آمد رسول ﷺ مرحبا , خاتم النبیین ﷺ , عبادات اور اخلاق حسنہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے کبھی کسی شخص کے کوئی چیز مانگنے پر انکار نہیں فرمایا۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورﷺ سے ایک شخص نے حاضری کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلہ کا کیسا برا آدمی ہے۔ یہ ارشاد فرمانے کے بعد اس کو حاضری کی اجازت مرحمت فرمادی ۔ اس کے ساتھ نہایت نرمی سے باتیں کیں جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ حضور اقدس ﷺنے اس کے بارے میں حاضر ہونے سے پہلے تو یہ لفظ ارشاد فرمایا تھا، پھر اس قدر نرمی سے اس کے ساتھ کلام فرمایا یہ کیا بات ہے۔ حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ عائشہ!بدترین لوگوں میں سے ہے وہ شخص کہ لوگ اس کی بدکلامی کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیں‘‘۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اول تو تمام لوگوں سے زیادہ ہر وقت ہی سخی تھے ۔ کوئی بھی حضوراقدس ﷺ کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا کہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطاؤں میں بادشاہوں کو شرمندہ کرتے تھے۔ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور سخت ضرورت کے درجہ میں پہنی۔ جب ہی ایک شخص نے مانگ لی اور اس کو مرحمت فرما دی۔ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنا اور قرض خواہ کے سخت تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آگیا اور ادائے قرض کے بعد بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ ہو جائے گھر نہ جانا ایسے مشہور واقعات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ ہو ہی نہیں سکتا۔بالخصوص رمضان المبارک میں تمام مہینہ اخیر تک بہت ہی فیاض رہتے ۔ خود حضور اقدس ﷺ کی گیارہ مہینے کی فیاضی بھی اس مہینے کی فیاضی کے برابر نہ ہوتی تھی۔اور اس مہینہ میں بھی جس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لا کر آپ ﷺ کو کلام اللہ شریف سناتے اس وقت آپ ﷺ بھلائی اور نفع پہنچانے میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔
’’ ایک جماعت زید بن ثابت کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ حضور اقدس ﷺ کے کچھ حالات سنائیں ۔انہوں نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ کے کیا حالات سناؤں (وہ احاطہ بیان سے باہر ہیں)۔میں آپ ﷺکا ہمسایہ تھا (اس لئے تو یا ہر وقت حاضر باش تھا اور اکثر حالات سے واقف اس کے ساتھ ہی کاتب وحی بھی تھا)جب حضور اقدس ﷺ دوسرے دن کے لئے کسی چیز کو ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔ حضور اقدس ﷺ ہم لوگوں کے ساتھ غایت درجہ دلداری اور بے تکلفی فرماتے تھے جس قسم کا تذکرہ ہم کرتے تھے ، جب ہم لوگ کچھ دنیاوی ذکر کرتے تو حضور اقدس ﷺ بھی اس قسم کا تذکرہ فرماتے (یہ نہیں کہ بس آخرت ہی کا ذکر ہمارے ساتھ کرتے ہوں اور دنیا کی بات سننا بھی گوارا نہ کریں)اور جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو حضور اقدس ﷺ بھی آخرت کے تذکرے فرماتے، یعنی جب آخرت کا کوئی تذکرہ شروع ہو جاتا تو اسی کے حالات اور تفصیلات حضور اقدس ﷺ بیان فرماتے اور جب کچھ کھانے پینے کا ذکر ہوتا تو آپ ﷺبھی ویسا ہی تذکرہ فرماتے۔ (کھانے کے آداب، فوائد، لذیذ کھانوں کا ذکر، مضر کھانوں کا تذکرہ وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ گذشتہ ابواب میں بہت سے ارشادات حضور اقدس ﷺکے اس نوع کے گزر چکے ہیں کہ’’ سرکہ کیا ہی اچھا سالن ہے، زیتون کا تیل استعمال کیا کرو کہ مبارک درخت سے ہے وغیرہ) یہ سب کچھ آپ ﷺ ہی کے حالات کا تذکرہ کر رہا ہوں ‘‘۔
