصل تھی۔داتا دربار سے ملحقہ قدیمی مسجد کے بارے میں تحقیقات چشتی (مطبوعہ1867 )کا مصنف ہمیں درج ذیل معلومات فراہم کرتا ہے۔

 ’’بعد اس کے اسی جگہ جہاں خانقاہ شریف ہے، استقامت اختیار کی اور ایک مسجد بصرف ازخود تیار کرائی چنانچہ اب تک اسی مسجد کی زمین پر مسجد ثانی تیار موجود ہے اور اب 1279 ھ میں ایک شخص گلزار شاہ نامی سادھوں نے معرفت مسمی نور محمد سادھوں کے اس مسجد کو ازسرنواسی بنا پر تعمیر کرا کے بلند کیا‘‘ ۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے آستانے پر تعمیر ہونے والی مسجد کا دوسرا حوالہ محمد دین فوق کی کتاب ’’حضرت داتا گنج بخش‘‘ مطبوعہ 1914 ء میں ملتا ہے محمد دین فوق رقم طراز ہیں:’’یہ پہلی مسجد تھی جو ایک مسلمان ولی اللہ نے اپنے صرف سے اور اپنے ہاتھوں سے لاہور میں تعمیر کرائی اس مسجد کی بنیاد 431 ھ سمجھنی چاہیے کیونکہ آپؒ نے لاہور آتے ہی کچھ دنوں کے قیام کے بعد اس کی ضرورت محسوس کی۔‘‘ 

محمد دین فوق مزید لکھتے ہیں:’’مسجد کی موجودہ چھت چادری ہے۔ محراب پر اب کلمہ طیبہ بھی لکھا ہوا ہے اور سنگ مرمر کا ایک منبر بھی موجود ہے ایک چھت گیر لیمپ آویزاں ہے ایک لالٹین بھی احاطہ مزار میں نصب ہے مسجد کے سامنے وسیع صحن ہے اور اس میں وضو کرنے کے لیے ایک حوض ہے۔ مسجد کی تعمیر جیسا کہ تحقیقات چشتی (مطبوعہ 1867 )میں معلوم ہوتا ہے کہ گلزار سادھو (کشمیری) نے بھی سابقہ جگہ کی بنیاد پر ہی کرائی تھی۔ پہلے اس مسجد کے گنبد وغیرہ نہ تھے صرف چوبی چھت تھی گلزار شاہ نے گنبد بھی بنوا دیئے 1309 ھ میں جھنڈو چوب فروش نے اس کی پھر مرمت کرائی چنانچہ مسجد پر ا سکا نام لکھا ہوا ہے۔‘‘ (صفحہ148 )

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزار پر واقع قدیمی مسجد کے بارے میں اگلے دو حوالے ہمیں نقوش کے لاہور نمبر مطبوعہ 1962 میں ملتے ہیں۔ اولین حوالہ مآثر لاہور کا ہے جو منشی محمد الدین فوق مرحوم کی تالیف تھی اور ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی یہ کتاب محمد الدین فوق نے وفات (1945) سے ایک سال قبل مکمل کی تھی۔ منشی محمد الدین فوق لکھتے ہیں:

’’آپؒ کے مزار پر پہلے گنبد نہیں تھا 1287 ھ میں حاجی نور محمد نام کے ایک بزرگ نے گنبد تعمیر کرایا اور مسجد قدیم کو گلزار شاہ فقیر کی حسن سعی سے دوبارہ مرمت نصیب ہوئی۔ چند سال ہوئے میاں غلام رسول کٹھ والا نے یہاں ایک عالی شان مسجد قریباً ایک لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کرائی۔

’’اب ہمارے عہد کے رئیس میاں غلام رسول کٹھ والا نے 1340 ھ (1921 ء) میں اس کی توسیع کرکے ازسرنو تعمیر کرایا۔ اب یہ مسجد بہت شاندار ہے اس وقت مسجد کے صحن کا رقبہ دو ہزار آٹھ سو سولہ مربع فٹ اور مسجد کے دالان کا رقبہ دو ہزار مربع فٹ ہے۔ صحن کے ایک کونے میں وضو کے لیے حوض بھی ہے۔ اوقاف کمیٹی نے مزار کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد مسجد کی مزید توسیع کا منصوبہ بنایا ۔ان حوالہ جات سے دربار حضرت داتا گنج بخشؒ کی قدیمی مسجد کے بارے میں درج واضح ہوتاہے کہ 1867 ء سے پہلے پرانی بنیاد پر ہی گلزار سادھو (کشمیری) نے مسجد کی تعمیر نو کی۔حاجی نور محمد نام کے بزرگ نے 1287 ھ میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزار پر پہلی مرتبہ گنبد تعمیر کرایا اور اسی دوران گلزار سادھو نے مسجد قدیم کی مرمت کی۔ مسجد کے دروازے پر تحریر علامہ اقبال ؒکے قطعہ تاریخ کے مطابق مسجد کی تعمیر ثانی کا سال (1921 ء) نکلتا ہے ۔یہ تعمیر ثانی یقینا غلام رسول کٹھ والا نے ہی مبلغ ایک لاکھ روپے کی لاگت سے کی ہو گی۔

آپؒ کے ارشادات

٭نفس ایک باغی کتاہے ۔کتے کاچمڑاجب تک دباغت اوررنگ نہ کیاجائے ،پاک نہیں ہوتا۔

٭فقرکی معرفت (تعلیم اورپہچان)کیلئے سیر دنیا سے بہترکوئی ذریعہ نہیں۔

٭دنیاکے ساتھی (ہاتھ ، پائوں ، آنکھیں ) جو بظاہردوست نظرآتے ہیں دراصل تیرے دشمن ہیں 

٭دس چیزیں دس چیزوں کوکھاجاتی ہیں۔توبہ گناہ کو،جھوٹ رزق کو،غیبت نیک اعمال کو،غم عمر کو ،صدقہ بلائوں کو،غصہ عقل کو،پشیمانی سخاوت کویعنی دے کربعدمیں پچھتانا،تکبرعلم کو،نیکی بدی کو،عدل ظلم کو

٭نفس کی مخالفت سب عبادتوں کااصل اورسب مجاہدوں کاکمال ہے ۔

٭علم سے بے پروائی اختیارکرنامحض کفرہے۔

٭بھیدکوکھول اورنمازکونہ بھول۔

٭فقیرکوچاہیے کہ بادشاہوں کی ملاقات کوسانپ اوراژدھے کی ملاقات کے برابرسمجھے خصوصاًجب ملاقات اپنے نفس کیلئے ہو۔

٭دین وشریعت کے پابندلوگوں کوخواہ وہ نادار و غریب کیوں نہ ہوں ،بہ چشم حقارت نہ دیکھ کیونکہ اس سے خداکی حقارت لازم آتی ہے ۔

٭پیغمبرؑکی بزرگی اوررتبہ کی بلندی صرف معجزہ ہی سے نہیں بلکہ عصمت کی صفائی سے ہے ۔

٭اولیاء خداکے رحم اورغضب کااظہارکاذریعہ اوراحادیث نبویؐ کی تجدیدکاباعث ہیں ۔ان سے پوری طرح فیض یاب ہو۔

٭مال کی محبت کوعذاب سمجھ کرفاقہ کشوں( اور مستحقوں)پرلٹاتے رہواوریہ سب کچھ اس دن سے پہلے کرجب قبرمیں تجھے کیڑے کھا جائیں ۔

الٰہی !علی ہجویری کوپہلے حمدوشکرکی توفیق عطا فرما اور پھر فقرکی دولت عطافرما۔

 ٭عارف عالم بھی ہوتاہے مگرضروری نہیں کہ عالم بھی عارف ہو۔

٭بندے کیلئے سب چیزوں سے زیادہ مشکل خدا کی پہچان ہے۔

٭بوڑھوں کوچاہیے کہ وہ جوانوں کاپاس خاطر کریں کیونکہ ان کے گناہ بہت کم ہیں اورجوانوں کوچاہیے کہ بوڑھوں کااحترام کریں کیونکہ وہ ان سے زیادہ عابداورزیادہ تجربہ کارہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