’’حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قوم کے بدترین شخص کی طرف سے بھی حضور اقدس ﷺ تالیف قلوب کے خیال سے اپنی توجہ اور اپنی خصوصی گفتگو مبذول فرماتے تھے، (جس کی وجہ سے اس کو اپنی خصوصیت کا خیال ہو جاتا تھا)چنانچہ خود میری طرف بھی حضور اقدس ﷺ کی توجہات عالیہ اور کلام کا رخ بہت زیادہ رہتا تھا، حتیٰ کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ میں قوم کا بہترین شخص ہوں اسی وجہ سے آپ ﷺسب سے زیادہ توجہ فرماتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس برس حضور اقدس ﷺکی خدمت کی ، کسی ایک بات پر بھی حضور اقدس ﷺنے برا نہیں منایا ۔نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں کیا اور اسی طرح نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔ حضور اقدس ﷺ اخلاق میں تمام دنیا سے بہتر تھے (ایسے خلقت کے اعتبار سے بھی حتیٰ کہ) میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا یا خالص ریشم یا کوئی اور نرم چیز ایسی چھوئی جو حضور اقدس ﷺ کی بابرکت ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور میں نے کبھی کسی قسم کا مشک یا کوئی عطر حضور اقدس ﷺ کے پسینہ کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار نہیں سونگھا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺکے پاس ایک شخص بیٹھا تھا جس پر زرد رنگ کا کپڑا تھا۔ آپﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ ناگوار بات کو منہ در منہ منع نہ فرماتے تھے اس لئے سکوت فرمایا اور جب وہ شخص چلا گیا تو حاضرین سے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس کو زرد کپڑے سے منع کر دیتے تو اچھا ہوتا۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ بازاروں میں خلاف وقارباتیں نہیں فرماتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ معاف فرما دیتے تھے اور اس کا تذکرہ بھی نہ فرماتے تھے‘‘۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ نہ کبھی کسی خادم کو نہ کسی عورت کو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضور اقدس ﷺنے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی ظلم کا بدلہ لیا ہو۔ البتہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کا مرتکب ہوتا (یعنی مثلاً کسی حرام فعل کا کوئی مرتکب ہوتا۔ شراح حدیث نے لکھا ہے کہ اسی میں آدمیوں کے حقوق بھی داخل ہیں تو حضور اقدس ﷺسے زیادہ ناراض ہونے والا کوئی شخص نہیں ہوتا تھا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ دوسرے دن کیلئے کسی چیز کو ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔
"حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے حضور اقدس ﷺ سے کچھ سوال کیا، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے۔ تم میرے نام سے خرید لو ،میں ادا کر دوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کے پاس جو کچھ تھا ، دے چکے ہیں ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺجس قدر جی چاہے ،خرچ کیجئے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے۔ حضور اکرم ﷺ کو انصاری کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور آپﷺ نے تبسم فرمایا جس کا اثر چہرہ انور پر ظاہر ہوتا تھا اور آپ ﷺنے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ نے مجھے اس کا حکم فرمایا ہے‘‘۔ربیعؓ کہتی ہیں کہ میں ایک طباق کھجوروں کا اور کچھ چھوٹی چھوٹی پتلی پتلی ککڑیاں لے کر حاضر خدمت ہوئی تو آپؐ نے اپنا دستِ مبارک بھر کر زیور مرحمت فرمایا۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے (میرے چھوٹے بھائی) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم ﷺ کا اپنے اہل مجلس کے ساتھ کا طرز پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ ہمیشہ خندہ پیشانی اور خوش خلقی کے ساتھ متصف رہتے تھے (یعنی چہرہ انور پر تبسم اور بشاشت کا اثر نمایاں ہوتا تھا) آپ ﷺ نرم مزاج تھے (یعنی کسی بات میں لوگوں کو آپ ﷺ کی موافقت کی ضرورت ہوتی تھی تو مدد فرماتے تھے ) آپ ﷺنہ سخت گو تھے اور نہ سخت دل تھے۔ نہ آپ ﷺ چلا کر بولتے تھے نہ عیب گیر تھے کہ دوسروں کے عیوب پکڑیں نہ زیادہ مبالغہ سے تعریف کرنے والے نہ زیادہ مذاق کرنے والے نہ بخیل (تین لفظ)اس جگہ نقل کیے گئے تینوں کا ترجمہ لکھ دیا)۔آپ ﷺ ناپسند بات سے اعراض فرماتے تھے۔ یعنی ادھر التفات نہ فرماتے گویا سنی ہی نہیں دوسرے کی کوئی خواہش اگر آپؐ کو پسند نہ آتی تو اس کو مایوس بھی نہ فرماتے تھے اور اس کا وعدہ بھی نہ فرماتے تھے آپؐ نے تین باتوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ فرما رکھا تھا۔ جھگڑے سے اور تکبر سے اور بیکار بات سے اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا، نہ کسی کی مذمت فرماتے تھے، نہ کسی کو عیب لگاتے تھے، نہ کسی کے عیوب تلاش فرماتے تھے۔ آپ ﷺ صرف وہی کلام فرماتے تھے جو باعث اجر وثواب ہو جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو حاضرین مجلس اس طرح گردن جھکا کر بیٹھتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں (کہ ذرا بھی حرکت ان میں ہوتی تھی کہ پرندہ ذرا سی حرکت سے اڑجاتا ہے)۔جب آپ ﷺ چپ ہو جاتے تب وہ حضرات کلام کرتے ۔ آپ ﷺکے سامنے کسی بات میں نزاع نہ کرتے تھے۔ آپ ﷺ سے جب کوئی شخص بات کرتا تو اس کے خاموش ہونے تک سب ساکت رہتے ۔ ہر شخص کی بات (توجہ سے سننے میں) ایسی ہوتی جیسے پہلے شخص کی گفتگو یعنی بے قدری سے کسی کی بات نہیں سنی جاتی تھی، ورنہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مجلس کی ابتداء میں تو توجہ ہوتی ہے پھر کچھ دیر ہونے سے اکتانا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ بے توجہی سی ہو جایا کرتی ہے جس بات سے سب ہنستے اور آپ ﷺ بھی تبسم فرماتے اور جس سے سب لوگ تعجب کرتے تو آپ ﷺ بھی تعجب میں شریک رہتے۔ اجنبی مسافر آدمی کی سخت گفتگو اور بے تمیزی کے سوال پر صبر فرماتے (یعنی گاؤں کے لوگ جا بے جا سوالات کرتے آداب کی رعایت نہ کر کے ہر قسم کے سوالات کرتے۔ حضور اکرم ﷺ ان پر گرفت نہ فرماتے ان پر صبر کرتے) اور اس وجہ سے وہ لوگ ہر قسم کے سوالات کر لیتے تھے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی مجلس اقدس تک مسافروں کو لے کر آیا کرتے تھے (تاکہ ان کے ہر قسم کے سوالات سے خود بھی منتفع ہوں اور ایسی باتیں جن کو ادب کی وجہ سے یہ حضرات خود نہ پوچھ سکتے تھے وہ بھی معلوم ہو جائیں) آپؐ یہ بھی تاکید فرماتے رہتے تھے کہ جب کسی طالب حاجت کو دیکھو تو اس کی امداد کیا کرو ( اگر آپ ؐکی کوئی تعریف کرتا تو آپ ﷺ اس کو گوارا نہ فرماتے البتہ) بطور شکریہ اور ادائے احسان کے کوئی آپﷺ کی تعریف کرتا تو آپ ﷺ سکوت فرماتے۔ یعنی حد سے تجاوز کرتا تو روک دیتے۔ کسی کی گفتگو قطع نہ فرماتے تھے کہ دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی شروع نہ فرمائیں ۔ البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز کرتا تو اسے روک دیتے تھے یا مجلس سے تشریف لے جاتے تاکہ وہ خود رک جائے ۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ اس درجہ نوافل پڑھا کرتے تھے کہ پاؤں پر ورم ہو جاتا تھا ۔کسی نے عرض کیا کہ آپ ﷺ پر اگلے پچھلے سب گناہوں کی معافی کی بشارت نازل ہو چکی ہے پھر آپ ﷺ اس درجہ مشقت برداشت فرماتے ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اس قدر لمبی نفلیں پڑھتے تھے کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک ورم کر گئے تھے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ سے ایک صحابی ؓنے عرض کیا کہ حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ ﷺ کو جنتی کہا ہے ۔ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا (کہ جب حق تعالیٰ جل شانہ نے مجھ پر اتنا انعام فرمایا)تو کیا میں اس کا شکر ادا نہ کروں ؟۔
حضرت اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اقدس ﷺ کی رات کی نماز یعنی تہجد اور وتر کے متعلق استفسار کیا کہ حضور اقدس ﷺ کا کیا معمول تھا ؟ تو آپؓ نے کہا کہ حضور اقدس ﷺ (عشاء کی نماز کے بعد) شب کے نصف اول میں استراحت فرماتے تھے اس کے بعد تہجد پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ اخیر شب ہو جاتی تب وتر پڑھتے۔ اس کے بعد اپنے بستر پر تشریف لے جاتے۔
حضور اقدسﷺایک دن تقریباً نصف رات ہونے پر یا اس سے کچھ پہلے بیدار ہوئے اور اپنے چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر نیند کے آثار کو دور فرمانے لگے اور پھر سورۃ آل عمران کے اخیر رکوع ان فی خلق السموات و الارض کو تلاوت فرمایا اس کے بعد مشکیزہ کی طرف جو پانی سے بھرا ہوا لٹک رہا تھا ، تشریف لے گئے اور اس سے وضو کیا اور نماز تہجد کی نیت باندھ لی۔